تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ۔۔۔پنجاب بھی نشانے پر

لاہور (نادر چوہدری سے) کالعدم جماعتوں کے سرگرم کارکن یا بیرون ممالک بیٹھے اشتہاریوں کے نیٹ ورک، صوبائی دارالحکومت میں اغواءبرائے تاوان کی وارداتوں نے ایک مرتبہ پھر سراُٹھانا شروع کر دیا، باغبانپورہ کے علاقہ سے 42سالہ شہری مبینہ طور پر2کروڑ روپے تاوان کیلئے اغوائ، ہیر کے علاقہ سے بھی 22سالہ نوجوان مبینہ طور پر تاوان کیلئے اغوائ، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سابقہ ریکارڈ یافتہ اور سزا یافتہ افراد سے پوچھ گچھ شروع کردی، انٹر نیٹ کے 6ہندسوں کے نمبروں سے تاوان طلب کرنے کا انکشاف۔ ذرائع کے مطابق لاہور میں اغواءبرائے تاوان کی وارداتوں نے ایک مرتبہ پھر سر اٹھانا شروع کردیا ہے۔ اس حوالے سے رواں ماہ2جنوری کو 42سالہ فرحان رشید جو کہ باغبانپورہ کے علاقہ میں رینٹ اے کار کا کاروبار کرتا تھا مبینہ طور پر اغواءہوگیا ۔ فرحان رشید کے بھائی عمر رشید کے مطابق مغوی کو 2جنوری کو ایک نامعلوم کال آئی جس کو سننے کے بعد وہ تھوڑی دیر کا کہہ کر گھر سے چلا گیا جو کہ کافی دیر تک جب نہیں آیا تو اسکے نمبر پر رابطہ کیا گیا تو اس نے بتایا کہ وہ ضروری کام کے سلسلہ میں راولپنڈی جارہا ہے جس پر ہمیں اطیمنان ہو گیا لیکن جب اگلے روز اسکے نمبر پر رابطہ کرنے کی بارہا مرتبہ کوشش کی گئی تو اسکا نمبر مسلسل بند ملا جس پر تشویش لاحق ہوئی اور لاہور اور بیرن شہر رشتہ داروں اور مغوی کے دوستوں سے رابطے کر کے اسکے متعلق پوچھا گیا لیکن کہیں سے اس کے متعلق کچھ پتہ نہ چل سکا جس کے بعد تھانہ باغبانپورہ میں اندراج مقدمہ کیلئے رابطہ کیا گیا تو پولیس نے ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے اپنی مدد آپ کے تحت تلاش کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ وہ کوئی بچہ تو نہیں جو لاپتہ یا اغواءہوجائے گا جس پر ہم نے روزانہ کی بنیاد پر تھانے کے چکر لگانے شروع کر دیے کہ شائد کوئی داد رسی ہوجائے لیکن پولیس نے ہماری ایک نہ سنی اور اسی دوران ہمیں نامعلوم کالرز کی جانب سے 001930کے نمبر سے کال آئی جنہوں نے مغوی فرحان رشید کی بازیابی کے عوض 2کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا جس پر ہم میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور پھر میں اور دیگر اہل و عیال و عزیز اکھٹے ہوکر تھانے پہنچے اور مقدمہ درج نہ کرنے پر احتجاج کیا جس پر پولیس نے فوری طور پر ہمارا مقدمہ تو درج کرلیا ہے لیکن ایف آئی آر کے بعد کیس انویسٹی گیشن ونگ کے پاس جانے کے بعد معاملے کی سنگینیت کوایک مرتبہ پھرنذر انداز کرتے ہوئے انتظار کرنے کا کہنا شروع کر دیا ہے۔ دوسری جانب ہیر کے علاقہ میں پولٹری کا کاروبار کرنے والا 22سالہ حیدر علی گھر سے ٹولنٹن مارکیٹ کیلئے نکلا اور پھر واپس نہیں پہنچا جس کے متعلق گھر والوں نے قوی شبہ ظاہر کیا ہے کہ اسے بھی تاوان کیلئے اغواءکیا گیا ہے۔ ماضی میں بھی متعدد اغواءبرائے تاوان کی ایسی وارداتیں ہوچکی ہیں جن میں صاحب حیثیت کاروباری شخصیات کو تاوان کیلئے اغواءکیا گیا تھا۔ 7جون 2016کو کاہنہ کے علاقہ میں حساس اداروں اور سی آئی اے پولےس کی مشترکہ کاروائی کے نتیجہ میں لشکر جھنگوی اور تحرےک طالبان سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد اور اشتہاری ملزم خرم لطےف کو ہلاک کیا گیا تھا جس نے حساس ادارے کے اہلکار اکبر زمان کو 2 کروڑ تاوان کے لئے اغوا کر کے اپنے پاس رکھا ہوا تھا۔ ہلاک ہونے والا دہشتگرد خرم لطیف اس کے قبل برانڈرتھ روڈ لاہورکے تاجر شعےب کو 10 کروڑ روپے، لبرٹی مارکےٹ لاہور سے تاجر حمےد کو اےک کروڑ روپے، راولپنڈی سے گل خان نامی شہری کو 6 کروڑ روپے، اسلام آباد سے شےخ حفےظ کو 30 کروڑ روپے، کلثوم پلازہ اسلام آباد سے محمد طاہر کو 16 کروڑ روپے، راولپنڈی سے شاہ زےب کو 5 کروڑ روپے اور ڈےرہ اسماعےل خان سے محمد آصف کو اغواءکر کے اس کے اہلخانہ سے6 کروڑ روپے تاوان حاصل کر چکا تھا۔ ملزم لشکر جھنگوی سے تحرےک طالبان میں شامل ہونے والے حافظ مطےع الرحمن کے (مطیع الرحمن گروپ) مےں تھا اور ان کو فنڈز فراہم کرنے کے لئے اغوا برائے تاوان کی وارداتےں کرتا تھا۔ اس کے علاوہ بیرن ممالک فرار اختیار کر نے والے وہ اشتہاری ملزمان جن کے سروں کی قیمتیں بھی مقرر ہیں باہر بیٹھ کر لاہور سمیت پاکستان بھر میں اپنے ایسے نیٹ ورک چلا رہے ہیں جو بھاری تاوان کے عوض سرمایاکاروں اور کاروباری شخصیات کو یا انکے اہل خانہ میں سے کسی کو اغواءکر کے تاوان وصول کرتے ہیں۔

