اسلام آباد (این این آئی، آئی این پی) پاکستانیوں کے دبئی میں 150 ارب ڈالر کے خفیہ اثاثوں کا پتہ چل گیا۔سپریم کورٹ میں پاکستانیوں کے بیرون ملک اثاثوں سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صرف دبئی میں 150 ارب ڈالر کے اثاثے ملے ہیں، احتساب شروع ہونے کے ڈر سے پاکستان سے پیسہ باہر لے جایا گیا، ملک کا بہت سا پیسہ حوالہ کے ذریعے باہر گیا، ایمنسٹی اسکیم کے باوجود رقم باہر پڑی ہے۔جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ پاکستان سے باہر ناجائز طور پر رقم لے جانے والوں کیخلاف کارروائی کی جائے، ان پر ٹیکس نہیں بلکہ بھاری جرمانے ہونے چاہئیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ اثاثے رکھنے والوں سے پہلا سوال رقم کی منتقلی کے بارے میں ہوگا اور جائیداد سے متعلق بیان حلفی لیا جائے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھتے ہیں اس معاملے پر وزیر اعظم کی میٹنگ میں کیا ہوتا ہے، پھر جو عدالت کو حکم دینا پڑا دیں گے۔ سپریم کورٹ نے ایف بی آر سے ان 100 افراد کی فہرست طلب کرلی جنہیں خفیہ اثاثوں پر نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ عدالت نے حکم دیا کہ جنہیں نوٹس جاری کیے گئے ان کے نام افشا نہیں ہونے چاہئیں۔ سپریم کورٹ نے بیرون ملک جائیدادوں سے متعلق کیس میں نوٹسز جاری کیے گئے ناموں کی فہرست سربمہر لفافے میں پیش کرنے کا حکم د یتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ نام افشا ہوئے تو ایف بی آر اور رجسٹرار سپریم کورٹ ذمے دار ہوگا،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بیرون رقم کی واپسی کے حوالے سے پیشرفت پر مطمئن نہیں، اپنے اثاثے ظاہر نہ کرنے والوں پرمنی لانڈرنگ کا کیس بنتا ہے۔ پیر کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں بیرون ملک جائیدادوں سے متعلق ازخودنوٹس کیس کی سماعت ہوئی جس سلسلے میں گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ عدالت میں پیش ہوئے۔گورنر اسٹیٹ بینک نے عدالت کو بتایا کہ لندن اتھارٹیز نے 225 لوگوں کی جائیدادوں کی معلومات ایف بی آر کو بھجوائیں جب کہ عدالتی معاون شبر زیدی نے بتایا کہ ایف بی آر نے 300 افراد کو بیرون ملک جائیدادوں پرنوٹس جاری کیے ہیں، زیادہ رقم حوالے کے ذریعے بیرون ملک منتقل ہوئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ بیرون رقم کی واپسی کے حوالے سے پیشرفت پر مطمئن نہیں، ایمنسٹی اسکیم کے باوجود رقم اور جائیدادیں باہر پڑی ہیں۔گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ دبئی اتھارٹی سے کہیں گے جائیدادیں نہ ماننے والوں کے خلاف بے نامی قانون کے تحت کارروائی کریں، جنہوں نے جائیدادیں مان لیں ان سے ذرائع طلب کریں گے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا یہ وہ لوگ ہیں جوپاکستان میں رہتے ہیں اور باہر جائیداد بناتے ہیں؟ جسٹس عمر عطا نے کہا کہ آپ کی کمیٹی کے ٹی او آر سادہ ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو پیسہ چوری کرکے باہر لے گئے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے اس معاملے پر 5 ماہ پہلے از خود نوٹس لیا لیکن پیشرفت سست ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایمنسٹی اسکیم میں 2 فیصد ٹیکس رکھا گیا جو بہت کم تھا، انڈونیشیا نے 17 فیصد ٹیکس رکھا وہاں یہ اسکیم کامیاب ہوئی، رپورٹ کے مطابق ایمنسٹی اسکیم سے لگ بھگ 8 ارب ڈالرکی جائیداد ظاہر کی گئی ہے۔جسٹس ثاقب نثار نے طارق باجوہ سے مکالمہ کیا کہ گورنر اسٹیٹ بینک، تمام لوگ موجودہیں، 100 افراد کے نام دیں باقی کام ہم کرلیں گے، ایف بی آر سے بڑھ کر عدلیہ پاکستان کی اسٹیٹ ہے، اپنے اثاثے ظاہر نہ کرنے والوں پرمنی لانڈرنگ کا کیس بنتا ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جنہوں نےنہ صرف یہاں بلکہ باہر اثاثے چھپائے انہیں سزادی جانی چاہیے۔اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایاکہ عدالتی احکامات پر28 اگست کونوٹی فکیشن جاری ہوا اور ٹاسک فورس بنادی گئی جس میں ایف آئی اے، نیب، ایس ای سی پی اور وزارت خزانہ کے حکام شامل ہیں، حکومت کی نیت ہے قانون بنایا جائے جس سے غیر ممالک میں پڑی دولت واپس لائی جاسکے، حکومت عوام کے مفاد کو عدالت کی نگرانی میں خود دیکھنا چاہتی ہے، ہنڈی اور حوالہ کے امور پر آج وزیراعظم کو بریفنگ دی جارہی ہے اس لیے عدالت کوئی حکم جاری کرنے سے پہلے دیکھ لے۔عدالت نے ہدایت دی کہ جنہیں نوٹسز جاری کیے گئے ان کی فہرست سربمہر لفافے میں پیش کی جائے اور اگر یہ نام افشا ہوئے تو ایف بی آر اور رجسٹرار سپریم کورٹ ذمے دار ہوگا۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 5 ستمبر تک ملتوی کردی۔