تازہ تر ین

حکومت چاہتی ہے عدلیہ مفلوج ہو جائے : چیف جسٹس

لاہور(اے این این،کورٹ رپورٹر) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی تعداد بڑھانے کے معاملے پر ریمارکس د یتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت چاہتی ہے عدلیہ مفلوج ہوجائے۔ ہفتہ کو سپریم کورٹ میں کیسز کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق خان سے مکالمہ کیا کہ حکومت کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے پر سفارشات بھیجی تھیں، نگران حکومت کے دور کی سفارشات پر کچھ نہیں کیا گیا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے عدلیہ مفلوج ہو جائے، اسلام آباد ہائیکورٹ میں اس وقت 4 ججز کام کررہے ہیں، کام کا سرا بوجھ ان ججز پر ہے۔جسٹس ثاقب نثار نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ ججز کی تعداد کیوں نہیں بڑھا رہے؟ اسلام آباد ہائی کورٹ میں دو رکنی بینچ تشکیل نہیں دیا جا سکتا، ملک کی تمام ہائی کورٹس اہم ہیں مگر اسلام آبادہائی کورٹ میں بہت اہم کیسز ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ حکومت اسلام آباد ہائی کورٹ کا معاملہ دیکھے ورنہ عدالت سوموٹو لے گی۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب سیدھے آدمی ہیں، انکی رہنمائی کی ضرورت ہے، چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی ،عدالت نے بچوں کے جگر اور گردوں کی پیوندکاری کی علاج گاہ نہ ہونے کیخلاف ازخود نوٹس کیس میں وزیر صحت پنجاب کو پلان سمیت 6 جنوری کو طلب کر تے ہوئے وزیر صحت پنجاب کو متعلقہ سیکرٹریز سمیت پیش ہونے کا حکم دے دیا۔ دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں آج تک بچوں کے جگر اور گردوں کے پیوندکاری کی کوئی علاج گاہ نہیںہے۔حکومتوں نے ایسے بچوں کو علاج گاہ دینے کی بجائے اورنج لائن ٹرین بنانے کو ترجیح دی لیکن اورنج ٹرین بھی موجودہ حکومت سے مکمل نہیں ہو رہی، وہ بھی ہم کروا رہے ہیں، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ میرے لئے قابل شرم ہے کہ معصوم بچوں کو بچانے کیلئے معاشرہ آج تک کچھ نہیں کر سکا،پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوشن میں بھی ابھی تک کسی بچے کے جگر کی پیوندکاری کا آپریشن نہیں ہو سکا۔چیف جسٹس پاکستان نے مزید ریمارکس دئیے کہ اگر محکمہ صحت کے پاس کوئی پلان نہیں تو پھر وزیر اعلیٰ پنجاب کو طلب کر لیتے ہیں، وزیر اعلی پنجاب بہت اچھے آدمی ہیں، یہاں بیٹھیں رہیں گے، وزیر اعلیٰ پنجاب سیدھے آدمی ہیں، انکی رہنمائی کی ضرورت ہے، ڈاکٹر جواد ساجد سربراہ پی کے ایل آئی نے عدالت کو آگاہ کیاکہ ہمیں بہترین سرجنز، مریض بچوں کو سنبھالنے والا سٹاف کمی کا سامنا ہے، بالغ مریض کے جگر کی پیوندکاری کا پہلا آپریشن کرنے کیلئے سپریم کورٹ کو ٹائم فریم دیں، ہم 31 دسمبر کو پہلے آپریشن بارے اجلاس میں فیصلہ کریں گے، چلڈرن ہسپتال کے ڈاکٹر ہما نے بتایا کہ اس وقت چلڈرن ہسپتال میں 28 بچے جگر کی پیوندکاری کیلئے زیر علاج ہیں لیکن ان کا علاج ناممکن ہے، عدالت نے پی کے ایل آئی کی قانونی حیثیت تبدیل کرنے بارے بھی رپورٹ طلب کر لی۔لاہور (کورٹ رپورٹر) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے پیشہ ورانہ زندگی میں خلوص نیت سے کام کرنے کو اصل دمت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اداروں کی غلطیوں کا سدباب کرنا عدلیہ کی قانونی ذمہ داری ہے،میرا امتحان شروع ہوچکا ہے جس کا نتیجہ ریٹائرمنٹ پر نکلے گا،صحت کے شعبے میں خیبرپختونخوا میں جو کرنا چاہ رہا تھا، نہیں کرسکا لیکن پنجاب اور سندھ میں صحت کے شعبوں میں تبدیلیاں آئی ہیں،ملک کی آبادی بڑھ رہی ہے اور وسائل کم ہوتے جا رہے ہیں، آج پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ ایک لاکھ، 21ہزار روپے کا مقروض ہے،کیا پانی کی کمیابی کے معاملے پر بات کرنا غلط ہے؟ کیا صاف پانی کے مسئلے پر ازخود نوٹس لینا میرے دائرہ اختیار میں نہیں آتا؟۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کے روز لاہور میں سروسز انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے چوتھے کانووکیشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔چیف جسٹس نے کانووکیشن میں 220 گریجوایٹس کو ڈگریوں سے نوازا ۔اس موقع پر پرنسپل سمز پروفیسر محمود ایاز، وی سی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر خالد مسعود گوندل ، ڈین چلڈرن ہسپتال پروفیسر مسعود صادق سمیت دیگر بھی موجود تھے ۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ آج دوسرا موقع ہے کہ میں ڈاکٹرز سے خطاب کررہا ہوں، میں نے بطورچیف جسٹس کچھ وعدے کیے، اپنے وعدوں پرکتنا عمل کیا وہ قوم پرچھوڑرہا ہوں۔عوامی مسائل حل کرنے کی بھرپور کوشش کی، میرا مقصد ہمیشہ خلوص پرمبنی رہا، میرا امتحان شروع ہو چکا ہے جس کا نتیجہ میری ریٹائرمنٹ کے بعد نکلے گا ۔انہوں نے کہا کہ زندگی بامقصد ہونی چاہیے، کیڑے مکوڑے کی طرح بے مقصد نہیں۔میں نے اپنی پوری زندگی انصاف کے حصول کے لیے کام کیا ہے، پیشہ ورانہ زندگی میں خلوص نیت سے ذمہ داری نبھانا ہی اصل خدمت ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ نجی میڈیکل کالجز ڈاکٹرز نہیں عطائی پیدا کر رہے ہیں۔ہر شخص کو زندہ رہنے کا حق ہے اور طب کا شعبہ سب سے زیادہ ذمہ دار ہے لہٰذا ڈاکٹر حضرات کو چاہیے کہ اپنے حلف کی صحیح پاسداری کریں۔ساتھ ہی چیف جسٹس نے واضح کیا کہ ہسپتالوں کو چلانا میرا یا عدالتوں کا کام نہیں تھا لیکن وہاں پر غلطیاں ہو رہی تھیں، اداروں کی غلطیوں کا سدباب کرنا عدلیہ کی قانونی ذمہ داری ہے۔اس موقع پر چیف جسٹس نے ماضی کی یادوں کو کھنگالتے ہوئے بتایا کہ میں 8 برس کی عمر میں اپنی والدہ کو تانگے پر بٹھا کر ڈاکٹر کے پاس لےکر جاتا تھا اور کئی کئی گھنٹے تک ڈاکٹروں کے پاس جا کر بیٹھا رہتا تھا۔والدہ نے مجھے اور میرے بھائی کو انسانیت کی خدمت کی نصیحت کی اور دعا کی اے اللہ! جو تکلیفیں تھیں تونے مجھے دے دیں، میری اولاد کو محفوظ رکھنا۔چیف جسٹس نے کہا کہ جو شخص کسی عذاب سے گزرتا ہے، اسے دوسرے کی تکلیفوں کا احساس ہوتا ہے، میں نے بھی والدہ کی نصیحت کو پلے سے باندھ کر اپنی زندگی کا مشن شروع کیا۔انہوں نے کہا کہ صحت کے شعبے میں خیبرپختونخوا میں جو کرنا چاہ رہا تھا، نہیں کرسکا لیکن پنجاب اور سندھ میں صحت کے شعبوں میں تبدیلیاں آئی ہیں۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ نجی کالجزو ہسپتال بزنس ہاسزبن چکے ہیں ،ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ وہ تمام نجی ہسپتالوں کی نہیں، مخصوص اداروں کی بات کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ مجھے ملک کے ہر کالج، ہر ہسپتال کے ساتھ محبت ہے، میری محبت یکطرفہ نہیں، دوطرفہ ہے۔چیف جسٹس نے بتایا کہ انہوں نے نجی میڈیکل کالجوں کی لاکھوں روپے فیس میں سے 726 ملین روپے بچوں کو واپس دلوائے۔اپنے خطاب کے دوران چیف جسٹس نے تعلیم کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی قوم یا معاشرے کی ترقی وخوشحالی کے لیے تعلیم بنیادی درجہ رکھتی ہے اور میری ہمیشہ سےکوشش رہی کہ تعلیم کے فروغ کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کروں۔میں ہمیشہ اس بات پر زور دیتا ہوں کہ ہمیں اپنے وسائل کو تعلیم پر لگانا چاہیے۔کانووکیشن سے خطاب کے دوران چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ ملک کی آبادی بڑھ رہی ہے اور وسائل کم ہوتے جا رہے ہیں، آج پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ ایک لاکھ، 21 ہزار روپے کا مقروض ہے۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا پانی کی کمیابی کے معاملے پر بات کرنا غلط ہے؟ کیا صاف پانی کے مسئلے پر ازخود نوٹس لینا میرے دائرہ اختیار میں نہیں آتا؟۔آخر میں چیف جسٹس نے کہا کہ پانی سے لےکر ادویات کی حد تک ہمیں کوشش کرنا ہوگی کہ بہتری لائیں۔کانووکیشن کے موقع پر پروفیسر سعید کھوکھر کی جانب سے ڈیم فنڈ کے لئے چیف جسٹس کو ایک لاکھ روپے کا چیک دیا گیا ۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain