اسلام آباد (خبر نگار خصوصی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے وفاق، وزارت دفاع اورآرمی چیف کو نوٹس جاری کر دیا جبکہ عدالت عظمیٰ نے درخواست واپس لینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے اسے از خود نوٹس میں تبدیل کر دیا ۔ منگل کو عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس مظہر عالم اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے جیورسٹ فاو¿نڈیشن کی جانب سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر درخواستگزار جیورسٹ فاو¿نڈیشن کے وکیل ریاض حنیف راہی کی جانب سے درخواست واپس لینے کی استدعا کی گئی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک درخواست موصول ہوئی ہے، درخواست گزار اور ایڈووکیٹ آن ریکارڈ موجود ہے جبکہ اس درخواست کے ساتھ کوئی بیان حلفی بھی موجود نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں معلوم نہیں کہ یہ درخواست آزادانہ طور پر دی گئی ہے یا بغیر دباو¿ کے، اس لیے ہم درخواست واپس لینے کی درخواست نہیں سنیں گے۔عدالت عظمیٰ نے درخواست واپس لینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 184 (سی) کے تحت عوامی مفاد میں اس درخواست پر سماعت کی اور اسے ازخود نوٹس میں تبدیل کردیا۔درخواست پر سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ میں اٹارنی جنرل انور منصور خان پیش ہوئے اور متعدد دستاویزات پیش کیں۔اس پر عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی مدد سے ان دستاویزات کا جائزہ لیا اور نوٹس کیا کہ سمری ابتدائی طو رپر وزارت دفاع نے بھجوائی جو آرمی چیف کی تین سال کے لیے تقرری اور توسیع کے لیے بھجوائی گئی۔سماعت کے دوران چیف جسٹس کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ صرف صدر مملکت آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرسکتے ہیں، وزیراعظم کو اس توسیع کا اختیار نہیں، جس پر عدالت میں موجود اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی چیف کی مدت میں توسیع صدر کی منظوری کے بعد کی گئی اور سمری کو کابینہ کی جانب سے منظور کیا گیا۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پشاور ہائیکورٹ میں بھی اس طرح کی درخواست دائر ہوئی تھی جو واپس لے لی گئی تھی۔عدالت میں اٹارنی جنرل کی بات پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ صدر نے 19 اگست کو آرمی چیف کی توسیع کی منظوری دی تو 21 اگست کو وزیراعظم نے کیسے منظوری دےدی، سمجھ نہیں آرہا کہ صدر کی منظوری کے بعد وزیراعظم نے دوبارہ کیوں منظوری دی؟۔اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کابینہ کی منظوری کے بعد وزیراعظم نے دستخط کیے، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا کابینہ اور وزیراعظم کی منظوری کے بعد صدر نے دوبارہ منظوری دی، اس پر انہیں اٹارنی جنرل نے بتایا کہ صدر مملکت نے کوئی منظوری نہیں دی۔اٹارنی جنرل کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ حتمی منظوری تو صدر مملکت نے دینا ہوتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے 19 تاریخ کو وزیراعظم نے توسیع کا لیٹر جاری کردیا پھر وزیراعظم کو بتایا جاتا ہے کہ آپ کا اختیار نہیں بلکہ فیصلہ کابینہ نے کرنا ہے، بعد ازاں کابینہ نے جاری نوٹیفکیشن کی تاریخ سے توسیع کی منظوری دی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صدر نے کابینہ سے پہلے جو منظوری دی وہ شاید قانون کے مطابق صحیح نہ ہو، دستاویزات کے مطابق کابینہ کی اکثریت نے توسیع پر کوئی رائے نہیں دی۔چیف جسٹس نے کہا کہ 25 رکنی کابینہ میں سے صرف 11 نے توسیع کے حق میں رائے دی جبکہ 14 ارکان نے عدم دستیابی کے باعث کوئی رائے نہیں دی۔اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جنہوں نے رائے نہیں دی انہوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کابینہ ارکان کو سوچنے کا موقع بھی نہیں دینا چاہیے، کابینہ کے 14 ارکان نے ابھی تک آرمی چیف کی توسیع پر ہاں نہیں کی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کابینہ کی اکثریت نے منظوری دی، 25 میں سے 11 وزار کے ناموں کے سامنے” ہاں“ لکھا گیا، جمہوریت میں یہ فیصلے اکثریت رائے سے ہوتے ہیں، جن ارکان نے جواب نہیں دیا ان کا انتظار کرنا چاہیے تھا، ان اراکین نے ”نہ“ بھی تو نہیں کی۔عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے کہا کہ کیا حکومت کابینہ ارکان کی خاموشی کو ہاں سمجھتی ہے؟ کیا نوٹیفکیشن کابینہ سے منظوری کے بعد وزیراعظم سے ہوتے ہوئے صدر تک نہیں جانا چاہیے تھا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم صدر مملکت سے دوبارہ منظور لے سکتے ہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آرٹیکل 255 کے تحت ازسر نو تقرر کا اختیار نہیں توسیع کا ہے، یہاں سمری میں توسیع کا لفظ استعمال کیا گیا جبکہ ازسر نو تقرر کیا جارہا ہے۔دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ آرمی چیف کب ریٹائر ہورہے ہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ 29 نومبر کو آرمی چیف ریٹائر ہورہے ہیں، ساتھ ہی اٹارنی جنرل کی بات پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے پوچھا کہ آرمی چیف کی اس وقت عمر کیا ہے؟۔عدالت میں جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ قانون میں توسیع کےلئے کوئی شق ہے، کابینہ میں توسیع کی کوئی وجوہات زیر بحث نہیں آئیں، کیا کابینہ نے توسیع کی منظوری دیتے ہوئے اپنا ذہن اپلائی کیا، ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ توسیع کی منظوری سرکولیشن سے کابینہ سے لی گئی۔بعد ازاں عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ آرمی چیف کی توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کر رہے ہیں، ساتھ ہی عدالت نے آرمی چیف سمیت تمام فریقین کو نوٹسز جاری کردیے۔سپریم کورٹ کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ اس درخواست میں عدالت آرمی چیف کو فریق بنا رہی ہے۔عدالتی حکم نامے میں آرمی چیف کو باضابطہ فریق بنایا گیا جبکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، وزارت دفاع اور وفاقی حکومت کو نوٹسز جاری کردئیے۔عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ حکومت کی جانب سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی سمری پیش کی گئی، وزیراعظم نے 19 اگست کو اپنے طور پر تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کیا، نوٹیفکیشن کے بعد غلطی کا احساس ہوا اوروزیراعظم نے صدر کو سمری بھجوائی، صدر نے 19 اگست کو ہی سمری کی منظوری دے دی۔ نجی ٹی وی نے اپنی رپورٹ میں بتایاکہ حکم نامے کے مطابق عدالت کو یہ بتایا گیا کہ علاقائی سیکیورٹی کی صورتحال کے پیش نظر آرمی چیف کو توسیع دی جارہی ہے، خطے کی سیکیورٹی صورت حال والی بات عمومی ہے، علاقائی سکیورٹی سے نمٹنا فوج کا بطورادارہ کام ہے کسی ایک افسر کا نہیں، علاقائی سیکیورٹی کی وجہ مان لیں تو فوج کا ہر افسر دوبارہ تعیناتی چاہے گا۔عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل مدت ملازمت میں توسیع یا نئی تعیناتی کا قانونی جواز فراہم نہ کرسکے، اٹارنی جنرل نے قانون کی کوئی ایسی شق نہیں بتائی جس میں چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت میں توسیع اور دوبارہ تعیناتی کی اجازت ہو۔حکم نامے کے مطابق آرمی رولز کے تحت صرف ریٹائرمنٹ کو عارضی طورپر معطل کیا جاسکتا ہے، ریٹائرمنٹ سے پہلے ریٹائرمنٹ معطل کرنا چھکڑا گھوڑے کے آگے باندھنے والی بات ہے۔اپنے حکم نامے میں عدالت نے کہا کہ کیس میں اٹھنے والی تمام نکات کا تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے، وفاقی کابینہ کے 25 میں سے صرف 11 ارکان نے توسیع کی منظوری دی، صدر کی منظوری کے بعد معاملہ کابینہ میں پیش کیا گیا، کابینہ کے بعد سمری وزیراعظم اور صدر کو پیش نہیں کی گئی۔عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ وزیراعظم نے خود حکم پاس کرکے موجودہ آرمی چیف کو توسیع دی، آرٹیکل 243 کے تحت صدر مجازاتھارٹی ہوتا ہے جبکہ اٹارنی جنرل کے مطابق وفاقی حکومت کے پاس اختیار ہے کہ سروسز چیف کومدت ملازمت میں توسیع دے۔خیال رہے 25 نومبر کو جیورسٹ فاو¿نڈیشن نے آرمی چیف کی مدت ملازت میں توسیع کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی تھی۔