آئی سی سی نے چیمپئنزٹرافی ختم کر دی

کولکتہ(نیوزایجنسیاں)انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے فیوچر ٹور پروگرام 2019 تا 2023 پر تمام رکن ممالک نے دستخط کردیے ہیں جس کے تحت 2021 میں شیڈول چیمپینز ٹرافی ختم کر دی گئی اور اس کی جگہ ورلڈ ٹی ٹوئٹی نے لے لی ہے۔کولکتہ میں آئی سی سی اجلاس میں 2019 تا 2023 فیوچر ٹور پروگرام ترتیب دیا گیا۔آئی سی سی نے 2021 میں ہونے والا چیمپینز ٹرافی ٹورنامنٹ ختم کر دیا جبکہ بھارت کو 2021 میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی میزبانی دے دی گئی، 2020 میں ہونے والے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی میزبانی آسٹریلیا کرے گا۔آئی سی سی کے تمام 104 ایسوسی ایٹ ممالک کو ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کا درجہ دے دیا گیا جبکہ ٹیسٹ چیمپینز شپ کی بھی منظوری دی گئی جس کا دورانیہ دو دو سال رکھا گیا ہے۔ٹیسٹ چیمپین شپ کا پہلا سائیکل 2019 سے 2021 تک ہو گا جبکہ دوسرے سائیکل 2021 سے 2023 پر مشتمل ہو گا۔نئے فیوچر ٹور پروگرام کے تحت 2021 میں چیمپئنز ٹرافی کی بجائے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ بھارت میں ہو گا جبکہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2020 پہلے سے اعلان کردہ شیڈول کے مطابق آسٹریلیا میں ہی ہو گا۔2021 اور 2023 میں آئی سی سی ٹیسٹ چیمپیئن شپ فائنل کا انعقاد کیا جائے گا جبکہ ورلڈ کپ کوالیفکیشن لیگ 2020 سے 2022 تک کھیلی جائے گی۔ علاوہ ازیں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے اپنے تمام ممبر ممالک کو ٹی ٹوئنٹی اسٹیٹس دے دیا، اب تمام ممبر ملکوں کی ٹیمیں انٹرنیشنل ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلنے کے اہل ہوں گی۔یکم جولائی 2018 سے تمام ممبر ممالک کی ویمنز ٹیموں کو ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کی اجازت مل جائے گی جب کہ یکم جنوری 2019 سے تمام ممبر ممالک کی مینز ٹیمیں بھی مختصر فارمیٹ میں انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کی اہل ہو جائیں گی۔آئی سی سی چیف ایگزیکیٹیو ڈیوڈ رچرڈسن نے اس موقع پر کہا کہ وہ رکن ممالک کی جانب سے متفقہ طور پر فیوچر ٹور پروگرام پر دستخط کیے جانے پر خوش ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے ذریعے کھیل کو دیگر ممالک تک وسعت دی جائے گی اور تمام ٹی ٹوئنٹی کو بین الاقوامی درجہ دینا اس حوالے سے مثبت پیشرفت ہے۔واضح رہے کہ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کا آخری ایونٹ 2017 میں ہوا تھا جس میں پاکستان نے روایتی حریف بھارت کو شکست دیتے ہوئے پہلی مرتبہ ٹرافی اپنے نام کرنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

نواز شریف کے بعد خواجہ آصف ،اب احسن اقبال کی باری ،لگتا ہے سب نا اہل ہو جائینگے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہدکے ساتھ“ میں گفتگوکرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ خواجہ آصف کے خلاف جب مقدمہ دائر ہوا تھا، اس وقت بھی محسوس ہوتا تھاکہ انجام اچھا نہیں ہو گا۔ نوازشریف کوبھی اس جرم میں نااہل قرار دیا گیا تھا، خواجہ آصف نے بھی اقامہ لیا ہوا تھا اور
