تازہ تر ین

مسلمانوں کیخلاف شدت پسندی کی لہر نظریں اور آئی سی اجلاس پر لگ گئیں :معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ نیوزی لینڈ میں جو ہوا یہ نہایت افسوسناک سانحہ ہے اور جس دن سے یہ سانحہ رونما ہوا ہے اس دن سے کسی پل بھی پاکستان کے مسلمانوں بالخصوص دُنیا بھر کے مسلمانوں کو بالخصوص چین نہیں ہے اور انتہائی تکلیف اور اذیت کے ساتھ ایک ایک پل گزارا ہے لوگوں نے اور اب اس اعتبار سے پاکستان نے بھی اگرچہ اس واقعہ کو بہت محسوس کیا اور پاکستانی پرچم بھی سرنگوں رہا اور قومی سطح پر سوگ بھی منایا گیا تاہم میں یہ سمجھتا ہوں کہ اصل امیدیں لوگوں کی اس بات پر ہیں جیسے بھی گئے گزرے حالات میں کتنی ہی مشکل حالات کیوں نہ ہوں او آئی سی کی جو پیش آمدہ کانفرنس ہے اس پر لوگوں کی بڑی نظر ہے لوگ محسوس کرتے ہیں یہ جو دنیا میں ایک دم سے مسلمانوں کے خلاف ایک انتہا پسندی شروع ہوئی ہے اس پر بڑی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ او آئی سی کا جو وزراءخارجہ کا اجلاس ہے جو ترکی میں ہو رہا ہے اس میں ون پوائنٹ ایجنڈا ہے اور اسی مسئلہ پر گفتگو ہو گی کہ دنیا میں یہ کیا ہو رہا ہے۔ ہالینڈ میں آج ٹرام میں مسافروں پر فائرنگ کا واقعہ ہوا ہے اس میں ایک شخص ہلاک متعدد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے انگلینڈ میں بھی اسی طرح کا واقعہ ہوا ہے کہ ہتھوڑا بردار شخص نے حملہ کر دیا اس میں بھی ایک شخص زخمی ہوا تھا اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا ہے کہ دنیا میں اس وقت جو بھی رجحانات چل رہے ہیں ان پر چھان پٹک اور غفوروتحقیق اور پھر ایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنا کہ اس رجحان کو کس طرح سے روکا جائے کہ تازہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے یہ چیز بڑھتی جا رہی ہے لوگوں کا خیال ہے کہ انڈر کرنٹ ایک مسلمانوں کے خلاف دبا دبا غصہ تھا خاص طور پر یورپ میں تو اس بات پر بڑی شدت کے ساتھ ردعمل پیدا ہو رہا ہے کہ جو اہل یورپ کا طرز زندگی ہے کے باوجود مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے یہ معاشرے میں بڑھ رہی ہے یہ جو چیز ہے مقامی لوگوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ مسلمان ایک بڑھتی ہوئی فورس ہے جس کا راستہ روکنے کے لئے اس قسم کی انتہا پسندی کی تحریکیں معرض وجود میں آئی ہیں لیکن ہالینڈ سے چلتی ہوئی ٹرین پر حملہ ہوا اور اس کے علاوہ جو اکا دکا واقعات پیش آنے لگے ہیں کہ مسلمانوں پر جو مختلف قسم کی جو حملے ہو رہے ہیں یہ رجحان پیدا ہو گہا ہے ضیا شاہد نے وجاہت علی خان سے پوچھا کہ کس بات کا ری ایکشن ہے اور کیا مسلمانوں نے ان معاشروں کا کیا بگاڑا ہے اب جو میئر لدن ہیں وہ الیکشن کے بعد آئے ہیں صادق صاحب لیکن ان کو بھی تھریٹس آ رہی ہیں یہ کس چیز کا ردعمل ہے اور مسلمان اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے کیا طرز عمل اختیار کریں۔
