لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ نوازشریف اور ان کے ساتھ باقی سیاستدان جو ہیں بڑے خوش قسمت ہیں کہ یکے بعد دیگرے جتنی بھی عدالتی گرفتیں ہیں اس میں سے نکلتے جا رہے ہیں ان کا ستارہ کامیابی کی طرف جانے لگا ہے۔ ظاہر ہے ان کو حق حاصل ہے طاہر القادری سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے حوالہ سے سپریم کورٹ جائیں لیکن معلوم یہی ہوتا ہے ان کا ستارہ آج کل اونچا جا رہا ہے۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ جب بھی نوازشریف کو عدالت سے کامیابی ملتی تھی تو ہمیشہ یہ کہتی تھیں کہ یہ چمک کا نتیجہ ہے۔ ضیا شاہد نے کہا نواز حکومت میں وزیر خارجہ تھا ہی نہیں انہوں نے یہ وزارت اپنے پاس رکھی ہوئی تھی اسی طرح وزارت داخلہ بھی اب تک کسی کو نہیں دی گئی خان صاحب نے اپنے پاس رکھی ہوئی ہے انہیں چاہئے کہ وہ کسی کو وزیر داخلہ بنا دیں کیونکہ یہ بڑا بوجھ ہوتا ہے کیونکہ وزیراعظم کے پاس بہت زیادہ کام ہوتا ہے۔ بلاوجہ ایک اور وزارت کا بوجھ اٹھانے کا کیا فائدہ؟ ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میرے خیال میں عوام میں بھی بڑی شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی نے اچھا کیا سادگی کے لئے مہم چلائی۔ گورنر ہاﺅسوں اور وزیراعظم ہاﺅس کے بارے میں مہم چلائی پھر انہوں نے بلٹ پروف گاڑیاں نیلام کر دیں۔ بیچ میں وہ خبر رہ ہی گئی۔ سنا تھا کچھ نیلامیاں ہوئیں کچھ رک گئیں۔ سمجھ نہیں آیا وہ کیوں رک گئیں۔ پی ٹی آئی کا فرض بنتا ہے کہ وہ عوامی مشکلات اور عوامی مسائل میں کمی کریں اضافہ نہ کریں۔ میں اگلے ہفتے عمران خان سے ملاقات کا ارادہ رکھتا ہوں۔ لاہور میں ایک آدھ دورہ رک کے بھی گئے ہیں لیکن وزیراعظم کے دورے ہوتے ہیں ان میں تو وقت نہیں ہوتا۔ضیا شاہد نے کہا کہ میں عمران خان سے ملنا چاہتا ہں تا کہ معلوم ہو سکے کہ ایک ماہ آپ کی حکومت کا مکمل ہو گیا دو ماہ رہ گئے آپ کا کتنا کام ہو گیا کتنا رہ گیا۔ ایک بڑی تشویش والی بات ہے کہ مہنگائی تو ہے۔ ایڈن ہاﺅسنگ سوسائٹی کا کیس پرانا ہے آج سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کا داماد امجد مرتضیٰ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اصل میں یہ ڈاکٹر امجد صاحب کے صاحبزادے ہیں۔ ڈاکٹر امجد صاحب کی بیگم صاحبہ جو تھیں وہ صوبائی اسمبلی کی رکن بھی تھیں اس وقت پیسے کے زور پر عام طور پر رکنیت ملتی تھی اور بڑا مشہور تھا محترمہ کے بارے میں وہ چونکہ ویسے بھی چیف جسٹس صاحب کی صاحبزادی تھیں تو ان کو پاکستان جیسے ملک میں کون پوچھ سکتا تھا تو ان کے معاملات اس طرح کے تھے جتنا وہ زیور پہنتی تھیں کہ لدی پھتی سونے کے زیورات سے وہ اسمبلی میں جاتی تھیں ویسے بھی کوئفی افتخار چودھری صاحب کا کوئی کیا بگاڑ سکا ان کے بیٹے نے سرکاری رہائش گاہ کے پتے پر کمپنی بنائی اور ایک سال میں نوے کروڑ سے زیادہ منافع کمایا۔ پھر وہ دب دبا گیا مسئلہ دوبارہ کسی نے بات ہی نہیں کی اس کا پتہ لگانا چاہئے کہ ارسلان کے بارے میں کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوئی اس کی وجہ کیا ہے۔ اگر ان کے خلاف واقعی کوئی شکایت ہے تو پھر ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے یہ جج حضرات کے خود آپس میں مل ملا کر ایک چیف جسٹس کے بیٹے کا مسئلہ تھا تو اس میں سارے آپس میں مل گئے ملک ریاض صاحب کے پاس کافی وسائل ہیں ماشاءاللہ اور ان وسائل کی وجہ سے تھوڑا سا کیس ابھرا تھا پھر دب گیا۔ آج مجھے پتہ چلا ہے کہ ملک ریاض صاحب کے بارے میں کچھ آرڈردیئے ہیں ریمارکس دیئے ہیں۔ امید ہے وہ کہیں نظر نہیں آئیں گے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ بھارت نے ایک شیڈول جاری کیا تھا کہ ہمیں وزٹ کروائیں گے متنازعہ پانی کے منصوبوں کا اب انہوں نے آگے سے کرارا جواب دے دیا ہے کہ کوئی معائنہ نہیں کرائیں گے رپورٹ ہمیشہ وعدہ کر لیتا ہے پورا کبھی نہیں وہ جو مشہور مصرعہ ہے۔وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا
اس طرح انڈیا کے وعدے تو ایسے ہی ہوتے ہیں، جتنے لوگ یہاں سے انڈیا جاتے ہیں ویزا لے کر وہ کشمیر میں نہیں جا سکتے۔ ہم ایک دفعہ دلی آگرہ گئے تھے ایک سارک کانفرنس میں بھی گئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ آڈٹ آف باﺅنڈ ایریا ہے آپ سری نگر نہیں جا سکتے۔ ایک ہمارے دوست خالد چودھری ہیں وہ البتہ سیفما کے رکن تھے امتیاز عالم صاحب جو سیفما کے سربراہ ہیں وہ ان کو ساتھ لے کر گئے تھے ان کو اجازت مل گئی تھی۔ سیفما کا وفد مقبوضہ کشمیر گیا تھا۔
سینئر تجزیہ کار خالد چودھری نے کہا ہے کہ ہمیں خود کو اتنا مضبوط کرنا ہو گا کہ دوسروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں لیکن مضبوطی صرف ایٹمی ہتھیاروں سے نہیں ہوتی۔ روس سے زیادہ ہتھیار تو کسی کے پاس نہیں تھے لیکن جب ان کی معیشت تباہ ہوئی تو آپ دیکھ لیں ان کا کیا حشر ہوا۔ اس دور میں آپ کی جو معیشت ہے وہ مضبوط ہو۔ جیسا کہ آپ نے بگلیہار ڈیم، سری نگر جاتے ہوئے رستے میں آیا تو وہاں ہم رکے بھی وہ ڈیم بھی دیکھا تو دیکھیں یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے انڈیا 48ءمیں کیس لے کر گیا تھا جب لڑائی ہوئی ہے تو وہاں اقوام متحدہ نے وعدہ کیا تھا کہ ہم وہاں رائے شماری کرائیں گے آج تک اس پر عمل نہیں ہوا۔ میرا نہیں خیال کہ اب مجھے کشمیر جانے کے اجازت ملے گی۔ سارک کانفرنس کے پلیٹ فارم سے انڈیا اور پاکستان کی جانب سے بہت ریلیکسیشن کا مظاہر ہ کیا گیا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں 2004 ءمیں صحافیوں کا پہلا وفد تھا جو بھارتی کشمیر میں گیا تھا۔ اسکے تین یا ر چار ماہ کے بعد اسی لیول کا وفد پاکستان آیا تھاجو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے دورے پر گیا تھا۔ اس وقت انہوں نے ہمیں اور ہم نے انہیں ویزے دئیے تھے ۔ اس کے بعد ایسا کبھی نہیں ہوا۔ تاہم انفرادی ویزے ملتے رہے ہیں۔ ہاشم قریشی کی بیٹی کی شادی تھی۔انہوںنے مجھے بھی دعوت دی ۔
ضیا شاہد نے کہا کہ ہاشم قریشی سے ہماری بھی بہت دوستی تھی ۔ اگر آپ سے ہاشم کی ملاقات ہوئی ہوگی تو ضرور اس نے تذکرہ کیا ہوگا۔ میں نے لاہور میں مقبول بٹ کیساتھ ہاشم قریشی ، اشرف قریشی سمیت سب کو اپنے گھر کھانے پر بلایا تھا۔ ہاشم بڑا اچھا لڑکا تھا اب تو بابا ہو گیا ہوگا۔ آپ کی اس سے اچھی ملاقات رہی ہے۔ اس نے آپ سے شائد کچھ میری نیاز مندی کا بھی ذکر کیا ہو۔
خالد چوہدری نے کہا کہ ہم دونوں کوٹ لکھپت جیل میں ضیا ءالحق کے دور میں اکٹھے رہے تھے۔ جب ہم بھار ت گئے تو اسکو آپکا اتنا دھیان تھا کہ پہلی رات جب وہ ہوٹل میں آیاہم بیٹھے باتیں کرتے رہے اور جب میں واپس آرہا تھا اس نے آپ کے لیے سفید رنگ کی کشمیری چادر دی تھی ۔ جو میں نے آپکو آ کر اسکی طرف سے پیش کی تھی۔ وہ تو آپکا بہت ذکر کرتا تھا۔
ضیا شاہد نے کہا کہ ہم تو چاہتے ہیں خالدچوہدری صاحب کوشش کریں کہ ہمارے لوگ بھی جا کے سری نگر تو جا سکیں ۔ ہم نے کیا قصور کیا ہے،ہم بھی وہ علاقہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ویسے بھی انڈیا پر کوئی دباﺅ تو بڑھانا چاہئے۔ اپنے دوست امتیاز عالم صاحب سے بھی کہتے ہیں کہ آپ اپنے گڈ آفسزاستعمال کریں اور سیفما کے تحت ہی کوئی وفد لیجائیں تاکہ لوگوں کی وہاں تک رسائی تو ہو۔
خالد چوہدری نے کہا کہ ضیا صاحب آپ مئی تک انتظار کریں جب تک انڈیا کا اگلا الیکشن نہیں آتااور جب تک مودی ہے تب تک تو ویزے نہیں ملیں گے۔ شاید اگلے الیکشن میں تبدیلی سے مودی کی پالیسی میں کچھ تبدیلی کی جائے۔
ضیا شاہد نے سوال کیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اگلے الیکشن میں مودی کامیا ب نہیں ہونگے۔
خالد چوہدری نے کہا کہ مودی اس وقت تو بڑی مشکل میں ہے۔ خاص طور پر نئے نوٹوں کی تبدیلی کے معاملے پر وہاں یہ ہوا ہے کہ وہاں کا سرمایہ دار تاجر جنکے پاس اربوں کروڑوں روپے تھے ، وہ اپنے ہی نوٹ دبا گیا۔ اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے جتنے پیسے واپس کیے وہ اتنی مالیت کے بھی نہیں تھے ، جتنا حکومت کا نئے نوٹ چھاپنے پر خرچہ ہوا۔ اس معاملے پر بھی ان سے ایک طبقہ ناراض ہے۔ اس وقت بھارتی اپوزیشن اکٹھی ہو جائے تو مودی کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔ جس سے 20 فیصد موقع اپوزیشن اور 18 فیصد موقع مودی کا ہوگا۔ لیکن مودی اس وقت نہ اپنی معیثت کی بات کر رہا ہے اور نہ کوئی اور۔ وہ لے دے کر پاکستان کی مخالفت پر چلا ہوا ہے۔ اگلے الیکشن پر وہ اسی قسم کے ڈرامے کرتا رہے گا تاکہ وہ انتہا پسند ہندو ووٹ اکٹھا کر سکے جیسا یوپی کے الیکشن میں ہوا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں مسلمان کا ووٹ ہی نہیں چاہئے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ باقی ووٹ اس کو مل گئے۔ اب بھی اگلے الیکشن تک پاکستان اور انڈیا کے معاملات میں کوئی بہتری آنے کی توقع نہیں ہے۔ حالانکہ اگر دونوں اطراف کے عوام کے لیے ویزہ پالیسی نرم کر دی جائے اور اسکا اطلاق ایک سال کے لیے رکھا جائے تو یقین کیجئے تو کم از کم کروڑ ، دو کروڑ بندہ پاکستان کا انڈیا جائیگا اور دو تین کروڑ ادھر سے ادھر آئیں گے۔ عوام کے ملاپ سے اپنی اپنی حکومتوں پر دباﺅ پڑتا ہے کہ آپ امن کی خاطر آگے چلیں۔ جب تک عوامی سطح پر انٹریکشن نہیں ہوگا۔پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی امید مشکل نظر آتی ہے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ خالد چوہدری کی باتوں سے لگ رہا ہے کہ مودی کی پوزیشن مضبوط ہے ، وہ کمزور نہیں لگ رہی۔
پروگرام میں تحریک انصاف کے رہنما فیض الحسن چوہان نے ٹیلی فونک شرکت کی ۔ ضیا شاہد نے پوچھا کہ لوگوں میں بڑی تشویش پائی جاتی ہے ،لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے لیے بہتر مستقبل آرہا ہے ۔ مگر پچھلے ہفتے سے اوپر نیچے خبریں آرہی ہیںکہ بجلی گیس اور باقی چیزوں میں مہنگائی آجائیگی۔ عام لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کہتے ہیں ہمیں سیاست سے کوئی غرض نہیں لیکن ہماری چیزیں سستی ہونی چاہئیں اورکچھ مہنگائی میں کمی ہونی چاہئے۔ یہ فرمائیں کہ مہنگائی کی کیا وجہ ہے؟ یہ کہنا کہ پچھلی حکومتیں قرض لے گئیں اس لئے مہنگائی ہو رہی ہے، عام بندہ شاید اسکو قبول نہ کر سکے۔
فیاض الحسن چوہان نے کہاکہ کچھ حقائق ایسے ہیں جن سے آپ میں اورکوئی باعلم آدمی نظریں نہیں چرا سکتا۔ گذشتہ حکومتوں نے صرف قرض نہیں لیے بلکہ سارے ادارے تباہ و برباد کیے ہوئے ہیں۔ وفاق سے لیکر پنجاب تک۔ پنجاب کی صورتحال یہ ہے کہ جتنے پاور پراجیکٹس، ٹرانسپورٹ پراجیکٹس میٹرو ٹرین ، میٹرو بسز، جتنی 56 کمپنیاں ، جتنے ادارے تمام کے تمام اتنے خسارے میں ہیں کہ پنجاب حکومت روزانہ کا دو سے تین ارب دینے کی پابند ہے ، اور اسکے دو سے تین گنا وفاقی منصوبوں پر دینے کے پابند ہیں ۔ ایسے منصوبے جنکا حاصل وصول ہی کچھ نہیں ، وہ خسارے میں ہیں۔انکو سوورن گارنٹی دیکرشہباز شریف ، نواز شریف کی حکومتیں پوری پاکستانی قوم اور پاکستان کے خزانے کو چونا لگا کر اب بڑا سینہ تان کر ، ڈولے پھلا کے اپوزیشن لیڈر بن کر تنقید کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ ان حالات میں دو ہی آپشنز ہیں ۔ یا تو آئی ایم ایف کے پاس چلے جائیں اور ان سے دھڑا دھڑ قرضے لینا شروع کر دیں ۔ جس طرح 36 ارب ڈالر پانچ سال میں انہوں نے لیے تھے۔ یا پھر وقتی طور پہلے چھ ماہ سے ڈیڑھ سال اپنی کمائی خود کرنی پڑے گی۔
ضیا شاہد نے سوال کیا کہ یہ ہم سب تسلیم کرتے ہیں کہ واقعی پچھلی حکومت نے اس قسم کے جتنے بھی پراجیکٹ بنائے ، وہ سارے کے سارے نقصان کا سودا ہیں۔ میٹرو، اورنج ٹرین میں روز کے حساب سے پیسے ڈالنے پڑیں گے، پتا نہیں یہ منصوبے کس اعتبار سے بنائے گئے تھے۔ لیکن لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ اب تو تحریک انصاف کی حکومت ہے پھر یہ لوگ پکڑے کیوں نہیں جاتے، ان لوگوں کے خلاف کاروائی کیوں شروع نہیں ہوگی، یہ لوگ کیوں اورکیسے آرام سے اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
فیض الحسن چوہان نے کہا کہ بے غم رہیں ، سب سے پوچھیں گے۔ ”کوکلا چھپاکی جمعرات آئی اے، جیہڑا اگے پچھے ویکھے اوہدے شامت آئی ہے“ کے مطابق انہوں نے دس سال پاکستان کے خزانے کیساتھ ،عوام اور ریاست کیساتھ جو کھلواڑ کیا ہے۔ ان سے ایک ایک چیز کا حساب لیا جائیگا۔ ابھی ہم سارے معاملات کو جان کر پھر ایک ایک پائی کا حساب کتاب لیں گے۔ اسد عمر نے قومی اسمبلی میں بھی کہہ دیااور میں بھی یقین دلاتا ہوں تمام چیزوں پر کام ہو رہا ہے۔
ضیا شاہد نے مزید کہا کہ یہ بات درست ہے کہ ابھی ایک مہینہ گزرا ہے ، ایک اور مہینے میں اگر بات چیت آگے چلتی ہے ۔ لوگ اب دیکھنا چاہتے ہیں کہ جن لوگوں نے ملک کو لوٹا ہے وہ پکڑے کیوں نہیں جاتے ۔
