کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک) چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کے خلاف بولنے والے وزیراعظم مودی اور کالعدم تنظیموں کے خلاف ایک لفظ نہیں بولتے جب کہ کالعدم تنظیموں کے ہمدردر وفاقی کابینہ میں موجود ہیں۔ سندھ اسمبلی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ مشرف کے بنائے گئے ادارے نے اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کو اسلام آباد سے گرفتار کیا، جس کی ہم مذمت کرتے ہیں اور اسپیکر سندھ اسمبلی پیپلز پارٹی کا عہدہ نہیں ہے، آغا سراج درانی کی گرفتاری سندھ اسمبلی پر حملہ ہے جب کہ انہیں صرف الزام کی بنیاد پر اٹھایا گیا نیب کے پاس ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہیں۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آغاسراج کے گھر پرچھاپہ چادر اور چار دیواری کی پامالی ہے یہ ہم برداشت نہیں کرسکتے اور گرفتاری کے فورا بعد گھر پر چھاپہ مارنے کا مطلب نیب کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا اور ان کے گھر والوں کو یرغمال بناکر بدتمیزی کی گئی جب کہ چیئرمین نیب نے اس واقعے پر کوئی ایکشن نہیں لیا، چیئرمین نیب اپنے افسران کے خلاف ایکشن لیں ورنہ ہم ایکشن لیں گے۔چیئرمین پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ نیب کو پولیٹیکل انجینئرنگ کیلئے بنایا گیا، اگر کسی فرشتے کو بھی چیئرمین نیب بنادیں یہ سیاسی انجینیرنگ کا کام ہوگا جب کہ 6 ماہ سے ہماری کردار کشی کی گئی، پوری قوم نے دیکھا کہ مجھے کیس میں گھسیٹا جارہا ہے، عدالت نے پوچھا کس کے کہنے پر میرا نام جے آئی ٹی میں ڈالا گیا، اس کا جواب آج تک نہ ملا، چیف جسٹس نے کہا کہ بلاول بے گناہ ہے اس کا نام جے آئی ٹی سے ہٹایا جائے، جعلی اکانٹس جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی کو شامل کرکے اسے سیاست زدہ کردیا گیا۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہر مرتبہ ہمارا ٹرائل راولپنڈی میں کیا جاتا ہے اور یہ سب سیاسی انجینئرنگ کے لیے کیا گیا، پیپلزپارٹی نظریاتی پارٹی ہے، ہم اٹھارویں ترمیم، جمہوریت پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے اور چیلنج کرتاہوں سندھ کے اسپتال ملک کے سب سے بہتر اسپتال ہیں، این آئی سی وی ڈی امراض قلب کا دنیا کا سب سے بڑا اسپتال ہے ، یہ سندھ کے اسپتال ہیں ہم آپ کو اپنا حق چھیننے نہیں دیں گے، اپنے حق کیلیے ہم عدالت بھی جارہے ہیں اور میں عوام میں بھی جارہا ہوں۔چیئرمین پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ حکومت نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرکے کالعدم تنظیموں کے خلاف ایکشن لیں، جب سے سیاست میں ہوں دہشت گردوں ، کالعدم تنظیموں کے خلاف آواز اٹھارہا ہوں، اپوزیشن کے خلاف بولنے والے وزیراعظم مودی اورکالعدم تنظیموں کیخلاف ایک لفظ نہیں بولتے لیکن 3 بار وزیراعظم رہنے والے کو گرفتار کرسکتے ہیں مگر کالعدم تنظیم والوں کو نہیں، ہم جانتے ہیں یہ کالعدم تنظیمیں آپ کی اتحادی تھیں، ان کی مدد سے آپ نے الیکشن جیتا اور کالعدم تنظیموں کے ہمدرد3وزیر وفاقی کابینہ میں موجود ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کیسے ممکن ہے۔بلاول بھٹو زرادری کا کہنا ہے کہ چیئرمین نیب آغا سراج کے گھرپرچھاپہ کی تحقیقات کریں ورنہ ہمیں تحقیقات کرنا پڑے گی۔کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ چیئرمین نیب نے آغاسراج درانی کے گھر پر چھاپے کےخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔انہوں نے کہا کہ آغا سراج درانی کی گرفتاری کے بعد شواہد کے لیے ان کے گھر پر چھاپہ مارا گیا اس پر چیئرمین نیب اپنے ماتحت افسران کا احتساب کریں۔بلاول بھٹو نے کہا کہ اظہار یکجہتی کا پیغام دینے کے لیے سندھ اسمبلی آیا ہوں۔چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ جیسا کہ پورے پاکستان کو پتہ ہے کہ سندھ اسمبلی وہ اسمبلی ہے جس نے پاکستان کی قرارداد پاس کی،اس وقت کی اسمبلی میں بھی آغا سراج درانی کے رشتے دار موجود تھے۔انہوں نے کہا کہ اسپیکر سندھ اسمبلی پیپلزپارٹی کا عہدہ نہیں ہے، یہ ایک ایک آئینی عہدہ ہے جسے ایوان کے اراکین کی جانب سے منتخب کیا جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آغا سراج درانی پاکستان کا ایک بڑا سیاسی نام ہیں، ان کے والد بھی سندھ اسمبلی کے اسپیکر رہ چکے ہیں،اسپیکر کا عہدہ اہم ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ سندھ اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے پر ایک افسوسناک اور شرمناک حملہ کیا گیا جب مشرف کے بنائے ہوئے ادارے نے آغا سراج درانی کو اسلام آباد سے گرفتار کیا۔چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ اسلام آباد سے آغا سراج درانی کی گرفتاری شرمناک عمل ہے، قابل مذمت ہے اور میں اس کی مذمت کرتاہوں۔چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ نیب کا آمدن سے زائد اثاثوں کا الزام ویسا ہی ہے جیسے کوئی پولیس آفیسر کسی بےگناہ شخص کو پکڑے اور اس پر کوئی چرس ڈال دیں اور 2 بوتل شراب کا الزام ڈال کر اسے اندر بند کردے۔انہوں نے کہا کہ آمدن سے زائد اثاثوں کا الزام کسی پر بھی لگ سکتا ہے اور یہاں ہر پاکستانی کے لیے ایک قانون نہیں ہے، اسپیکر سندھ اسمبلی کو صرف الزام کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا اگر ثبوت ہوتا تو وہ پیش کرتے۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ گرفتاری کے بعد آغا سراج درانی کے گھر پر چھاپہ مارنا یہی پیغام دیتا ہے کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں تھا اور ثبوت ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی۔چیئرمین پی پی نے کہا کہ پھر جس طریقے سے چادر اور چاردیواری کو پامال کیا گیا یہ ہم برداشت نہیں کریں گے، یہ ہماری ثقافت،مذہب اور انسانی حقوق کے خلاف ہے۔انہوں نے کہا کہ جس طریقے سے عورتوں اور بچوں کو یرغمال بنایا گیا، بدتمیزی کی گئی اس پر پاکستان پیپلزپارٹی نے مذمت کی وزیراعلی سندھ نے بھی مذمت کی۔بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ چیئرمین نیب نے آج تک انسانی حقوق کی اس سنگین خلاف ورزی پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔انہوں نے کہا کہ میں ایک مرتبہ پھر مطالبہ کرتا ہوں کہ چیئرمین نیب اپنے ماتحت افسران کا احتساب کریں ورنہ ہمیں اس کی تحقیقات کرنی پڑے گی،ہمیں ایکشن لینا پڑے گا۔پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ نیب کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے،میں جانتا ہوں کہ یہ کالا قانون ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اسی لیے شہید بینظیر بھٹو نے اپنے چارٹرڈ آف ڈیموکریسی میں، اپنے منشور میں کہا تھا کہ ہمیں نیب کو ختم کرنا ہے یہ ہماری بھی ناکامی ہے کہ ہم نیب میں کوئی اصلاحات یا اس مشن کو پورا نہیں کرسکے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ نیب ایک ایسا ادارہ ہے کہ اگر اس میں آپ فرشتہ بھی چیئرمین نیب بنادیں تو تب بھی سیاسی انتقام ہی ہوگا کچھ اور نہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ بہت افسوسناک بات ہے کہ کچھ اداروں میں آج بھی 2019 میں سیاسی انتقام چل رہا ہے۔چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ آپ یہ ہمارا بےنامی اکاونٹس کیس ہے اس کو ہی دیکھ لیں یہ سیاسی انتقام ہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کے دوران اس قسم کے کیس پر سوموٹو لینا، تفتیش کے معاملے پر سوموٹو نہیں لیا جاسکتا یہ انسانی حقوق کا کیس نہیں۔بلاول بھٹو نے کہا کہ اس کیس میں ایف آئی آر کاٹی گئی، ابتدائی رپورٹ پیش کی گئی بینکنگ کورٹ میں کیس چل رہا ہے ،کیسے کہا جاسکتا ہے کہ یہ کیس سست روی کا شکار ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر یہ کیس سست روی کا شکار ہے تو کیا شہید ذوالفقار علی بھٹو کا قتل کیس،شہید بینظیر بھٹو کا قتل کیس، اصغر خان کیس سست روی کا شکار نہیں ہے؟چیئرمین پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ مگر یہ اچانک الیکشن کے دوران جب میں نے گھوٹکی میں پریس کانفرنس کی اس کے جواب میں کیس کی سست روی کو انسانی حقوق کا کیس بنادیا جاتا ہے اور سوموٹو بھی لیا جاتا ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ تاریخ کی بدترین دھاندلی،انسانی حقوق کی پامالی،آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے کو ختم کرنا کسی کو دکھائی نہیں دیتا۔انہوں نے کہا کہ توازن لانا کوئی عدالت کا قانون نہیں ہے، آپ عدالت میں نہیں کہہ سکتے کہ میں نے توازن لانا ہے میں نے جے آئی ٹی بنانی ہے، اس سے بہت برا پیغام جاتا ہے۔چیئرمین پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی کو بٹھانا ایک غیرجمہوری عمل ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ غلط فیصلہ تھا لیکن یہ ہوگیا۔انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعلی سندھ اور مجھے آرٹیکل 10 اے کے مطابق شفاف اور آزاد ٹرائل کا حق حاصل ہے، اس حق کو سلب کیا گیا۔پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ مسلسل 6 ماہ تک ہماری کردار کشی کی گئی، مختلف فورمز کے سامنے ہمارے بارے میں بات کی گئی لیکن ایک بار بھی کسی عدالت نے مجھے یا وزیراعلی کو پیش ہونے کے لیے کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ ایسے تو انصاف نہیں ہوسکتا کہ آپ کسی ملزم یا کسی گواہ کو سنے بغیر ان کے خلاف یا ان کے حق میں بھی فیصلہ سنادے۔انہوں نے کہا کہ آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس کو راولپنڈی منتقل کرنا حدود کے تصور کی خلاف ورزری ہے ،قانونی طور پر جہاں جرم کیا گیا ، جہاں ملزم ہے وہاں ٹرائل ہوگا۔بلاول بھٹو نے کہا کہ میرا مطلب ہے کہ اگر کیس سندھ کا، ایف آئی آر سندھ کی، بینک اکاونٹس سندھ کے،کمپنی سندھ کی،ملزم سندھ کے، ٹرانزیکشن سندھ کی لیکن کیس راولپنڈی کیوں منتقل کیا جارہا ہے؟ راولپنڈی میں ایسا کیا ہے پتہ نہیں۔انہوں نے کہا کہ میرے ساتھ کیسے ناانصافی ہورہی ہے،سیاسی انتقام کے لیے مجھے اس کیس میں گھسیٹا جارہا ہے۔پولیٹیکل انجینئرنگ کے لیے مجھے بے نامی اکانٹس کیس میں گھسیٹا جا رہا ہے ،چیئرمین پی پی نے کہا کہ اوپن کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان، آئی ایس آئی کے رہنما کو طلب کرتے ہیں ان سے پوچھتے ہیں کہ کس کے کہنے پر بلاول بھٹو کا نام جے آئی ٹی کا نام شامل کیا،اس سوال کا جواب مجھے آج تک نہیں ملا۔بلاول بھٹو نے کہا کہ اسی سماعت میں پورے پاکستان کے سامنے چیف جسٹس نے اپنا حکم سنایا، انہوں نے کہا تھا کہ بلاول بھٹو بے گناہ ہے ان کا نام جے آئی ٹی سے اور ای سی ایل سے نکالا جائے لیکن افسوس ہے کہ تحریری حکم نامے میں یہ جملے ہی نہیں تھے، شاید تحریری حکم نامہ کسی اور نے لکھا تھا۔انہوں نے کہا کہ پھر یہ کہا گیا کہ آپ نے غلط سمجھا، اس پر کوئی وضاحت نہیں کی گئی، میں سپریم کورٹ سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے ریکارڈ کو ایک مرتبہ پھر دیکھ لیں۔چیئرمین پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ ہم جمہوریت پسند جماعت ہیں،ترقی پسند ہیں اور دہشت گردوں کے خلاف ہیں۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ میں جب سے سیاست میں ہوں دہشت گردوں کے خلاف، کالعدم تنظیموں کے خلاف آواز اٹھارہا ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان اپوزیشن کے خلاف تو بولتے ہیں لیکن نریندر مودی اور کالعدم تنظیموں کے خلاف ایک لفظ نہیں بولتے۔انہوں نے کہا کہ حکومت، اپوزیشن کو کیسے آمادہ کرے گی کہ وہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرنے کے لیے سنجیدہ ہے یا کالعدم تنظیموں کے خلاف قدم اٹھائیں گے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ الیکشن میں آپ کے اتحادی تھے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کی خلاف ورزی صرف اور صرف پی ٹی آئی کی مدد کرنے کے لیے کی گئی الیکشن میں جہاں کالعدم تنظیموں کو ری بین کرکے انہیں الیکشن میں لایا گیا تاکہ پی ٹی آئی کو سپورٹ ملے۔ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے لیے احتساب موجود ہے،حکومت کا جو بھی ناقد ہے چاہے وہ سیاستدان ہو یا چھوٹا سا بلاگر ہو اس کے خلاف اقدامات کیے جاتے ہیں۔بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم کیا پیغام دے رہے ہیں دنیا کو کہ کالعدم تنظیموں کے لیے این آر او، استثنی، کالعدم تنظیموں کے لیے عدالت میں کوئی تاریخ نہیں ملتی، ان کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں آتا۔انہوں نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ 3 بار کے وزیراعظم کوٹ لکھپت جیل میں ہیں بیمار ہیں لیکن کالعدم تنظیموں کو گرفتار نہیں کرواسکتے۔چیئرمین پی پی نے کہا کہ اسپیکر سندھ اسمبلی کو آمدن سے زائد اثاثوں کے جھوٹے الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے لیکن کالعدم تنظیموں کو آمدن سے زائد اثاثوں پر گرفتار نہیں کرواسکتے، ان کے اثاثے کہاں سے آتے ہیں اس پر جے آئی ٹی بٹھائیں۔انہوں نے کہا کہ یہ بہت مشکل سوال ہے اس کا جواب آنا چاہیے،اس لیے ہم کالعدم تنظیموں کا مقابلہ کسی دبا و کی وجہ سے نہیں کررہے بلکہ دہشت گردی کی وجہ سے کررہے ہیں۔
