تازہ تر ین

ہزاروں اکاﺅنٹس کا ڈیٹا چوری خوفناک واردات ، حکومت فوراً نوٹس لے : ضیا شاہد ،نواز کے وکلاءقائل نہ کر سکے تو سپریم کورٹ اپنی سوچ پر فیصلہ کریگی : اس ایم ظفر کی چینل۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کا آئیڈیا جہانگیر کرامت نے دیا تھا اور انہوں نے کہا تھا کہ اہم امور پر خاص طور پر فارن افیئرز کے سلسلے میں یا غیر ممالک کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں آرمی کو بھی شامل کیا جائے لیکن اس تجویز کو اس وقت نوازشریف وزیراعظم تھے۔ انہوں نے نہ صرف اس کو رد کر دیا تھا بلکہ انہوں نے جہانگیر کرامت پر پریشر ڈالا تھا اور جہانگیر کرامت جو تھے وہ استعفیٰ دے کر آرمی چیف کی ذمہ داری سے الگ ہو گئے تھے لیکن بعد ازاں پھر قومی سلامتی کمیٹی یعنی نیشنل سکیورٹی کونسل بنی۔ قومی سلامتی کمیٹی میں سب مل کر قومی مسائل پر گفتگو کرتے ہیں اور کمیٹی تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی موجودگی سے ایک طرح سے واحد پاکستان میں واحد قومی ادارہ ہے جو آئین کے تحت ہے آئین اس کی اجازت دیتا ہے اور اس میں افواج پاکستان کے تینوں شعبوں کے سربراہان بیٹھتے ہیں۔ خاص طور پر فارن آفیسرز کے حوالے سے اور پاکستان کے بیرون ملک سے جو تعلقات ہیں اس کے حوالے سے قومی سلامتی کمیٹی ایک سپریم باڈی ہے چنانچہ عمران خان کا چین جیسے دوست ملک کے دورے کے بعد سب سے پہلے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرنا اور اس بارے میں تبادلہ خیال کرنا اور یہ بتانا کہ وہاں انہوں نے کیا گفتگو کی اور فوجی سربراہوں سے بھی ان معاملات پر گفتگو کرنا یہ ایک بہتر شکل تھی جو گزشتہ کئی حکومتوں سے چل رہی ہے۔ آج کی مجلس میں بھی یقینا جن وجوہات کی وجہ سے عمران خان چائنا گئے تھے۔ ایک یہ تھا کہ ہم اپنی معیشت کے معاملات میں ان کو شامل کریں اور دوسرا یہ تھا کہ وہاں سے سرمایہ کاری کے جوائنٹ وینچرز وہ لے کر آئیں اور تیسرا انہوں نے خود عمران خان نے کہا تھا کہ چائنا نے ہم سے بعد آزادی حاصل کی لیکن انہوں نے اس زمانے میں کتنی ترقی کی اور آج وہ ورلڈ اکنامک فورس ہے اور دوسرا یہ کہ چائنا نے اپنے ہاں رشوت پر کس طرح قابو پایا لیکن وہاں سزائیں رشوت کے خلاف اتنی سخت ہیں کہ کئی مرتبہ عمران خان بھی اس کا اعلان کر چکے ہیں کہ 440 کے قریب سرکاری افسروں کو وہ موت کی سزا دے چکے ہیں چھوٹی موٹی سزا نہیں یہ جائیداد کی ضبطی والی سزا نہیں۔ اس قسم کی سزا نہیں جس قسم کی سزائیں ہمارے ہاں ابھی شٹل کاک کی طرح سے نیب سزا دے دیتی ہے اور ہائی کورٹ سے رہا کر دیتے ہیں اور پھر معاملہ وہیں کا وہیں پہنچ جاتا ہے اس کی بجائے چین نے وہاں تو جو ثابت ہو گیا کہ اس بندے نے رشوت لی ہے وہ اس کو مار دیتے ہیں موت کی سزا دے دیتے ہیں چنانچہ آج بھی یہ کہنا کہ اور اس تقریر میں سے جو عمران خان نے کی اس کی جو کوٹیشنز سامنے آئی ہیں اس پر انہوں نے کہا ہے کہ قانون کی حکمرانی کو وہ پاکستان میں مضبوطی کے ساتھ جاری کریں گے اس کا ایک اشارہ جو تھا گزشتہ دنوں ہونے والے دھرنوں اور اس دوران سامنے آنے والی بدامنی کے بارے میں بھی تھا، اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ قومی سلامتی کمیٹی نے اس بات کا اشارہ موجود ہے کہ اب اگر کسی نے دوبارہ ایسی حرکت کی تو اس سے بہت سختی سے نبٹا جائے گا۔
ضیا شاہد نے کہا کہ میں سمجھتا ہو ںکہ آج کی سب سے بڑی خبر تو یہ ہے کہ نوازشریف صاحب کو جس ہائی کورٹ نے رہا کیا تھا اور ان کی جیل تھی وہ ختم کر کے یہ ایک آزاد شہری کے طریقے سے جاتی امراءمیں واپس آ گئے تھے اور اس وقت ان کے ساتھ ان کی صاحبزادی مریم نواز اور ان کے داماد کیپٹن (صفدر) کو بھی رہا کر دیا گیا تھا آج سپریم کورٹ میں یہ کیس نہ صرف پیش ہوا بلکہ اتنے سخت ریمارکس چیف جسٹس سپریم کورٹ کے ہیں جس میں انہوں نے کہا کہ اس کی اگلی تاریخ 12 نومبر مقرر کر دی گئی کہ اس روز فیصلہ ہو گا 12 کو زیادہ دن نہیں ہیں۔ انہوں نے اس پر یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ہمیں کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ لندن میں اپنے فلیٹس کے سلسلے میں نہ کوئی وضاحت دے سکے نہ یہ بتا سکے کہ آپ کے بیٹوں کے پاس پیسے کہاں سے آئے اور انہوں نے انہیں کیسے خریدا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے کہ ہم ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کر دیں اس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ 12 نومبر کو بہت توقع ہے کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ جس میں نوازشریف صاحب اینڈ کمپنی کو رہا کیا گیا تھا وہ فیصلہ واپس ہو جائے اور نوازشریف صاحب کی دوبارہ گرفتاری یقینی ہو جائے میں سمجھتا ہوں کہ آج کی تاریخ بھی بہت ضروری تھی اور بہت اہم ہے۔ اس میں جو اشارہ دیا گیا ہے اس سے بھی ثابت ہو رہا ہے کہ شاید جن خیالات کا اظہار چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کیا ہے اور عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ لندن فلیٹس کے سلسلے میں اپنی آمدن کی تفصیل نہیں بتا سکے کہ یہ ان کے بیٹوں کے نام کس طرح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس بات کے امکانات ہیںکہ 12 نومبر کو اگر اس کیس کا کوئی فیصلہ سامنے آ گیا تو ہو سکتا ہے کہ نوازشریف صاحب کی جو معطلی کی سزا تھی وہ معطل کر دی جائے اور نوازشریف کو دوبارہ جیل جانا پڑے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جہاں تک تو درجہ بدرجہ عدالتوں کے دائرہ اختیار کا تعلق ہے یہ دائرہ اختیار امریکہ، برطانیہ میں بھی، دنیا کے تمام متمدن ممالک میں موجود ہے یہی طریقہ ہوتاا ہے۔ مثال کے طور پر آپ یہ دیکھتے کہ اگر سیشن جج جو ہے جو لوئر کورٹس کی ایک شکل ہے اس میں سینئر ترین عدالت سمجھی جاتی ہے سیشن کورٹ میں بعض اوقات ایک شحص کو سزا دے دی جاتی ہے لیکن سیشن جج کے اوپرہائی کورٹ ہے او رہائی کورٹ اس سزا کو معطل کر دیتا ہے اور اس کو ختم کر دیتا ہے پھر اگر ہائی کورٹ بھی معطل کر دیتا ہے تو بھی اس سے بھی اوپر سپریم کورٹ موجود ہے اور پھر سپریم کورٹ میں ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ بے شمار مرتبہ ہوا ہے کہ سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے فیصلے کو ان ڈو کر دیتا ہے اور اس سے اتفاق نہیں کرتا چنانچہ جس چیز کو آپ شٹل کام کہتی ہیں یہ قانون کا پراسس ہے۔ جناب ایس ایم ظفر صاحب میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیس لگا سپریم کورٹ میں اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 12 تاریخ کو اس کا فیصلہ کریں گے لیکن بادی النظر میں انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ نے نوازشریف کے خلاف سزا کو جو معطل کیا ہے انہیں سمجھ نہیں آتی وہ اس سے متفق نہیں کہ وہ فیصلہ صحیح تھا بلکہ انہوں نے یہ کہا کہ لندن کے فلیٹس کے سلسلے میں وہ کوئی معقول صفائی کے وکلاءدلائل نہیں دے سکے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ 12 تاریخ کو پھر بحث ہو گی اور اس بحث میں 12 تاریخ یا اس سے اگلی کسی بھی تاریخ میں سپریم کورٹ ہائی کورٹ کی سزا معطل کر سکتا ہے کیونکہ الفاظ سپریم کورٹ کے یہ ہیں کہ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نظر نہیں آتا کہ سپریم کورٹ جو ہے وہ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو جس کے تحت نوازشریف کی سزا معطل کی گئی تھی اور ان کو رہا کیا گیا تھا اس کو وہ رپورٹ کر دیں۔
پروگرام میں سینئر قانون دان ایس ایم ظفر نے ٹیلی فونک شرکت کی ۔ ضیا شاہد نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ کے نواز شریف سزا معطلی کیس پر ریمارکس میںہائی کورٹ کے فیصلے کو تبدیل کرنے کے عندیہ پر آپ کیا فرماتے ہیں۔
ایس ایم ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اعتراض اپنے بیان میں دیا ہے کہ ضمانت کا آرڈر اتنا طویل نہیں ہوتا جتنا ہم نے ہائی کورٹ کے آرڈر میں دیکھا ہے۔ ہائی کورٹ کا نواز شریف کی عبوری ضمانت کے لیے فیصلہ غیر معمولی اور بہت طویل ہے۔ ہائی کورٹ کی مشکل یہ ہے کہ انہیں جب یقین ہو گیا کہ یہ ضمانت کے حقدار ہیں تو انکی راہ میں رکاوٹ آئی کہ 10 سال تک جسکی سزا ہو تو ضمانت قانونی طور پر نہیں ہو سکتی ۔ ہائی کورٹ کے جج صاحبان نے اس مشکل کو حل کرنے کے لیے یہ جواز آگے بڑھایا اور دلیل دی کہ ہم نے اب تک ماتحت عدالت کا جو فیصلہ پڑھا ہے اسمیں بڑی خامیاں ہیں۔جسکی وجہ سے دکھائی نہیں دیتا کہ فیصلہ ہو۔ چنانچہ ممکن ہے کہ جب ہم اپیل سنیں تو سزا کم یا ختم ہو جائے۔ اس لیے ہم ضمانت دے رہے ہیں۔ یہ الجھا ہوا سا معاملہ ہوا ہے۔ ہو سکتا ہے اگر ہائی کورٹ کا فیصلہ پختگی کے قریب ہے تو اسی پر فیصلہ ہو جائے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے وکلا کو وارننگ دی گئی ہے کہ آپ تیار ہو کر آئیے اور ہماری تسلی کریں کہ یہ فیصلہ درست ہے ۔ سپریم کورٹ کے اس قسم کی بیان کو وکلا صاحبان عام طورپر بہت زیادہ توجہ اس سلسلے میں نہیں دیتے کہ یہی فیصلہ ہوگا۔ وکلا جج صاحبان کے ذہن میں ابھرتے ہوئے سوالات کی تیاری کرتے ہیں کہ جج صاحبان کی تسلی کریں۔ اور اگر وکلا تسلی نہیں کر سکے تو وہ اپنی سوچ کے مطابق فیصلہ کرسکیں گے۔
ضیا شاہد نے پوچھا کہ وزیراعظم کے دورہ چین سے واپسی پر قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کے فیصلوں میں نمایاں بات ملک میں ہر قیمت پر قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کی سامنے آئی ہے۔ دوسری جانب دھرنے میں قانون توڑنے والوں کیخلاف مقدمات درج کرنے کی بات پر آپ کیا فرماتے ہیں۔
ایس ایم ظفر نے کہا کہ معاہدے سیاسی ہوتے ہیں اور سیاست سے آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ یہ کہنا کہ کوئی معاہدہ آئین کی خلاف ورزی اور قانون توڑنے والوں کو معاہدے کی وجہ سے چھوڑ سکتا ہے اور اگر یہ الفاظ معاہدے میں لکھے بھی ہوئے ہوں تب بھی بے معنی ہوں گے۔ کوئی بھی معاہدہ آئین و قانون کی مخالفت میں ہو ، کوئی کہے کہ میں قانون کو نہیں مانتا ، میں بغاوت کرنا چاہتا ہوں یا کوئی کسی کی پراپرٹی کو توڑے یا کسی کو مار دے تواس سلسلے میں حکومت کی جانب سے کوئی صلح نامہ نہیں ہو سکتا جسکے باعث قانون ختم ہوجائے۔ قانون کی بالادستی کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ اسکے مقابلے میں کوئی معاہدہ نہیں ہو سکتا۔
ضیا شاہد نے پروگرام میں مزید کہا کہ آصف علی زرداری کے فرنٹ میں انور مجید نے صوبہ سندھ کی ساری کی ساری چینی کی ملیں خرید لی تھیں۔ اب انکے خلاف منی لانڈرنگ کے بہت سارے الزامات بھی ہیں اور ایک گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی ہے اور انکے جنرل مینجر نے قبول کیا ہے کہ انہوں نے بہت سا پیسہ باہر بھجوایا۔ میرے خیال میں آصف علی زرداری کا اشارہ اس طرف ہے کہ انکے قریبی لوگوں کو جس طرح سے پکڑا جا رہا ہے کسی بھی وقت انکا نام بھی بیچ میں آسکتا ہے کہ فلاں وقت میں فلاں جو رقوم بھیجی گئیں وہ انکے ایماءپر بھی بھیجی گئی تھیں۔ یاد ہو گا کہ ایان علی کاکیس بھی من وعن یہی کیس تھا ۔ اس وقت منی لانڈرنگ اتنا بڑا جرم نہیں سمجھا جاتا تھا۔ منی لانڈرنگ پر آج نہ صرف ملک میں شور مچا ہوا ہے بلکہ بینکوں کے ذریعے جس طرح سے قلفی والوں کے اکاﺅنٹ سے ڈھائی ڈھائی ارب روپے نکل رہے ہیں ۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے اس پر آصف علی زرداری پر براہ راست تو کوئی کیس درج نہیں ہوا لیکن لگتا یہ ہے کہ انکے قریبی لوگوں کی گرفتاری سے یہ انہیں یہ شک ہے کہ انہیں بھی شامل نہ کر لیا جائے۔ لیکن یہ تب ہی ہوگا جب کوئی مقدمہ براہ راست انکے خلاف ہوگا۔ سیاست میں سب باتیں ہیں ورنہ ڈیل کے بغیر کون نہیں آیا۔ خود بے نظیر بھٹواور اس سے پہلے پیپلز پارٹی نے این آر او کر کے ڈیل کی ۔ ایک این آر او کیا گیا کہ فلاں تاریخ سے فلاں تاریخ تک تمام مقدمات ختم کر دئیے گئے ہیں ۔ اسمیں ایم کیو ایم ، بیوروکریسی اور بہت سارے دیگر جرائم کے مجرم بھی رہا ہوئے اور اسی میں بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور بہت سے پیپلز پارٹی کے لوگ رہا ہوئے۔ اسکے بعد آج پرویز مشرف اپنے متعدد انٹرویوز میں کہہ چکے ہیں کہ این آر او انکی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ پاکستان سپریم کورٹ نے این آر او کو ایک ناجائز قانون قرار دیا تھااور مخالفت اور کھلی مذمت کر کے یہ حکم دیاتھا کہ جن لوگوں کو این آر او کے ذریعے رہائیاں ملی تھیںان پر دوبارہ مقدمات چلائے جائیں۔
پاکستانی بینکوں کے ڈیٹاپر بین الاقوامی ہیکرز کے حملوں پر ضیا شاہد کا کہنا تھاکہ موبائل لیپ ٹاپ یا کسی بھی جگہ پر آپکی ڈیٹا اینٹری ہو چرائی جا سکتی ہے اور یہ چوری سائبر کرائمز میں آتی ہے۔ آج خوفناک انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان کے بہت سارے بینکوں کے بے شمار اکاﺅنٹس کا ڈیٹا چرا لیا گیا ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ یہ وہی بینک اکاﺅنٹس ہیں جنکے ذریعے پیسا باہر بھیجا جا رہا تھا۔سائبر کرائمز اور ایف آئی اے کو اس سلسلے میں فوری توجہ دینی چاہئے۔آج میری پنجاب حکومت کے ایف آئی اے کے اعلیٰ ترین افسروں سے ملاقات ہوئی ہے اور میں نے ان سے سوال بھی کیا ۔ انکا کہنا یہ تھا کہ زیادہ تر ایسے کیسز صوبہ سندھ میں ہوئے ہیںاور کراچی ہی کے بینکوں سے یہ خبریں آئی ہیں لہذا اصل کاروائی وہیں ہوگی۔ وہ توجہ دلوا رہے تھے کہ آپکو حقیقی معلومات اس جے آئی ٹی سے مل سکتی ہیںجسکو اس کام کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔اب یہ کاروائی ایف آئی اے حکام کی بجائے جے آئی ٹی کے فیصلوں کے مطابق ہو رہی ہے۔ جے آئی ٹی والے فائنل رپورٹ میں کسے مجرم قرار دیتے ہیں اور کسے بے گناہ اسکے لیے ہمیں انتظار کرنا پڑے گا۔
چوہدری نثار کے اکوڑہ خٹک میں مولانا سمیع الحق کے قتل کی تعزیت کے موقع پر میڈیا کو دئیے گئے بیان پر ضیا شاہد نے کہا کہ انکی بات میں وزن ہے ۔ مسلم لیگ کے گروپس ہیں،مسلم لیگ ن نواز شریف کی ماتحت ہے۔ چوہدری نثار نے یہی غلطی پہلے بھی کی تھی ۔ کہتے ہیں کہ پانی میں رہ کے مگر مچھوں سے بیر تو نہیں کیا جاسکتا۔ یہی حساب ہے کہ تھے وہ پاکستان مسلم لیگ ن میں لیکن نواز شریف پر تنقید کر رہے تھے۔ انکی بیٹی کی قیادت کو وہ قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ چوہد ری نثار صاحب اب تک تو آپکو پتا چل چکا ہوگا، آپ سیانے آدمی ہیں۔ یہاں جماعتیں افراد کی بنی ہوئی ہیں۔ چنانچہ آپکے سامنے مولانا سمیع الحق کا دردناک اور بیہمانہ انداز میں قتل کیا گیا اور انہیں شہید کیا گیالیکن یہ دیکھیں کہ انہوں نے بھی فوراًانکے بیٹے کو سربراہ بنا لیا۔ یہاں تو بیٹادر بیٹا دربیٹا چلتا ہے اور چوہدری نثار علی خان آپکے بیٹے کا تو ہمیں نام بھی نہیں پتا۔ آپکو اب بھی یہ دیکھنا چاہئے کہ اگر آپ مسلم لیگ ن میں ہیں تو جائیں مسلم لیگ ن کے اصل سربراہ نواز شریف سے معافی تلافی کریں انکے گٹے گوڈے پکڑیںپھر تو آپ پارٹی میں رہ سکتے ہیں۔ باہر کھڑے ہو کے انکے خلاف باتیں بھی کرنا انکے امیدوار کے خلاف الیکشن بھی لڑنا اور یہ بھی دعویٰ کرنا کہ میں مسلم لیگ ن میں ہوں ۔ آپ کہنا چاہتے ہیں تو کہہ دیں کسی کی زبان کون روک سکتا ہے ۔ آپ جب مسلم لیگ ن کی امیدوار کے مقابلے امیدوار کھڑے ہوگئے تو آپ کس مسلم لیگ میں ہیں۔
پتوکی میں محنت کش نوجوان کے اجرت مانگنے پر اسے پیٹرول چھڑک کر آگ لگانے کے واقعے پر ضیا شاہد نے کہا کہ میں پتوکی کے اخبارات سے متعلق لوگوں کی عزت کرتا ہوں لیکن مجھے حیرت ہوئی کہ وہاں سے سوائے نمائندہ خبریں کے کسی نے یہ خبر نہیں بھیجی۔ یہ چھوٹی خبر نہیں کہ ایک شخص اپنی مزدوری کی اجرت مانگتا ہے اور اسے مزدوری کی اجرت دینے کی بجائے پہلے مارا پیٹا جاتا ہے اور پھر اس پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی جاتی ہے۔
پتوکی سے نمائندہ خبریں تنویر اسلم نے ٹیلی فونک گفتگو میں بتایا کہ یہ افسوسناک واقعہ پتوکی کے علاقے اسماعیل ٹاﺅن میں پیش آیا ہے۔ محمد سلیم کا بیٹا محمد طارق جو ٹریکٹر ٹرالی کا ڈرائیور تھا اس نے ملزمان سے اپنی مزدوری کے پیسے مانگے جس پر وہ اسے اپنے ساتھ محمد بوٹا کے گھر لے گئے اور اسے ایک کمرے میں بند کر کے ڈنڈوں سے تشدد کا نشانہ بنایا ۔ اسکے بعد اسے پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی جس سے وہ بری طرح جھلس گیا۔
ضیا شاہد نے پوچھا کہ کیا تیل چھڑک کر آگ لگانے والوں کو گرفتار کیا گیا ہے؟
نمائندہ خبریں کا کہنا تھا کہ 4 نامزدملزمان میں سے 3 کو گرفتار کر لیا گیا ہے جن میں لیاقت عرف باﺅ ، رزاق عرف ذاکر شامل ہیں۔
ضیا شاہد نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ سوائے روزنامہ خبریں کے سوا کسی اور اخبار نے اس خبر کو شائع نہیں کیا۔ پتوکی کے قابل احترام اخبار نویس کی نظرمیں کیا یہ کوئی خبر ہی نہیں ہے کہ کسی اخبار میں شائع نہیں کی گئی۔
تنویر اسلم نے کہا کہ خبریں کا اعزاز رہا ہے کہ خبریں نے جہاں ظلم وہاں خبریں کے سلوگن کو ابھارا اور بھرپور کوریج دی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ خبر روزنامہ خبریں میں نمایاں طور پر لگائی گئی ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain