لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ یوم تشکر کا کیک بھی کہیں کہیں کٹا ہے اور مٹھائیی تقسیم کی گئی ہے تاہم میرا خیال ہے کہ رات عمران خان کی تقریر کے بعد یہ سلسلہ بند ہو گیا تھا اور جہاں تک یوم سیاہ کا تعلق ہے دن بھر تو خاموش رہی اور اب البتہ کراچی کا سلسلہ ہے اور مولانا فضل الرحمن نے ایک ریلی نکالی ہے پشاور میں، لاہور میں اب شہباز شریف مال روڈ پر جلسہ کر رہے ہیں میں یہ سمجھتا ہوں کہ دونوں انتہائیں ہیں ایک انتہا پر کوئی جوش و خروش نہیں پایا گیا اور دوسری انتہا پر بھی کچھ ماملہ نرم ہی ہے۔ وزیراطلاعات پنجاب اسلم اقبال اور شہباز گل کی پریس کانفرنس جو لاہور میں ہوئی اس حوالہ سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی سے ن لیگ کی قیادت سے پیسے مانگے ہیں اس لئے وہ کوئی متحرک نظر نہیں آئے۔ مجھے تو نہیں معلوم کہ پیسے مانگے گئے ہیں یا نہیں لیکن ایک بات حقیقت ہے کہ جس طرح سے مومنٹم تحریکوں کا بنتا ہے چھوٹے چھوٹے جلسے ہوتے ہیں پھر کارنر میٹنگ ہوتی ہیں پھر پوسٹر بازی ہوتی ہے پھر کپڑے کے بینر لگائے جاتے ہیں اس طرح کی تیاری نظر آئی۔ اگر دوچار جلسہ جلسوس ہوتا اور کاررنر میٹنگ ہوتی۔ مال روڈپر عام طور پر جوہورڈنگز لگتے ہیں وہ بھی بنیں گے۔ میرا خیال ہے کہ کچھ نہ کچھ کمی رہ گئی ہے۔ عمران خان کے دورہ امریکہ کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا راتت ان کی تقریر کافی اچھی تھی حالانکہ کافی لیٹ تھی۔ مختصر اور ٹو دی پوائنٹ دی۔ جو استقبال ہوا جس طرح سے عوامی پذیرائی ملی جس طرح ایوان نمائندگان نے بھی جو ان کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ رات کا شو تھا لوگوں کی بڑی تعداد ایئرپورٹ پر پہنچی۔ میں یہ عوامی مقبولیت کے اعتبار سے رات پی ٹی آئی کا شو بہتر تھا۔ ضیا شاہد نے کہا کہ گزشتہ رات ایک اور بھی وجہ تھی کہ اسلام آباد فیڈرل ایریا ضرور ہے لیکن اس کے گرد پنجاب ہے۔ پنجاب میں کشمیر کے حوالہ سے خاص قسم کا جذبہ پایا جاتا ہے بڑے لوگ جذباتی ہیں۔ جموںو کشمیر سے جو مہاجرین آئی ان کی بھی بڑی تعداد پنجاب میں ہی بسی ہوئی ہے۔ اگر لاہور سے شروع ہوں گوجرانوالہ، سیالکوٹ، نارووال، ڈسکہ، سارا گجرات یہ بمبر سے ملتا جلتا سارا علاقہ پھر جہلم یہ علاقے کافی قریب ہیں کشمیر کے اور مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں کافی جدباتی ہیں چنانچہ ٹرمپ کی طف سے کشمیر کے مسئلہ پر ثالثی کے اعلان نے بھی بہت بڑا رول ادا کیا ہے۔ دو دن پہلے رات جب وہ پاکستان پہنچے ہیں۔ ان کے استقبال میں اور پھر جو عمران خان کے لئے جو عوامی پذیرائی ہے اس میں بھی بڑا پارٹ پلے کیا ہے، ایک منٹ کے لئے فرض کر لیا جائے کہ ٹرمپ جو تھے وہ کشمیر پر ثالثی کے مسئلے والا بیان نہ دیتے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ شاید عوامی دلچسپی اتنی زیادہ نہ ہوتی اس لئے یہ ایک بہت پازیٹو ایک سٹپ تھا ٹرمپ کا اور انہوں نے ایک طریقے سے پاکستان کے بہت سے لوگوں کے دل جیت لئے کہ وہ مسئلہ کشمیر میں ثالثی کو تیار ہوں کیونکہ اس سے پہلے جیسے میں خود بار بار کہہ چکا ہو ںکہ اس سے پہلے امریکہ عام طور پر نظر انداز کرتا تھا گریز کرتا تھا کہ وہ اس معاملے میں دخل نہیں دے سکتا۔ اور خاص طور پر شملہ معاہدہ کے بعد جس میں تھا کہ کوئی تیسرا ملک اس میں داخل نہیں دے گا اور کشمیر کے مسئلہ پر اور دوسرے معاملات کے سلسلے میں پاکستان اور بھارت براہ راست مذاکرات کریں گے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ جس طرح دو روز قبل کشمیر کے مسئلہ پر بات کی اور پہلی ہی ملاقات میں انہوں نے عمران خان سے گفتگو میں یہ کہہ دیا کہ ان کی بات چیت بھی مودی سے ہو چکی ہے اور وہ کشمیر کے مسئلے پر تو اس سے کچھ امیدیں پیدا ہوئی ہیں کہ شاید واقعی اس سلسلے میں پیش رفت ہو سکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر نٹ شیل میں اگر کوئی دیکھا جائے کہ کون سا پکنک پوائنٹ تھا جس پر ٹرمپ کی گفتگو جو تھی جس کا بڑے پیمانے پر استقبال ہوا میں سمجھتا ہوں کہ وہ مسئلہ کشمیر کے سلسلے والا جملہ ہے۔ عافیہ صدیقی کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا عمران خان نے ایک انٹرویو میں عافیہ صدیقی کے بدلے شکیل آفریدی کی رہائی بارے بات ہو سکتی ہے، عافیہ صدیقی کے بارے میں پاکستان کے بارے میں بہت سے ہمدردی کے جذبات پائے جاتے ہیں ایک تو ان کا خاتون ہونا دوسرا ان کا ایک خاص حالات میں وہاں مظلوم کی حیثیت سے سامنے آنا۔شکیل آفریدی کو پاکستان سے لینا امریکی حکمت عملی ضرور ہو گی تاہم امریکہ میں شکیل بارے کوئی جذباتی فضا نہیں ہے نہ امریکی عوام کو اس سے دلچسپی ہے اس کے برعکس پاکستان میں عافیہ صدیقی کے حوالے سے عوامی سطح پر جذباتی کیفیت ضرور پائی جاتی ہے لوگ اس سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے اس حوالے سے بیان کو پاکستان اور امریکہ میں پسند کیا گیا ہے امریکی رکن کانگریس نے بھی اس بات کی تائید کی اور اچھا قرار دیا صدر عارف علوی شکیل آفریدی کو رہا کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اس طرح امریکی صدر ٹرمپ کو بھی عافیہ صدیقی کو رہا کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اس اقدام سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہو گا۔وزیراعظم عمران خان کی امریکہ دورے سے واپسی پر ہی افغان طالبان کا مذاکرات کیلئے تیار ہونے کا بیان خوش آئند ہے پاکستان کی کوششیں رنگ لائی ہیں اس سے قبل بھی طالبان اور امریکہ کے مذاکرات جو قطر میں ہوئے تھے میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ طالبان نے مثبت پیش کش کی ہے اور افغان امن کے لئے راستہ کھول دیا ہے۔ دوسری جانب مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھی بہتری کے آثار نظر آ رہے ہیں مودی اب لاکھ انکار کرے بھارتی میڈیا جتنا چاہے واویلا کرے کہ ایسا نہیں ہو سکتا، امریکی ترجمان نے شٹ اپ کاٹ دیتے ہوئے دوبارہ وضاحت کر دی ہے کہ ٹرمپ نے بلاوجہ بیان نہیں دیا۔نئے برطانوی وزیراعظم ترک خاندان سے ہیں، وزیراعظم عمران خان کے قریبی دوست ہیں۔ بورس یلسن نے عوان خان کے حکومت میں آنے سے پہلے کہا تھا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ میں برطانیہ اور آپ پاکستان کے وزیراعظم بن جائیں۔ پاکستان کا مستقبل اچھا دکھائی دے رہا ہے امریکہ سے بھی تعلقات بہتر ہوتے نظر آ رہے ہیں امریکہ کے بعد دوسرا اہم ترین ملک برطانیہ ہے، عمران خان کے دوست کا برطانوی وزیراعظم بننا برطانیہ سے تعلقات کے حوالے سے خوش آئند ہے۔ عمران خان کی پوری کوشش ہو گی کہ اپنے دوست سے رعائت چاہیں گے کہ پاکستان سے لوٹ مار کر کے وہاں پناہ لینے والوں کی واپسی کے عمل کو یقینی بنایا جائے۔ صدر ٹرمپ کا پاکستان کے دورے کی دعوت قبول کرنا خوش آئند ہے۔ وزیراعظم کا دورہ امریکہ سہ جہتی تھا سیاسی سطح پر عمران خان نے ٹرمپ سے ملاقات کی، فوجی محاذ پر آرمی چیف نے عسکری قیادت سے ملاقاتیں کیں اور آئی ایس آئی چیف نے سی آئی اے حکام سے ملاقاتیں کیں۔ سہ جہتی ملاقاتیں بہت اہم تھیں ان کے اثرات جلد سامنے آئیں گے۔
