لاہور (کورٹ رپورٹر) سپریم کورٹ نے جعلی اکاﺅنٹس کیس میں قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے رپورٹ میں بتائی گئی زرادری گروپ، اومنی گروپ کی جائیداد کی خریدو فروخت اور منتقلی پر پابندی عائد کردی جبکہ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ اربوں روپے کے کھانچے ہیں معاف نہیں کریں گے،لگتا ہے اومنی گروپ کے مالکان کا غرور ختم نہیں ہوا، قوم کا اربوں روپے کھا گئے اور پھر بھی بدمعاشی کر رہے ہیں، انہیں اڈیالہ جیل سے کہیں اور شفٹ کرنا پڑے گا، انور مجید کے ساتھ اب کوئی رحم نہیں، جبکہ جے آئی ٹی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جعلی بینک اکاﺅنٹس سے آصف علی زرداری ،بلاول بھٹو اور بلاول ہاﺅسز کے ذاتی اخراجات کی ادائیگیاں کی گئیں،جے آئی ٹی کے سربراہ نے عدالت کو بتایا کہ زرداری گروپ نے 53 ارب 40 کروڑ روپے کے قرضے حاصل کیے ،24 ارب روپے کا قرض سندھ بینک سے لیا گیا حالانکہ سندھ بینک زیادہ سے زیادہ 4 ارب روپے کا قرض دے سکتا ہے، اومنی گروپ نے اپنے گروپ کو 5 حصوں میں تقسیم کرکے قرض لیا،ایف آئی اے کی جانب سے تمام افراد کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کی استدعا کی گئی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ وزارت داخلہ کو درخواست دیں اس سے متعلق وہ فیصلہ کریں گے۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں جعلی بینک اکاﺅنٹس کیس کی سماعت کی ۔ اس موقع پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے احسان صادق نے رپورٹ پیش کی۔سماعت کے آغاز پر عدالت نے کمرے میں پروجیکٹر لگانے کا حکم دیا اور ریمارکس دئیے کہ جے آئی ٹی کی سمری اوپن عدالت میں پروجیکٹر پر چلائی جائے گی۔اس موقع پر چیف جسٹس نے اومنی گروپ کے مالکان کے وکلا ءمنیر بھٹی اور شاہد حامد سے مکالمہ کیا کہ لگتا ہے کہ اومنی گروپ کے مالکان کا غرور ختم نہیں ہوا، قوم کا اربوں روپے کھا گئے اور پھر بھی بدمعاشی کر رہے ہیں۔چیف جسٹس نے انور مجید کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ لگتا ہے کہ انہیں اڈیالہ جیل سے کہیں اور شفٹ کرنا پڑے گا، انور مجید کے ساتھ اب کوئی رحم نہیں، آپ وکیل ہیں، آپ نے فیس لی ہوئی ہے، آپ کو سنیں گے لیکن فیصلہ ہم نے ہی کرنا ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سابق صدر آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کیا کہ اربوں روپے کے کھانچے ہیں، معاف نہیں کریں گے۔اس موقع پر کیس کی سماعت میں کچھ دیر کا وقفہ کردیا گیا، وقفے کے بعد کیس کی سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری، بحریہ ٹاﺅن کے چیئرمین ملک ریاض اور زین ملک کو نوٹس جاری کردئیے۔سماعت کے دوران وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے تمام افراد کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کی استدعا کی گئی۔جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ وزارت داخلہ کو درخواست دیں ای سی ایل سے متعلق وہ فیصلہ کریں گے۔سماعت کے دوران جے آئی ٹی رپورٹ میں بتایا گیا کہ جعلی بینک اکاﺅنٹس سے آصف علی زرداری کے ذاتی اخراجات کی ادائیگیاں کی گئیں۔ ایک کروڑ 20 لاکھ سے ایک کروڑ 50 لاکھ کا خرچ جعلی بینک اکاﺅنٹس سے ادا کیا جاتا رہا۔ بلاول ہاﺅس کے کتے کا کھانا اور 28 صدقے کے بکروں کے اخراجات بھی انہی اکاﺅنٹس سے دئیے گئے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 27 لاکھ کے صدقے کے جانور، یعنی کتے کا کھانا بھی اومنی گروپ سے جارہا ہے؟۔