ہر مہینے تنخواہ وصول کرتے رہے۔ حیرت ہے حکومتی وزیر کسی دوسرے ملک کے کسی ادارے میں ملازم ہے اور تنخواہ بھی لےہاہریم نواز کے بارے سوشل میڈیا پر بڑی خبریںچلیں۔ دبئی کے ایک مقامی شخص انٹرویو میں کہہ رہے تھے کہ مریم کے اقامے پر انہوں نے دستخط کئے ہیں اوروہ ان کے گھر گھریلو ملازمہ ہے۔ مریم کے پاس اتنی عزت، دولت و شہرت ہے میرا نہیں خیال کہ انہیں پیسوںکی ضرورت ہے۔ اگر یہ خبردرست ہے تو افسوسناک ہے۔ ترجمان جاتی امرا کی جانب سے تردید آنی چاہئے کہ مریم کا کوئی اقامہ نہیں تھا اگرتھا تو حیرت ہو گی۔ ابھی فیصلے کی سیاہی خشک نہیںہوئی تھی کہ احسن اقبال کا کیس آ گیا۔ ان کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ اقامہ ہے اور سعودی عرب میں ملازم ہیں۔ پتہ نہیں ہمارے حکمرانوں کو کیا ہو گیا ہے۔ خواجہ آصف باہر سے بھی اور یہاں اپنی وزارت سے بھی ماہانہ معاوضہ لیتے رہے۔ حکمرانوں میں پیسوں کا لالچ بہت ہے۔ ہمارے تجزیہ کار جاوید کاہلوں مشرف دور میں ضلع کونسل کے چیئرمین تھے۔ ان کی اہلیہ ایم این اے تھیں جہاں سے ابرارالحق کھڑے ہوئے تھے اور اب احسن اقبال وہاں سے منتخب عوامی نمائندہ ہیں۔ احسن اقبال نے بابر اعوان کو اپنا وکیل مقرر کیا ہے۔ ان کے خلاف کچھ ثابت ہو گیا تو یہ بھی نااہل ہو جائیں گے۔ احسن اقبال اپنی پریس کانفرنس میں بڑا گرجے برسے کہ ہماری بھی عزت ہے اور کی جائے لیکن معاف کیجئے گا اگر آپ کے خلاف بھی اقامہ ثابت ہو گیا تو اپنی بے عزتی آپ نے خود کرائی ہے۔ نون لیگ کے اقابرین خود گڑھا کھودتے ہیں اس میں گر جاتے ہیں پھر شور مچاتے ہیں کہ ہمیں دھکا کس نے دیا۔ احسن اقبال وزیرداخلہ ہیں ایسے آدمی کو ایماندار و دیانتدار ہوناچاہئے۔ احسن اقبال جس طرح پریس کانفرنس میں ناراضی کا اظہار کر رہے تھے شاید ان کو پہلے ہی پتہ چل گیا تھا کہ خواجہ آصف کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ نواز شریف جن بنیادوں پر نااہل ہوئے وہی بنیادیں خواجہ آصف کے کیس میں تھیں اور احسن اقبال کا کیس اگر ہوتا ہے تو اس میں بھی ہیں انہیں چاہئے کہ اگر اقامہ کیس ہوتا ہے تو حقائق کو چیلنج کریں، غصہ کرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ انہوں نے مزیدکہا کہ فواد حسن فواد کو ثابت کرنا پڑے گا کہ انہوں نے اثاثے کیسے کمائے۔ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری تھے، خوب ہاتھ رنگے ہونگے۔ ان پر ابھی الزام لگا ہے، عدالت میں ثابت ہو گیا تو سزابھی ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ میرے سارے رشتے دار درمیانے درجے کے زمیندار ہیں، میں واحد ہوں جس نے شہر میں آ کر تعلیم حاصل کی اور اتفاق سے صحافت میں آ گیا۔ باردانہ گندم کی بوریوں کو کہتے ہیں۔ کسان کہہ رہے ہیں کہ انہیں بار دانہ نہیں مل رہا جس کی وجہ سے وہ گندم کو سنبھال نہیں سکیں گے، بارش یا آندھی میں گندم خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ ہرسال حکومت گندم کی قیمت خرید کا اعلان کرتی ہے کہ اتنے پیسوں میں حکومت کسان سے گندم خریدے گی لیکن کسان عملاً اس ریٹ پر حکومت کو گندم نہیں فروخت نہیں کر سکتے لہٰذا وہ اونے پونے داموں باہر فروخت کر دیتے ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما ابرار الحق نے کہا ہے کہ احسن اقبال کے اقامے کے خلاف اس ہفتے اسلام آباد ہائیکورٹ جا رہے ہیں۔ ان کا کیس بھی خواجہ آصف والا ہی ہے، 62 ون ایف کے تحت یہ بھی نااہل ہوں گے۔ وزیر داخلہ نے اپنا اقامہ تسلیم کیا ہوا ہے۔ ایک وقت میں دو جگہ نوکری نہیں کر سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ احسن اقبال کی والدہ بہت اچھی خاتون تھیں لیکن انہوں نے اپنی روحانی والدہ مریم نواز اور روحانی والد نواز شریف سے تربیتلی ہے اس لئے اس طرح کے ہیں۔ ایک صحافی نے ان کے بارے ایک ”ڈان آف نارووال“ کے نام سے کالم بھی لکھا تھا کہ کس طرح یہ الیکشن جیتے تھے۔ احسن اقبال کابھانجہ منشیات کا کاروبارکرتا ہے۔ نون لیگ کی فیملی نے ان کی تربیت کی ہے۔ انہہوں نے کہا کہ اقامہ رکھنا جرم ہے یہ ملک سے باہرلوٹا ہوا مال چھپانے کے لئے ہوتا ہے۔ آج کی جوڈیشری کو سلام پیش کرتا ہوں، ہم جوکہتے تھے کہ جو مزدورکے ساتھ ہوتا ہے وہی حکمرانوں کے ساتھ ہو گا آج وہ وقت آ گیا ہے۔ پیسوں سے یہ سب ٹھیک کر لیتے تھے آج نہیں کر پا رہے، ان کو یہ تکلیف ہے۔ ہمارا مقصد کسی کو تکلیف دینا نہیں بلکہ پاکستان کو ٹھیک کرنا ہے۔ تجزیہ کارجاوید کاہلوں نے کہا ہے کہ خواجہ آصف کے بارے بہت بڑا فیصلہ آیا ہے۔ عدالتی فیصلوںکی وجہ سے ملک مثبت سمت میں رواں دواں ہے۔ جن سے پوچھ گچھ کا تصور ہی نہیں تھا آج وہ جوابدہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ احسن اقبال مجھ سے 2 دفعہ ہارے جب میںضلع ناظم بنا تھا، میری بیگم بھی احسن اقبال سے جیتی تھیں۔ پچھلی دفعہ اس حلقے سے عمران خان نے ابرارالحق کوٹکٹ دے دیا جو بری طرح سے ہار گئے۔ احسن اقبال کے پاس مدینہ منورہ میںسکیورٹی گارڈ یا چوکیدار کا اقامہ ہے۔ انہوں نے اس بات پر فخر بھی کیا تھا کہ ان کے پاس مدینہ منورہ کے چوکیدار کا ویزہ ہے۔ میڈیا پر تسلیم کیا تھا کہ ان کے پاس مدینہ میں کوئی اقامہ ہے۔ ان کو وہاں سے تنخواہ بھی ملتی رہی ہے۔ ہم بھی ان کی تفصیلات لے کر عدالت میں پیش ہونے جا رہے ہیں۔ پوری تیاری کر لی ہے۔ انہوں نے کہا کہ احسن اقبال اچھے خاندان سے ہیں۔ ان کی والدہ جماعت اسلامی کے حوالے سے بہت معروف و اچھی خاتون تھیں۔ یہ بھی جماعت اسلامی کی فنڈنگ سے باہر پڑھنے گئے تھے پھر اسلامی جمعیت طلبہ سے نون لیگ میں آ گئے۔ احسن اقبال جب پارلیمنٹ کے رکن تھے اس وقت بھی انہوں نے سعودی عرب کی نوکری نہیں چھوری، ایک آدھا سال پہلے انہوں نے نوکری چھوڑی ہے۔ جب یہ حکومت میں نہیں ہوتے تو اپنے لیڈر کی طرح یہ بھی ملک میں رہنا پسند نہیں کرتے۔ مجھ سے اور میری اہلیہ سے ہار کر یہ نوازشریف کے ساتھ سعودی عرب چلے گئے تھے۔ انہوں نے کہاکہ اقامہ کا کام تنخواہ سے بڑھ کر ہے، یہ منی لانڈرنگ کی پہلی سیڑھی ہے۔ چیئرمین کسان اتحاد چودھری محمد انور نے کہاکہ حکومت نے آج تک ایک بھی بوری کسی کاشتکار کو نہیں دی۔ باردانہ کیلئے جتنا بے عزت کسان آج ہو رہاہے تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ 4 سال سے گندم کا ریٹ 1300 روپے فی من ہے، کوئی خرید نہیں رہا۔ سرمایہ دار و فلورملز مالکان کسان سے 1100 روپے فی من گندم لے رہے ہیں۔ محکمہ فوڈ نے پہلے درخواستیں لیں اب نیا نظام متعارف کرا دیا کہ قرعہ اندازی کریں گے۔ شہباز شریف وزیراعلیٰ ہیں ان کو خادم اعلیٰ نہیں مانتا۔ اگر خاتم اعلیٰ ہوتے تو کسان سے پوچھتے کہ 1300 روپے ریٹ مل رہا ہے یا نہیں جس کسان کی فصل پک کر تیار ہوتی ہے وہ خوش ہونے کے بجائے سڑک پر احتجاج کرتا ہے۔ پہلے ہمیں گنے میں لوٹ لیا جو 120 روپے من خریدا گیا اب گندم میں لوٹ رہے ہیں۔ حکومت بار دانہ نون لیگ کے جیالوں کو دے گی۔