 

چا کلیٹ کیپسول ۔۔۔ حیران کن فو ائد

لندن (نیٹ نیوز) برطانیہ میں فالج، دل کے دورے، شیزوفرینیا اور ڈیمینشیا جیسی متعدد جسمانی اور دماغی بیماریوں سے تحفظ اور علاج کیلئے ایک نیا کیپسول پیش کیا گیا ہے جو اصل میں چاکلیٹ پر مشتمل ہے۔ بلڈ فلو پلسنامی اس کیپسول میں (flavanols) کہلانے والے مرکبات موجود ہیں جو چاکلیٹ کے اہم ترین اجزا میں بھی شامل ہیں۔ 5 سال کے دورن 18 ہزار سے زائد افراد پر تحقیق اور یورپین فوڈ سیفٹی اتھارٹی سے منظوری کے بعد یہ کیپسول فی الحال برطانیہ میں فروخت کیلئے پیش کیا گیا ہے جسے دیگر یورپی ممالک میں متعارف کروانے کی تیاریاں بھی کرلی گئی ہیں۔ لیکن امریکہ اور دیگر ممالک میں فروخت کیلئے اسے امریکہ کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن سے منظوری کی ضرورت ہوگی۔ بلڈ فلو پلس کیپسول خالص فلیوینولز پر مشتمل ہیں جنہیں پانی کے ساتھ نگلا جاتا ہے جب کہ معدے میں پہنچ کر یہ کیپسول گھل جاتے ہیں اور فلیوینولز باہر آکر اپنا اثر دکھانے لگتے ہیں۔

چیرمین نیب کا بڑا اعلان

اسلام آباد (این این آئی) چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاویداقبال نے کہا ہے کہ نیب کی بد عنوانی کےخلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی کےساتھ بد عنوانی سے آگاہی اورتدارک کی مہم” بد عنوانی سے انکار“2017ءمیں کامیاب رہی ہے اور 2018ءمیں بھی اس پر عملدرآمد جاری رہے گا۔ نیب نیشنل اکاﺅنٹ بیلیٹی آرڈیننس کے سیکشن 33سی کے تحت بدعنوانی کےخلاف آگاہی اور تدارک کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، ملک بھر میں اس حوالے سے نیب کی مہم بھر پور انداز میںجاری ہے۔ نیب لوگوں کو بد عنوانی کے برے اثرات سے آگاہ کرنے کےلئے مختلف سرکاری ، غیر سرکاری اداروں ،میڈیا ،سول سوسائٹی اور معاشرے کے دیگر طبقوں کےساتھ کام کررہا ہے۔ زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے نیب کے ان اقدام کو سراہا ہے۔ منگل کو جاری بیان کے مطابق چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا ہے کہ نیب کی بد عنوانی کےخلاف آگاہی اور تدارک کی مہم ” بد عنوانی سے انکار “کو پرنٹ میڈیا الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں مو¿ثر انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب نے لوگوں کو بد عنوانی کے برے اثرات سے آگاہی کےلئے متعدد اقدامات کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیب کی کوششوں سے تمام شیڈولڈ بینکوں کی اے ٹی ایم مشینوں پر نیب کا پیغام بد عنوانی کےخلاف درج ہے۔ انہوں نے کہاکہ نیب نے یونیورسٹی اور کالجوں کے طالب علموں میں بد عنوانی کے برے اثرات سے آگاہی کےلئے ہائر ایجوکیشن کمیشن کےساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط کئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو نو عمر ی میں بد عنوانی کے برے اثرات سے آگاہ کرنے کیلئے ملک بھر سے مختلف یونیورسٹی اور کالجز میں 45ہزار سے زائد کردار سازی کی انجمنیں قائم کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سوئی نادرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ، آئیسکو ، لیسکو، گیپکو ، پیپکو، فیسکو اور کے الیکٹرک کے بجلی اور گیس کے بلوں پر نیب کا بد عنوانی سے انکار کا پیغام درج کیا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نیب کے تعاون سے اسلام آباد ٹریفک پولیس نے 24لاکھ ڈرائیونگ لائسنس پر نیب کا بد عنوانی سے انکار کا پیغام درج کیا ہے۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب نے لوگوں کو بد عنوانی کے برے اثرات سے آگاہی کےلئے انسداد بد عنوانی کے عالمی دن کے موقع پر مختلف موبائل کمپنیوں کے ذریعے ملک بھر میں موبائل فون صارفین کو بد عنوانی سے انکار کا پیغام بھیجا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب اور پاکستان فلم سینسر بورڈ کے تعاون سے ملک بھر کے سینما گھروں میں نیب کا ویڈیو پیغام بد عنوانی سے انکار پیش کیاجارہا ہے جس کو عوام نے بڑے پیمانے پر سراہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب کاپیغام بد عنوانی سے نکار بلوچستان اور گلگت بلتستان میں تمام اخبارات میں شائع ہونے والے سرکاری ٹینڈز پر بھی درج کیاجارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نیب نے سی پیک منصوبوں میں نگرانی اور شفافیت یقینی بنانے کے لئے چین کی ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط کئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ نیب ملک سے بد عنوانی سے خاتمے کےلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے اپنے قومی فرض کی ادائیگی میں تیزی لایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب ملک میں بدعنوانی کے خاتمے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لا رہا ہے۔

 

دہشتگردی کے خلاف جنگ۔۔۔اصل حقائق سامنے آگئے

واشنگٹن (آن لائن) امریکہ کی جانب سے پاکستان کی عسکری امداد روکنے کے بعد پاکستانی حکام نے گزشتہ 14 برسوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاں بحق ہونے والے 74 ہزار شہریوں اور 1 کھرب 23 ارب ڈالر کے معاشی نقصان پر مشتمل ایک فیکٹ شیٹ جاری کردی۔پاکستان اور امریکا کے مابین تناو¿ اس وقت شدت اختیار کر گیا تھا جب امریکا نے 2011 میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی پر آپریشن کیا۔ تاہم مذکورہ فیکٹ شیٹ امریکا کی سیاسی نقطہ نظر میں معمولی اثر مرتب کرسکتی ہے۔رپورٹ میں اس امر پر بھی توجہ دی گئی کہ کس طرح پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں سے دشمن عناصر افغانستان کے بارڈر کی محفوظ پناہ گاہیں چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ دفاعی اور سکیورٹی اداروں نے عمومی طور پر پورے ملک اور خصوصاً وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) میں امن کی بحالی کے لیے گراں قدر خدمات پیش کیں۔ فیکٹ شیٹ میں تفصیل سے نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) کے 20 نکات کے تحت قومی سطح پر انسداد دہشت گردی کی کوششوں کی وضاحت کی گئی اور بتایا گیا کہ کس طرح پاکستان نے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کرتے ہوئے انہیں افغانستان میں دھکیل دیا۔اسی ضمن میں بین الااقوامی ادارے انٹرنیشنل فیزیشن فار دی پریوینشن آف نیوکلر وار کی پیش کردہ ایک علیحدہ رپورٹ میں کہا گیا کہ سال 2003 سے 2015 کے دوران پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں اپنے 48 ہزار 5 سو 4 شہریوں کی قربانی دی۔فیکٹ شیٹ میں عالمی دہشت گردی انڈیکس (جی ٹی آئی) کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاک آرمی کے قبائلی علاقوں میں کامیاب آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردی سے متعلق واقعات میں 2014 کے بعد سے نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔ نومبر 2017 میں شائع ہونے والی نیٹا سی کرافورڈ کی تصنیف ‘اپ ڈیٹ آن دی ہیومن کاسٹس آف وار فار افغانستان اینڈ پاکستان، 2001 سے وسط 2016‘ میں اسلام آباد کے دعویٰ کی تصدیق کی گئی کہ پاکستان میں جنگ اس وقت شروع ہوئی جب القاعدہ اور طالبان 2001 میں افغانستان سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے پاکستان کے شمالی خطے میں داخل ہوئے۔مصنفہ کا کہنا تھا کہ جنگ میں پاکستان کو ہونے والے نقصان کا تخمینہ نہیں لگایا گیا۔ تاہم امریکی ڈرون طیاروں کے حملے سے تقریباً 2 ہزار 657 معصوم شہری نشانہ بنے۔انہوں نے پاکستان کے مو¿قف کی تائید کی کہ افغانستان میں عسکری آپریشن کے ثمرات پاکستان پر پڑتے ہیں۔فیکٹ شیٹ میں بتایا گیا کہ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف عسکری آپریشن کے نتیجے میں ایک لاکھ شہری بے گھر ہوئے اور نقل مکانی پر مجبور ہوئے تاہم 15 برسوں میں 22 ہزار ایک سو شہری اور 8 ہزار 214 سکیورٹی فورسز کے اہلکار جاں بحق ہوئے جبکہ 40 ہزار 792 شہری جزوی زخمی یا مکمل معذوری کا شکار ہوئے۔ فیکٹ شیٹ میں امریکا کو آگاہ کیا گیا کہ صحافتی فرائض کی ادائیگی کے دوران 58 صحافیوں کے ساتھ ساتھ 92 سماجی رضا کار بھی اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے جبکہ 31 ہزار طالبان اور دیگر عسکریت پسند کو بھی ہلاک کیا گیا۔ جیمز میٹس نے حالیہ بیان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے نیٹو فورسز کے مقابلے میں زیادہ جانوں کی قربانی دی، جبکہ سیکرٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹیلرسن نے بھی کم و بیش انہی الفاظ میں پاکستان کی قربانی کو سراہا تھا۔دوسری جانب جنوبی ایشیا کے امور کے معروف امریکی اسکالر ماروین ویمبون نے پاکستان اور امریکا کے تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے مو¿قف اور امریکی حکام، میڈیا اور سماجی اداروں کے نقطہ نظر میں کوئی ‘ربط نہیں’ ہے۔ماروین ویمبون نے فیکٹ شیٹ کی افتتاحی تقریب جہاں 90 فیصد پاکستانی نڑاد امریکی تھے، سے کہا کہ ‘پیغامات کا تبادلہ دو طرفہ نہیں ہو پاتا۔ انہوں نے کہا کہ سفارتکار پاکستان کا نقطہ نظر امریکی کانگریس، میڈیا، این جی اوز، انتظامیہ کو بھرپور انداز میں پیش کرتے ہیں لیکن وہ اتنا پ±ر اثر ثابت نہیں ہوتا کہ متعلقہ ادارے اور شخصیات پاکستان کی کہانی سنیں۔انہوں نے عالمی سطح پر پاکستانی مو¿قف کی حمایت میں کمی کی بڑی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ امریکی ذرائع ابلاغ میں پاکستان سے متعلق خبریں اس زویہ سے پیش کی جاتی ہیں جس سے پاکستان کے لیے امریکی حلقوں میں منفی تصور پڑتا ہے۔

 

شاہد خاقان عباسی نا اہل ہو سکتے ہیں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ کوئٹہ دھماکہ افسوسناک ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ حملہ آور زرغون روڈ یعنی بلوچستان اسمبلی کی طرف جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ قریب نہ پہنچنے کی وجہ سے اس نے کچھ فاصلے پر پولیس وین کے قریب خود کو اڑا لیا۔ بلوچستان اسمبلی کے اندر تو ہنگامہ چل ہی رہا تھا۔ لگتا ہے کہ دہشت گرد نے خود کو اس ہنگامے میں شمار کرنا تھا۔ اگر یہ دھماکہ اسمبلی کے قریب ہو جاتا تو یہ بہت بڑی خبر بن جاتی۔ بلوچستان اسمبلی میں ہونے والے ڈرامے کا آج ڈراپ سین ہو گیا ہے زہری صاحب مستعفی ہو گئے ہیں۔ ہم بھوتانی صاحب کا نام تو پہلے ہی لے چکے ہیں آج جس کا نام آیا ہے وہ جان محمد جمالی صاحب ہیں یہ پہلے بھی وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں اور ظفر اللہ جمالی کے کزن ہیں۔ جان جمالی کا پچھلا دور تو بہت ہی کرپشن کا دور تھا اس کا بہت شور مچا تھا۔ ہم نے بلوچستان کے دورے کے دوران ہی زہری صاحب کے بارے کہا تھا کہ یہ کبھی کراچی ہوتے ہیں اور کبھی بیرون ملک، صوبے کو تو وقت دیتے ہی نہیں ہیں۔ ایک اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ چاروں اسمبلیاں بھی ٹوٹ جائیں تو سینٹ کا اجلاس ہو سکتا ہے! ملک کے وزیراعظم کہتے ہیں کہ عدالتی فیصلے ردی کی ٹوکری میں۔ کیا اس ملک کا نظام چل سکتا ہے۔ چیف ایگزیکٹو کہہ رہے ہیں کہ عدالتی فیصلے ردی کی ٹوکری میں ہے۔ سابق عدالت نے یوسف رضا گیلانی کو توہین پر گھر بھیج دیا تھا اب اتنی خاموشی کیوں ہے؟مولانا فضل الرحمن حکومت کے ساتھ ہیں، وہ تو کبھی بھی کسی حکومت کے خلاف نہیں جاتے ان کی سیاست حکومتی مفاہمت کے ساتھ چلتی ہے، لیکن حیرت کی بات ہے کہ نوازشریف صاحب اور شاہد خاقان عباسی نے انہیں بلوچستان کے معاملے پر منانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے معذرت ہی کی۔ یہ کہہ کر کہ وہاں کہ لوکل لوگ نہیں مانتے۔ مولانا عبدالواسع کا تعلق جمعیت العلماءاسلام (ف) سے ہے۔ انہوں نے بھی پہلے دن سے کہا تھا کہ عدم اعتماد میں سرفراز بگٹی کا ساتھ دیں گے۔ لگتا یہی ہے کہ بلوچستان کا معاملہ ان کے ہاتھ میں نہیں تھا۔ میاں شہباز شریف کا اثرورسوخ بلوچستان اسمبلی پر نہیں ہے۔ مولانا واسع مولانا فضل الرحمن کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ سیاسی حلقوں میں یہی کہا جا رہا ہے کہ بلوچستان میں صورتحال ایسی ہے کہ کوئی جماعت اب حکومت نہیں بنا سکے گی اور امکانات یہی ہے کہ اس صورت حال کے نتیجے میں اسمبلی ٹوٹ جائے گی۔ لگتا ہے۔ سپریم کورٹ اس وقت کوئی بڑا قدم کسی کے خلاف اٹھانے کیلئے تیار نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاہد خاقان عباسی کے اس بیان کے بعد ہم عدالتوں پر ”قل ہواللہ“ ہی پڑھ سکتے ہیں۔ ماہرین قانون کی رائے کے مطابق وہ نااہل ہو گئے سپریم کورٹ نے اگر نوازشریف کے معاملے پر غلطی کر لی تھی تو انہیں اس پر کچھ نہ کچھ ازالہ کر لینا چاہئے۔ ورنہ لوگ یہ دیکھ رہے ہیں اس وقت سپریم کورٹ کی خاموشی معنی خیز ہے۔ اگر جج حضرات کسی سے خوفزدہ ہیں تو استعفے دے کر علیحدہ ہو جائیں اور ملک کو آئین اور قانون بنا دیں۔ پھر جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ پاکستان میں کچھ بادشاہ ہیں کچھ نواب ہیں کچھ ملکہ ہیں۔ یہ بادشاہوں کا ملک ہے۔ ملک میں ایک صدر ہوتا ہے جو آئین اور قانون کا محافظ ہوتا ہے۔ ماضی میں صورتحال خراب ہو جاتی تھی تو صدر صاحب کوئی نہ کوئی رول ادا کرتے تھے اور دونوں فریقین کو سمجھاتے تھے اور معاملات حل ہو جاتے تھے۔ اگر عدالتیں رول ادا نہ کریں تو ملک میں ڈنڈے اور سوٹے چلا کرتے ہیں۔ نوازشریف کے خلاف جو فیصلے ہو گئے ہیں وہ کوئی سیاسی نہیں بلکہ ”مشکل“ معاملات اقامہ یا پانامہ کوئی سیاسی معاملہ نہیں تھا۔ بلکہ ”مشکل“ تھا۔ آج سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف صاحب نے کہہ دیا ہے کہ میں عدالتوں کی فیسیں دے دے کر تھک گیا ہوں۔ عدالت کیس کیلئے بہت بڑے بڑے وکیل کرنے پڑتے ہیں، فیسیں دینی پڑتی ہیں۔ ان کا مال اسباب ان کی دولت ان کی جائیدادوں کا اندازہ کیا جا سکتا ہے؟ ماہرقانون دان، وجیہہ الدین نے کہا ہے کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں میں سے اگر کوئی ایک ٹوٹ بھی جائے تو سینٹ کا اجلاس بلایا جا سکتا ہے۔ آئینی صورتحال تقریباً اسی قسم کی ہے۔ یوسف رضا گیلانی کو عدالت کے احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے کی وجہ سے فارغ کیا گیا تھا۔ دوسرے کیسز میں بھی جن لوگوں نے ایسا کیا ان کو نوٹسز جاری ہوئے تھے لیکن ایکسن نہیں لیا گیا اور معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کر دیا گیا۔ افتخار چودھری کے دور میں عمران خان کو بھی توہین کا نوٹس جاری ہوا تھا۔ اس وقت میں پی ٹی آئی میں تھا۔ ہم لوگوں نے عمران کو مشورہ دیا تھا کہ معذرت کر لینی چاہئے۔ جو انہوں نے کر لی اور معاملہ ٹل گیا۔ ماہرقانون دان خالد رانجھا نے کہا ہے کہ شاہد خاقان عباسی کے اس بیان سے وہ 62/F کو توڑنے کے مرتکب ہو گئے ہیں۔ وہ نااہل ہو سکتے ہیں۔ عدالتیں انہیں اتنا ریلیف شاید اس لئےدے رہی ہیں کہ نوازشریف کے کیس کا کفارہ ہو رہا ہے یا اس کے نکالے جانے کی زکوٰة نکل رہی ہے۔ اگر وزیراعظم سپریم کورٹ کو تضحیک کا نشانہ بنائے وہاں تو عدالتوں کا احترام ختم ہو جائے گا۔ سپریم کورٹ کو خود اس کا نوٹس لینا چاہئے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ عدالت ”یرک“ گئی ہے۔ ڈر گئی ہے ورنہ تو وہ ایک منٹ نہیں لگاتی۔ عدالت خود کو نہیں بلکہ قانون کو بچانے کیلئے یہ نوٹس لیتی ہے۔ ماہر قانون دان ایس ایم ظفر نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ اس وقت شاید سیاسی اہمیت کے معاملات میں ہاتھ ڈالنا نہیں چاہتی اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو لوگ انہیں مزید اس میں گھسیٹنے کیلئے زور لگائیں گے۔ توہین عدالت کا نوٹس لینا کورٹ کا استحقاق ہے لیکن میرے خیال میں وہ اس وقت ان معاملات میں الجھنا نہیں چاہتے۔ نوازشریف کے خلاف وہ فیصلہ دے چکے ہیں۔ ان پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔ تمام ادارے اس کو قبول کرتے ہیں اس وقت بہتر یہی ہے کہ سپریم کورٹ ایسے نوٹسز سے اجتناب ہی کرے تو بہتر ہے اس وقت توہین کی بارش ہو رہی ہے تمام سیاسی لوگ من مانے بیانات دے رہے ہیں اس طرح کوئی جج فرشتہ نہیں ہے۔ فیصلہ ہو چکا ہے۔ دلائل دیئے جا چکے ہیں۔

 

گارڈ فا در کون ؟ سازش کا مقصد بھی سامنے آگیا

اسلام آباد (آن لائن) وزیر مملکت برائے اطلاعات ونشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے ایک شخص نے پورے ملک میں انتشار پھیلانے کی بات کی لیکن ملک میں انتشار پھیلانے والوں کو کوئی کچھ نہیں کہتا۔ ا ن لیگ کی حکومت نے 4 سال میں ہر میدان میں اپنی کارکردگی ثابت کی ہے۔وزیر مملکت مریم اورنگزیب نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا بلوچستان اسمبلی کو گرانے کی بات بھی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا پہلے اقامہ پر منتخب وزیراعظم کو فارغ کیا گیا، اب یہاں مہروں کو بٹھا کر حکومت گرانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا تمام تر افواہوں کے باوجود سینیٹ الیکشن وقت پر ہوں گے، یہ کون سے مافیا اور گاڈ فادر ہیں جنہیں کینیڈا سے بلایا جاتا ہے۔

 

تحریک انصاف کو بڑا جھٹکا

چکوال، لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) پی پی 20 میں ضمنی الیکشن کے سلسلے میں ہونے والی پولنگ مکمل ہو گئی ہے اور ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔ نون اور جنون کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے۔ خبریں کو کل 227 پولنگ سٹیشنز سے موصول ہونے والے غیرحتمی غیرسرکاری نتائج کے مطابق، مسلم لیگ نون کے سلطان حیدر 76365 ووٹ لیکر کامیاب قرار پائے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے طارق کالس 46298 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر اور تحریک لبیک پاکستان کے ناصر عباس منہاس 16122 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔ پی پی 20 میں پولنگ کا عمل آج دن 9 بجے سے شام 5 بجے تک بلاتعطل جاری رہا۔ پنجاب اسمبلی کی اس نشست کے لئے 5 امیدوار میدان میں اترے۔ مسلم لیگ نون کی جانب سے چودھری حیدر سلطان، تحریک انصاف کے طارق افضل کالس، تحریک لبیک پاکستان کے ناصر عباس منہاس، اے این پی کے چودھری عمران قیصر عباس جبکہ ایک آزاد امیدوار ڈاکٹر طفیل بھی میدان میں تھے۔ تاہم اصل مقابلہ مسلم لیگ نون کے نامزد امیدوار مرحوم رکن صوبائی اسمبلی چودھری لیاقت علی خان کے بیٹے چودھری حیدر سلطان اور تحریک انصاف کے امیدوار طارق افضل کالس کے درمیان ہی متوقع تھا۔ تحریک انصاف کو پیپلز پارٹی، پاکستان عوامی تحریک اور جماعت اسلامی کی حمایت بھی حاصل تھی۔ لاہور کے حلقہ این اے 120سے اپنی عملی سیاست کا آغاز کرنے والی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان نے چکوال کے ضمنی انتخاب میں بھی تاریخ رقم کرتے ہوئے 16ہزار122ووٹ حاصل کر لئے ہیں۔ وزےراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشرےف نے حلقہ پی پی 20 چکوال کے ضمنی انتخابات میں کامیابی پر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار چوہدری حیدر سلطان کو مبارکباد دیتے ہوئے کہاکہ عوام نے چوہدری حیدر سلطان کو اکثریت سے کامیاب کرا کے ثابت کر دکھایا ہے کہ مسلم لیگ (ن) ان کے دلوں میں بستی ہے۔انہوںنے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی شاندار کامےابی اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام ہماری پالےسےوںکو پسند کرتے ہےں۔ عوام نے ضمنی انتخابات میں خدمت کی سیاست کو کامیاب کرایا ہے۔ منفی اور بے بنیاد الزامات کی سیاست ایک بار پھر مسترد ہوئی ہے۔انہوںنے کہا کہ انتشار اورالزام تراشی کی سےاست کرنےوالوں کو اپنی پے در پے شکستوں سے سبق حاصل کرنا چاہےے۔حلقہ پی پی 20 چکوال کے ضمنی الیکشن کے نتائج ذاتی مفادات کی سیاست کرنےوالوں کےلئے نوشتہ دیوار ہیں۔انہوںنے کہا کہ شکست خوردہ عناصر کو جان لینا چاہیے کہ عوام اب صرف اور صرف ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں۔

