کراچی (ویب ڈیسک) کراچی میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی چھوڑی ہوئی جائیداد اور زرعی زمین کا ریکارڈ بھی غائب کردیا گیااور کچھ جائیداد کاریکارڈ جلا دیا گیا، اس طرح سندھ میں بدعنوانی کا عروج دیکھنے کو ملتا ہے کہ بانی پاکستان کی جائیداد کو بھی نابخشا گیا،قائداعظم محمد علی جناح کی کراچی میں ہاکس بے ، شاہ فیصل ٹاؤن (دیھ ڈرگ) اورٹھٹھہ میں کچھ جائیداد ورثہ میں چھوڑی تھی جسے ان کی وفات کے بعد ان کی بہن مادرملت فاطمہ جناح نے حاصل کرنے کی کوشش کی مگر ابھی صوبے کی انتظامیہ سے خط و کتابت جاری تھی کہ ان کا بھی انتقال ہوگیا اور اس کے بعد یہ جائیداد عدالت عالیہ سندھ کی جانب سے
بنائے گئے ایک ٹرسٹی بورڈ (علی گڑھ اسکالر شپ ایجوکیشن ٹرسٹ) کے حوالے کرنے کی کوشش کی گئی اور انہوں نے اس میں سے دستیاب ریکارڈ کے مطابق کچھ جائیداد حاصل کرکے فروخت کی اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے غریب طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کیلئے وظائف دینا شروع کیا مگر اس ٹرسٹ کے پہلے سربراہ شریف الدین پیرزادہ ، ممبر لیاقت ایچ مرچنٹ اور ٹرسٹی زیڈ ایچ چنا کی کوششوں سے قائد کی جائیداد دیھ ڈرگ شاہ فیصل ٹاؤن میں حاصل کرکے فروخت کی گئی اس سے کل آمدنی 1کروڑ 8لاکھ 11ہزار600 روپے حاصل ہوئی ، واضح رہے کہ قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی میں علی گڑھ یونیورسٹی کیلئے اپنی جائیداد مختص کی تھی اور یہ رقم اسے دینے کا کہا گیا تھا مگر چونکہ ان کی زندگی نے وفا نہ کی اس لئے ان کے بعد حاصل ہونے والی رقم کو منافع بخش اداروں میں لگا کر اسے 4کروڑ 27لاکھ 25ہزار153روپے میں بدل دیا گیا یہ ٹرسٹی کی نیک نیتی کہا جاسکتا ہے بعد
ازاں زیڈ ایچ چنا کی وفات کے بعد عدالت کو ریفرنس کی شق نمبر 2کے مطابق جسٹس ریٹائرڈ جی ایچ ملک اور موجودہ اٹارنی جنرل انور منصور خان کے نام تجویز کئے گئے کیونکہ ریفرنس میں عدالت عالیہ سندھ دیئے گئے فیصلے کے مطابق ٹرسٹی کم از کم تین کا ہونا ضروری تھا اورعدالت کے حکم میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ٹرسٹیز میں ردوبدل صرف عدالت عالیہ کی کرسکتی ہے اور نئی تقرریاں بھی عدالت علیہ ہی کرسکتی ہے۔ ٹرسٹ کی جانب سے لین دین میں تینوں ممبران کے دستخط ہوں گے تاہم ایک ممبر ملک سے باہر ہو تو ضروری طور پر حاصل کی گئی رقم کم از کم دو ممبران کے دستخط ضروری ہوں گے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنا مکان موہتہ محل ملک کی آزادی سے کچھ عرصہ قبل ہی خریدا تھا جس میں ان کے انتقال کے بعد محترمہ فاطمہ جناح رہائش پذیر رہیں جبکہ قائداعظم کا ایک مکان جناح ہاؤس ممبئی میں بھی ہے جو تقسیم کے بعد انڈین حکومت کے قبضے میں چلا گیا تھا اور اس کا آج تک کوئی حل نہیں نکالا جاسکا اس طرح قائداعظم محمد علی جناح نے کلیکٹرکراچی صاحب عزیز کو ایک خط لکھا جس میں اپنا مدعہ بیان کیا کہ ان کو کچھ زرعی مقاصد کیلئے زمین چاہئے قائداعظم کے سیکریٹری نے اس زمین کی نشاندہی کیلئے ناکلاس نمبر255دیہہ لال بکھر منسلکہ خاکہ ABCDکی نشاندہی کی اور بتایا کہ قائد نے خود اس زمین کو منتخب کیا ہے جس کا سروے نمبر 288سے 291تک تک نشان زدہ ہے اور زمین قائداعظم کی طلب کردہ زمین سے خارج کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ دوسروں کے نام الاٹ ہے تاہم باقی زرعی زمین زرعی مقاصد کیلئے قیمت کی ادائیگی کے ساتھ قائداعظم کو الاٹ کردی جائے ،قائد کے18فروری 1948کے لیٹر پر کارروائی کو آگے بڑھتے ہوئے اس وقت کے کلیکٹر نے لیٹر نمبر ایچ HI/883/1948چار مارچ 1948، ناکلاس نمبر256، دیہ لال بکھر زمین 117-14کی الاٹمنٹ کا آرڈر نکالا اور اپنے حکم میں کلیکٹر نے لکھا کہ قائداعظم کو نشان زدہ زمین 50روپے فی ایکڑ کی شرح سے مالکانہ حقوق پر زرعی مقاصد کیلئے مستقل طور پر دی جاتی ہے تاہم کلیکٹر نے اپنے آرڈر کو ریونیو کمشنر کی اجازت سے مشروط قرار دیا، ان دنوں یہ علاقہ ٹھٹھہ کے ہی حدود میں آتا تھا اس لئے ڈپٹی کلیکٹر ٹھٹھہ نے مختار کار کو ہدایات جاری کیں کہ وہ اس زمین کا اجازت نامہ اور نقشہ تیار کرکے قائد کے حوالے کریں، جس پر ریونیو ڈپارمنٹ سے لیٹر نمبر3091-F/48جاری کیا گیا، جس میں ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے افسر نے 1948 کو کلیکٹر کراچی کو متلع کیا کہ زمین الاٹ کردی گئی ہے، قائداعظم اس کا چالان بینک میں جمع کرادیں تاہم اپنے آرڈر میں ڈپٹی کلیکٹر نے لکھا کہ اگر قائد اعظم اس زرعی زمین کو دیگر مقاصد کیلئے استعمال کرنا چاہیئں تو اس کیلئے الگ سے اجازت کا حصول ضروری ہوگا، یہ احکامات ریونیو کمشنر برائے سندھ ایس رائیڈلی نے اپنے آرڈر نمبر HM/1012/1948مارچ 1948کو مختار کار کو بھیج دیا تھا، قائداعظم کو الاٹ کرتے وقت اس زمین میں سے دس ایکڑ کا رقبہ بطور راہ داری استعمال کیلئے الگ کردیا گیا کیونکہ قائداعظم نے فرمائش کی تھی کہ اگر ان کی زمین میں سے گزر کے مچھیرے اپنی روزی کیلئے مچھلی بانی کرنا چاہیں تو وہ آسانی سے کرسکیں اور اپنے جال سکھانے کیلئے پھیلاسکیں اور انہیں دس ایکڑ میں موجود اس کویں تک بھی رسائی حاصل ہو۔ بعدازاں قائداعظم محمد علی جناح نے ایک اور خط میں 70ایکڑ 28گھنٹے ناکلاس نمبر255دیہہ لال بکھر کے حصول کیلئے بھی 2اپریل 1948کو ایک خط لکھا جس پر مختار کار نے انہیں اس زمین کی ابتدائی رپورٹ تیار کرکے ریونیو کمشنر وکٹوریہ روڈ کراچی کو بھیج 28اپریل 1948کو بھیج دی، مگر قائداعظم نے بانی پاکستان ہونے کے باوجود دیہہ بلے جی میں زمین کے ایک اضافی علاقے کی مجوزہ گرانٹ پر اعتراضات کے حوالے سے لکھا کہ مجھے لگتا ہے کہ اس فیصلے کو اعلیٰ ترین سطح پر لیجایا جانا ضروری ہے، اس لئے آپ برائے مہربانی اپنے خیالات درج کرنے کے بعد یہ کاغذات مجھے دوبارہ بھجوائیں، بعدازاں مختار کار کی جانب سے دیگر کارروائی کی تکمیل کے بعد قائد کو متعلا کیا گیا ان کے خط نمبر 25/Bldg/48-50مورخہ 19،20جنوری 1950ء کا حوالہ دیا، قائداعظم نے اس زمین کے 5ہزار959روپے تین پیسے دو اپریل 1948کو بھرنے کے بعد زمین کی الاٹمنٹ کا آرڈر وصول کیا، مذکورہ زمین جب نپائی کی گئی تو یہ A93-G91تک وسیع ہوگئی، رپورٹ میں کہا گیا کہ منظورشدہ خاکے کے مطابق بیس لائن ڈی سی 104کی چین میں مذکورہ زمین ہے، قائد کو الاٹ کی گئی زمین کی مالیت 1950سے 1951تک ان کی ملکیت رہنا تھی مگر اس زمین کا کچھ حصہ قائد کی وفات کے بعد ٹرسٹ نے فروخت کردیا اور بقیہ زمین خردبرد کرلی گئی۔ اس سلسلے میں قائد کی زمین کچھ کاغذات جو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد دیگر جلائی گئی عمارتوں کے ساتھ ریونیو سندھ کی عمارت کراچی بلمقابل ایم پی اے ہاسٹل جلنے سے بچ گئی تھی وہ اس وقت کے ریونیو کے سینئر افسر گنور خان لغاری نے اپنے پاس محفوظ کرلی اور اب بھی اصل فائل ان کے پاس موجود ہے تاہم زمین اپنی جگہ موجود نہیں یہ سندھ حکومت کا بڑا کارنامہ ہے کہ اور اس سلسلے میں جب بھی کسی بڑی اتھارٹی سے بات کی گئی تو اس نے موقف دینے سے انکار کردیا اور قائد کی زمین سے سرے سے لاعلمی کا اظہار کیا، یہاں تک کہ نمائندہ خبریں نے علی گڑھ ٹرسٹ کے آخری سربراہ لیاقت ایچ مرچنٹ جو قائد اعظم کے دور سے عزیز بھی ہوتے تھے کے انتقال سے قبل ان سے رابطہ کرکے انہیں دکھائیں تو وہ خود حیران رہ گئے اسی طرح شریف الدین پیرزادہ نے بھی نمائندہ خبریں کی اس کاوش کو سراہتے ہوئے کہا کہ جو چیزیں آج تک ہم دریافت نہ کرسکے حیرت ہے کہ ان کی دستایوزات آپ کہاں سے نکال لائے۔