لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے پروگرام نیوز ایٹ سیون میں گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما ممبر قومی اسمبلی ابراہیم خان نے کہا ہے کہ قومی اسمبلی میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے دھواں دار تقریر کی لیکن الفاظ کا استعمال غلط تھا۔ جب خورشید شاہ نے اپنی تقریر میں وہی غیر پارلیمانی الفاظ استعمال کیے وہ بھی قومی اسمبلی کے وقار ے خلاف تھا۔ یہ تمام چیزیں ختم کر کے قانون میں اصلاحات کے ذریعے عمل درآمد کیا جائے۔ ملک کو لوٹنے والوں کے لیے سزائیں مقرر کی جائیں کہ انکی نسلیں یاد کریں۔ بیان بازی سے قوم کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ذاتی خیال ہے کہ کرپشن کرنیوالوں کو سزائے موت دی جانی چاہیے۔ دو سے تین بڑے کرپٹ لوگوں کیساتھ ایسا ہوا تو سب ٹھیک ہو جائیں گے۔ چیف جسٹس صاحب خود ہسپتال میں ایک چیز برآمد کر کے آتے ہیں اور لیب کہتی ہے کہ یہ زیتون کا تیل تھا۔ چیف جسٹس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی گئی‘ انہیں ایکشن لینا چاہیے۔ عمران خان نے کہا تھا کہ اب یہ معاملات ختم ہونگے یا یہ ملک ختم ہوگا۔ اب ہم اسی نہج پر ہیں اور ہمیں اپنے معاملات ٹھیک کرنا ہونگے۔ جہانگیر ترین کی نااہلی پر نظر ثانی کی درخواست خارج ہونے پر انہوں نے کہا کہ ہمیں سپریم کورٹ کے فیصلوں پر اعتماد ہے۔ تاہم ان سے اچھے مشورے لیے جائیں گے۔ نواز شریف منی ٹریل ہی نہیں دے پارہے اور جہانگیر ترین کا منی ٹریل کلیئر ہے۔ حکومت کے منی بجٹ کا بوجھ مالدار لوگوں پر ڈالا گیا ہے۔ وزیراعظم نے بھینسیں بیچ کر پیغام دیا ہے کہ میں عیاشی نہیں کرسکتا تو کوئی دوسرا کیوں کرے گا۔ ابھی صرف گھاس کھانے والی بھینسیں بیچی گئی ہیں مال کھانے والی بھینسیں بیچیں تو پتا تب چلے گا۔ گزشتہ حکومتوں نے دس سال میں پاکستان کی ستر سالہ تاریخ سے دوگنا قرضہ لیا۔ غیر ملکی قرضہ 36ارب سے 92 ارب پر لیجایا گیا‘ جسکی قسط کے لیے بھی پیسے نہیں چھوڑے گئے اور اپنے ایم این ایز کو جاتے ہوئے ایک ارب تک دیدیے۔ انہوں نے ملک کو خزانے کو بھارتی مال سمجھا کہ جیسے چاہے لٹا دو۔ عوام جان گئی ہے کہ ان لوگوں نے ملک کیساتھ کیا گیا تب ہی انہیں اٹھا کر حکومت سے باہر پھینکا گیا۔ ہمیں عوام پر بوجھ کم کرناہے۔ ہمارے پاس ذرائع ہونے کے باوجود ستر فیصد بجلی تیل سے پیدا کی جارہی ہے۔ پاکستان دشمن قوتیں، غیر ملکی فنڈ لینے والے لوگ اٹھ کر کالا باغ ڈیم اور دیگر ڈیموں کی مخالفت کررہے ہیں۔ انکے خلاف آرٹیکل6 کے تحت کارروائی کی سفارش ہے۔ ہمیں عوام کو ریلیف دینے کے لئے ابھی وقت چاہیئے۔ خارجہ پالیسی میں ہماری ترجیح صرف پاکستان ہے۔ وزیر اعظم نے آتے ہی بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کی، جس پر بھارت کے منفی جواب کے باوجود عمران خان نے مدبرانہ طور پر کہا کہ مسائل کا حل بات چیت ہی ہے ورنہ بڑا نقصان ہوگا۔ کشمیر ہماری شاہ رگ ہے، کشمیر کے موقف پر کوئی دورائے نہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے کشمیر پر ایک لفظ نہیں کہا ایسا لگتا تھا مودی سرکارنے پاکستان پر قبضہ کرلیا ہے۔ پروگرام میں سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ منی بجٹ سے ہمیشہ عوام پر بوجھ پڑا ہے۔ اصل معاملہ ہے کہ ہمیں معاشی حالات پر آئی ایم ایف کے پاس جانے نہ جانے کا فیصلہ کرنا ہے۔ حکومت سوچ رہی ہے کہ کوئی اور آپریشن نظر آجائے مگر دورہ سعودی عرب اور چین سے آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا کوئی اشارہ نہیں ملا۔ قرضے بڑھنے سے ملکی خودمختاری ختم ہوجائے گی۔ آئی ایم ایف بھی مالی خسارے کم کرنے کا کہتا ہے۔ پاکستان کے آئی ایم ایف کے پاس نے سے دنیا کو پیغام ملے گا کہ یہ واقعی اپنی معیشت بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ ایکسپورٹ نہ ہونے کے باعث عالمی قرضے لیے جارہے ہیں۔ ڈالر کی آﺅٹ پٹ دے سکتا ہے۔ ہمارے پھل اور سبزیاں دنیا میں بہت مانگ رکھتی ہیں۔ مگر ہماری پیداوار نہیں ہے۔ ڈیم بننے کے بعد پیداوار بڑھانے کی طرف پہلا قدم ہوگا۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل کو ٹھیک کرنا بہت ضروری ہے۔ آٹو موبائیل اورالیکٹرانگ انڈسٹری کو دنیا میں پھیلانا پڑے گا۔ نئی کمپنیاں اور ٹیکنالوجی بنانی پڑیں گے جو پوری دنیا میں جا سکیں۔ مگر حکومت کی ترجیح ٹیکس اکٹھے کرنے کی طرف ہے۔ ٹیکس لگایا جارہا ہے مگر ٹیکس بڑھایا نہیں جا رہا۔ ہماری حکومت میں ڈھائی ملین ٹیکس دہندہ تھے جو اب سات سے آٹھ لاکھ رہ گئے ہیں۔ ٹیکس ریٹ کم ہونے چاہیے جو ٹیکس نیٹ بڑھانے سے ہوگا۔ برآمدات کو عالمی معیار کے مطابق لا کر بڑھانے سے قرضے خود بخود کم ہونا شروع ہو جائیں گے۔