 

وکلا ءکی فیس کے حوالے سے نواز شریف کا اہم بیان سامنے آگیا

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) نواز شریف نے کہا کہ عدالتوں میں ہزاروں مقدمات زیرالتوا ہیں اور لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ نہیں ہوتا اور پاکستان میں انصاف انتا مہنگا ہے کہ میں وکلاءکی فیسیں ادا کرتے کرتے تھک گیا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ وکلاءکو ان کی فیس ملنی چاہیے لیکن غریبوں کے لیے ریاست کو اس کا انتظام کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم حق کی جنگ لڑ رہے اور میں چاہتا ہوں کہ ہر وکیل اس حق کی جنگ میں ہمارا ساتھ دے تاکہ پاکستان کو ہم ایک ترقی یافتہ ملک بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ایک جمہوری اور آئین کی حکمراں ریاست بنانے کے لیے وکلاءکو ساتھ دینا ہوگا اور ہم نے عدلیہ کی بحالی کی تحریک چلائی لیکن اب ہمیں عدل کی بحالی کے لیے نکلنا ہوگا۔

احتجاجی تحریک ۔۔۔ طا ہرالقادری نے بڑا اعلان کر دیا

لاہور(وقائع نگار)پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عوامی تحریک کی سنٹرل کور کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے قاتل ”شریف جونئیر“ فیصلہ کریں عزت سے جانا ہے یا کسی اور طریقے سے؟شہدائے ماڈل ٹاﺅن کے ورثاءکے ساتھ کھڑی ہونیوالی سیاسی جماعتوں کے تہہ دل سے مشکور ہیں ۔17جنوری کی احتجاجی تاریخ کے متفقہ اعلان سے قاتل حکمرانوں کے ایوانوں میں زلزلہ کی کیفیت ہے۔ 17جنوری کے احتجاج میں تمام جماعتوں کی بھرپور شرکت ہو گی۔ جس جمہوریت میں وزیر اعظم سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے فیصلے کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کا شرمناک بیان دے اور قاتلوں اور لٹیروں کو تحفظ ملے ایسے نظام اور اسکے محافظوں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دینا چاہےے ۔17جنوری سے شروع ہونیوالی احتجاجی تحریک قاتل اعلیٰ اور حواریوں کو انجام کے راستے پر ڈالے گی ۔سلطنت شریفیہ کا اقتدار نزعی حالت میں ہے بہت جلد قوم کو بڑی خوشخبری ملے گی ۔گزشتہ دو دہائیوں میں پہلی بار اپوزیشن قیادت ایک میز پر بیٹھی جس کا اعزاز عوامی تحریک کو ملا اتفاق میں برکت کے ثمرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ،یہ اتفاق برقرار رہا تو ملک سے غاصبوں ،قاتلوں ،چوروں اور لٹیروں کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا ۔ میرا ایمان ہے ظالم نظام کے خلاف بہنے والا خون رائیگاں نہیں جائیگا ۔کور کمیٹی کا اجلاس روزانہ کی بنیاد پر منعقد کرنیکا فیصلہ کیا گیا ۔13جنوری کو عوامی تحریک کی سنٹرل ورکنگ کونسل کا اجلاس بھی طلب کیا گیا ہے ۔سربراہ عوامی تحریک سے گزشتہ روز وائس چیئر مین پنجاب بار کونسل ملک عنایت اللہ اعوان کی قیادت میں سنیئر وکلاءکے ایک وفد نے بھی ملاقات کی وفد میں حافظ ناصر محمود اعوان ایڈووکیٹ ،میاں فیض علی ایڈووکیٹ ممبر پنجاب بار کونسل ،ایم ایچ شاہین ایڈووکیٹ ،یاسر چوہدری ایڈووکیٹ شامل تھے ، مرکزی سیکرٹری اطلاعات نو ر اللہ صدیقی بھی اس موقع پر موجود تھے ۔وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل ملک عنایت اللہ اعوان نے سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے انصاف کےلئے ثابت قدمی کے ساتھ جدوجہد کرنے پر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو خراج تحسین پیش کیا انہوں نے کہا کہ بلا شبہ ملکی تاریخ میں پہلی بار طاقت ور طبقہ کے خلاف جوانمردی کے ساتھ عوامی تحریک کے غریب مگر نڈر اور یمان کی دولت سے مالامال کارکنان نے انصاف کی جنگ لڑی ،جسٹس باقر نجفی کمشن کی رپورٹ کا منظر عام پر آنا مظلوم خاندانوں کی ایک بڑی کامیابی ہے ۔انہوں نے کہا کہ17جنوری سے شروع ہونیوالا احتجاج انصاف کےلئے ہے اور انصاف کی جدوجہد میں وکلاءبرادری شہدائے ماڈل ٹاﺅن کے مظلوم ورثاءکے ساتھ ہے ،انہوں نے سربراہ عوامی تحریک کو یقین دلایا کہ اگر حکمران پر امن احتجاج کے راستے میں رکاوٹ بنے یا ریاستی غنڈہ گردی کی کوشش کی گئی تو اس کا سامنا وکلاءکریں گے۔وکلاءبرادری مظلوموں کی ڈھال بنے گی ۔حکمرانوں نے روایتی مقدمہ بازی کی کوشش کی تو اسکا قانونی سامنا بھی وکلاءکریں گے ۔انہوں نے کہاکہ بار کے منتخب نمائندے حصول انصاف کی قانونی جدوجہد میں بھی عوامی تحریک کے وکلاءکے ساتھ کھڑے ہوںگے،سربراہ عوامی تحریک نے ملک عنایت اللہ اعوان اور انکے دیگر ساتھیوں کا شکریہ ادا کیا ۔انہوں نے کہاکہ ہر دور میں وکلاءنے آئین و قانون کی سر بلندی کےلئے بے مثال جدوجہد کی اور لازوال قربانیاں دیں ۔وکلاءبرادری کے ہوتے ہوئے کوئی ظالم عوام کے بنیادی آئینی حقوق سلب نہیں کر سکتا ۔انہوں نے کہا کہ بڑا شریف اللہ کی گرفت میں آیا۔”شریف جونیئر “ مظلوموں کی آہوں کی لپیٹ میں آئے گا اور اب یہ وقت زیادہ دور نہیں ہے ۔

 

نیا وزیر اعلی بلوچستان کس جماعت سے ہو گا

کوئٹہ (بیورو رپورٹ) وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناءاللہ زہری نے پارٹی کے مرکزی قیادت اور اتحادیوں کے مشورے کے بعد وزارت اعلیٰ سے اپنا استعفیٰ دیدیا وزیراعلیٰ کے استعفیٰ دینے کے بعد صوبائی کا بینہ تحلیل اورمشیروں کو بھی فارغ کر دیا گیا وزیراعلیٰ کے خلاف بلوچستان اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد بھی پیش کی گئی تھی اور وزیراعلیٰ نے تحریک عدم اعتماد سے قبل ہی اپنا استعفیٰ گورنر بلوچستان کو پیش کیا اور گورنر بلوچستان نے وزیراعلیٰ بلوچستان کا استعفیٰ منظور کر لیا وزیراعلیٰ کے مستعفی ہونے کے بعد اپوزیشن اور ن لیگی منحرف اراکین نے خوشی کا اظہار کر تے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے روایات کی پاسداری کر تے ہوئے جمہوری اقدار کو فروغ دیا تفصیلات کے مطابق بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب ثناءاللہ زہری نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ(ن) کے مرکزی صدر میاں محمد نوازشریف اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی کی ہدایت پر وزیراعلیٰ کے عہدے سے مستعفی ہو گئے اور گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی کو اپنا استعفیٰ پیش کیا اور گورنر بلوچستان نے وزیراعلیٰ کا استعفیٰ منظور کر لیا ان کے استعفیٰ کے منظور ہو تے ہوئے صوبائی کابینہ تحلیل ہو گئی اور مشیروں کو فارغ کر دیا گیا وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن ومنحرف اراکین نے جمع کیا تھا اور قرارداد جمع ہونے سے قبل ہی وزیراعلیٰ نے اپنا استعفیٰ بھیج دیا وزیراعظم نے گزشتہ روز نواب ثنااللہ زہری سے ملاقات کی تھی اور انہیں مستعفی ہونے کا مشورہ دیا تھا وزیراعظم نے صوبائی قیادت سے استفسار کیا تھا کہ سیاسی صورتحال کو اس نہج پر کیوں پہنچنے دیا گیا؟ انہوں نے مشورہ دیا کہ اسمبلی سے ووٹ کے ذریعے عدم اعتماد کے بجائے پہلے گھر چلے جانا بہتر ہے۔وزیراعظم نے صوبائی قیادت کو موجودہ صورتحال میں متحد رہنے اور صوبے میں حکومتی معاملات بہتر بنانے کی ہدایت کی ذرائع کے مطابق پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے بھی ثنااللہ زہری کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا تھاصوبے میں سیاسی بحران اور وزیراعظم کے مشورے کے بعد نواب ثنااللہ زہری نے مستعفی ہو گئے نوا ب ثنااللہ زہری سابق وزیراعلی بلوچستان عبدالمالک بلوچ کے ساتھ گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی کے پاس پہنچے جہاں انہوں نے اپنا استعفیٰ پیش کیا نواب ثناءاللہ زہری انتہائی مختصر استعفیٰ لکھا جس میں استعفے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی ہے۔گورنر بلوچستان نے نواب ثنااللہ زہری کا وزارت اعلی سے استعفیٰ قبول کرلیاگورنر بلوچستان نے استعفے کی صوبائی اسمبلی کے اسپیکر سمیت چیف سیکریٹری اور دیگر کو بھی بھجوادی ہے جس کے بعد وزیراعلی کے مستعفی ہونے کا نوٹی فکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔ دوسری جانب بلوچستان اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں محرکین نے عدم اعتمادکی قرار داد واپس لے لی جس کے بعد اجلاس غیر معینہ تک کے لئے ملتوی کردیا گیا۔ بلوچستان اسمبلی کا مذکورہ خصوصی اجلاس ان 14اراکین کی درخواست پر طلب کیا گیا تھا جنہوں نے گزشتہ ہفتے 2جنوری کو سیکرٹری صوبائی اسمبلی کے توسط سے اپنے دستخطوں کے ساتھ عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی تھی تحریک عدم اعتماد کا اعلان ہوتے ہی بلوچستان کا سیاسی درجہ حرارت ایک دم سے بڑھنے لگا تھا اور دن بدن سیاسی بحران گہرا ہوتا گیا اس دوران اسمبلی کا اجلاس بھی منگل 9جنوری کو سہ پہر چار طلب کرلیا گیا جس میں اراکین نے قائد ایوان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنی تھی تاہم اس کی نوبت نہیں آئی اور منگل کی سہ پہر اسمبلی کے اجلاس سے کچھ دیر قبل وزیراعلیٰ نواب ثناءاللہ زہری نے اپنا استعفیٰ گورنر بلوچستان کو ارسال کردیا۔ بلوچستان کے مستعفی ہونے والے وزیراعلیٰ و مسلم لیگ(ن) بلوچستان کے صدر و چیف آف جھالاوان نواب ثناءاللہ خان زہری نے کہاہے کہ زبردستی اقتدار سے چمٹے رہنامیرا شیوہ نہیں مجھے طاقت اور اقتدار اسمبلی نے دیا ہے مجھے محسوس ہورہاہے کہ کافی تعداد میں اسمبلی کے اراکین میری قیادت سے مطمئن نہیں ہیں اس لئے میں ان پر زبردستی مسلط نہیں ہونا چاہتا اقتدار آنے جانے چیز ہے اللہ تعالی نے موقع دیا اور عوام نے مناسب سمجھا تو میں اپنے عوام کی خدمت جاری رکھوں گا ۔یہاں جاری ہونے والے اپنے ایک بیان میں نواب ثناءاللہ خان زہری نے کہا کہ دو ہفتے سے صوبے میں سیای حالات میں بہت تیزی آئی ہے اس میں خاص طور پر چند ساتھیوں کی جانب سے میرے خلاف عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہم نے ہرممکن کوشش کی کہ انکے تحفظات کو دور کریں ہمارے ساتھیوں نے بھی بھر پور کوشش کی ہماری پارٹی کی مرکزی قیادت وزیراعظم پاکستان بھی کل کوئٹہ آئے لیکن بدقسمتی سے ہم کامیاب نہ ہوسکے ۔انہوں نے کہاکہ میں نے پچھلے دو سال کے عرصے کے دوران ہرممکن کوشش کی کہ نہ صرف اتحادی جماعتوں کو ساتھ لیکر چلوں بلکہ اپوزیشن کی جماعتوں کو بھی آن بورڈ رکھا اکثر سرکاری تقاریب میں اپوزیشن لیڈر بھی میرے ساتھ ہوا کرتے تھے جس پر میڈیا کو خوشگوار حیرت ہوا کرتی تھی ۔انہوں نے کہاکہ سیاسی عمل کیساتھ ساتھ اس دوران ہم نے بھر پور کوشش کی کہ صوبہ میں حکومتی عملداری قائم کریں اور صوبے میں امن بحال کریں اللہ کا شکرہے کہ آج صوبے میں امن وامان کی حالت بہت بہتر ہے اور اسکی گواہی آپ سے بہتر کوئی نہیں دے سکتا میں تمام متعلقہ اداروں خاص طورپر بلوچستان پولیس ،فرنیٹئر کور بلوچستان ،لیویز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مشکور ہوں کہ انہوں نے دن رات محنت کی اور ہمارے بچوں کے مستقبل کو بچایا ۔انہوں نے کہاکہ ہم نے پہلی دفعہ اپنے ترقیاتی پروگرام میں اپنے شہروں خاص طورپر ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز کی بہتری پر توجہ دی اور اس کیلئے خطیر رقم مختص کی اور یہ رقم اپنے سیاسی دوستوں کی ترجیحات کی بجائے متعلقہ کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو اس کا ذمہ دار مقرر کیا تاکہ ہم پر اور ہمارے سیاسی دوستوں پر یہ الزام نہ آئے کہ ہم ترقی مخالف ہے اور مجھے خوشی ہے کہ ان دوسالوں میں صوبے کے ہر ضلع میں ترقیاتی عمل نظر آرہاہے میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا آپ خود متعلقہ اداروں سے اس دور کے ترقیاتی کاموں کی تفصیل معلوم کرسکتے ہیں ۔نواب ثناءاللہ زہر ی نے کہاکہ یقینا مخلوط حکومت چلانا اتنا آسان نہیں ہوتا اگر چہ ہم اکثریتی جماعت تھے لیکن پھر بھی ہم نے کوشش کی کہ سب کو ساتھ لیکر چلیں میں خاص طورپر اپنے کولیشن پارٹنزز کا شکر گزارہوں کہ انہوں نے میرا بھر پور ساتھ دیا ۔انہوں نے کہاکہ سیاست میں آپ کی طاقت اپنے ساتھی ہوتے ہیں اگر وہ ساتھ چھوڑ دیں تو پھر زبردستی اقتدار سے چمٹے رہنا میراشیوہ نہیں مجھے طاقت اور اقتدار اسمبلی نے دیا ہے مجھے محسوس ہورہاہے کہ کافی تعداد میں اسمبلی کے اراکین میری قیادت سے مطمئن نہیں ہیں اس لئے میں ان پر زبردستی مسلط نہیں ہونا چاہتا اقتدار آنے جانے چیز ہے اللہ تعالی نے موقع دیا اور عوام نے مناسب سمجھا تو میں اپنے عوام کی خدمت جاری رکھوں گا لیکن میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے صوبے کی سیاست خراب ہوں اس لئے میں وزارعت اعلی کے عہدہ سے مستعفی ہورہاہوں میری خواہش ہے کہ صوبے میں سیاسی عمل جاری رہے اور صوبہ آگے بڑھیں آپ سب کا شکر گزارہوں کہ آپ نے ہر مشکل میں میرا ساتھ دیاا للہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہوں ۔