ونی پیگ، مینی ٹوبا(ویب ڈیسک)اس وقت خصوصاً افریقا سمیت دنیا کا غالب حصہ ایچ آئی وی ایڈز کے چنگل میں گرفتار ہے تاہم سو سال سے بھی پرانی ایک دوا اسپرین اس مرض کو بھی مو¿ثر انداز میں روک سکتی ہے۔کینیڈا کی یونیورسٹی آف مینیٹوبا کے ماہرین نے کہا ہے کہ کم مقدار میں اسپرین کھانے سے ایچ آئی وی (ایڈز وائرس) کے پھیلاو¿ کو کم کیا جاسکتا ہے۔افریقی خواتین ایچ آئی وی انفیکشن کی زیادہ شکار ہوتی ہیں اور اسی بنا پر ماہرین نے تحقیق کے لیے افریقا کا انتخاب کیا ہے۔ جامعہ مینیٹوبا ، یونیورسٹی آف واٹرلو، کینیڈا میں صحت کی ایجنسی اور کینیا کے دیگر اداروں نے کینیا کی بہت سی خواتین کو اسپرین دی جس کا کیمیائی نام ’ایسٹائل سیلی سائیلِک ایسڈ‘ یا ’اے ایس اے‘ ہے۔یہ تحقیق بین الاقوامی ایڈز سوسائٹی کے جرنل میں شائع ہوئی ہے جس میں اسپرین جیسی عام دوا کے ایچ آئی وی پر اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے جس کے بہت حیرت انگیز مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔وائرس کو پھیلنے کےلیے انسان کے اندر مطلوبہ خلیہ درکار ہوتا ہے۔ اس ضمن میں عام خلیات کے مقابلے میں زیادہ تر سرگرم امنیاتی خلیات (امیون سیلز) ہی ایچ آئی وی کا نوالہ بنتے ہیں۔ ماہرین کے خیال میں خواتین کے تولیدی نظام (ری پروڈکٹیو ٹریکٹ) میں اندرونی سوزش ہی ایچ آئی وی کے پھیلاو¿ کی وجہ بنتی ہے۔تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ اسپرین نے خواتین کے رحم اور تولیدی نظام میں ایچ آئی وی سے متاثر ہونے والے خلیات کی تعداد میں 35 فیصد تک کمی کردی۔ اس کے علاوہ ایچ آئی وی کے خطرے سے دوچار خواتین کئی برس تک انفیکشن سے محفوظ رہیں۔ماہرین نے اس کامیابی کے بعد اسپرین پر مزید تحقیق پر زور دیا ہے۔ ماہرین اب یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اسپرین جیسی سادہ دوا کس طرح خلوی سطح پر انفیکشن کو روک رہی ہے۔ اگر یہ بات اچھی طرح ثابت ہوجاتی ہے تو اسپرین کے ذریعے کم خرچ طریقے پر غریب ممالک کی خواتین میں ایچ آئی وی کے پھیلاو¿ کو روکا جاسکتا ہے تاہم اسے علاج کے بجائے احتیاطی تدبیر ہی کہا جائے گا۔اسپرین اگرچہ درد کش دوا کے طور پر جانی جاتی ہے لیکن اس کا باقاعدہ استعمال دل کو صحت مند رکھتے ہوئے امراضِ قلب سے بھی بچاتا ہے۔ طبّی ماہرین کا کہنا ہے کہ دل کے دورے کی صورت میں اگر فوری طور پر کوئی دوا دستیاب نہ ہو تو اسپرین کے استعمال سے دورے کی شدت میں کمی لائی جاسکتی ہے اور مریض کو اسپتال پہنچنے کا وقت مل سکتا ہے۔