سمتھ، وارنر کے پاکستان سیریزکاحصہ بننے کا امکان

سڈنی (آئی این پی) آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کے کوچ نے سزا یافتہ کھلاڑی اسٹیو اسمتھ اور ڈیوڈ وارنر کو پاکستان کیخلاف سیریز میں شامل کرنے کا اشارہ دیدیا۔آسٹریلوی میڈیا کے مطابق کوچ جسٹن لینگر نے بال ٹیمپرنگ کیس میں سزا پانے والے آسٹریلیا کے سابق کپتان اسٹیو اسمتھ اور نائب کپتان ڈیوڈ وارنر کو پاکستان کے خلاف ون ڈے سیریز میں شامل کرنے کا اشارہ دے دیا ہے۔جسٹن لینگر نے کہا کہ ورلڈکپ کے لیے کمبی نیشن ترتیب دینے سے پہلے اگر اسمتھ اور وارنر دوبارہ سے آسٹریلیا کی نمائندگی کرنے میں کامیاب رہے تو اسے بہت فائدہ ہوگا، اس کیلئے پاکستان کےخلاف سیریز پر نظر ہے، بصورت دیگر وارنر اور اسمتھ ورلڈکپ کے لیے پریکٹس اور وارم اپ میچز ہی کھیل سکیں گے۔واضح رہے بال ٹیمرپنگ کیس میں دونوں کرکٹرز کی سزا 29 مارچ کو پوری ہورہی ہے۔

پاک پروٹیزٹیسٹ سیریزکامیدان کل سے سجے گا

سینچورین(آئی این پی) پاکستان اور جنوبی افریقہ کے مابین 3ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا پہلا ٹیسٹ (کل)بدھ سے سینچورین میں شروع ہوگا۔ سپراسپورٹس پارک اسٹیڈیم سینچورینکی وکٹ پاکستانی بلے بازوں کے امتحان کیلئے تیار ہے۔ سنچورین میں جنوبی افریقا کے خلاف پہلے ٹیسٹ کیلئے پچ پر گھاس موجود ہے امکان ہے کہ پچ فاسٹ بولروں کو مدد دے گی اس لئے اصل امتحان پاکستانی بیٹنگ کا ہوگا۔پاکستانی بیٹنگ میں امام الحق، فخر زمان، اظہر علی، حارث سہیل، اسد شفیق، بابراعظم اور کپتان سرفراز احمد شامل ہوں گے جب کہ ان فارم شان مسعود کی جگہ امام الحق کے ساتھ فخر زمان اننگز کا آغاز کریں گے۔پاکستانی ٹیم پہلے ٹیسٹ میں چھ بیٹسمینوں، تین فاسٹ بولروں محمد عامر، حسن علی اور شاہین شاہ آفریدی اور ایک اسپیشلسٹ اسپنر یاسر شاہ کے ساتھ میدان میں اترے گی۔محمد عباس کے حوالے سے چیف سلیکٹر انضمام الحق کا دعوی درست ثابت نہ ہوسکا اور وہ بدستور کندھے کی تکلیف میں مبتلا ہیں جس کے باعث پہلے ٹیسٹ میں شرکت نہیں کرسکیں گے۔دو روز قبل چیف سلیکٹر انضمام الحق نے میڈیا کو بتایا تھا کہ محمد عباس کو ڈاکٹرز نے کہا تھا کہ پریکٹس میچ میں 50 فیصد جب کہ ٹیسٹ میچ میں 100 فیصد فٹ ہوجائیں گے اس لئے آرام دیا گیا تھا۔انضمام الحق نے کہا تھا کہ پاکستانی ٹیم کو نیوزی لینڈ کیخلاف سیریز 0-3 سے جیتنی چاہیے تھی لیکن بیٹسمینوں نے اچھا پرفارم نہیں کیا، کھلاڑیوں کو احساس ہوا کہ غلطیاں ہوئیں جو جنوبی افریقا سیریز میں نہیں دہرائیں گے۔انضمام الحق کے بھتیجے امام الحق کی بیٹنگ فارم یقینی طور پر سب کی نظروں میں ہے اور وہ نیوزی لینڈ کی سیریز میں تین ٹیسٹ میں صرف 73 رنز بناسکے تھے۔

قومی بلے بازپروٹیزسیریزکامرکزی کردار،مکی

سینچورین (نیوزایجنسیاں)پاکستانی ٹیم کے کوچ مکی آرتھر نے جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز کے لیے بلے بازوں کو مرکزی کردار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پروٹیز کے خلاف سیریز کے نتیجے کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ ہمارے بلے باز کتنے رنز اسکور کرتے ہیں۔پہلے ٹیسٹ میچ سے قبل ایک انٹرویو میں آرتھر نے کہا کہ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ ہم آسانی سے 20وکٹیں لے سکتے ہیں لیکن ہمارے لیے چیلنج 350 سے 400 رنز بنانا ہے۔آرتھر کی طرح ان کے جنوبی افریقی ہم منصب اوٹس گبسن بھی یہی جملہ استعمال کر سکتے ہیں جن کے پاس کگیسو ربادا اور ڈیل اسٹین کی شکل میں دو بہترین بالرز موجود ہیں لیکن جنوبی افریقہ میں بالرز کے لیے سازگار وکٹوں پر میزبان ٹیم کی اپنی بیٹنگ بھی ان کے کوچ کے لیے دردسر بنی ہوئی ہے۔سنچورین میں 26دسمبر سے شروع ہونے والے پہلے ٹیسٹ میچ سے قبل پاکستان اور جنوبی افریقہ دونوں ہی ٹیمیں اپنے سب سے مستند بالرز محمد عباس اور ورنن فلینڈر سے محروم ہو چکی ہیں جہاں دونوں ہی بالرز بہترین لائن و لینتھ پر بالنگ کرنے کے لیے مشہور ہیں۔فلینڈر انگلی ٹوٹنے کے سبب نہیں کھیل سکیں گے جبکہ محمد عباس کندھے کی انجری کا شکار ہیں۔عباس کی غیرموجودگی میں بھی پاکستان کے پاس محمد عامر، ھسن علی اور شاہین شاہ آفریدی کی شکل میں اچھا بالنگ اٹیک موجود ہے جبکہ یاسر شاہ کی لیگ اسپن بھی میزبان بلے بازوں کے لیے چیلنج ہو گی۔جنوبی افریقہ کو کگیسو ربادا کے ساتھ ساتھ تجربہ کار ڈیل اسٹین کا ساتھ میسر ہو گا جبکہ انجری کا شکار لنگی نگیدی کی جگہ ڈوان اولیویئر تیسرے بالر ہیں جنہوں نے جنوبی افریقی ٹی20 ٹورنامنٹ سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کی تھیں۔
\

دنیا کرسمس کی روشنیوں سے جگمگا اٹھی

لاہور(ویب ڈیسک)اگرچہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں کرسمس کے آنے سے کئی دن قبل ہی اس کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں، تاہم 20 دسمبر کے بعد اس کی تیاریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔امریکا سے لے کر برطانیہ اور جرمنی سے لے کر چین تک نہ صرف عیسائیت کے پیروکار بلکہ دیگر افراد بھی کرسمس کی خوشیاں منانے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔کرسمس کے دن سے پہلے ہی کئی ممالک کے لوگ درخت، سانتاکلاز کے لباس، لائٹوں، کیکس اور دیگر چیزوں کا تبادلہ کرتے نظر آتے ہیں۔کرسمس کے دن پر کئی ممالک کے گرجا گھروں سمیت نجی ہوٹلوں اور دیگر مقامات پر مختلف تقریبات کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔اس دن کی خاص بات یہ ہے کہ یہ دنیا کے تمام ممالک میں ایک ہی دن یعنی 25 دسمبر کو منایا جاتا ہے، دیگر مذاہب کے قدرے ہر ملک میں ایک ہی دن نہیں منائے جاتے۔

کراچی میں دفعہ 144 نافذ، ساحل سمندر پر جانے پر پابندی عائد

کراچی (ویب ڈیسک)کراچی میں دفعہ 144 نافذ کر کے ساحل سمندر پر جانے اور نہانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔محکمہ داخلہ سندھ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق 24 اور 25 دسمبر کو سمندر پر جانے اور نہانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔نوٹیفکیشن کے مطابق سال نو کے موقع پر بھی ساحل سمندر پر جانے پر پابندی ہو گی۔اس کے علاوہ ریڈ زون میں 5 سے زائد افراد کے اجتماع اور احتجاج پر پابندی میں 6 ماہ کی توسیع کر دی گئی ہے۔

طیب اردگان ہی وہ شخص ہیں جو داعش کا خاتمہ کرسکتے ہیں، ٹرمپ

واشنگٹن(ویب ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ترک صدر طیب اردگان ہی وہ شخص ہیں جو داعش کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔امریکی صدر کی ترک ہم منصب کو فون کال کی تفصیلات سامنے آئی ہیں جس میں ٹرمپ نے اردگان کو کہا کہ ہم اپنا کام کرچکے ہیں اب شام آپ کے حوالے۔ سینیئر امریکی عہدیدار کے مطابق 14 دسمبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ترک صدر رجب طیب اردگان کے درمیان گفتگو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ہم اپنا کام کرچکے ہیں اب شام آپ کے حوالے اور آپ ہی وہ شخص ہیں جو داعش کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔وائٹ ہاﺅس کے ایک اور سینیئر حکام نے کہا کہ ترک صدر رجب طیب اردگان نے امریکی صدر کو یقین دلاتے ہوئے کہا کہ ہم شام میں داعش کا خاتمہ کردیں گے، ہم نے پہلے بھی یہ کام کیا ہے اور جب تک امریکا کی لاجسٹسک سپورٹ ساتھ ہے ہم داعش کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ترکی شام میں داعش کی باقیات کا خاتمہ کردے گا، طیب اردگان ہی وہ شخص ہے جو یہ کام کرسکتا ہے جب کہ امریکی فوج واپس گھر آرہی ہیں۔واضح رہے کہ چند روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ویڈیو پیغام میں شام سے امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے شام میں داعش کو شکست دیدی ہے۔

2018 پاکستانی معیشت کے لیے کیسا رہا؟

اسلام آباد (ویب ڈیسک)2018 آیا اور گزر گیا، کچھ کاروباری افراد کے لیے اچھا اور کئی کے لیے برا رہا۔لیکن معیشت کے لیے گزرا برس کیسا رہا؟ اس سوال کا جواب ہے آدھا سال اچھا اور آدھا برا۔جون 18 20 میں ختم ہونے والے مالی سال جولائی 17 تا جون 18 میں شرح نمو ایک دھائی کی بلند ترین سطح پر رہی لیکن 2018 جولائی سے دسمبر کی کارکردگی نے پریشان کردیا۔ گزرے برس کو مد نظر رکھتے ہوئے میں معاشی صورت حال پر تبصرہ یوں کر سکتا ہوں کہ کس راہ گزر کو ہم گزار کر آئے ہیں۔2018 کے آخری ایام میں پاکستانی روپے کی قدر دیکھیں تو انٹربینک تبادلہ مارکیٹ میں ڈالر لگ بھگ 139 روپے کو چھوتا ہوا بلندی کی نئی سطح پر ہے اور جب ڈالر مہنگا ہو تو سونے کی تیوری کیوں نہ چڑھے۔سعودی نے ہر ماہ ایک ارب ڈالر اسٹیٹ بینک میں جمع کرواتے ہوئے سال کے اختتام پر دو ارب ڈالر بھیجے۔ تاہم یہ رقم تین فیصد شرح سود پر جمع کراوئی گئی ہے۔سال کے آغاز پر ایک تولہ سونا تقریباً 54 ہزار روپے پر تھا لیکن سال کے اختتام تک اسے پر لگ گئے اور اس نے اونچی اڑان بھری۔ اب یہ قریب 68 ہزار روپے فی تولہ ہو گیا۔روپے کی قوت تبادلہ متاثر ہوئی ہے کیوں کہ مرکزی بینک کے پاس زرمبادلہ ذخائر جو سال کے آغاز پر 14 ارب ڈالر تھے وہ کم ہوکر 8ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔سعودی عرب نے تین ارب ڈالر دینے کے ساتھ خام تیل کی خریداری کے ادائیگی میں تاخیر کی سہولت دی تو معیشت کی سانس کچھ بحال ہوئی۔ سعودی نے ہر ماہ ایک ارب ڈالر اسٹیٹ بینک میں جمع کرواتے ہوئے سال کے اختتام پر دو ارب ڈالر بھیجے۔ تاہم یہ رقم تین فیصد شرح سود پر جمع کراوئی گئی ہے۔ساتھ ہی سال کے آخری ایام میں متحدہ عرب امارات نے بھی تین ارب ڈالر دینے کی یقین دہانی کروائی تو معیشت کی بحالی کے لیے امید کی کرن دکھائی دی تاہم یہ سب بھی شامل کرنے کے بعد سال کا اختتام تک زرمبادلہ کے زخائر 11 ارب ڈالر کی سطح تک ہی پہنچ سکے۔ ادھر یہ بھی ذہن میں رکھنا ہو گا کہ سال کے آغاز سے ہی اس میں کمی ہونے لگے گی گو کہ سعودی عرب سے مزید ایک ارب ڈالر ملیں گے لیکن ڈالر کا استعمال بیرونی ادائیگیوں کے لیے ہوتا ہے اور اگر برآمدات اور درآمدات کے فرق میں کمی نہیں آتی تو معیشت کی بحالی ایک خواب ہی رہے گی۔نومبر 2018 تک ہماری درآمدات کے مقابلے میں برآمدات زیادہ رہیں جو برسوں سے ہو رہا ہے۔ اس فرق میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ آسان الفاظ میں بیان کریں تو ہماری آمدنی سے ہمارے اخراجات زیادہ ہوتے ہیں اور 2018 نومبر تک ہم نے دنیا بھر سے 52 ارب ڈالر کی اشیا خریدیں ، جسے امپورٹ یا درآمدات کہتے ہیں۔اس کے برعکس ہم نے جو دنیا بھر میں فروخت کیا ، یعنی ہماری ایکسپورٹس یا برآمدات محض 23 ارب ڈالر رہیں اور اس میں بیرون ملک پاکستانیوں کی بینک کے ذریعے بھیجے 19 ارب ڈالر ملا نے کے بعد بھی قریب پونے 17 ارب ڈالر کی کمی رہی۔با الفاظ دیگر کمایا کم اور خرچہ زیادہ کیا۔ اس جمع خرچ کو کرنٹ اکاونٹ ڈیفیسٹ یا جاری مالی خسارہ کہتے ہیں۔بڑھتے اخراجات کے باعث نہ صرف خسارہ زیادہ ہوا بلکہ اس میں تیزی بھی آتی رہی۔ اس برس جی ڈی پی گروتھ یا معاشی ترقی کی شرح پانچ اعشاریہ چار فیصد رہی۔گزرے سال اسٹیٹ بینک نے شرح سود بڑھا کر اور حکومت نے ریگولیٹری ڈیوٹیز لگاکر صورت حال کو قابو کرنے کی کوشش کی ہے۔ا?سان لفظوں میں بیرونی دنیا سے خریداری کے مد میں آنے والے اخراجات کم کرنے کے لیے کچھ اقدامات اٹھائے۔ڈالر کی سطح کو قابو کرنے کے لیے مرکزی بینک کی مداخلت کی روش ترک کی اور ڈالر کی قیمت کا تعین مارکیٹ پر چھوڑ دیا۔2018 میں شرح سود میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو 4.25 فیصد بڑھ کر 10 فیصد ہوگیا۔ اس کے علاوہ شرح سود میں اضافہ، پیٹرول کی قیمت کے ساتھ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھنا جیسے اقدامات کیے گئے۔ حکومت کی کوشش تھی کہ بیرون ملک سے خریداری کو جتنا ہو ممکن ہو کم کیا جائے یعنی بیرون ملک سے غیر ضروری اشیا ئے صرف خریدنے کی حوصلہ شکنی کی جائے اور مقامی سطح پر ہی تیار کی جانے والی اشیائ کو فروغ دیا جائے۔ویسے یہ سوچ ہمارے یہاں ایک زمانے سے ہے مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ سوچ پنپ نہیں سکی۔ اس کی ایک وجہ پاکستان میں تیار ہونے والی اشیائ کا غیر معیاری ہونا کے علاوہ صارفین کے بھروسہ نا ہونا بھی ہے۔ اس سوچ کو کم کرنے اور ” میڈ ان پاکستان ” پر عوام کا اعتماد بڑھانے کے اقدامات کی ضرورت ہے۔2018 میں شرح سود میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو 4.25 فیصد بڑھ کر 10 فیصد ہوگیا۔ سال کے دوران بیرونی سرمایہ کاری ایک ارب 90 کروڑ ڈالر رہی اور ملکی معیشت خسارے کا شکار رہی۔حکومت سال کے دس مہینوں میں 3710 ارب روپے قرض لے چکی ہے۔ 2018 کے اختتام پر صور ت حال یہ ہے کہ معاشی سرگرمیاں سمٹنے سے روزگار کے مواقع کم اور حکومت کی آمدنی بھی متاثر ہوئی ہے۔ جس کی تکلیف سب محسوس کررہے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ جون 2019 تک کچھ بہتری کی امید ہے۔

کابل میں وزارت پبلک ورکس کے دفتر پر دہشت گردوں کا حملہ

کابل(ویب ڈیسک) افغان وزارت پبلک ورکس کے دفتر پر دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں 3 افراد زخمی ہوگئے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان کے دارالحکومت کابل میں وزارت پبلک ورکس کے دفتر پر دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں 3 افراد زخمی ہوگئے، افغان حکام کے مطابق پہلے حملہ آوروں نے پبلک ورکس کے دفتر کے گیٹ پر کاردھماکے سے اڑادی جس کے بعد دہشت گرد عمارت میں داخل ہوئے اور آس پاس کی عمارتوں پر پوزیشن سنبھال لی تاہم سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں سے علاقے کو کلیئر کرانے کے لیے آپریشن شروع کردیا ہے۔افغان وزارت داخلہ کے مطابق دہشت گردوں کی جانب سے مسلسل فائرنگ کی جارہی ہے جب کہ عمارتوں میں محصور افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

’قیام پاکستان کے اصول رد کیے تو قوم عدم استحکام کی دلدل میں پھنس جائے گی‘

لاہور(ویب ڈیسک) پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت کے اصول رد کیے گئے تو قوم عدم استحکام کی دلدل میں پھنس جائے گی۔سابق صدر آصف زرادری کا یوم قائداعظم پر اپنے پیغام میں کہنا تھا کہ قائداعظم کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ پاکستان جمہوری اور ترقی پسند ریاست ہوگی اور قائد اعظم کے اصول آئین وقانون کی حکمرانی اور شہریوں کیلئے برابر کے حقوق دینا تھا لیکن آج ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ریاست کس ڈگر پر جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ضرورت ہے کہ ہم خود سے پوچھیں کونسی غلطیوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے، قیام پاکستان کے وقت کے اصول رد کیے گئے تو قوم عدم استحکام کی دلدل میں پھنس جائے گی۔ان کا کہنا ہے کہ پاکستان جن اصولوں پر قائم ہوا تھا، پیپلزپارٹی ان کی حفاظت کرے گی اور مطلق العنانیت، انتہاپسندی اور عسکریت پسندی کیخلاف جدوجہد کرتی رہے گی۔آصف زرادری نے کہا کہ افواج پاکستان، پولیس، قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے انتہاپسندی اور عسکریت پسندی سے جنگ میں عظیم قربانیاں دیں۔ان کا کہنا تھا کہ کیا ریاست مذہبی نظریات اور سکیورٹی کے نام کے غلط استعمال سے آزادی اظہار کو دبا تو نہیں رہی؟ ہم ان لوگوں کیخلاف لڑیں گے جو مذہب اور نظریات کے نام پر ریاست کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔

ڈالر پر انحصار کم کر کے روپے میں تجارت کرنا چاہتے ہیں: وزیر خزانہ

کوئٹہ(ویب ڈیسک)وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ ڈالر پر انحصار کم کر کے مقامی کرنسی میں تجارت کرنا چاہتے ہیں۔کوئٹہ چیمبر آف کامرس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خزانمہ اسد عمر کا کہنا تھا کہ ہمیں پورے ملک کی ذمہ داری دی گئی ہے، ہمیں ملک کے ہر علاقے کو ترقی کے مواقع دینا ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ملک میں صنعت اور زراعت بری طرح متاثر ہوئے ہیں، کوشش ہے ایسی پالیسیاں لائیں جس سے ملک کو فائدہ ہو۔انہوں نے کہا کہ وفاق اور بلوچستان حکومت دونوں مل کر صوبےکی ترقی کے لیے کام کریں گے۔وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہمیں نوجوانوں کو روزگارکے مواقع فراہم کرنا اور سی پیک کے اگلے مرحلے میں صنعت و تجارت کو فروغ دینا ہے۔اسد عمر نے کہا کہ ہم اس وقت برآمدات کو ترجیح دے رہے ہیں، ڈالر پر انحصار کم کر کے مقامی کرنسی میں تجارت کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ گوادر اور بلوچستان کے بغیر سی پیک مکمل نہیں ہے، صوبے کے مختلف شعبوں کو بھرپور حصہ دار بنانا چاہیے۔ان کا کہنا تھا میری سفارش ہو گی کہ صوبے میں اکنامک زون آئندہ پی ایس ڈی پی میں شامل کیا جائے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ لوگوں کو کاروبار کے طریقہ کار کے حوالے سے پروگرام لا رہے ہیں، خواتین تاجروں کو بھی مساوی مواقع فراہم کیے جائیں گے۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت عوام کو غربت سے نکالنے اور کاروبار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔انہوں نے کہا کہ صنعت کاری کے لیے نجی شعبے کا تعاون ضروری ہے، گوادر میں ایکسپورٹ پروسیسنگ زون اور اسپیشل اکنامک زون بنائے جا رہے ہیں، ہماری کوشش ہے کہ بلوچستان کو اس کا حصہ ملے۔ان کا کہنا تھا کہ حلال فوڈ کی عالمی مارکیٹ میں بلوچستان موثر کردار ادا کرتا ہے۔اسد عمر نے کہا کہ ہماری حکومت نے بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے، بھارت سے تجارت کو فروغ دینا چاہتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمیں بھارت سے مثبت جواب نہیں ملا۔ان کا کہنا تھا کہ خطے کے تمام ممالک سے تجارت اور مضبوط تعلقات چاہتے ہیں، ایران، پاکستان کے مابین تجارت، بینکنگ سے متعلق رپورٹ تیار کرنےکی ہدایت کی ہے سرحدوں پر باڑ لگانے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اسد عمر کا کہنا تھا کہ اسمگلنگ سے ملکی تجارت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، سرحد پر باڑ لگانے سے اسمگلنگ کا خاتمہ ممکن ہو گا۔