شیخ رشید کے بیان بارے گفتگو کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ جہاں تک ایک سیاسی مقدمہ ہو یا فوجداری یا مالی بدعنوانی کا ہو یا کسی اور قسم کا کیس ہو جب کسی شخص کو سزا ہو جاتی ہے تو وہ ایک طریقے سے سٹیٹ کے پاس ہے اب نوازشریف صاحب جو ہیں ان کی صحت کی ذمہ داری جیل حکام پر عائد ہوتی ہے میں سمجھتا ہوں کہ عدالت کو اس پر کوئی رولنگ دینی چاہئے کہ کیا کوئی شخص ہے جس طرح سے عام زندگی میں خودکشی کرنے کی اجازت نہیں جاتی اس طرح سے کسی بھی شخص کو یہ احتجاج کے طور پر ہی سہی چاہے لیکن یہ کہنا کہ میں علاج نہیں کرواﺅں گا میرا خیال ہے اس معاملے میں جو حکومت ہے ان کے ساتھ یقینا جو زیادہ سے زیادہ سہولت یا رعایت ہو سکتی ہے وہ دینی چاہئے ان کو سمجھانا چاہئے لیکن سب سے زیادہ ان کے بھائی اور ان کی بیٹی کو چاہئے کہ ان کو قائل کریں کہ اپنی صحت کے ساتھ دشمنی نہیں کرنی چاہئے اور جو میسر ہے دیکھیں یہ جو اتفاق ہسپتال ہے بہت اچھا ہسپتال ہے میں نے خود ان سے ایک دفعہ علاج کروایا۔ میری بیٹی نوشین عمران جو اس وقت اس ادارے میں ہیں وہ بھی ایم او میڈیکل آفیسر رہی ہیں لہٰذا میرا وہاں کافی آنا جانا رہا ہے میں نے یہ محسوس کیا ہے۔ میری بیوی کو دل کا سٹنٹ پڑنا تھا ان کو بھی دل کی تکلیف ہے تو سٹنٹ بھی جو ہے وہ اتفاق ہسپتال میں ہی جو متعلقہ ڈاکٹر ہے اس نے کروایا اور وہ مجھے بتا رہی تھیں کہ متعلقہ ڈاکٹر جن کے پاس اب بھی چیک اپ کے لئے جاتی رہتی ہیں انہوں نے کہا کہ ہم نے بہت درخواست کی کہ جناب آپ ہم پر اعتماد کریں ہم اتنے لوگوں کو پوری کوشش سے زندگی کے لئے کوشش کرتے ہیں اور بہت کوچچ ہماری کامیاب بھی ہوتی ہیں تو آپ ہمیں اجازت دیں اپنے علاج کے لئے لیکن نوازشریف صاحب نہیں مان رہے اسی طرح شریف میڈیکل سٹی جو تھا یہ تو بنا ہی اس لئے تھا کہ جب نہر کے دونوں طرف سڑک بنائی اور سوئی گیس اتنی دور لی جائی گئی تو یہ کہا گیا تھا کہ یہ اس کے لئے نہیں لے جائی جا رہی کہ وہاں نوازشریف صاحب کا گھر ہے بلکہ میڈیکل یونیورسٹی وہاں قائم ہے اتنا بڑا ہسپتال ہے اور ٹیچنگ ہسپتال بھی ہے تو لہٰذا یہ سہولتیں، پانی، بجلی، گیس کی وہاں لے جا کر سرکاری خرچے پر اس جگہ کو گلزار بنایا گیا وہاں میڈیکل سٹی بنے گا تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہاں بھی مجھے ایک دانت کے آپریشن کے لئے وہاں جانا پڑا تھا اس وقت حسین نواز صاحب یہاں ہوتے تھے اچھا ہسپتال ہے اچھے ڈاکٹرز ہیں وہاں اور یقینی طور پر نوازشریف صاحب نے صحیح سلیکشن کی ہو گی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ نوازشریف صاحب کا نقطہ نظر تسلیم نہیں کیا جا سکتا کسی نامور قانون دان سے پوچھیں کہ کیا ایک قیدی وہ اپنے بارے میں فیصلہ کر سکتا ہے کہ میں نئیں علاج کراﺅں گا اور کیا اس کو یہ حق حاصل ہے میرا خیال ہے یہ سٹیٹ کی ذمہ داری ہے کہ اس کو بہترین سہولت جو بھی ہو سکتی ہے وہ ان کو لے کر دے۔ ہماری مریم نواز صاحبہ، شہباز شریف سے کہ وہ نواز شریف کو سمجھائیں اور ان کو اس بات پر قائم کریں کہ لاہور، پاکستان میں، کراچی میں، پنجاب سے باہر بھی جہاں بھی مناسب سمجھیں، جس جگہ پر علاج کروانا چاہیں ان کو پورا حق ہونا چاہئے اور ان کو سہولت دینی چاہئے۔ وزیراعظم کے اعلان کے بعد اور پنجاب حکومت کو دی جانے والی ہدایت کی روشنی میں مجھے یقین ہے عمل ہو گا۔
