لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ہر سال ہم یوم آزادی پورے جوش و جذبے سے مناتے ہیں مگر اس مرتبہ ایک نئی اُمید جاگی ہے۔ جن وعدوں سے عمران خان برسر اقتدار آئے ہیں نیا پاکستان بنانے کے وعدے کے ساتھ کہ کرپشن سے پاک سوسائٹی ہو گی اور اس میں رشوت نہیں ہو گی اور بہت سے دوسرے نقائص جو ہر حکومت کا حصہ بن چکے تھے ان کا وعدہ ہے کہ وہ اس سے گریز کریں گے۔ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب بیورو کریٹ تھے۔ بہت سینئر پوزیشنوں پر رہے۔ پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات رہے۔ وفاقی سیکرٹری بھی رہے۔ اور آخری چار سال او ایس ڈی کے طور پر اپنا وقت پورا کیا۔ یہ محمد نوازشریف کے جو کالج کے زمانے میں جب وہ پڑھتے تھے تو یہ ان کے استاد بھی تھے۔ اور بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں۔ قائداعظم اور تحریک پاکستان کے حوالے سے انہوں نے بہت عمدہ کتابیں لکھیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے حوالہ سے بھی بڑی زبردست کتاب لکھی تھی۔ ان کی سبھی کتابیں درسی کتابوں کی حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ ریفرنس اور ریسرچ ان کا موضوع رہا۔ آپ نے بہت سی حکومتوں کو آتے اور جاتے دیکھا۔ اب ایک نئی حکومت آئی ہے اور سابق شاگرد نوازشریف کے متبادل کے طور پر تحریک انصاف اس کے متبادل کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اگر آپ اس وقت وزیراعظم کے پاس بیٹھے ہوتے اور اگر آپ کے اتنے خوشگوار تعلقات ہوتے کہ آپ ان کو مشورہ دیتے تو جتنا کچھ ہمارا بگڑا چکا ہے ڈاکٹر صاحب اس ملک کا نظام کا حکومتوں کا بیورو کریسی کا سرکاری محکموں کا اور جتنا کچھ بگڑ چکا ہے اس کی روشنی میں میرا سوال ہے کہ عمران خان کہاں سے کام شروع کریں۔ آپ کا کیا مشورہ ہو گا کہ کون سا پہلا شعبہ ہے جس کی طرف توجہ دیں۔ آپ شعبہ کون سا تجویز کرتے ہیں اور مشورہ کیا دیتے ہیں۔
معروف ماہر تعلیم، دانشور، محقق ڈاکٹر صفدر محمود نے کہا کہ ہمیں قائداعظم کی تقریروں کو ذہن میں رکھ کر ہی مشورہ دینا ہے ان کا تصور پاکستان کیا تھا اور آج کا پاکستان جو جس کا آپ نقشہ کھینچ رہے ہیں۔
ضیا شاہد نے کہا کہ یہ سوال کرنا ضروری ہے کہ ایک نیا دور شروع ہوا ہے اور اتفاق سے ایک نئی حکومت آئی ہے اور عین اس وقت آئی ہے جبکہ یوم آزادی کا دن ہے اور کل سارے ایم این ایز نے حلف اٹھایا ہے لہٰذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ انتہائی اہم سوال ہے کہ کیا کرنا چاہئے حکومت کو اگر وہ پاکستان کو صحیح معنوں میں قائداعظم کا پاکستان بنانا چاہتی ہے کیونکہ میں نے اپنی کتاب جس کی کاپی آپ کو بھی بھجوائی تھی میں نے اس کتاب کی تعارفی تقریب میں عمران خان کو ہی بلایا تھا اور ان کو مشورہ بھی دیا تھا کہ یہ کتاب جو ہے آپ ایم این اے کے جتنے امیدوار ہیں ان کو کہیں کہ وہ اسے پڑھیں تو لہٰذا میں آپ سے پوچھنا ضروری سمجھتا ہوں یہ رسمی باتیں ہیں آج کی تقریب کے حوالے سے کتنی توپیں چلیں۔ کہاں سے کام شروع کرے نئی حکومت جو دعویٰ کرتی ہے کہ ہم کو قائداعظم کے پاکستان کو دوبارہ زندہ و پائندہ دیکھنا چاہتی ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے کہا کہ میں جب قائداعظم کے پاکستان کی بات کرتا ہوں تو اس میں ان اصولوں کو ان باتوں کو ذہن میں رکھتا ہوں جن کو عمران خان کو بھی اپنا مشعل راہ بنانا ہو گا۔ اور ان اصولوں کو اپنا کر ہی آپ کے ملک میں اور آپ کے معاشرے میں بہتری آ سکتی ہے۔ اگر مجھے آپ کہیں کہ آپ کو اس کا آغاز کہاںسے کرنا چاہتے ہیں جو بات کرنے والا ہوں یہ بظاہر سادہ ہے لیکن اس کا کانسیپٹ، اس کا دائرہ کار بہت وسیع ہے میں چونکہ حکومت میں بھی رہا ہوں۔ کتابوں سے بھی مجھے شغف ہے میں ان باتوں کو ذہن میں رکھ کر عرض کر رہا ہوں کہ عمران خان کے لئے سب سے پہلا اصول جس کو سختی سے اپنانا چاہئے، سختی سے نافذ کرنا چاہئے اور جس کو سختی سے نافذ کرنے کے بعد آپ کی زندگی کے تمام شعبوں میں ایک بہتری آئے گی وہ رول آف لائ، قانون کی حکمرانی،قانون کی بالادستی، اگر آپ آج سے اس اصول کو اپنا لیں آج سے آپ صرف قانون کے مطابق چلیں اور قانون کو زندگی کے ہر شعبے پر اپلائی کریں گے۔ قانون کو سختی سے اس ملک میں نافذ کریں اور میرٹ پر فیصلے کریں اور لوگوں کو انصاف ملے۔ یہ وہ پہلا سٹیپ ہے جو اس کو کرنا چاہئے اور جس کو اپنا کر وہ اس ملک میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔ ہاں دوسری بات مجھے یہ کہنے دیجئے کہ میں نے حکومتیں دیکھنے کے بعد اس بات کا سختی سے قائل ہوں کہ حکومت کو سادگی اختیار کرنی چاہئے۔ حکومت کو قوم کو خزانے کے تقدس کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔ ایک ایک پائی کو خرچ کرتے وقت یہ خیال ہونا چاہئے کہ یہ ایک غریب ملک ہے جتنی سادگی سے وہ جتنا پیسہ بچا سکیں یہ ان کا قوم پر بڑا احسان ہو گا اور ایک بات ذہن میں رکھئے کیونکہ میں نے حکومتیں دیکھی ہیں جب حکومت کا سربراہ سادگی اختیار کرتا ہے تو وہ ایک علامتی سادگی کا پیغام پوری قوم کو جاتا ہے چاروں صوبائی حکومتوں کو جاتا ہے بیورو کریسی کو جاتا ہے اور پھر اس طریقے سے آپ سادگی کے اصول کو اپنا کر صوبوں میں بھی اس اصول کو اپلائی کریں، بیورو کریسی پر بھی اس اصول کو اپلائی کریں۔ ہر طرف اس اصول کو اپلائی کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ آپ نے اربوں روپے بچا لئے جو اس سے پہلے ضائع ہوتے تھے جو اس سے پہلے عیاشیوں پر، شان و شوکت پر صرف ہوتے تھے وہ بچا لیے لیکن اس کے لئے بھی قانون کی حکمرانی ہونا ضروری ہے۔ یہ بھی اسی صورت ممکن ہے جب آپ قانون کی حکمرانی کو لے کر چلیں۔ قانون کی حکمرانی یہ ہے کہ قانون کی نظر میں چھوٹا بڑا، امیر و غریب سب ایک جیسے ہیں۔ لوگوں کو انصاف ملے، میرٹ پر فیصلے ہوں، ایم این ایز و ایم پی ایز جو اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے غلط کام بھی فوراً کروا لیتے تھے جب یہ کلچر ختم ہو گا تو ملک صحیح راہ پر آئے گا۔ ملک چلانے کے لئے سب سے پہلے 3 چیزوں قانون کی حکمرانی، انسانی مساوات اور معاشی عدل کا خیال رکھنا چاہئے۔ معاشی عدل یہ ہے کہ غریب اس قدر غریب نہ ہو جائے کہ بھوکا سونے لگے، پیسہ چند ہاتھوں میں جمع ہونا شروع نہ ہو جائے جب یہ نہیں ہو گا تو اس کا ملک پر بہت اچھا اثر پڑے گا۔ بڑا انقلاب لانا ہے تو اس کے بعد تعلیم کے شعبے پر توجہ دینی چاہئے، سائنس ٹیکنالوجی کو بہتر کریں گے تو دیکھیں مسائل کہاں جاتے ہیں۔ پھر صحت پر توجہ دیں۔ لوگوں کو انصاف نوکری، علاج ملے، بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنی دولت یہاں لائیں، بیرونی سرمایہ کاری کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ”رول آف لائ“ ہے۔ لوگوں کو اعتماد دلائیں کہ یہاں رول آف لاءہے وہ خوشی سے اپنا سرمایہ یہاں لگائیں گے اس سے ملک خوشحال ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہسپتال و تعلیمی ادارے تو صوبے ہی چلائیں گے البتہ تعلیمی نصاب فیڈرل حکومت کے پاس ہونا چاہئے۔ جب میں اقتدار میں تھا تو ایف اے تک کا نصاب میں مغربی ممالک کے برابر لے آیا تھا۔ نصاب صوبوں کو دے کر غلط کیا اس کے بعد جو انتشار پھیلا وہ سب کے سامنے ہے۔ مرکزی حکومت کو نصاب بنانے اور اپ گریڈ کرنے کا اختیار اپنے پاس رکھتے ہوئے ملک بھر میں ایک نصاب نافذ کرنا چاہئے۔
تجزیہ کار حسن نثار نے کہا ہے کہ ملک کو بہتر کرنے کے لئے کوئی ایک نہیں بلکہ عمران خان کو بہت سارے کام اکٹھے شروع کرنے پڑیں گے یہ ٹانگہ چلانے والی نہیں، رتھ چلانے والی بات ہے۔ حضرت عمرؓ سے کسی نے پوچھا کہ بہترین حکومت کیا ہوتی ہے؟ فرمایا ”خوف کے بغیر نرمی اور تشدد کے بغیر جبر“ بس یہی ایک اچھی حکومت کی علامت ہے۔ گورنر ہاﺅسز، سی ایم ہاﺅسز وغیرہ یہ سب چوروں، ڈاکوﺅں کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔ 22 سال پہلے اس کے خلاف آواز اٹھانا شروع کی تھی، خبریں کے پرانے اخبار نکالیں۔ اکانومی سے اخلاقیات تک کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ شریف خاندان نے جو میرٹ اور اداروں کو تباہ کر دیا ان کو ٹھیک کرنا ہے۔ اگر کوئی ایک ہی کام کرنا ہے تو پھر دل میں ”خوف خدا“ ہونا چاہئے۔ پیپلزپارٹی و شریف خاندان نے ملک کو تباہ کیا، پی پی اب ختم ہو گئی چاروں صوبوں کی زنجیر صرف سندھ تک محدود ہے، شریف خاندان کے آنے سے قبل کبھی قبضہ مافیا کا نام نہیں سنا تھا۔
ضیا شاہد نے کہا کہ میرا دوست نوازشریف کی آج خبریں میں آخری قسط چھپی ہے، نوازشریف ایک شخص نہیں 35 برس کا دور ہے۔ سب سے پہلے میرٹ نوازشریف نے ختم کیا، بڑے بڑے ہولڈنگ، ٹی وی اشتہار، زمینیں اپنے لوگوں کو تقسیم کیں۔ سب سے پہلے ایم این ایز کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے پیسہ لگایا پھر بی بی نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی، وزیراعظم اور سی ایم ہاﺅس سے نوکریوں کے لیٹر جاری ہوتے تھے، اتنے سالوں سے کبھی سرکاری نوکری کا اشتہار نہیں دیکھا، نوکریاں ایم این ایز و ایم پی ایز کے پاس ہوتی ہیں۔ فروخت کی جاتی ہیں۔ اپنوں کو نوازا جاتا ہے کوئی میرٹ نہیں ہے۔ حسن نثار نے کہا کہ آپ سے ہی سنا تھا کہ 63 سال کے پٹواری بھرتی ہوئے، تھانیدار تعینات ہوئے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ پولیس میں کریمنل بھرتی کئے ان سب کاموں کو ریورس کرنا ہو گا۔ ضیا شاہد نے کہا کہ چند برس سے یہ عام ہو گیا تھا، نون لیگ کی سربراہی ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آ گئی تھی جس نے سیفما میں تقریر کے دوران کہا کہ ادھر اور ادھر ایک جیسے لوگ ہیں وہ بھی آلو گوشت کھاتے، ادھر بھی وہی کھاتے ہیں جس درمیان میں سرحد آ جاتی ہے، بہت صحافیوں نے اس کے خلاف لکھا میں نے بھی لکھا تھا کہ اگر سب ایک جیسا ہی ہے تو پھر یہ بتائیں کہ قائداعظم نے ہمیں آزادی کیوں دلوائی تھی؟
حسن نثار نے کہا کہ اس لئے آج نوازشریف اپنی صاحبزادی و داماد کے ساتھ جیل میں ہے، اگر یہ عمل ہائی جیک یا بلیک میل نہ ہوا تو ان کے دونوں بیٹے بھی ان کے پاس ہوں گے۔ اڈیالہ جیل جاتی امرا ٹو ہے۔ نوازشریف اَن پڑھ، جاہل آدمی، ملک کے 35 سال کھا گیا اس بے و قوف کو یہ نہیں پتہ تھا کہ ہم آلو گوشت کھاتے ہیں، ادھر صرف آلو کی بھجیا کھاتے ہیں۔ گائے ان کی ماں ہے وہ گوشت نہیں کھاتے۔
ضیا شاہد نے مزید کہا کہ عمران خان اور تحریک انصاف نے خود مخالفین کے پاس جا کر ہاتھ ملانے سے ایسی روایت ڈالی، پہلی بار مجھے لوگوں نے حیرت سے پوچھا کہ کیا عمران خان واقعی زرداری، بلاول، شہباز شریف کے خود پاس گئے تھے اور ہاتھ ملایا تھا؟ عمران خان نے ایسے اخلاقی کلچر کی ابتدا کی ہے۔ جس طرح اس نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں ان کی حکومت نے کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا بالکل اسی طرح وہ مرکز میں آ کر بھی کسی کے خلاف کوئی سیاسی کارروائی عمل میں نہیں لائیں گے۔