اسلام آباد (ویب ڈیسک ) چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے خدیجہ صدیقی قاتلانہ حملہ کیس میں کہا دیکھنا ہے کہ ہائیکورٹ کا نتیجہ شواہد کے مطابق ہے یا نہیں۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے خدیجہ صدیقی قاتلانہ حملہ کیس کی سماعت کی۔ خدیجہ صدیقی پر قاتلانہ حملے کا ملزم شاہ حسین عدالت میں پیش ہوا۔وکیل خدیجہ صدیقی نے موقف اختیار کیا کہ ہائیکورٹ نے مقدمہ کے مکمل شواہد کو نہیں دیکھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہائیکورٹ کا نتیجہ شواہد کے مطابق ہے یا نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ خدیجہ صدیقی ملزم کو جانتی تھی وہ کلاس فیلو بھی تھے، اس کے باوجود ملزم کو 5 دن کی تاخیر سے مقدمے میں نامزد کیوں کیا گیا۔خدیجہ کے وکیل نے کہا کہ حملے کے وقت خدیجہ صدیقی حواس میں نہیں تھی، اس نے ڈاکٹر کو بھی اجنبی قرار دیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ خدیجہ کی گردن کے اگلے حصے پر کوئی زخم نہیں تھا، وہ بول سکتی تھی۔لاہور میں مئی 2016 میں قانون کی طالبہ خدیجہ صدیقی پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا لیکن خوش قسمتی سے ان کی جان بچ گئی تھی۔ خدیجہ کے کلاس فیلو شاہ حسین کو گرفتار کرکے اس کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ دائر کیا گیا جس کے مطابق اس نے گردن اور دیگر اعضا پر خنجر کے 23 وار کرکے خدیجہ کو شدید زخمی کیا۔ واقعے کی ویڈیو فوٹیج بھی پیش کی گئی۔جوڈیشل مجسٹریٹ نے شاہ حسین کو مجرم ثابت ہونے پر 7 برس قید کی سزا سنائی پھر سیشن کورٹ نے اس کی سزا کم کرکے 5 سال کردی۔ اس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے اسے بری کردیا۔ملزم کی رہائی پر اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے معاملے کا از خود نوٹس لیا تھا۔ ملزم شاہ حسین کے والد ایڈووکیٹ تنویر ہاشمی ہیں جنہوں نے از خود نوٹس کے خلاف لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن میں قرارداد پیش کی جو منظور کرلی گئی تھی۔