واشنگٹن (ویب ڈیسک)امریکا کے مطالبے کے بعد فلسطین نے واشنگٹن میں قائم اپنے سفارتی مشن کے تمام امور بند کر دیئے۔فلسطینی مشن نے امید ظاہر کی کہ یہ بندش مختصر عرصے کے لیے ہوگی۔امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے فلسطینی سفارتی مشن کو اپنا بند کرنے کا حکم دیا تھا، جس کا مقصد فلسطین کو اسرائیل کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ کرنا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے گزشتہ برس دسمبر میں بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دینے کے یکطرفہ فیصلے کے بعد فلسطین اور امریکا کے تعلقات میں تناو¿ پیدا ہوا، تاہم مذکورہ فیصلے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں شدت آگئی ہے۔فلسطین لبیریشن آرگنائزیشن منش کے سربراہ اور فلسطین کے واشنگٹن میں سفیرحسام زوملوٹ نے کہا کہ ’سفارتخانے کو بند کرنے کا آج آخری دن ہے‘۔فیس بک پر جاری ویڈیو پر مشتمل پیغام میں انہوں نے کہا کہ یہ ہیں’امریکا کے عظیم لوگ‘۔امریکی کی جانب سے فلسطینی سفارتخانے کو بند کرنے کا فیصلہ اوسلو معاہدے کی 20 ویں سالگیرہ کے وقت سامنے آیا ہے۔ تقریباً 2 دہائی قبل دو ریاستی حل کے لیے اسرائیل اور فلسطین کے مابین معاہدہ طے پایا تھا۔دوسری جانب حسام زوملوٹ نے ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے کو ’افسوس ناک اور کینہ پرور‘ قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ ’ٹرمپ انتظامیہ نے اپنا فیصلہ سنا کر ہمارے پاس دو آپشنز چھوڑے ہیں پہلا یہ کہ امریکا سے اپنے تعلق ختم کردیئے جائیں یا پھر ہم بطور قوم اپنے حقوق سے دسبردار ہو جائیں۔فلسطین کے صدر، قیادت اور لوگ نے اپنے حقوق کا انتخاب کیا ہے، فلسطینی ’امریکی ریاست کے فیصلوں سے انتہائی صدمے میں ہے‘۔انہوں نے کہا کہ ’کروڑوں امریکی جو فلسطینوں کے دوست ہیں، مذکورہ فیصلے کے بعد یہ تعلقات تاریخ کا حصہ بن جائیں گے‘۔امریکا کو فلسطینی سفارتخانہ بند کرنے سے پہلے فلسطینیوں کے لیے 20کروڑ ڈالر کی امداد اور اقوا متحدہ ایجنسی برائے پناہ گزین فلسطین کی مدد پر بھی پابندی لگا دے دینی چاہیے تھی۔ فلسطینی رہنماو¿ں نے معاملہ عالمی عدالت میں لے جانے کا عندیہ دیا تھا جس پر امریکا نے سخت نتائج کی دھمکی دی تھی۔
