لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ڈیڑھ دو سال سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کوئی اچھے نہیں رہے اور امریکہ بار بار ڈو مور کا مطالبہ کرتا آیا ہے۔ آج کی ملاقات سے لگتا ہے کہ دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ لگتا ہے کہ اب کوئی راستہ نکلے کہ دونوں ممالک مسائل کے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ امریکہ کو بھارت کے حوالہ سے اپنا رویہ تبدیل کرنا ہو گا۔ اس سے پہلے ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ امریکہ نے جب بھی کوئی گفت و شنید کرتا ہے عام طور پر اس کی جو ساری بات کا نقشہ کچھ بنتا تھا کہ ہم پاکستان کی باتوں سے مطمئن نہیں اور عرف عام میں ”ڈومور“ یہ ایک فضول سی بات ہے کہ جب تک آپ بتائیں گے نہیں کہ کیا ڈومور پاکستان اس وقت تک 70,60 ہزار آدمیوں کی جانی قربانی دے چکا ہے۔ اس میں پاکستان میں معصوم شہری بھی ہیں۔ 7 ہزار سے زیادہ پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے جان کے نذرانے پیش کئے امریکہ پاکستان سے اور کیا چاہتا ہے۔ لگتا ہے کہ آج یہ رٹی رٹائی بات نہیں دہرائی گئی۔ اور پرانی گلی سڑی بات سننے کو نہیں ملی کہ پاکستان مزید کچھ کر کے دکھائے۔ ویسے بھی ان کی طالبان اور حقانی نیٹ ورک پر سوئی اٹکی ہوئی تھی۔ حقانی نیٹ ورک جن کے نام سے منسوب تھا وہ اب دنیا میں نہیں رہے لہٰذا اب تو کوئی نئی بات کرنی پڑے گی امریکہ کو اور کوئی نہ کوئی بات چیت کرنا پڑے گی۔ اب تک جو باتیں نئے میں آئی ہیں کچھ نہ کچھ نیا سٹیل سامنے آیا ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو بھی سنجیدگی سے نئے حقائق کو دیکھنا پڑے گا۔ اور پاک امریکہ کے درمیان کو نئی بات چیت ہر دفعہ کی طرح اس بات پر ختم نہیں ہو جائے گی۔ کہ ”ڈومور“۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ دونوں وزراءخارجہ کی ملاقات کے نتیجے میں سفارتی زبان میں کہا جاتا ہے کہ برف پگھلی ہے تو برف واقعی پگھلی ہو گی۔ اس لئے ایک تو ایک رٹی رٹائی گفتگو نہیں کی گئی۔ جب گفتگو کی حقائق کی بنیاد پر ہو اور پاکستان کی کاوشوں کو تسلیم کیا جائے تو بات آگے بڑھ سکتی ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ زور دیا ہے کہ پاکستان افغانستان کی صورت حال میں بہتری چاہتا ہے۔ پاکستان کے حالات بہتر بنائے بغیر آپ کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اس وقت امریکہ نے اگر بھارتی موقف کو تسلیم کر لینا ہے تو پھر بات آگے بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے لیکن آج کی گفتگو سے لگتا ہے کہ سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اصل حقائق کیا ہیں اور پاکستان نے کسی حد تک کوشش کی ہے اور اگر اس کو تسلیم کر کے آگے بڑھا جائے تو یقینا کچھ نہ کچھ بہتری کی شکل نکل سکتی ہے۔ اینکر پرسن نائلہ ندیم نے کہا کہ فیصل جاوید نے پریس کانفرنس کی کہ وزیراعظم ہاﺅس پر عوام کے اربوں روپے خرچ کئے جاتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ پہلی دفعہ انہوں نے وزیراعظم ہاﺅس کے اندرونی مناظر دکھائے اور 102 گاڑیاںنیلام کرنے کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ وزیراعظم ہاﺅس کی گاڑیاں خریدی جائیں گی یا نہیں خریدی جائیں گی لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ گاڑیاں بکنی چاہئیں۔ آخر پرائیویٹ سیکٹر میں سمجھتا ہوں کہ ان کی پذیرائی ہونی چاہئے اور جس طرح سے کہ کوشش کی جا رہی تھی اس حکومت کی طرف سے فضول خرچی کا خاتمہ ہو اور گاڑیاں بیچ کر اپنے نقصان پورے کئے جائیں۔ میرا خیال ہے کہ کچھ نہ کچھ بہتری ضرور ہوئی۔ جہاں تک وزیراعظم ہاﺅس کے معاملات کا تعلق ہے یہ تو سب لوگ جانتے ہیں کہ وزیراعظم ہاﺅس کو عیاشیوں کا ایک مرکز سمجھا جاتا تھا۔ یعنی غضب خدا کا کہ اگر ہیلی کاپٹر بھیجا جائے لاہور سے کہ فلاں چیز پکی ہوئی کھانی ہے اور اس کے لئے ہیلی کاپٹر جا رہا ہے اور چیزیں پکی ہوئی لا رہا ہے اندازہ لگائیں کہ یہ کس قدر غیر سنجیدہ حرکت تھی ہیلی کاپٹر اس لئے تو نہیں تھا کہ لاہور سے کھانے لا کر دے۔ اگر پہلے کی نسبت بہتر صورت حال ہے اگر وزیراعظم عمران خان نے وزیراعظم ہاﺅس کو اپنا گھر نہیں بنایا۔ وزیراطلاعات نے پریس کانفرنس کی ہے ان سے معلوم کرنا چاہئے کہ بیرون ملک سے آنے والے سربراہوں کے لئے ہم گاڑیاں کہاں سے لیں گے لیکن میں سمجھتا ہو ںکہ اگر ایک بہتر قدم، بہتر فیصلہ ہوا تو اس میں میم میخ نکال کر اس کی برائی کرتے رہنا ٹھیک نہیں۔ طے یہ کیا کہ بڑی گاڑیوں کو بیچا جائے اور سادگی کی طرف آیا جائے۔ضیا شاہد نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اگریہ کہیں کہ بیرون ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لے آئیں گے یہ ممکن نہیں ہوتا لیکن اگر ٹرینڈنسی اس طرف ہے۔ اگر ہم 50 فیصد بھی اس کی تلافی کر لیں تو میں یہ بہت بڑی بات ہے اوار ضرور ہونا چاہئے۔ میں نے اپنے پروگرام میں کہا تھا کہ میں نے امریکہ میں جو صاحب فوجی ساز و سامان کے سودے کرواتے تھے میں نے ان کے گھر میں جو ڈائننگ روم دیکھا تھا اس میں جتنی پلیٹیں پڑی ہوئی تھیں ان میں سونے کے چمچ میں نے زندگی میں پہلی دفعہ ایک صاحب تھے جن کا نام غالباً جاوید اقبال تھا اور ان کے گھر تھے اور فقیر حسین نقوی ہمارے واشنگٹن میں نمائندے جو ہیں وہ مجھے ان کے گھر لے کر گئے تھے اور پتہ یہ چلا تھا کہ پاکستانی فوج کے لئے خریداری کرنے کے سلسلے میں وہ مڈل مین تھے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ جس شخص نے بھی ایک قوم کا پیسہ لوٹا ہے اس کو پکڑا جانا چاہئے یہ اللے تللے ختم ہونے چاہئیں۔ کسی کا تعلق سول سے ہے فوج سے سب کے خلاف ایک یکساں کارروائی ہونی چاہئے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ مختلف اطراف سے یہ پیش کش آنی چاہئیں کہ ہم اپنی دولت، اپنا کاروبار پاکستان لائیں گے ہم اس مہم میں شامل ہوتے ہیں اور ہم پاکستان پر جتنے قرضہ جات ہیں کوشش کریں گے ہم قرضہ جات کو ان پیسوں سے جو ملک سے باہر ہیں اتارسکیں اور استعمال میں لا کر جو مختلف قسم کے قرضے ہیں ملک پر وہ ادا کر سکیں۔ جیسے جب چیف جسٹس نے اعلان کیا تھا کہ میں اپنے جسم کے اعضا ڈونیٹ کرتا ہوں تو کئی لوگوں نے ان کی تقلید کی تھی۔ میں سمجھتا ہوں آہستہ آہستہ بات اس طرف بڑھ رہی ہے میں نے یہ نہیں کہا کہ یہ ایک دن میں یہ کام ہو جائے گا۔ لیکن ٹرینڈنسی آگے اور آگے بڑھ رہی ہے آپ دیکھیں گے کہ آئندہ چھ مہینے میں اس قسم کی بہت سی پیش کشیں بھی سامنے آئیں گی۔ رفتہ رفتہ ہر آنے والا دن پچھلے دن سے بہتر ہے۔ مختلف چیزوں کے لئے ٹاسک فورس بنانا ہو گی۔ میں نے بالکل نہیں کہا۔ صدارتی الیکشن میں ن لیگ کے ووٹ ضائع کرنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ پارٹی اس پر کوئی تبدیلی نہیں لا سکتی، جب ذہن بدل جائیں تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ اب بہت سی چیزیں سامنے آئیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر کے عہدے کیلئے اعتزاز احسن موزوں شخص تھے لیکن نون لیگ نے اپنا سارا وزن مولانا فضل الرحمن کے پلڑے میں ڈال دیا۔ جس پر کچھ لوگوں نے اپنا ووٹ ضائع کرنا بہتر سمجھا ماسوائے کہ وہ مولانا فضل الرحمان کو دیتے۔ شہباز شریف کی گرفت کمزور ہو گئی ہے، نون لیگ کا صدر ہونے کی حیثیت سے ان کی پوزیشن اتنی مضبوط نہیں۔ پوری کوشش کے باوجود شہباز شریف پارٹی کو کھڑا نہیں کر سکے، نوازشریف کی پالیسیوں پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