لاہور (ناصر قریشی سے) پنجاب پولیس میں 40 سال سے بھرتی پولیس افسر ن لیگ کے اثرورسوخ سے باہر نہ آ سکے۔ذرائع نے بتایا ہے اپوزیشن کی طرف سے بالخصوص پنجاب میں یوم سیاہ کے موقع پر پولیس کے افسروں کی ہدایت پر ن لیگ کی مدد کی اور کئی جگہوں پر غنڈہ گردی کے باوجود نرم رویہ اپنایا۔ تفصیلات کے مطابق پولیس افسروں کے ن لیگی قیادت سے ٹیلی فونک رابطوں کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ ن لیگ کی اعلیٰ قیادت نے براہ راست پولیس افسروں کو فون کر کے اپنے دور کے احسانات جتائے اور اپنی ریلیوں کے دوران نرمی اور ”ہتھ ہولا“ رکھنے کے لئے کہا۔ جس کے نتیجے میں پولیس افسروںنے فورس کو جتھوں کی بجائے شہر بھر میں پھیلا دیا ن لیگ کے حمایتی پولیس افسروں نے اپوزیشن کے کارکنوں کی مدد کر کے ”نمک خواری“ کا مانگا گیا ثبوت دیدیا۔ یہ بات پولیس فورس میں مانی جا رہی ہے کہ چونکہ آئی جی پولیس افسر فوج کے افسر رہ چکے ہیں اور آرمی چیف کے بیچ میٹ اور ان کے دوست ہیں اس لئے پولیس کا قبلہ اس وقت فوج کی ہی سمت میں ہے مگر ایسے بہت سے گروہ سرگرم عمل ہیں کہ جو نواز دور کے بہت ”خاص“ گردانے جانے والے افسران میں شامل ہیں اور آئی جی شپ کے امیدوار بھی ہیں۔ایک طرف موجودہ آئی جی کو صفوں میں بیٹھے میر جعفر اور میر صادق تنگ کر رہے ہیں تو دوسری طرف ایک مکمل Shadoo Government چل رہی ہے جو کہ موجودہ سیٹ اپ کو اپ سیٹ کرنے پر ت±لی ہوئی ہے۔ وہ گروہ یہ جانتا ہے کہ آخر کار حکومت چلانے کے لئے حکومت کو کسی نہ کسی افسران کے گروہ سے صلح اور یگانگت پیدا کرنی ہی پڑے گی۔ اگر آئی جی پنجاب کو فیل کیا جاتا ہے تو یہ”آم“ آس لگائے ”نوازے“ ہوئے افسران کی ہی گود میں گرے گا۔ یہی ا±مید لگائے رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔افسران نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبریں سے بات کرتے ہوئے اس بات کو تسلیم کیا کہ افسران کی ایک بڑی تعداد ”احسانات“ کے زیر بار ہیں اور محبت نہیں کرتے تو ڈرتے ضرور ہیں کہ کل کلاں اگر حکومت نواز لیگ کی آ گئی تو بہت مشکل ہو گی اس لئے ”ڈاھڈا ہتھ“ نہیں ڈالا جا رہا بلکہ چھوٹے لوگوں کو راستہ دے کر اور ”دیرینہ ساتھیوں“ کی ہدایت پر ایس ایچ او صاحبان اپنی نگرانی پر مامور ٹا?ٹوں کو مطمئن رکھے ہوئے ہیں کہ ان کی طرف سے حکومت کے حق میں کوئی مثبت یا سخت اقدام نہیں کیا گیا اور وہ اپنے بھرتی کرنے والے مہربانو ںکو نہیں بھولے اور نہ ہی ان کو فراموش کیا ہے جس کا ثبوت ریلیوں اور منچلوں کے قافلوں کو راستہ دینا اور بدتمیزی، لاقانونیت اور غنڈہ گردی کے باوجود نواز لیگ کے کارکنوں کی عدم گرفتاری، پولیس کی طرف سے نہایت ہی نرم رویہ اور کئی جگہوں پر سہولت کاری تک شامل ہے۔