لاہور میں 3 دھرنوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ موجودہ حکومت بھی کامیاب نہیں ہو سکی۔ پہلی حکومتیں بھی کامیاب نہیں ہو سکی تھیں۔ وہ یہ ہے کہ لاہور کی ٹریفک کو جاری و ساری رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ مال روڈ کسی قسم کا دھرنا اور جلوس اور جلسہ کی اجازت نہ ہو۔ لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ بھی دے رکھا ہے۔ جس کو کوئی نہیں مانتا۔ پولیس یہ کہتی ہے کہ ہم اس معاملے پر قابو نہیں پا سکتے۔ لیڈی ہیلتھ وزیٹرز ہیں، نابینا افراد اور انجینئرنگ کونسل نے دھرنا دیا ہوا ہے اس طرح سے تو پاکستان کے معاشرے کے 200 طبقات جو ہیں جن میں سے کسی نہ کسی کو کوئی نہ کوئی شکایت ہو گی۔ اس کا مطلب ہے کہ پورا مہینہ مال روڈ بلاک رہے گی۔ میرا خیال ہے کہ اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکتا کہ کسی ایک جگہ پر احتجاج کے لئے جگہ مختص کر دی جائے پولیس ہاتھ کھڑے کر دیتی ہے کہ ہم یہ نہیں روک سکتے۔ ایک نہ ایک کسی نہ کسی حکومت کو اچھا لگے لوگوں کو یا برا لگے لاہور کی ٹریفک کو جاری ساری رکھنے کے لئے یہ قانون بنانا اور اس پر عملدرآمدکرانا پڑے گا۔ کہ مال روڈ کو جلسے جلوسوں سے فری کیا جائے۔
مال روڈ پر لوگوں کی آمدورفت کو روکنا شدید ترین جرم ہونا چاہئے، جب تک اس پر عمل درآمد نہیں کروایا جائے گا لاہور کے شہریوں کو سکھ نصیب نہیں ہو سکتا۔
پولیس اصلاحات پر ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی اصلاحات کا مطلب پولیس سٹرکچر میں اصلاحات ہیں، یونیفارم میں تبدیلی کوئی اصلاح نہیں ہے۔ ملائشیا رنگ سے نیلا کر دیا تو کیا فرق پڑا، اسے سفید کر دیا جائے تو بھی کیا فرق پڑے گا۔ پولیس کے سسٹم کو روزانہ کے واقعات کے حوالے سے ہیلپ لائن لاہور کے علاوہ پنجاب ، کے پی کے ، سندھ اور بلوچستان کے شہروں سمیت پاکستان بھر میں جب بھی کسی مسئلے کو ہم اخبار میں لیتے ہیں تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ پولیس کے نظام کے ڈھانچے میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اس وقت پولیس کے پاس بے حد اختیارات ہیں جن میں ہر دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
میگامنی لانڈرنگ کیس اسلام آباد منتقل کیے جانے اوربلاول بھٹو کے بیانات پر ضیا شاہد نے کہا کہ ملزم اعتراض برائے اعتراض تو کرتے رہتے ہیں، نہیں سمجھتا کہ اس میں کوئی جواز ہے۔ صوبہ ہویا وفاقی سطح پر ، عدالت ہونی چاہیے۔ عدالت اگر مجاذ ہے تو کیس کسی بھی جگہ پر سنا جا سکتا ہے۔ سیاستدان جب کسی الزام میں عدالتوں کے سامنے پیش ہونے والے ہوں تو ہمیشہ تقریر کرتے ہیں اور تقریروں میں بڑی بڑی باتیں ہوتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ ان پر توجہ دی جائے، دیکھنا یہ ہے کہ عدالت کیا کرتی ہے۔ عدالت کو تسلیم کریں یا نہ کریں، عدالت فیصلہ کر دے گی اور اسے ماننا پڑے گا۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain