تازہ تر ین

تفتیش کا بیان 161 کے تحت لکھا جاتا ہے ٹرائل سے پہلے ملزم کو بھی نہیں بتایا جاتا: خالد رانجھا ، ڈی جی نیب کے انٹرویو سے سیاستدان غصے کیوں ، سچے ہیں تو جواب دیں : ضیا شاہد ،اگر قانون اجازت دیتا ہے تو بلا امتیاز مشرف اور زرداری بارے تحقیقات سامنے لائی جائیں : علی ظفر ، چینل۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ لاہور کی ایک ہاﺅسنگ سوسائٹی میں چھاپہ مارا گیا ہے اور گریڈ 16 کے افسر کے گھر سے بھاری تعداد میں کرنسی، پرائز بانڈ اور غیر ملکی کرنسی برآمد ہوئی ہے پتہ چلا ہے کہ یہ ایک ایکسائز انسپکٹر ہے کسی اور سلسلے میں کچھ کاغذات کی تلاش کے سلسلے میں چھاپہ مارا تو یہ چیزیں برآمد ہوئی ہیں۔ تھانہ احمد پور سیال میں جعلی کرنسی بھی برآمد ہوئی ہے۔ لوٹ مار کے دور میں ایسا کام شروع ہو جاتا ہے اور کرنسی چھاپنے کے لئے اعلیٰ کوالٹی کا کاغذ امپورٹ کیا جاتا ہے اور بڑی اعلیٰ معیار کی پرنٹنگ کے لئے مشین باہر سے منگوائی جاتی ہیں۔ اس کا اور زیادہ نقصان ہے اس کرنسی کے پیچھے نہ تو کوئی محفوظ سرمایہ ہوتا ہے وہ تو 100 فیصد کسی ملک میں سازش کرنے کے لئے جعلی کرنسی پھیلا دی جاتی ہے۔
ڈی جی نیب کے ایک ٹی وی انٹرویو کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ ن لیگ کا موقف ہے کہ ڈی جی نیب نے ن لیگ کے بندوں پر کافی سنگین الزامات لگائے ہیں ان الزامات میں کہا گیا ہے کہ فلاں فلاں لیڈر کا نام بھی ہمارے پاس ہے۔ مثلاً کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے بھی فلاں فلاں لوگ پکڑے جانے والے ہیں اور زیادہ تعداد جس کا ذکر کیا گیا ہے وہ مسلم لیگ ن کے لوگوں کی ہے۔ مسلم لیگ نے کہا ہے کہ ان کو کیسے پتہ چل گیا اور انہوں نے اسے میڈیا پر کیسے آﺅٹ کر دیا اس مسئلے پر اور بھی قومی اسمبلی میں بحثیں چھڑیں گی کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ ٹی وی چینلز کے انٹرویوز میں بہت سے لوگوں کو مجرم گردانا گیا ہے۔ ن لیگ کا موقف ہے کہ یہ بغیر کسی ثبوت کے الزام لگا رہے ہیں۔ اس بات کا فیصلہ تو چیئرمین کو کرنا چاہئے کہ نیب کا ایک ذمہ دار افسر کیا کسی چینل پر اس طرح بات کر سکتا ہے یا نہیں کیونکہ ڈی جی نیب جنہوں نے انٹرویو دیئے ہیں وہ پنجاب کے سربراہ ہیں۔ اور لاہور میں ٹھوکر نیاز بیگ میں ان کا آفس ہے۔ یہ وہی جگہ ہے کہ جہاں شہباز شریف بھی تحقیقات کے لئے لائے گئے۔ فواد حسن فواد کو بھی لایا گیا تھا۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے تحریک استحقاق جمع کرانے کی کوشش کی گئی ن لیگ نے جمع کرا دی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ سپیکر شاید اس کی اجازت نہیں دیں گے اس لئے کہ میں ذاتی طور پر اس خیال سے متفق ہوں کہ خواہ ایم این اے، ایم پی اے ہو، خواہ کوئی سرکاری ملازم ہو خوہ سول کا کوئی آدمی ہو نیب ایک احتسابی ادارہ اور اس کو حق حاصل ہے کہ وہ اس قسم کے ملزموں کے بارے میں بات چیت کر سکے لہٰذا میرا خیال ہے کہ شاید اس پر تحریک استحقاق نہ ہو سکے۔ اسمبلی کے قواعد و ضوابط جس کی جازت دیتے ہوں گے وہی کام ہو سکتا ہے جس طرح سے کسی بھی ادارے کے قوانین ہوتے ہیں اس طرح سے اسمبلی میں ایوانن کی کارروائی چلانے کے اپنے آداب ہوتے ہیں ان کو رولز اینڈ ریگولیشن کا پمفلٹ چھپا ہوا ملتا ہے اس میں لکھا ہوتا ہے کہ صوبائی اسمبلی کے رولز میں اس طرح پر قومی اسمبلی کے کیا اصول و قوانین ہیں ایک چھپا ہوا پرنٹڈ فارم میںایک ایک لسٹ ملتی ہے اور ساری جتنی بھی کارروائی ہوتی ہے اس بک لیٹ کے تحت انجام پاتی ہے۔
این آر او کیس کی سماعت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ سینئر قانون دان سے پوچھا جائے کہ اگر 16 ویں گریڈ کے افسر کے گھر چھاپہ مارا جا سکتا ہے۔ انسپکٹر کے اثاثہ جات بتائے جا سکتے ہیں تو پاکستان کے دو ٹاپ کے ایک سابق صدر مملکت جنرل مشرف رہے ہیں اور دوسرے بھی صدر پاکستان رہے ہیں آصف زرداری صاحب اور آج بھی قومی اسمبلی کے وہ ممبر ہیں کس وجہ سے عدالت نے آرڈر دیا ہے غالباً عدالت کا مفہوم تو یہ ہے کہ جب تک کوئی چیز ثابت نہ ہو جائے اس وقت تک سکینڈل کے طور پر نہ پھیلے۔ اس کے باوجود میری خواہش ہو گی کہ کسی سینئر قانون دان سے رائے لی جائے۔ خالد رانجھا صاحب! جنرل مشرف اور زرداری کے حوالے سے عدالت نے کہا ہے کہ جب تک کیس کی سماعت جاری ہے ان کے اثاثہ جات نہ بتائے جائیں، میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں۔ اس کی کیا وجہ ہے آج 16 گریڈ کا ایک افسر جو ہے اس کے گھر پولیس نے چھاپہ مارا اور وہاں سے 33 کروڑ کے اثاثہ جات برآمد ہوئے جس میں غیر ملکی کرنسی بھی تھی۔ اگر سابق صدور کے پاس اگر ایکسٹرا منی واقعی ہے۔ عدالت نے کس بنیاد پر کہا ہو گا کہ فی الحال ان کے اثاثہ جات جو ہیں وہ راز میں رکھے جائیں ان کو نہ اوپن کیا جائے اس کی وجہ کیا ہے۔ معروف قانون دان خالد رانجھا نے کہا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو تفتیش ہے اس کے بیان 161 کے لکھے جاتے ہیں جو کہ انہں نے کہا وہ لکھا جاتا ہے اور ٹرائل سے پہلے یہ ملزم کو نہیں مل پاتے۔ اگر آپ نے ملزم کو نہیں مہیا کرنے تو پھر کسی کو نہیں بتائیں۔ اس کے پیچھے منطق یہ ہے جب پراسیکیوشن مکمل ہو جائےتو پھر ملزم کو بتایا جانا ضروری ہوتا ہے کہ تمہارے خلاف یہ شہادت ہے۔
نیب کے اس فیصلے پر یہ جعلی اور فرضی درخواستوں پر الزام ثابت نہ ہونے پر درخواست دینے والے کو بھی سزا ہو گی۔ اس پر گفتگو کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ اس کو اُردو میں بہتان تراشی کہتے ہیں۔ کسی پر جھوٹا الزام لگانا۔ یہ نیب نے بہت اچھی وضاحت کی ہے کیونکہ ہمارے ہاں عام مشاہدہ ہے کہ لوگ ایک دوسشرے کے خلاف کھٹا کھٹ درخواستیں دیتے ہیں۔ حمزہ شہباز کی نیب میں پیشی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ وہ جتنا پیش نہیں ہوں گے کیس اور مشکوک ہوں گے۔ اگر کوئی شخص ہوں اگر ان کے بھائی ہوں یا بہنوئی موقع ملتے ہی ملک سے باہر چلے گئے ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ ان کے خلاف جو الزامات ہیں ان کے جواب میں صفائی کے لئے کچھ نہیں ہے اس لئے وہ بھاگ رہے ہیں۔
ضیا شاہد نے علی ظفر سے سوال کیا کہ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف اور آصف زرداری کے اثاثہ جات کے بارے میں اور انکم کے بارے میں منع کر دیا ہے کہ ابھی ان کو سامنے نہ لایا جائے۔ اس میں عدالت کا کیا منشا ہے۔ کیونکہ ایک طرف ہم یہ کہتے ہیں کہ 16 گریڈ کے افسر کے گھر سے کل 33 کروڑ روپے برآمد ہوئے۔ ایکسائز انسپکٹر کو تو پکڑ لیتے ہیں اوپن بھی کر دیتے ہیں دوسری طرف بڑی شخصیت ہوتی ہے تو اس کے بارے میں عدالت بھی کہتی ہے جب تک تحقیق نہ ہو جائے اس کی اماﺅنٹ نہ بتائی جائے کیا فرماتے ہیں آپ؟
معروف قانون دان علی ظفر نے کہا ہے کہ اصولاً تو جو قانون ہے وہ ہر ایک پر برابر لاگو ہونا چاہئے چاہے وہ بڑا ہو چھوٹا ہو طاقت ور ہو، کمزور یہی رول آف لاءکا کانسپٹ ہے میرے مطابق جب تک ایک شخص کا ٹرائل ہو رہا ہے یا اس کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہیں تو اس کے بارے میں جب بحث ہوتی ہے جب عدالت اس میں مداخلت کرتی ہے یا تحیقاتی ایجنسیاں آ کر باہر بیانات دینا شروع کر دیتی ہیں تو پھر اس کا جو مقدمہ ہے اس کا مقدمے کی جو فیئرنس ہے بالکل تباہ ہو کر رہ جاتی ہے تو میرے خیال کے مطابق قانون ہر ایک پر لاگو ہونا چاہئے اگر قانون یہ اجازت دیتا ہے کہ ایک شخص کی تحقیقات ہو رہی ہے تو اس کی ساری تحقیقات سامنے لائی جائےتو پھر ہر ایک کے لئے ہونا چاہئے اگر قانون یہ اجازت نہیں دیتا تو کسی کو بھی اجازت نہیں ہونی چاہئے وہ چھوٹا ہو گیا بڑا ہو۔
ضیا شاہد نے پوچھا کہ اوپر نیچے اس قسم کی اطلاع آ رہی ہیں اخبارات اس سے بھرے پڑے ہیں۔ تقریباً ہر روز ایک نئی تعداد سامنے آ جاتی ہے کہ اتنے بینکوں میں اتنے اکاﺅنٹس ہیک ہو گئے ہر شخص پریشان ہے میں نے دیکھا ہے کہ ایک بینک کی برانچ کے سامنے اتنے زیادہ لوگ اس کے اندر گئے ہوئے تھے اور اپنے اپنے اکاﺅنٹس بارے میں جانچ پڑتال کر رہے تھے۔ حکومت اس سلسلے میں، ایک طرف سے سٹیٹ بینک کی طرف سے ایک اطلاع آئی ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ نہیں جناب یہ ساری جھوٹی باتیں ہیں اور اس قسم کی کوئی بات نہیں کس کا اکاﺅنٹ ہیک نہیں ہوا اور آپ اطمینان رکھیں۔ دوسری طرف جتنے رپورٹرز ہںی جتنے اخبارات اور چینلز کے وہ مصر ہیں بلکہ تعداد دے رہے ہیں کہ بینکوں کی تعداد دے رہے ہیں ہیکرز کی تعداد دے رہے ہیں اماﺅنٹ کی تعداد دے رہے ہیں پوری قوم ایک عذاب میں مبتلا ہے۔ آپ تجویز دیں بطور ماہر قانون تا کہ لوگوں کو تسلی ہو۔
علی ظفر نے کہا یہ درست بات ہے کہ مجھے خود بہت سے لوگوں نے اس بارے میں پوچھا ہے اس بارے میں پریشان ہیںکیونکہ یہ ایک طرف تو اخبارات اور سوشل میڈیا پر بھی یہ بات آ رہی ہے کہ بار بار کہ بہت سارے اکاﺅنٹ ہیک ہو گئے ہیں اور دوسری طرف سٹیٹ بینک کی ایک سٹیٹ منٹ آئی ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر یہ غلط خبر ہے تو منسٹری آف انفارمیشن کو درخواست کرنی چاہئے پیمرا کو جو ریگولیٹری اتھارٹی ہے کہ اس کو تہہ تک پہنچیں کہ اگر یہ غلط خبر چلائی جا رہی ہے تو اس کی میڈیا کو ہی کہیں کہ تردید کرے اور اس کے ساتھ ساتھ سٹیٹ بینک کے گورنر کو خود آنا چاہئے اور یہ بیان بڑا واضح طور پر دینا چاہئے کہ ایسی بات نہیں ہے تا کہ لوگوں میں جو پریشانی ہے وہ کم ہو سکے۔ یہاں تک کہ میں آپ کو بتاﺅں کہ جب یہ ساری خبریں آ رہی تھیں تو مجھے خود اکاﺅنٹس چیک کرنے پڑے کیونکہ پریشان تو انسان ہو جاتا ہے۔ ہیکنگ ہو سکتی ہے یہ ممکن ہے کہ ہیک ہو جائے لیکن اگر پریشان کرنے کی کوشش ہے تو پھر سٹیٹ بینک اور حکومت کو بھی واضح طور پر موقف دینا پڑے گا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے تا کہ لوگ اطمینان سے اپنا کاروبار زندگی کرتے رہیں۔
ضیا شاہد نے کہا کہ آپ نے اپنے ادارے میں آپ کے کولیگز نے کوئی ایسا واقعہ اخباری آیا ہے کہ آپ کے گردوپیش میں کسی صاحب نے کہا ہو کہ اس کا اکاﺅنٹ ہیک ہو گیا ہے اب اس سے پیسے نکل گئے ہیں۔
علی ظفر نے جواب دیا کہ جیسا میں نے بتایا بہت سارے لوگوں نے پوچھا لیکن مجھے کوئی ایسی مثال نہیں ہے کہ کسی نے بتایا ہو کہ ان کے ساتھ واقعی ہی ان کے ساتھ کوئی واقعہ ہوا ہے۔ پریشانی کی حد تک ضرور کیا۔ لوگوں نے میڈیا کی رپورٹس کی بنیاد پر آ کر پوچھا کہ اس کا کیا ہو گا اگر ہمارے اکاﺅنٹ سے ہیک ہو تو ہماری کیا قانونی رائٹ ہو گا۔
گورنر پنجاب سے اپنی ملاقات کے حوالے سے گفتگوکرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ اصل میں میں اور امتنان شاہد صاحب جو سی ای او بھی ہیں چینل ۵ کے اور ایڈیٹر خبریں گروپ بھی ہیں وہ بھی تھے میں بھی تھا۔ چودھری سرور صاحب سے جب وہ برطانیہ میں ہوتے تھے تو اس وقت سے میری ان سے دوستی ہے۔ جب وہ پہلی مرتبہ یہاں آئے تھے تو گورنر کا حلف اٹھانے سے پہلے نوازشریف کے دور میں بھی ایک مرتبہ یہ گورنر بنے تھے اور پھر انہوں نے استعفیٰ دے کر پی ٹی آئی جوائن کر لی تھی۔ پھر یہ سینٹ کے ممبر منتخب ہوئے اور ممبر شپ چھوڑ کر اور یہ پنجاب کے گورنر نامزد ہوئے۔ ایک بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ برطانوی پارلیمنٹ کے مدتوں ممبر رہے اور بہت سینئر آدمی ہیں اور یہ مسلمان اور پاکستانی ہونے کے باوجود گلاسکو میں ان کا کاروبار ہے اور یہ جو تھے ایک باقاعدہ سیاسی کی طرف سے یہ ایک برطانوی پارلیمنٹ کے عرصے تک رکن رہے ہیں۔ ہمارے جانے کا مقصد چینلز میں اور اخبارات میں یہ جو بزنس کی اخبار ہو یا چینل ہو۔ جن گھروں میں چینل ۵ دیکھا جا رہا ہے ان کو کوئی پیسے نہیں دینے پڑتے پاکستان سے باہر دنیا میں مختلف جگہوں پر ایسے چینلز موجود ہیں جن کے لئے آپ کو کچھ پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ باہر کوئی چینل دیکھنے کے لئے کچھ نہ کچھ پیسے ادا کرنا پڑتے ہیں ہمارے یہاں چونکہ کوئی ایسا نظام نہیں ہے اس لئے چینلز سارا خرچ خود برداشت کرتے ہیں۔ اپنے طور پر چینل اشتہارات کا بزنس جمع کرتا ہے اور اس اشتہارات کے بزنس میں یا اپنی جیب سے کچھ پیسے ڈال کر ایک چینل کو چلاتا ہے۔ ایسے ہی اخبار کی کچھ آمدن اخبار کی فروخت سے جنریٹ کرتاہے اور کچھ جو ہے وہ اشتہارات کی آمدن سے، اخبارات میں اشتہارات چھپتے ہیں۔ دونوں شکلوں میں دو بہت بڑے اخبار آئے۔ چینلز اور اخبارات پر بھی۔ سب سے پہلے تو سپریم کورٹ نے آپ کو یاد ہو گا کہ جناب شہباز شریف کی تصویر جو تھی وہ ٹی وی اشتہارات میں چھپتی تھی اور پھر بڑے بڑے اخبارات کے اشتہارات کے کونے میں نوازشریف یا شہباز شریف کی یا حمزہ شہباز کی یا محتلف وزراءتھے ان کی تصویر چھپتی تھی اس تصویر کا نوٹس لیا سپریم کورٹ آف پاکستان نے موجودہ چیف جسٹس جناب جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب نے ، چنانچہ انہوں نے اس کی تین پارٹیاں تھیں۔ ایک پارٹی تھی سی پی این ای (یعنی کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز) میں دو سال تک اس کا صدر رہا ہوں جو پاکستانی اخبارات کے ایڈیٹرز کی تنظیم ہے آج کل عارف نظامی صاحب اس کے صدر ہیں لیکن امتنان شاہد صاحب اس کے سینئر نائب صدر ہیں۔ تو اس وقت اس مقدمے میں ہم پانچ مرتبہ سپریم کورٹ میں حاضر ہوئے تھے اس مقدمے کے نتیجے میں پھر یہ طے ہوا تھا کہ میڈیا پر کسی کی تصویر والا اشتہار نہیں چلے گا۔ عدالت کا موقف تھا کہ یہ قوم کا پیسہ ہے، ذاتی تشہیر پر خرچ نہیں کر سکتے۔ سابقہ پنجاب حکومت کی آخری اشتہاری مہم 55 لاکھ روپے کی تھی، اس پر سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ اس میں شہباز شریف کی تصویرہے لہٰذا شہباز شریف 55 لاکھ روپے اپنی جیب سے ادا کریں۔ جس سے ایک دم میڈیا کا بزنس کم ہو گیا۔ اخبارات میں 70 فیصد سے زائد حصہ نیوز پرنٹ ہوتا ہے اس کی قیمتیں بڑھ گئیں، 70 روپے فی کلو گرام نیوز پرنٹ تھا جو بڑھ کر 130 روپے فی کلو ہو گیا۔ مجموعی طور پر ڈیڑھ سے دو گنا اضافہ ہو گیا۔ اخباری صنعت بالکل ہی بیٹھ گئی، چینلز پر بھی اشتہارات کم ہو گئے، اوپر سے یہ حکومت آ گئی، عمران خان حکومت نے پہلے 3 مہینوں میں کچھ اصلاحات کرنا تھیں اس کی وجہ سے وقتی طور پر تو تمام اشتہاری مہم روک دی گئی، اب آہستہ آہستہ دوبارہ سرکاری بزنس شروع ہوا ہے۔ تب کسی پکڑ دھکڑ خاص طور پر ہاﺅسنگ سوسائٹیوں کے حوالے کے باعث 90 فیصد پرائیویٹ بزنس غائب ہو گیا۔اس وقت اخبار و چینلز بہت مشکل میں ہیں۔ چینلز میں 25 سے 30 فیصد لوگوں کو فارغ کیا جا رہا ہے جو ریگولر نہیں تھے۔ گورنر پنجاب سے کہا کہ آپ تو اشتہاری مہم کی اہمیت سے واقف ہیں۔ سرکاری و غیر سرکاری اشتہارات کم ہو گئے ہیں۔ لوگ اشتہار دیتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ نیب نہ پکڑ لے کہ اتنے پیسے تمہارے پاس کہاں سے اائے؟ میڈیا میں اس وقت شدید قسم کا مالی بحران ہے، عملے کی تخفیف شروع ہو گئی ہے جس کی وجہ سے بے روزگاریوں کا خوف پیدا ہو گیا ہے۔ چودھری سرور نے کہا کہ اب صورتحال بہتر ہو رہی ہے، میڈیا کو بھی فرق پڑے گا۔ پہلے 100 دن پورے ہونے کے قریب ہیں، حالات معمول پر آ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سی پی این ای ہماری ایک تنظیم ہے جس کے صدر عارف نظامی اور سینئر نائب صدر امتنان شاہد ہیں کوشش کریں گے کہ وہ اس صورتحال پر قابو پائیں۔ بزننس کم ہونے کے باعث میڈیا کی ساری صنعت جھٹکے لے رہی ہے۔ گورنر پنجاب چودھری سرور کا گلاسکو میں بہت بڑا سٹور ہے وہاں دکانیں ہیں، ان کے بیٹے نے وہاں سے الیکشن بھی لڑا تھا۔ ہماری یہ کوشش ہے کہ اخباری و چینلز کی صنعت میں جو مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ حکومت، میڈیا اور پاکستان ایڈورٹائزنگ ایسوسی ایشن (پی اے اے) مل کر اس بحران پر قابو پائیں۔ انٹرنیشنل نیوز پرنٹ کی قیمتوں میں تھوڑی سی کمی ہوئی ہے اگر قیمتیں کم ہو جاتی ہیں تو شاید موجودہ نقصان کی صورتحال میں کمی واقع ہو۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain