لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ اکثر اوقات جو محسوس کرتا ہوں عمران خان کو پیغام دے دیتا ہوں کہ میں یہ بالکل دعویٰ نہیں کرتا کہ میرے پیغام پر عمل کر کے انہوں نے وزیراعلیٰ کے پی کے نامزد کر دیا ہے۔ لیکن میں جو کبھی محسوس کرتا ہوں بجائے اس کے کہ ٹیلی فون پر بات کرنے کہ وہ میں میسج کر دیتا ہوں۔ میں تین دن سے یہ کہہ رہا تھا اور کل بھی تفصیل سے بات کی کہ مہربانی کر کے گومگو کی حالت سے باہر نکلیں ایک تو میں صبح مختلف ٹی وی چینلز پر دیکھا اس پر مجھے تسلی ہوئی ہے۔ چینل ۵ پر ضیا شاہد نے آن لائن سابق وزیراعلیٰ کے پی کے سے کہا کہ پرویز خٹک آج آپ کے صوبے میں جہاں آپ 5 سال وزیراعلیٰ رہے اور بہت سی بنیادی کام کئے جس میں پولیس ہے، گڈ گورننس بھی ہے، میں خود وہاں جا کر دیکھتا رہا۔ آپ سے تفصیلاً بریفنگ بھی لیتے رہے میرا پہلا سوال یہ ہو گا کہ وہ کون سا ایسا کام ہے جو آپ کے خیال میں آپ نے جو کام شروع کئے تھے وہ ادھورا پڑا ہے اور آپ کیا مشورہ دیں گے ایک سینئر آزمودہ تجربہ کار سیاستدان کی حیثیت سے نئی قیادت کو، کون سے بڑے بڑے کام جو زیر التوا ہیں جو مکمل ہونے چاہئیں۔ آپ کیا تجویز کریں گے۔ کون سے ایشوز پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
پرویز خٹک نے کہا کہ ہمارا اصل ایجنڈا اصلاحات کرنا تھا کہ ہمارا سسٹم ڈلیور کرنا شروع ہو جائے۔ اس کا اچھا نتیجہ نکلتا ہے یہی وجہ ہے لوگوں نے ہمیں ووٹ دیئے ہیں۔ یہاں امیر لوگوں کے کوئی مسئلے نہیں ہوتے عام آدمی کے مسئلے ایجوکیشن، صحت ہے، پولیس، عدالت میں انصاف ہے، کرپشن ہے میرٹ ہو، اگر سسٹم فول پروف نہ ہو تو وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو طاقتور ہوتےے ہیں۔ ہم نے پوری کوشش کی کہ فول پروف سسٹم بنائیں اور اس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچیں۔ اس لئے ہمارے صوبے کے لوگ گڈ گورننس اس کو کہتے ہیں کہ جس کا حق ہے اس کو ملے۔ میں نے پانچ سال پوری کوشش کی ہر محکمے میں ادارے میں جو بھی میں کام کرتا رہا کوشش تھی کہ لوگوں کی زندگی میں آسانی پیدا ہو جب لوگوں کو آسانی ملتی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت ہمارے لئے کام کر رہی ہے اور یہ ویلفیئر ٹیسٹ ہے۔ ویلفیئر سٹیٹ میں عام آدمی کو تعلیم صحت بے روزگاری اس طرح کی بہت ساری چیزیں ان پر بھی کام کرنا ضروری ہوتا ہے۔ عمران خان کو بھی تجویز دی کہ اللہ ہماری مدد کرے کہ ملک کو ویلفیئر سٹیٹ بنانا ہو گا۔
ضیا شاہد نے کہا آپ یہ فرمایئے جو مقدمہ چل رہا ہے جس میں نیب کے سامنے پیشی کے لئے عمران خان بھی کل گئے تھے۔ آپ تو وزیراعلیٰ تھے آپ کے پاس تو سارا نظام تھا ان پر جو الزام لگا ہوا ہے کہ انہوں نے جو سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کیا ہے میں صرف سمجھنے کے لئے پوچھ رہا ہوں تا کہ ہمارے دیکھنے والوں کو پتہ چل جائے کہ قانون اس میں کیا کہتا ہے کیونکہ عمران خان صاحب کا جواب تو اس سے پہلے آ چکا ہے کہ میں نے اس کی باقاعدہ ادائیگی کی تھی اب اس کے باوجود میں وہ سلسلہ چل رہا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ نہیں جی وہ پے منٹ کم کی تھی آپ ایک ایکسپرٹ اوپنین تو دیں ہمیں کہ تا کہ پتہ چل سکے کہ قانون کیا تھا اس میں کس حد تک اجازت تھی اور ہمارے دوست عمران خان صاحب نے وہ کس طرح، کس حد تک اسے استعمال کیا کہ نیب کو شکایت محسوس ہوئی۔
پرویز خٹک نے کہا کہ پے منٹ والا کوئی سلسلہ نہیں تھا یہ ایسا ہوتا ہے کہ چیف منسٹر کے اختیارات ہوتے ہیں اصل میں اس کے ٹی او آرز کوئی نہیں ہوتے ہم میڈیا کو بلاتے ہیں۔ عمران خان نے ہیلی کاپٹر کبھی ذاتی کام کے لئے استعمال نہیں کیا۔ ہمارے منسٹر صاحب، انہیں ہم مختلف جگہوں پر بلاتے تھے عمران خان کی وجہ سے ہماری پبلسٹی زیادہ ہو جاتی تھی، اگر ہم کروڑوں بھی خرچ کریں تو پبلسٹی نہیں ہوتی جہاں عمران خان کے جانے سے ہوتی تھی۔ سرکاری کام جو کئی ہوئے تھے وہاں وہ جاتے تھے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ خٹک صاحب میرا سوال یہ ہے کہ صبح سے زبردست خبر گردش کر رہی ہے کہ مختلف ٹی وی چینلز پر آ بھی چکی ہے کہ جناب شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز کے حوالے سے اور اس سے پہلے خبر آ چکی ہے کیپٹن (ر) صفدر کے حوالے سے جو نوازشریف کے داماد ہیں ان دونوں کیچوبارہ میں بہت بڑی بڑی تعداد میں زمینیں نکلی ہیں کہ ان کے 200 ایکڑ اور 300 ایکڑ مختلف مقامات پر جنوبی پنجاب میں زمینیں برآمد ہوئی ہیں۔ ظاہر ہے آگے چل کر تحقیق ہو گی ہو سکتا ہے یہ صحیح ہو یہ بھی ہو سکتا ہے یہ شاید خصوصی اختیارات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے استعمال ہوئی تھی۔ آپ نے بھی ایک صوبے میں وزارت اعلیٰ کی ہے۔ کوئی ہمیں ڈر ہی لگتا ہے کہ کہیں ہمارے کسی دوست کا نام نہ نکل آئے کہ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں انہوں نے، ان کے عزیزوں، رشتہ داروں نے، یا جس طرح مولانا فضل الرحمن کے بارے میں آتا تھا کہ بھائیوں نے زمین لے لی اور کوئی رشتہ داروں نے لے لی اور کسی جگہ پر سرکاری زمینیں آپ نے بھی کوئی لوگوں پر ہولا ہاتھ رکھا تھا اور فیض یاب کیا تھا یا آپ مطمئن ہیں آپ نے کوئی ایسا کام نہیں کیا۔
پرویز خٹک نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ حق حلال کی روزی کماتے ہیں۔ میں نے تو سیاست میں آ کر میں نے اپنی جائیداد بیچی ہے۔ ہمیں تو والدین نے یہی بات سکھائی ہے کہ سر کسی کے آگے نہیں جھکانا اور اللہ ہمیں یہ ہمت ہی نہیں دے گا۔ ہماری وہی جائیداد ہے جو باپ دادا کی تھی یا میں نے اپنی کمائی سے بنائی ہے۔ میں نے جب سے سیاست کی صوبے کو کنٹریکٹ نہیں لیا۔ میرا بیٹا اس وقت بھی پنجاب میں کام کر رہا ہے، کشمیر میں کام کرتا رہا ہے میں نے یہاں سے کوئی ٹھیکہ نہیں لیا۔ 36 سال سے کوئی کنٹریکٹ نہیں لیا تا کہ کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ ٓدا نہ کرے میں ایسا کام کروں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اللہ کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میرے دل میں یہ ہے کہ میں نے حرام کھایا تو ہارٹ اٹھیک ہو جائے گا۔
ضیا شاہد نے کہا کہ فضل الرحمن کے بارے میں خبر آئی کہ 13 سال بعد انہوں نے سرکاری کوٹھی نمبر22 جو تھی منسٹرز انکلیو میں وہ بھی چھوڑ دی اور اپنا سامان اٹھا کر لے گئے جو کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے ان کو گاڑی اور کوٹھی ملی ہوئی تھی۔ میرا سوال یہ ہے کہ آپ وفاقی حکومت میں نہیں تھے لیکن جناب پاکستان کے ایک بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ تھے اور آپ کی پارٹی ہی میں تگڑی اپوزیشن تھی۔ کشمیر کے سلسلے میں فضل الرحمن نے وہ کیا کام کیا ہمیں تو کوئی نظر نہیں آیا کشمیر کا اگر کوئی کام کیا جا سکتا ہے تو میں نے تو آپ کے دوست میرے دوست چودھری سرور صاحب پی ٹی آئی میں ہیں اس قسم کی کشی شخصیت جس کا اثرورسوخ ہو مختلف یورپی پارلیمنٹیرین میں، مختلف ملکوں کے کانگریسز میں کوئی ایسا شخص جو صلاحیت رکھتا ہو ہونا چاہئے، مولانا فضل الرحمن کے بزرگ کہتے رہے کہ پاکستان کے قیام کی حمایت میں بھی نہیں تھے۔
پرویز خٹک نے کہا کہ شکر ہے فضل الرحمن سے جان جھوٹ گئی۔ اس کو شکست ہو گئی۔ ہمارے صوبے میں اب اس کو موقع نہیں ملے گا۔ اس کا کریکٹر ہی یہی ہے اقتدار کے مزے لیتا ہے۔ خوشامدی آدمی ہے اللہ نے اس کا بدلہ چکا دیا۔ اس نے کشمیری کمیٹی کے ساتھ ظلم کیا۔
ضیا شاہد نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن اب صدر پاکستان بننا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ بطور صدر زیادہ بہتر خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے باہر متحدہ اپوزیشن کے احتجاج پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بڑے لیڈر چھوٹے موٹے عوامی مظاہروں میں نہیں جاتے، سکیورٹی و پروٹوکول کا مسئلہ ہوتا ہے۔ بلاول کو سکیورٹی کا مسئلہ ہے۔ مولانا فضل الرحمان یا اس قسم کے عوامی سیاستدان ایسے مظاہروں میں جا سکتے ہیں۔ شہباز شریف بھی اتنے عوامی نہیں کہ ایسے مظاہروں میں شرکت کریں۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کے بعد امید ہے آج شام تک پنجاب میں اعلان ہو جائے گا۔ عمران خان نے عندیہ تو دے دیا ہے کہ نوجوان وزیراعلیٰ پنجاب دوں گا۔ 14 اگست سے پہلے تمام معاملات نمٹ جائیں گے، آج کا دن سیاسی لحاظ سے بڑی جنگ و جدل والا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حمزہ شہباز اور کیپٹن (ر) صفدر کی جو زمینیں نکلی ہیں، خبر سے لگتا ہے کہ سرکاری زمین تھی جو الاٹ کرائی گئی ہے۔ صفدر بھی اب اپنے علاقے میں تگڑی شخصیت ہیں۔ کسی جگہ کا جب ریکارڈ ہی جل گیا تو پھر جو طاقتور تھا اس نے اس جگہ پر قبضہ کر لیا۔ بہتی گنگا میں ہر ایک نے ہاتھ دھونے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ زلفی بخاری کے لئے اب مشکل ہو جائے گی کیونکہ عمران خان بااختیار ہوتے ہوئے بھی اپنے دوست کے لئے کچھ نہیں کر سکیں گے اگر کریں گے تو انگلیاں اٹھیں گی۔ زمینوں کے حوالے سے گزشتہ ماہ سے اطلاعات موصول ہو رہی تھیں، کیپٹن (ر) صفدر سمیت اور بہت سارے لوگ ہیں جو زمینوں پر قبضہ کئے ہوئے ہیں۔ نیب کی تحقیقات جاری ہیں، لگتا ہے کہ اور بہت سارے معاملات سامنے آئیں گے۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ حمزہ شہباز کی دوبارہ سے زمینیں نکل آئیں گی۔ مجھے کسی نے بتایا کہ اسلام آباد کے ایک بہت معروف اینکر ہیں ہم پر ان کے رشتے داروں کی یلغار ہے۔ اینکر کا سارا خاندان ہمارے خاندان پر تُل گیا ہے اور پولیس نے ہمارے سارے خاندان کے کان پکڑوائے ہوئے ہیں، میں نے ان سے کہا کہ اس بات کے ثبوت لاﺅ اس کے بغیر یقین نہیں کر سکتے۔ اینکر کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں اگر واقعی ان کے خلاف شکایت ہے تو سامنے آ جائیں گی۔ جب ثبوت سامنے آئیں گے تو مجھے یقین ہے کسی کو اب بچایا نہیں جا سکے گا۔
لیگی رہنما راجہ ظفر الحق نے کہا ہے کہ الیکشن آرگنائزرڈ آپریشن کی طرح ہوئے ہیں۔ میرا بیٹا 5 ہزار سے زائد کی لیڈ سے جیت رہا تھا اس کے بعد سارے پولنگ سٹیشنز ٹیک اوور ہو گئے۔ ایجنٹس کو باہر نکال دیا گیا اور کہا گیا کہ صبح آپ کو رزلٹ بتا دیں گے۔ پہلے سے ایک ماحول بنایا ہوا تھا، انتخابی نتائج بالکل اسی طرح آئے۔ ایسے الیکشن کی کیا ضرورت تھی؟ انہوں نے کہا کہ انتخابی نتائج دیکھ کر ہمارے پہلے سے موجود خدشات درست ثابت ہوئے، جس کی وجہ سے ایم ایم اے، پی پی اور نون لیگ نے ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑنے کے باوجود اتحاد کر لیا۔ پہلے کہا گیا کہ حلف نہیں لیتے پھر کہا کہ کروڑوں روپے خرچ کر کے جیتے ہیں تو اسمبلی میں بھی جائیں گے، پی پی نے کہا کہ اسمبلی میں احتجاج کریں گے پھر فیصلہ ہوا کہ حلف لیں گے اور بعد میں اسمبلی کے اندر اور ملک بھر میں بھی احتجاج کریں گے۔ اس پر بھی اتفاق رائے ہوا کہ سپیکر پی پی کا اور وزیراعظم نون لیگ کا ہو گا۔ اسمبلی کے اندر اور ملک بھر میں اس قدر شدید احتجاج کریں گے کہ بحران کی صورتحال پیدا ہو جائے گی۔ صدر کے بارے کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ بیان چلا تھا کہ پیپلزپارٹی نے کہا ہے کہ گزشتہ روز والے احتجاج میں اس لئے شرکت نہیں کی کیونکہ مشاورت نہیں کی گئی تھی حالانکہ کھلی مشاورت کے بعد خود شیری رحمان نے اعلان کیا تھا۔ ایسے حالات کنفیوژن پیدا کرنے کے لئے کئے جاتے ہیں۔
نمائندہ ملتان میاں غفار نے کہا ہے کہ کیپٹن (ر) صفدر کی راجن پور سے زمین برآمد ہوئی تھی وہاں نوازشریف کی بھی زمین ہے، اب اسی طرح حمزہ شہباز کی چوبارہ میں زمین برآمد ہوئی ہے۔ شریف فیملی وہاں جدید کیپٹل فارم بنانا چاہتی تھی، آسٹریلیا سے بھی ماہرین آئے تھے وہاں ایک موٹر وے جیسی سڑک بننی تھی جو شورکوٹ انٹرچینج سے نکل کر چوبارہ اور آگے لیہ جانا تھی، یہ پراجیکٹ 17 ارب روپے کا تھا پھر یہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ اس کی ابھی تحقیقات جاری ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ زمینیں قابو کرنے کی سٹوری بڑی خوفناک ہے۔ لاہور میں ایک اسسٹنٹ کمشنر کبیر احمد خان ہوتے تھے، جب نوازشریف دوسری دفعہ وزیراعلیٰ بنے تو کبیر خان کو مری میں اسی عہدے پر تعینات کر دیا تھا۔ جہاں کبیر خان نے نوازشریف کے لئے مری کے بہترین پہاڑ خریدے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جب لینڈ ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کیا گیا تھا تو اس وقت لاہور کے ریکارڈ کو آگ لگی تھی، جاتی امراءاس وقت ضلع لاہور کی تحسیل سٹی کا علاقہ تھا اور آگ بھی تحسیل سٹی کے ریکارڈ کو لگی تھی پھر ریکارڈ نہ ہونے پر جاتی امرا کی زمین ہڑپ کر لی گئی تھی۔ بالکل یہی فارمولا چوبارہ اور راجن پور میں استعمال ہوا ہے۔