لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ جو لوگ خود الیکشن میں کھڑے ہوتے ہیں اور لوگوں سے ووٹ مانگتے ہیں اور ان کو ان ساری موشگافیوں کا علم ہوتا ہے تو پھر ان کے اپنے ووٹر کیوں مسترد ہو جاتے ہیں یہ تو کوئی بات پلے نہیں پڑتی۔ جن لوگوں کے ووٹ مسترد ہو گئے وہ تو اب پتہ نہیں چلے گا کس کے ہوئے ہیں۔ اس پر تحقیق ہونی چاہئے کہ وہ اتنے سادہ لوح کیوں ہو جاتے ہیں تو دھڑا دھڑ ووٹ مسترد کروانے والے کیوں ہو جاتے ہیں۔ 35 سال سے جو لوگ مختلف حلقوں سے الیکشن جیتتے آئے ہیں اور اتنی دفعہ الیکشن لڑ چکے ہیں ان کے بارہ ووٹ مسترد ہو گئے۔ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ جناب اعتزاز احسن کو سندھ کی صوبائی اسمبلی میں سے دھڑا دھڑ ووٹ ملے ہیں اور مسترد بھی نہیں ہوئے۔ عارف علوی ٹھنڈے دل و دماغ کے آدمی، وہ جذباتی آدمی نہیں۔ میں نے ان کو اپنے آپ سے باہر نکل کر بات کرتے نہیں دیکھا اور دوسرا یہ کہ میں نے انہیں کبھی سیاسی مخالفتوں کے باوجود ایک دوسرے کی عزت کرتے ہوئے دیکھا ہے لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ اگرچہ وہ کچھ لوگوں کو ہرا کر ہی آئے ہیں۔ جن کو ہرا کر بھی آئے ہیں وہ بھی ان کے خلاف معاندانہ نقطہ نظر رکھیں۔ وہ اپنے حلقہ احباب میں ایک شریف آدمی شمار ہوتے ہیں۔ اور نہیں دیکھا کہ کبھی ان کی گفتگو میں کبھی جارحانہ پن نہیں دیکھا۔ٹھنڈے مزاج کے آدمی ہیں کبھی آپے سے باہر ہوتے نہیں دیکھا۔ وہ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ عمران خان کی طرف سے پریشر اتنا ہے کہ آپ کو بہرحال کچھ نہ کچھ کام کر کے دکھانا پڑے گا۔ لہٰذا آپ دیکھے گا کہ آئندہ 100 دنوں کی جو اب تک کارکردگی کا جتنا دعویٰ کیا گیا ہے میں تو ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اس کا پچاس فیصد بھی واقعی کام کر لیں تو بھی کافی کام ہو جائے گا۔ خسرو بختیار پہلے بھی وزیر مملکت برائے خارجہ امور تھے۔ اچھی بات ہے نوجوان سمجھے جاتے ہیں اور لوگوں کی ان سے بڑی امیدیں ہیں لیکن معاف کیجئے گا کوئی ان کی شہرت بطور صنعتکار زیادہ اچھی نہیں ہے۔ عمران خان کی طرف سے اور پارٹی کی ہارڈ کور کی طرف سے تو مشکل نظر آتا ہے کہ وہ کام نہ کریں۔ ہر کی پوسٹ پر جو لوگ ہیں ان کو کچھ نہ کچھ کر کے دکھانا پڑے گا۔ جب لیڈر شپ کا ایک پریشر ااتا ہے تو کہ انہوں نے وزیراعظم نہیں لینا۔ سادگی کفایت شعاری اختیار کرنی ہے، گاڑیاں بیچ دینی ہیں، بڑی بڑی عمارتوں میں یونیورسٹیاں بنا دینی ہیں جتنی باتیں اب تک کہی گئی ہیں اگر ان میں سے 50 فیصد باتوں پر بھی عمل ہو جائے تو آپ دیکھتے ہیں۔ دیکھیں دریشک صاحب کا اپنا ایک سٹائل ہے حکومتوں میں۔ ان کو جب بھی کوئی حکومت ملتی ہے وہ ایک بہت آٹوگریٹی سی کی سی حکومت چلاتے ہیں، یعنی سب عہدے سب اختیار اپنے بات اب بھی یہ سمجھتا ہوں کہ خیبرپختونخوا کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں یہی ٹرینڈ ہے جو وفاقی حکومت ہے چونکہ عمران خان صاحب کے پاس ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ جو گنتی کی چند ایک مثالیں ہیں کہ جیسے نصراللہ دریشک ہے جیسے لوگوں کو بدلنا ہو گا اپنے آپ کو کیونکہ یہ لوگ چل نہیں سکیں گے۔ ہماری عارف علوی صاحب سے سینکڑوں مرتبہ بات ہوئی ہو گی۔ اب وہ پاکستان کے صدر ہیں یقینی طور پر ان کے پاس بہت سارے اختیارات بھی ہیں پروٹوکول بھی ہے۔ وہ اگر خاص طور پر اپنے شہر کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں اپنے شہر کے لئے، اپنے صوبے کے لئے تو کسی نے ان کا ہاتھ بھی نہیں پکڑا ہوا۔ آپ سمجھتے ہیں کہ کیا وہ پچھلے ادوار کے ڈمی صدر کی طرح چلیں گے یا آپ سمجھ رہے ہیں کہ کسی حد تک کچھ نہ کچھ اپنی ذاتی کارکردگی بھی دکھائیں گے۔ وہ جو ایک مخالف سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اس حکومت کو زیادہ اللے تللے نہیں کرنے دیں گے۔ کیا کہتے ہیں آپ۔
میاں طارق نے کہا کہ ڈاکٹر عارف علوی صاحب ایک سیزنڈ سیاستدان ہیں جنہوں نے جب سے پی ٹی آئی بنی ہے اس وقت سے تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ یہ اچھے برے وقت میں وہ عمران خان کے ساتھ شانہ بشانہ کھرے رہے ہیں۔ وہ ایک ملنسار خوش اخلاق، دوستوں کے دوست شخصیت ہیں اور ہمارا ان کے ساتھ گہرا تعلق رہا ہے۔ وہ کس طرح کے صدر ہوں گے۔ عارف علوی کی مرکز، کے پی کے بلوچستان میں حکومت ہے پنجاب میں حکومت ہے تو اس اعتبار سے وہ ایک بااختیار صدر ہوں گے میرے خیال میں ملک کے لئے، کراچی کے لئے، سندھ کے لئے وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ میری ان سے صدارتی الیکشن سے کچھ دن پہلے بھی ان سے بات ہوئی تھی اس میں انہوں نے کہا کہ اگر اللہ نے کامیاب کیا اور موقع ملا تو ہر صورت میں شہر قائد کو ماضی کا شہر قائد جو عروس البلاد تھا وہ بنانے کی کوشش کروں گا۔ ان کے اپنے مقاصد اور سوچ ہے وہ یہ ہے کہ میں شہر کی بلاتخصیص ہر فرد کی خدمت کریں۔ جس طرح انہوں نے ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد بھی کہا کہ میں صرف پی ٹی آئی کا صدر نہیں ہوں گا پاکستان کے ہر فرد کا صدر ہوں گا۔ اس حوالہ سے یہ خوش آئند چیز ہے کہ وہ ایک بااختیار صدر بنیں گے۔ پی ٹی آئی کی صرف سندھ میں حکومت نہیں لیکن اب پیپلزپارٹی بھی اب ماضی کی طرح نہ کر سکے۔ پیپلزپارٹی کے لئے اب تھوڑی سی مشکلات پیدا ہوں۔ بابر اعوان پر الزام تو لگا تھا اور یہ ایک اچھا فیصلہ ہے صحت مندانہ اقدام ہے کہ چونکہ ان پر الزام عائد کیا گیا تھا لہٰذا انہوں نے ازخود استعفیٰ دے دیا، میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت صحت مندانہ رجحان ہے۔ اعتزاز احسن آپ نے بھرپور مقابلہ کیا البتہ اب یہ یقین نہیں آ رہا کہ دو باتوں کا ایک تو یہ یقین نہیں آ رہا اتنی دیر سے بار بار الیکشن لڑنے والے اسحاب اتنی زیادہ غلطیاں کرتے ہیں کہ 12 ووٹ متحدہ اپوزیشن کے ضائع چلے گئے کہ ان کو یہ بھی نہیں پتہ لگا کہ یہاں نشان لگانا تھا یا یہاں دستخط کرنے ہیں۔ بڑی عجیب سی بات نظر آتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ میں تو اپنے طور پر سمجھتا تھا کہ دوسرے نمبر پر یقینا آپ کی پوزیشن آئے گی اور اگرچہ دو امیدوار کھرے ہونے کی وجہ سے یقینی نظر آتا تھا کہ عارف علوی صاحب جیت جائیں گے لیکن جو رزلٹ آئے ہیں اس میں بڑی حیرت انگیز بات ہے کہ وہ پارٹی جو پچھلے 35 سال سے حکومتوں میں آتی رہی ہے۔ وہی جو ہے اتنی غلطیاں کرتی ہے کہ 12 ووٹ ہی مسترد ہو گئے تھے۔ کیا ووٹ ڈالنا اتنا مشکل کام ہوتا ہے کہ دھڑا دھڑ لوگوں کے ووٹ پر ووٹ مسترد کر دیئے گئے۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ ووٹ مسترد ہوئے ہیں یا انہوں نے خراب کئے ہیں۔ پراسستو بڑا سمپل سا تھا اس میں کوئی بظاہر تو گنجائش نہیں تھی کہ ووٹ مسترد ہوں اور دیکھنا پڑے گا کہ یہ مسترد ہوئے ہیں یا احتجاج ہوا ہے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ احتجاج کس بنیاد پر۔ یہ تو آپ نے ایک مسئلہ کھڑا کر دیا کہ آپ کے خیال میں اس طرح کی حرکت سے امیدوار جو تھے اور جو خود ووٹر جو تھے انہوں نے کسی طرح سے اپنا احتجاج نوٹ کروایا ہے تو کس بات پراحتجاج تھا۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ میری جو اطلاع تھی۔ پہلے دن ہم بات کر رہے تھے مولانا سے کہ مولانا کو مسلم لیگ ن کے بہت سے لوگ ووٹ نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ اور ان میں سے باارہ تو پہلے آپ کہہ رہے ہیں خراب ہوئے۔ میری ووٹوں میں گیارہ کا اضافہ ہوا ہے اور وہ ہمارے خیال میں انہیں احتجاجی مسلم لیگ نواز کے ووٹوں میں سے ملے ہیں۔ جو مولانا کو ووٹ ڈالنے کو تیار نہیں تھے اور اس کی وجوہات بہت سی تھیں مولانا کے متعلق ان کے اعتراض غلط بنیادوں پر تھے یا صحیح بنیادوں پر تھے وہ ایک علیحدہ ایشو ہے ہماری یہ اطلاع ہے ہمیں لوگ فون کر کے کہہ رہے ہیں کہ ان کو ووٹ نہیں دیں گے کچھ ان کے بیانات، کچھ ان کی سیاست سے ان کو اختلاف تھا۔ اگر وہ مولانا واحد ہوتے تو ان کے ووٹ کم ہو جانے تھے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ میرے بھی خیالات وہی ہیں۔ میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ مذہبی طور پر ایک خاص نکتہ نظر کے بندے کو پاکستان کا صدر منتخب کرنا بظاہر درست نہیں تھا۔ مولانا فضل الرحمن دیوبندی سکول آف تھاٹ کے بندے ہیں۔ اچھا ہوا کامیاب نہیں ہوئے۔ اگر یہ کامیاب ہو جاتے تو ملک میں فرقہ پسندی کھل کر سامنے آ جاتی۔ مولانا فضل الرحمان اور ان کے بزرگوں نے ہمیشہ نون لیگ کا ساتھ دیا ہے، بڑی مدت سے اب پیپلزپارٹی کے ساتھ بھی تھے پتہ نہیں کیوں انہوں نے مولانا کی حمایت نہیں کی۔ آصف زرداری نے جس طرح نون لیگ کے خلاف اپنا امیدوار کھڑا کر دیا، یہ ان کا حکومت کی حمایت کرنے کا ایک سٹائل ہے۔ ابھی ان کا حکومت سے ٹکرانے کا کوئی پروگرام نہیں، وہ درمیانی راستہ نکالنا چاہتے ہیں۔ پی پی نے غیر معمولی حد تک جا کر نواز حکومت کی حمایت کی تھی اب بھی وہ وفاقی حکومت کے خلاف نہیں جانا چاہتے۔ اگر وہ وفاق پر تنقیدی نشتر برسائیں گے تو انہیں صوبے میں حکومت چلانا مشکل ہو جائے گا۔ ماضی میں ایسے واقعات کی مثالیں موجود ہیں۔ معلوم ہوتا ہے پی پی یہ غلطی دہرانا نہیں چاہتی۔ نون لیگ جو کچھ کر سکتی تھی اس نے کر لیا، اب لگتا ہے کہ نواز لیگ کے لئے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر لانا بھی مشکل ہو جائے گا، پیپلزپارٹی دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر یہ اعزاز دوبارہ اپنے پاس رکھنے کی کوشش کرے گی۔ آصف زرداری اس بیان سے بیک آﺅٹ کر لیں گے کہ اپوزیشن لیڈر نون لیگ کا ہو گا۔ پی پی پر اتنے الزامات لگ چکے ہیں اب میں نہیں سمجھتا کہ وہ وفاق کے خلاف کوئی محاذ کھولے گی۔ یہ بیچ بچاﺅ کی سیاست کرے گی۔ شرجیل میمن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شراب پینا تو اب کافی عام بات ہو گئی ہے۔ حکومتی صفوں میں دیکھیں تو ہر دوسرا آدمی اس مرض میں مبتلا نظر آتا ہے۔ شرجیل میمن کی جتنی تصویریں دیکھیں، وہ ان میں صحت مند و توانا نظر آئے، لگتا نہیں کہ ان کو کوئی بیماری ہے۔
