لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ بلاول بھٹو کی پریس کانفرنس کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قدرتی بات ہے کہ مریم نواز کے والد نوازشریف جیل میں ہیں ان کی طبیعت بھی خراب ہے جس طرح سے ان کا کلیم ہے کہ ان کو دل کی تکلیف ہے لیکن دل کے امراض کے ہسپتال میں جانا نہیں چاہتے وہ اپنی مرضی کے کسی ہسپتال جانا چاہتے ہیں جس کا نام بھی انہوں نے ابھی تک نہیں بتایا دوسری طرف بلاول بھٹو کے والد محترم آصف زرداری ان کے خلاف جے آئی ٹی جتنی رپورٹیں آئی ہیں وہ انہیں جیل بھجوانے کے لئے کافی ہیں اور لگتا ہے عنقریب ان کا فیصلہ ہونے والا ہے اس لئے بلاول بھٹو بھی بہت انتہا پر جا کر بولنے لگے ہیں آج تو انہوں نے یہاں تک کہا ہے کہ نیب والے اگر ان کو سزا نہیں دیں گے تو ہم نیب والوں کو پکڑیں گے میری سمجھ نہیں آتا کہ صوبائی حکومت جو ہے وہ نیب کے سربراہ کو کس طرح سے پکڑ سکتی ہے اب اس ملک میں الٹی گنگا بہے گی۔ نیب کے سربراہ کو جس کی تقرری میں اس وقت کی پیپلزپارٹی اور اس وقت کی مسلم لیگ کے سربراہوں کا ہاتھ تھا اوران دونوں پارٹیوں کی قیادت نے ان کا نام تجویز کیا تھا نیب قوانین میں ترمیم کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ آج کی نیب کے جو سربراہ تھے ان کو آصف زرداری اور میاں محمد نوازشریف کی منظوری سے بنایا گیا تھا اور لیکن ان کی جو کارکردگی سامنے آ رہی ہے وہ ان دونوں جماعتوں کی قیادت کو پسند نہیں ہے آج تو انہوں نے یہاں تک دھمکی دے دی ہے کہ پھر کر کے دکھائیں۔ صوبائی حکومت کس طرح سے نیب کے سربراہ کو کیسے گرفتار کرے گی اور کون سے قانون کے تحت کرے گی۔ بلاول بھٹو زرداری صاحب ہی اس کا جواب دے سکتے ہیں۔ بلاول بھٹو کی 18 ویں ترمیم کے حوالے سے بات بارے گفتگو کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے خلاف سازش کہاں ہو رہی ہے۔ ان پروگراموں میں بار بار ہم نے پوچھا ہے کہ 18 ویں ترمیم کو کہاں تکلیف پہنچی ہے۔ انہوں نے کبھی شکایت کی ہو کہ مجھے تھپڑ مارا ہے یا میرا بازو مروڑا ہے اٹھارویں ترمیم خود بھی تو کچھ کہے۔ ہمیں تو کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی کہ وفاقی حکومت نے 18 ویں ترمیم کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہو یا اس ترمیم کے خلاف لانے کا اعلان کیا ہو یا آئین میں ترمیم کے بارے میں کوئی پلاننگ کی ہو۔ یہ ساری خود ساختہ توہمات ہیں اور خطرات ہیں جو بلاول بھٹو صاحب کو پائے جاتے ہیں دراصل اٹھارویں ترمیم وہ اپنے والد صاحب کو سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں آصف زرداری خود جو ہیں وہ اٹھارویں ترمیم ہیں کیونکہ جب بھی ان کا بازو مروڑا جاتا ہے اور کوئی جے آئی ٹی ان پر نیا الزام لگاتی ہے یا ان کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگتا ہے تو فوراً ہی بلاول بھٹو کو 18 ویں ترمیم خطرے میں نظر آتی ہے۔ لانگ مارچ کا ہر شخص کو حق حاصل ہے جب چاہیں بلاول ہاﺅس سے نکل سکتے ہیں وہی بلاول ہاﺅس جس کی تعمیر ملک ریاض نے کروا کر دی تھی۔ اب تو یہاں کوئی پوچھتا بھی نہیں کہ کون سا گھر کس نے بنوا کر دیا اور کون پیسہ خرچ کر رہا ہے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ میثاق جمہوریت کے حوالے سے اگر ایک فریق بات کرے گا تو دوسرا اس کا جواب بھی دے گا ظاہر ہے انہوں نے چارٹرآف ڈیموکریسی کیا ہے پی ٹی آئی نے اسے چارٹر آف ڈکیتی کہا ہے یہ تو الفاظ کی گولہ باری ہوتی ہے جو سیاسی مخالفین میں جاری رہتی ہے لیکن ایک بات اپنی جگہ درست ہے کہ واقعتاً میں پوری سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کی ہے بار بار کہ اٹھارویں ترمیم کو کیا خطرہ ہے۔ کیا اٹھارویں ترمیم ختم کی جا رہی ہے کوئی اطلاع نہیں کیا اس کے بارے میں کوئی پلاننگ کی جا رہی ہے کوئی نظر نہیں آ رہا۔ اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کو جو اختیارات دیئے گئے تھے کیا ان میں سے کسی اختیار پر عملدرآمد کرتے ہوئے صوبے کو روکا گیا ہے اس کو بات نہیں ہے پھر ترمیم کو جب خطرہ ہے ہی نہیں پھر اس کو خواہ مخواہ ایشو بنانا کہ میرے والد صاحب کو کیوں پکڑا جائے اس لئے 18 ویں ترمیم کو خطرہ ہے۔
نوازشریف کے علاج کے حوالہ سے ن لیگ کا خط سامنے آ جائے گا۔ بظاہر تو ہم نے یہی سنا ہے کہ پنجاب حکومت کو بار بار ہدایات دی جا رہی ہیں عمران خان کی طرف سے بھی پنجاب حکومت کو کہا ہے پنجاب حکومت نے بھی 3 آپشن دے دیئے ہیں۔
آج اعتزاز احسن صاحب کا بیان اخبارات میں چھپا ہوا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ دراصل نوازشریف صاحب لندن جا کر اپنا علاج کروانا چاہتے ہیں۔ اب انگلینڈ جانے کا معاملہ جو ہے۔ نہ تو عمران خان کے ہاتھ میں ہے نہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے ہاتھ میں ہے یہ اجازت تو عدالت ہی دے سکتی ہے کیونکہ اسی کورٹ آف لاءکے تحت نوازشریف قید کئے گئے ہیں اور اگر وہ قیدی ہیں تو سیاسی قیدی نہیں ہیں وہ ایک کرپشن کے جرم میں باقاعدہ ٹرائل کے بعد ان کو یہ سزا دی گئی ہے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ بڑی پارٹیوں میں گروپنگ تو چلتی رہتی ہے اب ظاہر ہے چونکہ کہا گیا تھا کہ اعتزاز احسن صاحب شہباز شریف صاحب کے ساتھ ہو گئے ہیں اور مریم نواز جو ہیں نواز شریف کے ساتھ ہیں اس لئے انہوں نے اپنی صفائی میں یہ کہا ہے کہ میں نہیں سمجھتا کہ پیپلزپارٹی میں کوئی ڈویژن ہونے جا رہی ہے میرا خیال ہے کہ اتنی اختلافی بات کسی ایک ایشو پر یہ تو پارٹیوں کے اندر چلتی رہتی ہے۔ کوئی بھی پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں جائے گا تو وہ ان سیٹ ہو جائے گا لہٰذا فارورڈ بلاک تو بن سکتے ہیں کوئی پارٹی چھوڑ کر ڈائریکٹلی دوسری پارٹی میں شامل نہیں ہو سکتا۔
بلاول بھٹو کا الزام کہ تین وزراءکا تعلق کالعدم تنظیموں سے ہے ضیا شاہد نے کہا کہ اس الزام کا جواب تو وہ تین وزیر دیں گے ہمیں کیا پتہ وہ کون سے وزیر ہیں۔ ایک شبہ ظاہر کیا گیا تھا اور شیخ رشید سے پوچھا گیا تھا کہ جناب آپ کا نام بھی ان تین وزیروں میں سے ہے تو شیخ صاحب نے کہا کہ میرا نام اگر انہوں نے لیا ہوتا تو میں ان کو ایسا جواب دیتا کہ پتہ چل جاتا لیکن میں نے وعدہ کیا ہوا ہے کہ میں ان کو کچھ نہیں کہوں گا یعنی بلاول صاحب کو اور بلاول صاحب مجھے کچھ نہیں کہیں گے لیکن میرا نام نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کوئی اور تین وزیر ہیں ان پر الزام لگائیں اور باقاعدہ عدالت تک معاملہ جائے گا تھانے کچہری تک جائے گا یہ تو مسئلہ ایسا ہے ہم اس کا جواب نہیں دے سکتے۔ جہاں تک کالعدم تنظیموں کے کارکنوں کا تعلق ہے یہاں جماعة الدعوة کے بہت سارے لوگ تھے وہ اپنی ذاتی حیثیت میں کچھ لوگوں کی مدد کر رہے تھے الیکشن جب آتا تو لوگ الیکشن میں بالکل اپنے ہاتھ کٹوا کر اور آنکھوں پر نقاب چڑھا کر گھر نہیں بیٹھ جاتے ظاہر ہے وہ الیکشن میں حصہ لیتے ہیں اگر ان کا تعلق کسی کالعدم تحریک سے بھی ہے تو وہ کسی نہ کسی پارٹی کو ووٹ دیں گے کسی کے خلاف دیں گے اس سے میں نہیں سمجھتا کہ کوئی چیز ثابت کی جا سکتی ہے ایک عام کارکن کو حق حاصل ہے کہ وہ جس کو جی چاہے ووٹ دے۔
نواز شریف کا معاملہ عدالت میں جائے گا، عدالت جو فیصلہ کرے گی اس پر عمل ہو گا۔ اسد عمر نے ایک غیر سنجیدہ بیان دیا کہ مہنگائی بڑھے گی عوام کی چیخیں نکل جائیں گی۔ اس بیان کی مذمت کرتا ہوں وزیرخزانہ کو عوام کو پہلے سے ہی ڈرانے کی ضرورت نہیں بلکہ انہیں چاہئے کہ عوام کو اعتماد میں لیں کہ کیا وہ آئی ایم ایف کی ایسی شرائط مان رہے ہیں جس سے مہنگائی بڑھے گی، ایسی بات ہے تو حکومت کو رک جانا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ ایسی شرائط جن سے مہنگائی بڑھے نہ مانی جائیں۔ غیر سنجیدہ موضوعات پر بات کرنے والی اپوزیشن کو بھی اس سنجیدہ مسئلہ یہ بات کرنی چاہئے، شہباز شریف اور بلاول بھٹو اسد عمر کے اس بیان پر کہ عوام کا کچومر نکل جائے گا بات کیوں نہیں کرتے۔ عوام کا کچومر نکلے گا تو اس نہج تک پہنچانے والے بھی تو بھگتیں گے۔ خواتین کے عالمی دن پہ بیہودہ بیان اور خرافات پر مبنی نعرے لگائے گئے ب 3 عورتوں کی تصویر سامنے آئی ہے جس میں وہ طلاق ملنے پر خوشی کا اظہار کر رہی ہیں۔ یہ کسی طرح کی خرافات ملک میں پھیلائی جا رہی ہیں سندھ اسمبلی میں ان کے خلاف قرارداد ٹھیک پیش کی گئی ان عناصر کو اسمبلیوں کے ذریعے پکڑا جانا چاہئے طلاق کو ایک ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے اور صرف مجبوری کی حالت میں اس کی اجازت دی گئی ہے۔ڈیرہ غازی خان میں انتہائی افسوسناک واقعہ سامنے آیا کہ پولیس احتجاج کرنے والے اساتدہ کو مرغا بنا کر تشدد کر رہی ہے۔ ”نیا اخبار“ میں اس واقعہ کو لیڈ سٹوری کے طور پر شائع کیا گیا۔ ڈی جی خان میں اساتذہ اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کر رہے تھے وزیراعلیٰ کی آمد پر پولیس نے گرفتار کر کے تذلیل کی۔ یہ جرم وزیراعلیٰ کے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے اس لئے انہیں چاہئے کہ فوری اس واقعہ کی تحقیقات کرائیں اور ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کریں، یقینا وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے پولیس کو نہیں کہا ہو گا کہ اساتذہ سے ایسا سلوک کریں۔ احتجاج یا مظاہرہ کرنا عوام کا جمہوری حق ہے۔ اگر کوئی طبقہ وزیراعلیٰ کے دفتر یا گھر کے سامنے احتجاج کرنا چاہے تو اسے یہ حق حاصل ہے۔ آئی جی پنجاب کو اس واقعہ کی انکوائری کرانی چاہئے۔
