لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی پوزیشن کافی مضبوط ہے اور پہلے سے ہی اندازہ تھا کہ وہ یہ سیٹ جیت جائیں گے دوسرا یہ جو مہر فیملی ہے اس کا ایک وزیراعلیٰ بھی تھا یہ ہمیشہ سے وہاں مضبوط خاندان رہا ہے اور ان کے کچھ ووٹ پیپلزپارٹی کے ہیں اور کچھ مہر فیملی کے بھی ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ مولانا فضل الرحمان ہوں یا دوسری پارٹیاں جو اپوزیشن میں شامل ہیں ان کے بکھرے ووٹ بھی ان کو ملے ہوں گے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مہر فیملی کی سیٹ تھی ان کو مل گئی۔ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ نئی شروعات ہے شروعات تو تب گنی جائیں مثال کے طور پر لاہور میں یا گوجرانوالہ میں سیٹ لیں۔ سیالکوٹ یا گجرات یا سرگودھا میں سیٹ لیں۔ جنوبی پنجاب میں جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ایک زمانے میں پیپلزپارٹی کا بڑا اثرورسوخ ہوتا ہے اس میں بھی اگر کوئی سیٹ نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس کو نئی شروعات کہا جا سکتا ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ سندھ کے علاقوں میں کوئی سیٹ لینا کوئی نئی شروعات ہے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ حسن اور حسین نواز تو کسی عدالت میں حاضر ہوں گے کیونکہ وہ پاکستان میں نہیں ہیں البتہ مریم نواز شوگر مل کیس میں یقینا پیش ہو جائیں گے مریم نواز کے بارے میں آئے دن نئی سے نئی معلومات آ رہی ہیں۔ مثال کے طور پر مریم نواز نے بار بار یہ کہا تھا کہ میرا کسی قسم کی کسی انڈسٹری میں حصہ نہیں ہے لیکن گزشتہ دنوں چودھری شوگر ملز میں یہ نکلا ہے کہ ان کے ایک کروڑ کے شیئرز ہیں میں یہ سمجھتا ہوں کہ مریم نواز سیاست میں ہیں ان کو چاہئے کہ وہ ایک ہی دفعہ سوچ سمجھ کر اپنے اثاثے ڈکلیئر کریں اور پھر اس پر قائم رہیں کیونکہ نوازشریف جتنی دفعہ بیان بدلے تھے اسمبلی میں کچھ کہا باہر کچھ کہا منی ٹریل کے بارے میں کچھ کہا۔ وعدے کچھ کئے۔ مختلف قسم کے بیان دیئے جو ایک دوسرے سے نہیں ملتے تھے اس سے ان کو نقصان ہوا حال ہی میں فردوس عاشق اعوان نے کراچی میں ایک اجلاس میں کہا ہے کہ جو لوگ سیاست میں پیمرا سے کہا جائے گا کہ ان کے جو ارشادات عالیہ کو نہ دکھائیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ شاید عنقریب اس میں نوازشریف کے بیان بازی اور ان کے بارے میں خبروں پر پابندی لگنے والی ہے۔ لہٰذا خود مریم نواز کو بہت احتیاط سے چلنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں سیاستدانوں کا اپنے اثاثوں کے حوالہ سے اپنے بیانات بدلنا،غلط بیانی کرنا یہ ایک غلط العام روش بن گئی ہے اس سے بڑی پوزیشن حراب ہوتی ہے۔ ایک کروڑ کے شیئر ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ یہ کوئی بڑا جرم بھی نہیں ہے میں نے صرف اس لئے کہا کہ چونکہ وہ کہہ سکتے ہیں۔
ضیا شاہد نے خاور شاہ سے پوچھا کہ سپریم کورٹ میں 3 جج حضرات تھے انہوں نے ایک احتساب کورٹ کے جج ارشد صاحب کے بارے کیس کی سماعت کی اور کچھ ریمارکس بھی دیئے اور دوسری طرف مریم نواز صاحبہ اور شہباز شریف یہ کہہ رہے ہیں کہ چونکہ ان پر دباﺅ تھا وہ جج صاحب مان بھی گئے ان پر دباﺅ تھا اور پھر ویڈیوز کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا اور اب تو ان کی بہت ساری ویڈیوز بھی سامنے آ چکی ہیں۔ یہ فرمایئے کہ یہ شہباز شریف صاحب یا مریم نواز صاحبہ کا یہ موقف یہ کہ اب چونکہ اب پوزیشن متنازعہ ہو چکی ہے جج ارشد صاحب کی اس لئے جو فیصلہ انہوں نے دیا تھا اس کو بھی ان ڈور ہونا چاہئے ایسے حالات میں کیا عدالت کا کوئی فیصلہ جو ہے جب تک کسی بڑی عدالت سے اس کو ختم نہ کیا جائے یا تبدیلی نہ کیا جائے کیا ماضی میں کوئی روایت ملتی ہے قانون کی دنیا میں کہ صرف جج کے متنازع ہونے سے اس کے کئے ہوئے فیصلے ختم ہو سکیں۔ وزیراعظم نے کہا تھا کہ اگلی باری مولانا فضل الرحمن کی ہے اور آج ایک دفعہ مولانا کے گھر چلا گیا چیئرمین سینٹ کے لئے حمایت حاصل کرنے کے لئے اس پر ضیا شاہد نے کہا کہ معلوم یہ ہوتا ہے کہ اپوزیشن کی پوزیشن کافی مضبوط جا رہی ہے اس لئے حکومتی پارٹی کوشش کر رہی ہے کہ ایوان سے باہر ہی کوئی تصفیہ کر لیا جائے لیکن میں یہ سمجھتا ہو ںکہ مولانا فضل الرحمن کا موقف بجا ہے کہ وہ اکیلے فیصلہ نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ساری پارٹیو ںکا فیصلہ تھا اس لئے وہ باقی پارٹیوں سے بھی مشورہ کریں گے۔ میں سمجھتا ہوں ک حکومتی پارٹی پارٹی الیکشن سے بچنا چاہتی ہے۔ بہر حال ایک دو دن میں اس کا فیصلہ ہو جائے گا۔ 25 جولائی کو اپوزیشن نے یوم سیاہ اور حکومت نے یوم تشکر منانے کا اعلان کیا ہے۔ سب سے دلچسپ صورتحال بلاول بھٹو کے بیان کے بعد پیدا ہوئی ہے انہوں نے کہا کہ ملک سے باہر خارجی معاملات میں وزیراعظم عمران خان نے جو امریکہ میں موقف اختیار کیا اس کو مکمل سپورٹ کرتے ہیںگویا پاکستان کے اندر یوم تشکر منانے جا رہی ہے تحریک انصاف اس یوم تشکر میں تو بلاول یوم تشکر میں شامل ہوں گے کل اور جو یوم سیاہ منانے جا رہی ہے اپوزیشن پارٹیاں اس میں وہ یوم سیاہ میں شریک ہوں گے۔ یہ طے ہو چکا ہے کہ شہباز شریف لاہور میں جلسہ کریں گے بلاول بھٹو کراچی میں جلسہ کریں گے مریم نواز بھی جلسہ کر رہی ہیں ایک ہی دن میں بیک وقت یوم سیاہ اور یوم تشکر بھی دیکھتے ہیں رزلٹ کیا نکلتے ہیں اگرچہ اپوزیشن پارٹیو ںنے ہڑتال کی کال نہیں دی لیکن لاہور میں چونکہ مال روڈ پر جلسہ ہونا ہے لہٰذا مال روڈ کی تو دکانیں بند ہی رہیں گی باقی سارا شہر کھلا رہے گا۔ اصل میں یوم تشکر منانے کا اعلان تو کر دیا ہے یہ نہیں پتہ چلا کہ حکومتی پارٹی کہیں جلسہ بھی کر رہی ہے یا نہیں۔ ضیا شاہد نےایک دن میں اپوزیشن یوم سیاہ منا رہی ہیں اور اس دن حکومتی پارٹی نے یوم تشکرکا اعلان کیا ہے۔ تحریک انصاف نے بڑا زبردست جو دورہ عمران خان صاحب امریکہ کا کامیاب ہوا اور وہاں ان کو بڑی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں واقعی یوم تشکر منانا چاہئے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایک بہت بڑا مسئلہ یعنی مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں ٹرمپ نے جو موقف اختیار کیا ہے کہ اس پر تو یقینا خراج تحسین پیش کرنا چاہئے ٹرمپ صاحب کو بھی اور خود عمران خان صاحب کی کوششوں کو بھی۔
ضیا شاہد نے کہا کہ میں ضیا دور سے شروع ہوا پرویز مشرف کے دور میں دو مرتبہ نوازشریف کے دور میں اور ایک مرتبہ شوکت عزیز کے ساتھ امریکہ کا دورہ کیا اور دو مرتبہ ایوان صدر جانے اورایک مرتبہ صدر بش سے بھی سوال کرنے کا موقع ملا۔ حقیقت یہ ہے جتنے خیر مقدم جتنا پرجوش پاکستانیوں کو عمران خان کے دورے میں پایا میں ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی اور جتنا بڑا عوامی اجتماع ہوا، یہ ایک تاریخی واقعہ ہے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ ایک جج کا دوران مقدمہ ملزم کے گھر پر جا کر ملنا اس کے بیٹے سے ملاقات کرنا، پاکستان سے باہر جا کر ملاقاتیں کرنا ان ساری چیزوںکے باوجود اس فیصلے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جس کا ثابت ہو گیا کہ اس دوران میں جج کی میل ملاقات جاری ہے ان ڈائریکٹر بھی سلسلہ جاری رہا ہے تو کیا وہ فیصلہ مشکوک نہیں ہو جاتا۔