جے آئی ٹی کے سربراہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے احسان صادق نے بتایا کہ کراچی اور لاہور کے بلاول ہاﺅس کے اخراجات جعلی اکاﺅنٹس سے ادا کیے گئے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا لاہور کا بلاول ہاﺅس قانون کے مطابق بنا ہے؟۔سربراہ جے آئی ٹی نے کہا کہ زرداری گروپ نے 53 ارب 40 کروڑ روپے کے قرضے حاصل کیے جبکہ 24 ارب روپے کا قرض سندھ بینک سے لیا گیا حالانکہ سندھ بینک زیادہ سے زیادہ 4 ارب روپے کا قرض دے سکتا ہے، اس کے علاوہ اومنی گروپ نے اپنے گروپ کو 5 حصوں میں تقسیم کرکے قرض لیا۔بینچ کے رکن جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ 53 ارب روپے کا تو صرف قرض ہے اور باقی جعلی اکاﺅنٹس کی رقم کا کیا بنے گا؟۔سماعت کے دوران ماڈل ایان علی کا معاملہ بھی زیر بحث آیا اور چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایان علی کہاں ہیں؟کیا وہ بیمار ہو کر پاکستان سے باہر گئیں؟چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کوئی بیمار ہو کر ملک سے باہر چلا گیا ہوتو واپس لانے کا طریقہ کیا ہے؟۔جے آئی ٹی کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ 60 منزلہ آئیکون ٹاور کراچی کے علاقے کلفٹن میں واقع ہے، بحریہ گروپ اور ڈنشا کے اس میں شیئرز ہیں۔اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئیکون ٹاور میں سرکاری زمین آتی ہے، کیا اس کا نقشہ منظور کروایا گیا؟ جس پر جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ باغ ابن قاسم کی زمین بھی اس آئیکون ٹاور میں آتی ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ ڈنشا کون ہے؟ جس پر جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ ڈنشا آصف علی زرداری کے فرنٹ مین ہیں۔چیف جسٹس نے استسار کیا کہ ڈنشا کے آصف زرداری کے فرنٹ ہونے کے کیا ثبوت ہیں ؟،یعنی بحریہ گروپ کک بیکس دے رہا ہے؟ ۔چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے ہم بحریہ آئیکون کو دیکھ لیتے ہیں جس پر انہیں بتایا گیا کہ آئیکون ٹاور غیرقانونی طور پر سرکاری زمین پر کھڑا کیا گیا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کہ اس کے مالکان کون کون ہیں؟ جس پر بتایا گیا کہ زرداری گروپ کے 50 فیصد شیئرز ہیں جبکہ بحریہ گروپ کے زین ملک نے 27 ارب اس پر خرچ کیے ہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے خواجہ طارق رحیم ایڈووکیٹ سے مکالمہ کیا کہ ملک ریاض تو کہتے ہیں کہ ان کے پاس پیسے ہی نہیں ۔ جس پر طارق رحیم نے جواب دیا کہ میں اس کیس میں وکیل نہیں ہوں۔عدالت میں جے آئی ٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک ارب 20 کروڑ روپے فریال تالپور کے اکاﺅنٹ میں گئے، فریال تالپور کے اکاﺅنٹس سے بلاول ہاﺅس لاہوراور ٹنڈوالہ یار کی زمین خریدی گئی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ لاہور کا بلاول ہاﺅس کس کی ملکیت میں ہے؟ جس پر بتایا گیا کہ پہلے تحفے میں دیا گیا تھا، بعد میں تحفہ واپس کرکے بحریہ ٹاﺅن کو آدھی رقم ادا کردی گئی ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پہلے یہ تحفے میں دیا گیا پھر رقم ادا کی گئی ، کیا تحفہ قبول نہیں کیا گیا ۔جے آئی ٹی کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ یعنی یہ بحریہ گروپ اور زرداری گروپ کا ٹرائیکاہے؟ ۔سالگرہ، پاسپورٹ فیس، ایمرجنسی لائٹس کا بل اومنی گروپ سے دیا گیا؟ جس پر جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ ہر مرتبہ کمپنیاں تبدیل کرکے ادائیگیاں کرتے رہے۔دوران سماعت عدالت کو بتایا گیا کہ بلاول بھٹو زرداری کے دوپہر کے کھانے کا خرچہ 15 ہزار روپے ادا کیا گیا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ 15 ہزار کوئی بڑی رقم نہیں لیکن یہ رقم اومنی گروپ سے ادا کی گئی، ممکن ہے وہ اس کے شیئر ہولڈرز ہوں۔