تازہ تر ین

اورنج ٹرین بن سکتی ہے ڈیم کیوں نہیں : چیف جسٹس

اسلام آباد(صباح نیوز‘این این آئی) چیف جسٹس نے راولپنڈی میں دو ڈیمز کی عدم تعمیر کا نوٹس لے لیاچیف جسٹس نے یہ از خود نوٹس ایک کیس کی سماعت کے دوران لیا ہے چیف جسٹس ثاقب نثار کاکہنا تھا کہ راولپنڈی میں کون سے ڈیم تھے جو نہیں بنے، اعتزازاحسن نے کہاکہ ڈڈوچہ ڈیم کے لیے پنجاب حکومت نے زمین مختص کی تھی، لیکن بحریہ ٹاو ن نے منتخب جگہ سے تین میل دور ایک اور جگہ کی نشاندھی کی اور ڈیم تعمیر کرنے کی بھی پیشکش کی ہے کیونکہ پنجاب حکومت کے پاس ڈیم بنانے کے لیے پیسے نہیں ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ اورنج لائن کے لیے پیسے تھے تو ڈیمز کے لیے نہیں تھے، ملتان میں میٹرو کے لیے پیسے تھے تو پانی کے لیے نہیں ، لوگوں کو اچھی سفری سہولیات ملنی چاہیں ،یہ بات ترجیحات کی ہے، منصوبوں پر تنقید نہیں کر رہے، اعتزازاحسن نے کہاکہ سپریم کورٹ نظر ثانی درخواست سماعت کے لیے مقرر کرے، چیف جسٹس نے کہاکہ پانی ہماری زندگی ہے، اورنج لائن ٹرین اور میٹرو بس نہیں، اس دوران چیف جسٹس نے پپین ڈیم کی عدم تعمیر کا بھی نوٹس لے لیا۔اورڈڈوچہ ڈیم اور پپین ڈیم کی تعمیر سے متعلق پنجاب حکومت کو نوٹس جاری کرتے کہاکہ اس معاملہ کی سماعت سماعت جمعرات کو کریں گے، اعتزازاحسن کا کہنا تھا کہ راول ڈیم سے بڑا ڈیم بحریہ ٹاون بنا کر دیگا۔ ایک سال میں ڈیم تعمیر کر دیں گے لیکن ڈیم سے حاصل آمدن بحریہ ٹاون کو ملنی چاہیے۔ بہتر ہو گا عدالت لارجر بینچ تشکیل دے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ڈیم نہ بنے تو جڑواں شہروں کو پانی نہیں ملے گا۔ اس دوران اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہاکہ چراہ گاوں میں بھی ڈیم بن سکتا ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ جہاں جہاں ڈیم بن سکتا ہے جمعرات کو تمام تفصیلات سے آگاہ کریںپنجاب حکومت کو معاملے پر وضاحت دینا ہو گی۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اسلام آباد کے فارم ہاو سز سے متعلق کیس کی سماعت کی تو مقامی خاتون نے پیش ہو کر کہاکہ لندن سے آ کر اسلام آباد میں گھر لیا ، سی ڈی اے کی منظوری سے فارم ہاو س پر گھر تعمیر کیا، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ محترمہ سی ڈی اے میں سب چور ہیں، خود جا کر آپ کا گھر دیکھوں گا، خلاف قانون بننے والے گھر بلڈوزر کریں گے، شجاعت عظیم کا گھر بھی جا کر دیکھیں گے، پرویز مشرف کے فارم ہاو س کا بھی جائزہ لوں گا، قانون کی حکمرانی میں کوئی تفریق نہیں ہو گی، بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔ سپریم کورٹ نے دہری شہریت کیس میں سیکریٹری دفاع کو نوٹس جاری کرتے ہوئے (آج) بدھ کو ذاتی حیثیت اورفوج میں دہری شہریت کے حامل افراد سے متعلق جواب بھی طلب کرلیا۔ منگل کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ججز اور سرکاری افسران کی دوہری شہریت سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کئی افسروں نے تاحال اپنی دوہری شہریت چھپائی ہوئی ہے، اور ان شخصیات کے خلاف کارروائی ہوگی۔چیئر مین نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) عثمان مبین نے عدالت میں پیش ہوکر بتایا کی ایک ہزار ایک سو 16 افسر غیر ملکی یا دوہری شہریت رکھتے ہیں جبکہ ایک ہزار 2 سو 49 افسران کی بیگمات غیر ملکی یا دوہری شہریت کی حامل ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا دوہری شہریت رکھنا قانونی طور پر کوئی جرم نہیں انہوں نے کہا کہ دوہری شہریت والے افراد رکنِ پارلیمنٹ نہیں بن سکتے جبکہ سرکاری افسر کے حوالے سے دوہری شہری کا قانون خاموش ہے، تو کیا اس میں ارکان اسمبلی سے تعصب تو نہیں برتا جا رہا؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کئی حساس دفاتر میں بھی دوہری شہریت کے حامل افسر موجود ہیں، کئی ججز بھی دوہری شہریت کے حامل ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگلے مرحلے میں پاک فوج کے حوالے سے بھی تفصیلات لیں گے اور تفصیلات لے کر معاملہ حکومت کو بھجوایا جائے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ کئی سرکاری افسر تو پاکستان کے شہری ہی نہیں ہیں، تاہم اب عدالتی معاون کو فیصلہ کرنا ہے کہ یہ معاملہ عدالت نے دیکھنا ہے یا پھر حکومت کو بھجوایا جائے۔عدالت معاون نے عدالت کو بتایا کہ 19 ممالک کی دوہری شہریت بطور پاکستانی رکھنے کی اجازت ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا دوہری شہریت والوں کو بیرونِ ملک وہی حقوق حاصل ہوتے ہیں جو بطور پاکستانی حاصل ہوتے ہیں جس پر عدالت معاون نے کہا کہ انہیں حقوق کا علم نہیں ہے۔سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا دوہری شہریت والا غیر ملکی ہوگا جس پر عدالتی معاون نے بتایا کہ دوہری شہریت رکھنے والا پاکستانی شہری ہی تصور ہوگا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قومی مفاد کو مد نظر رکھ کر چلنا ہو گا، قانون سازی اور قانون میں بہتری پارلیمنٹ کا کام ہے، قانون اپ ڈیٹ کرنا عدلیہ کا کام نہیں، ہمیں مجبور نہ کیا جائے کہ خود قانون اپ ڈیٹ کریں۔عدالتی معاون نے کہا کہ حساس عہدوں پر تعیناتیوں کے حوالے سے قانون سازی ہونی چاہیے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون میں فی الحال رکن قومی اسمبلی کے لیے دوہری شہریت کی پابندی ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پاک فوج کا سربراہ بھی دوہری شہریت رکھ سکتا ہے جس پر عدالتی معاون نے بتایا کہ دوہری شہریت کے حوالے سے پاک فوج میں پابندی نہیں ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ پاک فوج میں غیر ملکی کی ملازمت پر پابندی ہونی چاہیے، یہ ایک اہم ترین ادارہ ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جب سٹیزن شپ ایکٹ بنا تو ملک ایٹمی طاقت نہیں تھا، اس وقت ایٹمی طاقت ہوتے تو شاید یہ قانون غیرملکی شہریت والوں پر پابندی لگاتا، ماشاءاللہ بعد میں کسی کو ترمیم کی توفیق نہیں ہوئی، قانون سازی پارلیمنٹ نے کرنی ہے، یہ اہم معاملہ اٹھا کر شاید ہم غلط کررہے ہیں، پارلیمنٹ کو یہ کام پہلے ہی کرلینا چاہیے تھا، ایک پاکستانی سفیر غیر ملکی شہری ہیں، حساس عہدے سے ریٹائر ہو کر ایک شخص متحدہ عرب امارات میں اہم عہدے پر فائز ہو گیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے کہاکہ ممکن ہے پاک فوج سے بھی دہری شہریت کے حامل افسران کی تفصیل لیں، یہ تفصیلات سیکرٹری دفاع کے ذریعے لیں گے، ایک طریقہ کار یہ ہے کہ تمام تفصیلات حکومت کو بھجوائیں، مگر ایسا نہ ہو اسمبلی بل منظور کرے اور سینیٹ مسترد کردے ¾ کارگل معرکہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، ممکن ہے دہری شہریت کے حوالے سے کابینہ کو تجاویز بھجوائیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت قرار دے چکی ہے کہ صدر مملکت کا عہدہ بھی سروس آف پاکستان ہے، پاک فوج پر بھی اسی قانون کا اطلاق ہونا چاہیے، کیوں نہ تمام اہم عہدوں کو بھی سروس آف پاکستان قرار دیا جائے۔ عدالتی معاون نے کہا کہ برطانوی وزیر اعظم کہیں نوکری نہیں کر سکتا، پاکستان میں وزیراعظم اور وزرا نوکریاں کرتے ہیں۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے سیکرٹری دفاع کو نوٹس جاری کرتے ہوئے (آج) بدھ کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی ۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain