اسلام آباد(اے این این) سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاو¿نٹس کیس کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ( جے آئی ٹی)بنانے کا حکم دیا ہے۔ بدھ کو چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جعلی بینک اکاو¿نٹس کیس کی سماعت کی، اس موقع پر ڈی جی ایف آئی، انور مجید اور آصف زرداری کے وکیل پیش ہوئے۔سماعت کے دوران انور مجید فیملی کے وکیل شاہد حامد اور وکیل اعتزاز احسن نے بھی جے آئی ٹی کی تشکیل کے خلاف دلائل دیے جس کے بعد عدالت نے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا جن کے ارکان کے ناموں کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم جے آئی ٹی بنا رہے ہیں جو ہر15 دن میں رپورٹ دے گی جب کہ سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو رینجرز کی سکیورٹی دینے کا بھی حکم دیا۔دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ان کے پاس مہارت نہیں اس لیے جے آئی ٹی بنارہے ہیں، اگر ملزمان نے کچھ نہیں کیا تو ماہرین سے کلین چٹ مل جائیگی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئے اے)کے ڈائریکٹر جنرل(ڈی جی)بشیر میمن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘جب آپ کسی بڑے آدمی کو پکڑیں تو وہ بیمار ہو جاتا ہے اور جوان بچے آپ کے پکڑنے پر بیمار ہو جاتے ہیں۔ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ ‘ہمارے پاس لاک اپ ہے جہاں تفتیش کرتے ہیں لیکن ملزم پرتعش زندگی کے عادی ہوتے ہیں۔ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے نے اومنی گروپ کراچی کے دفتر پر چھاپا مارا جس کے دوران کا دبئی کی دستاویزات ملیں جس کے بعد کمپنی کے دبئی کے دفتر میں چھاپا مارا تو بےشمار فارن کرنسی اکاو¿نٹس کا ریکارڈ ملا۔ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ دبئی کی کمپنی سے ملنے والے اکاو¿نٹس بھی انہی کے خاندان (انور مجید فیملی)کے ہیں جب کہ ان اکاو¿نٹس میں بھی پہلے اکاو¿نٹس میں رقم جمع کرانے والے لوگ تھے اور دبئی سے رقم انگلینڈ اور فرانس بھی بھیجی گئی۔ڈی جی ایف آئی اے کے مطابق چھاپے کے دوران بہت سی ہارڈ ڈرائیوز بھی ملیں جن میں بہت سا ڈیٹا ہے۔ اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آپ کے پاس ایسے لوگ ہیں جو اس ڈیٹا کو چیک کرسکیں جس پر بشیر میمن نے کہا کہ ہمارا سائبر کرائم ونگ اس پر کام کررہا ہے، ڈیٹا بہت زیادہ ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اس معاملے پر ہمیں جے آئی ٹی بنانی چاہیے اور جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی بنانے پر کسی کو اعتراض تو نہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کسی کو کیا اعتراض ہوگا، ملزمان کو تو کلین چٹ ملنا ہے، اس معاملے سے ملزمان کا تو تعلق ہی نہیں، اس موقع پر انور مجید فیملی کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ ہم نے جے آئی ٹی سے متعلق متفرق درخواست دی ہے اسے دیکھ لیں۔چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ وزیراعلی کی انور مجید کے ساتھ گفتگو بھی موجود ہے، کہا گیا کہ انور مجید وزیراعلی کے گھر پر رہ لیں، آپ باتیں رہنے دیں، ہم مقدمے کو پنجاب منتقل کر دیتے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے وکیل سے مکالمے کے دوران کہا کہ ہم جعلی اکاو¿نٹس کی پہلے کی گئی تحقیقات کے بجائے جے آئی ٹی سے تحقیقات کرالیتے ہیں، 35 ارب روپے کے فراڈ کا معاملہ ہے، شفاف تحقیقات چاہتے ہیں، آپ شرما کیوں رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم مزید انکوائری کے لیے جے آئی ٹی بنا دیتے ہیں، قوم کا بھی بنیادی حق ہے کہ اس کا لوٹا گیا پیسہ واپس لایا جائے۔اس موقع پر انور مجید فیملی کے وکیل نے کہا کہ کیس میں سیاسی لوگوں کی شمولیت سے تاثر دیا جارہا ہے جیسے کرپشن کی گئی، ہر سماعت کے بعد میڈیا پر پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں، تحقیقاتی ادارے کو عدالت کیسے کہہ سکتی ہے کہ ایسے تحقیقات کریں اور ایسے نہیں۔وکیل شاہد حامد نے چیف جسٹس سے مکالمے میں کہا کہ آپ کا ایسا کون سا حق ہے جو آئین میں ہے اور پامال کیا جارہا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں عدالت کو اختیار حاصل ہے وہ کسی بھی قسم کی تفتیش کراسکتی ہے،کوئی ایسی قانونی رکاوٹ بتائیں جس کی بنیاد پر فراڈ کی تحقیقات نہ کرائی جاسکتی ہوں۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اس عدالت میں ڈرائیور، مالی اور چھوٹے موٹے گھریلو کام کرنے والوں نے بیانات دیئے ہیں، ملازموں نے بیانات دیے کہ انہیں نہیں معلوم ان کے اکاونٹس میں اربوں روپے کس نے رکھے، جاننا چاہتے ہیں وہ فرشتے کون تھے جنہوں نے ان اکاو¿نٹس میں اربوں روپے ڈالے۔وکیل شاہد حامد نے کہا کہ تفتیشی ادارے قانون کے مطابق اختیارات استعمال کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ چھان پھٹک کی اس لیے ضرورت ہے اگر آپ نے کچھ نہیں کیا تو کلئیر ہوجائیں، 35 ارب روپے جمع کرادیں تمام اکاو¿نٹس کھول دیتے ہیں۔وکیل شاہد حامد نے کہا کہ ایف آئی اے کے 35 ارب روپے کے اعداد و شمار جعلی ہیں، ایک اکاو¿نٹ سے ایک کروڑ دوسرے میں گیا پھر تیسرے میں تو ایف آئی اے نے ضرب کر دیا۔وکیل نے مزید کہا کہ اومنی گروپ نے 3 ارب روپے ڈالے، اتنے ہی نکالے اس میں کیا ہیرا پھیری ہے، سپریم کورٹ کسی معاملے میں جے آئی ٹی بناتی ہے تو مسائل ہوتے ہیں۔اعتزاز احسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جہاں پہلے سے تفتیش ہورہی ہو وہ معاملہ ٹرائل کورٹ بھیجا جاتا رہا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بہتر تفتیش کے لیے ماہرین پر مشتمل ٹیم بنانا چاہتے ہیں۔اعتزاز احسن نے کہا پاناما معاملے میں سربراہ نیب نے تفتیش سے انکار کیا تھا، ایف آئی اے باصلاحیت ادارہ ہے، خود تحقیقات کرسکتا ہے، جے آئی ٹی میں ایسے افراد کو شامل نہ کیا جائے جن پر ملزمان کو اعتراض ہے۔اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس شخص پر ذاتی اعتراض ہے جس پر وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ نجف علی مرزا پر ملزمان کو ذاتی اعتراض ہے، ایک ملزم نے نجف مرزا پر پہلے ایف آئی آر درج کرائی تھی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اعتراض ہے تو نجف مرزا کو جے آئی ٹی میں نہیں ڈالتے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فی الحال کسی پر الزام نہیں لگا رہے، جے آئی ٹی ارکان کے نام بعد میں بتائے جائیں گے، عدالت رعایت دے رہی ہے، ٹرائل کورٹ کی کارروائی روک دی جائے گی۔اٹارنی جنرل انور منصور نے بتایا کہ بیرون ممالک سے رقوم واپسی سے متعلق معاہدوں کو دیکھ رہے ہیں ، نجی شعبے سے ماہرین کی خدمات نہیں لے سکتے۔ڈی جی ایف آئی اے نے تجویز دی کہ جے آئی ٹی میں ایف آئی اے کے ساتھ نیب، ایس ای سی پی،اسٹیٹ بینک، ایف بی آر، آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندوں کو شامل کیا جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ خفیہ اداروں کے نمائندوں کو شامل کرنے کی کیا ضرورت ہے، ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ خفیہ اداروں کے پاس بہترین فرانزک ماہر ہیں اور کالز کا ڈیٹا مل جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی کے اراکین کا تعین عدالت کرے گی۔اعتزاز احسن نے کہا کہ جے آئی ٹی میں متعصب آدمی نہیں ہونا چاہیے، جس پر چیف جسٹس نے ان سے مکالمے میں کہا کہ آپ کو نجف کلی مرزا پر اعتراض ہے ؟ وہ اس میں شامل نہیں ہوگا، مرزا گیا اور ساتھ میں صاحبہ بھی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آصف زرداری اور فریال تالپور کو تو جے آئی ٹی پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے، الزامات سے بری، کلین چٹ لے کردوبارہ ملک کی باگ ڈور سنبھال سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ضروری نہیں اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید اور انکے بیٹے عبدالغنی مجید کو ہر دفعہ تفتیش کیلئے بلایا جائے، اکاو¿نٹنگ آفیسرز کو بلا سکتے ہیں، پگڑیاں اچھالنے کی اجازت نہیں دیں گے، ضروری نہیں کہ روزانہ بلا کر اخبار کو خبریں دی جائیں۔ڈی جی ایف آئی اے بشیرمیمن نے سندھ میں تحقیقات پرتحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عام تاثر ہے کہ سندھ میں وڈیرا راج ہے، اسلام آباد میں تحقیقات کی اجازت دی جائے جسے مسترد کر دیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جے آئی ٹی کی سیکورٹی رینجرز کے حوالے کریں گے، جے آئی ٹی سندھ میں ہی کام کرے گی اور 15 روزہ رپورٹ سپریم کورٹ کو بھجوائے گی،بعد میں کیس کی سماعت ملتوی کر دی گئی۔ واضح رہے کہ منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا، اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔حکام کے دعوے کے مطابق جعلی اکاو¿نٹس بینک منیجرز نے انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے اور یہ تمام اکاو¿نٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی اور دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکاو¿نٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاو¿نٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دبا کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں مشکوک ترسیلات جن اکاو¿نٹس سے ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاو¿نٹس ہیں۔ان 29 اکاو¿نٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاو¿نٹس بھی شامل تھے۔ 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔تحقیقات میں ابتدا میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحہ رضا، انور مجید، اے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکانٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکاو¿نٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکانٹ سے ناصر لوتھا کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی۔ناصر لوتھا نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی، ان 29 اکاو¿نٹس میں 2 سے 3 کمپنیاں اور کچھ شخصیات رقم جمع کرواتی رہیں۔حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاو¿نٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور سمٹ بینک انتظامیہ پر جعلی اکاو¿نٹس اور منی لاڈرنگ کا مقدمہ کیا گیا جبکہ دیگر افراد کو منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت اسی مقدمے میں شامل کیا گیا۔