اس پر جے آئی ٹی کی جانب سے بتایا گیا کہ ہوسکتا ہے کہ وہ شیئر ہولڈرز ہوں اور پھر وہ ظاہر کردیں۔عدالت کو بتایا گیا کہ پہلے یہ 23 کمپنیاں تھیں اور 2008 سے 2018 تک 83 کمپنیاں بن چکی ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ملک ریاض کدھر ہیں؟ ہم کسی کے بتانے کے محتاج نہیں اگر وہ نہ آئے تو پکڑوا سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے ملک ریاض کو بحریہ ٹاﺅن کا نام استعمال کرنے سے روکا تھا ۔ کیا وہ ابھی بھی بحریہ ٹاﺅن کا نام استعمال کر رہا ہے ؟۔چیف جسٹس نے کہا کہ بحریہ ٹاﺅن کے ملازمین کو تنخواہیں ادا نہیں کی جا رہیں، بجلی کے بل ادا نہیں کیے جا رہے، کیا ہمیں سمجھ نہیں آتی؟۔کوئی کتنا بھی بیمار ہو، پیمپر کے ساتھ آ جائے گا، یہ وہ پاکستان نہیں جو پہلے کا تھا، جہاں سرکاری زمینوں کی بندر بانٹ کی جاتی تھی۔اب پراسکیوشن کو نہیں بلکہ انہیں خود یہ سب ثابت کرنا ہو گا۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر اعلی سندھ کو کہہ دیں کہ وہ اپنا کیمپ آفس اسلام آباد میں قائم کرلیں اور تمام دستاویزات بھی لے آئیں۔جے آئی ٹی کی جانب سے بتایا گیا کہ عدالتی حکم پر اومنی گروپ کی جائیدادوں کا تخمینہ لگایا گیا جو اب قیمت کم ہو گئی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اسکا مطلب قرض کیلئے جائیدادوں کی قیمتیں بڑھا دی گئیں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے انور مجید کے وکیل شاہد حامد سے مکالمہ کیا کہ انور مجید کہتے ہیں کہ اکاﺅنٹس کی تفصیلات ایس ای سی پی سے لے لیں، کیوں نہ انور مجید کو اسلام آباد میں ہی رہنے دیا جائے؟۔اس پر شاہد حامد ایڈووکیٹ نے کہا کہ انور مجید دل کے مرض میں مبتلا ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا دنیا میں دل کا علاج نہیں ہوتا؟ ۔شاہد حامد نے بتایا کہ اب انور مجید اومنی گروپ کو نہیں دیکھ رہے۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ انور مجید بزرگ ہوگئے ہیں اور اومنی گروپ کو نہیں دیکھ رہے تو ان کا کوئی بیٹا تو ہوگا؟ آپ بینچ کو کمزور نہ کریں، ہمیں پتہ ہے یہ ساری چیزیں کیسے گھمائی گئی ہیں۔اس پر انور مجید کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ اومنی گروپ کا کیس نہیں سن سکتی اور فوجداری ٹرائل نہیں کرسکتی۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ہم آرٹیکل 184 کے تحت کارروائی کرسکتے ہیں۔چیف جسٹس نے ایک موقع پر ریمارکس دئیے کہ یہ قوم کا پیسہ ہے کسی کو بھاگنے نہیں دیں گے۔ آصف زرداری کے وکیل نے موقف اپنایا کہ جے آئی ٹی نے عدالت کو درخواست شواہد نہیں بتائے ۔ جس پرچیف جسٹس نے کہاکہ آپ ٹینشن نہ لیں جو فیصلہ کریں گے قانون کے مطابق ہوگا ۔ہمیں پتہ ہے کہ قوم کا پیسہ کیسے لوٹا گیا ۔اس موقع پر سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ پر عدالت نے ریمارکس دئیے کہ جعلی بینک اکانٹس پر جے آئی ٹی کی رپورٹ کو حتمی اور مکمل قرار نہیں دے سکتے۔جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں حکم جاری کر رہے ہیں ۔ بعد ازاں عدالت نے جے آئی ٹی رپورٹ میں بتائی گئی زرداری گروپ، اومنی گروپ اور بحریہ ٹاﺅن گروپ کی جائیداد کی خرید و فروخت اور منتقلی پر پابندی عائد کردی۔عدالت نے رپورٹ تمام فریقین کو دینے کا حکم دیتے ہوئے آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک کو حکم دیا کہ وہ اس پر جواب جمع کرائیں، جس کے بعد عدالت نے مذکورہ کیس کی سماعت 31 دسمبر تک ملتوی کردی۔