لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) سینئر صحافی و ایڈیٹر خبریں گروپ امتنان شاہد نے کہا ہے کہ بھارت کی قومی اسمبلی میں مقبوضہ کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے حوالے سے جو آرڈیننس آیا ہے اس پر ووٹنگ ہونا بہرحال ابھی باقی ہے اس آرڈیننس کو منظوریا نامنظور کرنے کے لئے ووٹنگ ابھی ہو گی جس میں 90روز کا وقت ہو گا۔ چینل ۵ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب ظاہر ہے پارلیمنٹ میں بی جے پی کی اکثریت ہے لہذا یہ بل پاس ہو جائے گا جس کے بعد کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا یعنی لداخ کو الگ جبکہ مقبوضہ کشمیر کو الگ تصور کیا جائے گا اور لداخ کی الگ سے کوئی اسمبلی موجود نہیں ہو گی۔بی جے پی اور بھارت کا کا بنیاد ی پلان یہ تھا کہ کشمیر کا موجودہ سٹیٹس ختم کر کے اسے بھارت کا حصہ بنائیں گے اس کا انتخابات میں بی جے پی نے نعرہ بھی لگایا تھا اب وہ انہوں نے کر دیا ہے اس وقت پورے انڈیا میں مٹھائیاں تقسیم ہو رہی ہیں۔دوسری جانب اس صورتحال پر پاکستان میں بہت پریشانی ہے کہ ہم اس پر کیا فوجی حکمت عملی تیار کریں۔میرے خیال میں اس وقت ہماری حکومت خاص طور پر عمران خان جو بین الاقوامی طور پر بات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وزیراعظم عمران خان کو خود فرنٹ فٹ پر آ کر اقدامات کرنا ہوں گے اور پاکستان کے دوست ممالک جیسے سعودی،ترکی، یو اے ای کے سربراہان خاص طور پر امریکہ کو پوری صورتحال سے آگاہ کرنا پڑے گا جس کا حال ہی میں عمران خان نے دورہ بھی کیا ہے اور ٹرمپ نے کشمیر پر انہیں ثالثی کی پیشکش بھی کی تھی۔عمران خان کو فرنٹ فٹ پر کھیلنا پڑے گا جبکہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور کشمیر کمیٹی کے کے چیئرمین فخر امام کو فالو اپ کرنا پڑے گا۔اس تناظر میں فلسطین کو دیکھا جائے کہ کس طرح وہ اسرائیل بنا تھا اور کس طرح طاقت کا تواز ن ختم کرنے کے لئے فلسطین کو اسرائیل میں ضم کر دیا گیا تھا، بالکل اسی طرز پر بھارت کشمیر کے ساتھ کر رہا ہے اور وہی قوتیں مقبوضہ کشمیر میں سرگرم عمل ہیں۔بھارت اور مودی حکومت اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ کشمیر پر انہیں دوسرے ممالک کے دباﺅ کے باعث پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنا پڑے گا یہ بھارت اچھی طرح جانتا ہے لیکن کب مذاکرات کی میز پر آنا پڑے گا اس کا تعین فی الحال مشکل ہے۔بھارت نے یہ قدم اس لئے اٹھایا ہے کہ لداخ کشمیر کا حصہ نہ ہو اور جب بھی مذاکرات ہوں وہ آزاد کشمیر جو پاکستان کی طرف ہے اور مقبوضہ کشمیر جس میں اٹھارہ اضلاع ہیں اس کے حوالے سے بات ہو لداخ کے حوالے سے بات نہ ہو۔بھارت کا لداخ پر چین سے پہلے ہی تنازع چل رہا ہے جبکہ لداخ پر ،پاکستان،چین اور خود بھارت بھی ملکیت کا دعوی کرتا ہے۔اب بھارت نے بڑی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت پہلے وہاں فوج بھیجی پھر جان بوجھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کشمیر میں کرفیو لگایا جائے سیاحوں کو نکالا۔بھارت کا یہ دعوی کہ پاکستان کی جانب سے کشمیر میں مداخلت کی جا رہی ہے فائرنگ کی آڑ میں مجاہدین بھیجے جا رہے ہیں یہ غلط تھا صرف کشمیر میں کرفیو کی فضاءپیدا کرنے کے لئے یہ سب کیا گیا اور اس لئے بھی کہ پیر کے روز یہ صدارتی آرڈیننس اپنی اسمبلی میں پیش کرنا تھا بھارت کو معلوم تھا اس کشمیریوں اور کشمیری لیڈر شپ کی طرف سے اس پر رد عمل تو آئے گا۔بھارت نے کشمیر پر مذاکرات کرنے ہیں اب آج کریں یا کل مذاکرات تو کرنا پڑیں گے ۔ پاکستان تو کشمیر پر مذاکرات کرنے کو تیار ہے بھارت کو بھی یہ اندازہ ہے کہ کشمیر ایشو پورے خطے کی سلامتی کے لئے بہت ہاٹ ایشو ہے کشمیر کو دوٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا مقصد صرف یہ ہے جب بھی مذاکرات ہوں مقبوضہ کشمیر پر ہوں لداخ کا علاقہ اس میں شامل نہ ہو۔عمران خان کو دوست ممالک اور دنیا کو بتانا پڑے گا کہ کشمیر صرف بھارت کا اندرونی مسئلہ نہیں اس سے بہت سے مسائل جڑے ہوئے ہیں جو پورے کشمیر پر پھیلے ہیں خاص طور پر دو ممالک جو جوہری طاقتیں ہیں وہ اس کی لپیٹ میں آ کر جنگ کے دہانے پر پہنج سکتی ہیں کیونکہ کشمیر دونوں قوتوں کے لئے فلیش پوائنٹ ہے اگر اس مسئلے کو مناسب طریقے سے حل نہ کیا گیا تو یہ کسی جنگ کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے یہ بات وزیراعظم عمران خان جو پوری دنیا ،اپنے دوست ممالک اور او آئی سی کے ممبر مسلم ممالک پھر مغربی ممالک جیسے برطانیہ، اورامریکی صدر ٹرمپ کو بتانی پڑے گی۔بھارت کی طرف سے یہ سارا مسئلہ پیدا کیا گیا ہے ایک دم سے بیٹھے بیٹھے بھارت کو خیال نہیں آیا کہ آرٹیکل370ختم کر کے کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر دینا ہے یہ بڑی ہی منصوبہ بندی کے تحت کیا جا رہا ہے۔افغانستان میں امن کے لئے پاکستان بہت ہی اہم کردار ادا کر رہا ہے اس سارے مرحلے میں بھارت نہیں ہے بھارت نے افغانستان میں 34ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے،پل بنانے ،سڑکیں بنانا،انفراسٹرکچر ٹھیک کرنا افغانستان میں بھارت کی سولہ ہائی قونصلیٹس ہیں اب بھارت خود کو پیچھے نہیں دھکیل سکتا افغانستان کے امن مذاکرات میں بھارت نے کسی نہ کسی طرح جمپنگ کرنا ہے بھارت نے یہ ساراڈراامہ دنیا کویہ بتانے کے لئے کیا کہ ہم بھی اس خطے میں سٹیک ہولڈر ہیں۔
