تازہ تر ین

کرتار پور کی طرح کنٹرول لائن پر 11 کوریڈور کھولے جائیں ، دونوں طرف تقسیم خاندانوں کا مطالبہ

سرینگر (اے این این) کنٹرول لائن اور ورکنگ باو¿نڈری پر رہائش پزیر منقسم خاندانوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کرتار پور سرحد کھولے جانے کا خیر مقدم کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ کنٹرول لائن پر11کوریڈور کھولے جائیں۔ مقبوضہ کشمیر کے مقامی میڈیا کے مطابق1947کی جبری تقسیم کے بعد منقسم ہوئے خاندانوں کیلئے نئے 11راہداری پوائنٹ کھولنے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہونے سے رہ گیا ہے کرتار پور راہداری پوائنٹ کھولنے کے بعد منقسم خاندانوں میں بھی یہ مانگ زور پکڑتی جا رہی ہے کہ انہیں بھی برسوں سے بچھڑے اپنے عزیز واقارب سے ملنے کا موقعہ آسانی سے فراہم کیا جائے ۔معلوم رہے کہ پی ڈی پی نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کے دوران اپنے ایجنڈا آف الائنس میں جموں سیالکوٹ ، چھمب میرپور ، گریز استور گلگت ، نوشہرہ میر پور ،کوٹلی ترتوک ، ترتوک کھپلو،کرگل اسکردو ، ٹیٹوال چلہانہ راہداری پوائنٹ کھولنے پر اتفاق کیا تھا، تاہم نہ سرکار کے ہوتے ہوئے ان معاملات پر کوئی پیشرفت ہوئی اور نہ سرکار گرنے کے بعد کوئی پیشرفت ہونے کا کوئی امکان ہے۔منقسم خاندانوں کا کہنا ہے کہ ان راہداری پوائنٹوں کے کھلنے سے صدریوں سے بچھڑے لوگ نہ صرف ایک دوسرے سے ملتے بلکہ آر پار تجارت بھی ہوتی ۔حال ہی میں بھارت نے سکھ یاتریوں کیلئے باضابطہ طور پر کرتارپور صاحب راہداری تعمیر کرنے کے لئے سنگ بنیاد رکھ دیا ہے اس دوران یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس راہ داری پوائنٹ پر تمام قسم کی سہولتیں موجود ہوں گی۔ یہاں تک کہ ویزا اور کسٹم کی سہولت بھی ہوگی۔کشمیر کے منقسم خاندانوں میں بھی یہ مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے کہ ریاست کے آر پار بھی 9راہداری پوائنٹوں کو کھولا جائے اور ساتھ ہی 13سال قبل کھولے گئے راہداری مقامات سے آواجاہی کو آسان کیا جائے ۔اس میں کوئی دوہرائے نہیں کہ سال 2002میں جب ریاست میں پی ڈی پی سرکار تھی اور پاکستان میں جنرل پرویز مشروف نظام سنبھال رہے تھے تو اس وقت سال2005میں سرحد کے آر پار 5مقامات سے راہداری پوائنٹ کھولے گئے تھے اس دوران ہزاروں کی تعداد میں لوگ برسوں بعد اپنے بچھڑوںسے ملے لیکن اس سب کے بیچ ہزاروں لوگوں کا یہ خواب پورا نہیں ہو سکا ہے۔دوسری جانب بھارت سابق مرکزی وزیر اور کانگریس لیڈر پروفیسر سیف الدین سوز نے بھارت اور پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کرگل اور اسکردو روڑ کو بہت جلد کھولنے کیلئے رضامند ہوجائیں اورساتھ ہی کشمیری پنڈتوں کے احساسات کا احترام کرنے کیلئے تاریخی شاردا مندر کا راستہ بھی کھولاجائے۔ انہوں نے کہاکہ دونوں حکومتوں کو یہ عوامی مطالبہ منظور کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہے۔سوزکے مطابق انہوںنے کئی بار یہ مسئلہ حکومت ہند کی نوٹس میں لایا ہے اور اس سلسلے میں مرکزی وزیر خارجہ سشما سوراج کو ایک خط لکھا اور اس میں یہ عوامی ضرورتیں پوری کرنے کی تاکید کی ۔ خط میں سشما سوراج کو بتادیاگیا کہ کرگل اور اسکردو کے لوگوں کے درمیان قدیم راستہ بند ہونے سے متعلقہ لوگوں کیلئے کافی مشکلات پیدا ہو گئی ہیں کیونکہ ان دونوں علاقوں کے لوگوں کا مذہب اور ثقافت ایک ہے۔ سوز کے مطابق انہوں نے سشماسوراج کو بتایا کہ 1947 سے پہلے زائرین لگاتار شاردا مندر جاتے رہے ہیں اور اس سلسلے میں انہیں یاد دلایا کہ جیسا کہ تاریخ میں درج ہے کہ سلطان زین العابدین ، بڈشاہ (کشمیری حکمران ۔1420-1470) نے 11000فٹ بلند رازدانی پہاڑ پیدل طے کر کے شاردا مندر کے تحفظ اور مناسب دیکھ بھال کو یقینی بنایا تھا۔ سوز کے مطابق انہوں نیسشما جی کو بتایا کہ کرگل کے لوگ لگاتار کرگل ۔ اسکردو روڑ کھولنے کیلئے مطالبہ کرتے رہے ہیں اور ایسا کر نے کیلئے حکومت ہند کو کوئی دشواری نہیں ہے ۔اس لئے حکومت ہندکو اس سلسلے میں مناسب قدم اٹھانا چاہئے۔ سیف الدین سوز نے کہاکہ انہوں نے خط میں یہ بھی تحریر کیاکہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی حکومت کو اس سلسلے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں ہے اسی طرح میں نے وضاحت سے سمجھایا کہ قدیم شاردا مندر کا راستہ کھولنے کیلئے اور متعلقہ لوگوں کے احساسات کا احترام کرنے سے ہزاروں لوگوں کے دلوں میں راحت پیدا ہوگی۔


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain