پاکستان کے لیے بڑی خبر ، امریکہ نے فوجی تربیت پروگرام ،2ارب ڈالر امداد بحال کر دی

واشنگٹن‘اسلام آباد ( آن لائن‘ این این آئی ) امریکی محکمہ خارجہ نے کہاہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کےلئے قریبا دو سال بعد اپنا ملٹری ٹریننگ اور تعلیمی پروگرام بحال کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ وزیراعظم عمران خان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اس سال ہونے والی ملاقات اور امریکہ اور پاکستان کے دہائیوں پر مشتمل دیرینہ تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ امریکہ نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے لیے ہونے والے مذاکرات میں کردار ادا کرنے پر بھی پاکستان کو بھی بہت سراہا ہے۔ یڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے زیر انتظام چلنے والا بین الاقوامی ملٹری ایجوکیشن اور ٹریننگ پروگرام (آئی ایم ای ٹی) پروگرام پاکستان کے لیے تقریبا دو بلین ڈالر امریکی سکیورٹی امداد کا ایک چھوٹا سا حصہ تھا۔ جنوری 2018 ءمیں پاکستان کےلئے امریکی سکیورٹی امداد معطل کر دی گئی تھی۔ امداد معطل کیے جانے کی وجہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستان پر جنگجوﺅں کے خلاف اقدامات اٹھانے کے لیے دبا ڈالنا تھا۔خیال رہے کہ اس سال کے آغاز میں بھارتی نیم عسکری دستے پر ہونے والے ایک حملے میں 40 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے، جس کے بعد امریکہ نے پاکستان پر دہشتگردوں کے خلاف مستقل اور ناقابل واپسی اقدامات اٹھانے پر زور دیا تھا۔

آصف سعید کھوسہ کا دور تاریخی رہا ،اہم فیصلے کیے آخر میں مشرف کے خلاف فیصلے نے برا تاثر چھوڑا ،ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا ور تاریخی رہا اور بہت اہم فیصلے کئے البتہ آخر میں آ کر جو خصوصی عدالت کا فیصلہ ہے ان کا جو ریفلیکشن عدلیہ پر آیا ہے اس کا کوئی زیادہ اچھا تاثر نہیں کیا وہ ایک متنازعہ فیصلہ ہے، آج سے 10,8 دن پہلے انہوں نے مکے لہرا کر کہا تھا اس کے جواب میں پھر فیصلہ آیا ظاہر ہے اس پر الزام لگنا ہی تھا۔ ایک قومی اخبار نے ان کا بیان بھی چھاپا تھا لیکن جب کھوسہ صاحب نے اس پر ایکشن لیا تو پھر کچھ لوگوں نے بیچ بچاﺅ کرا کے معاملہ دفع دفع کرا دیا۔ آخر میں آکر کھوسہ صاحب بھی متنازع ہو گئے۔ گزشتہ روز انہوں نے معاملات کی وضاحت کے لئے صفائی بھی دینا پڑی۔ یہ وہ صحیح کہہ رہے ہیں وہ اگرچہ ان کا فیصلہ نہیں تھا لیکن عدلیہ پر جو الزام آ رہا ہے کہ دائرہ کار سے نکل کر زیادہ سخت فحیصلہ دیا اور یہ فیصلہ پاکستان سپیشل کورٹ میں بھی نہیں تھا۔ میں نے کل کے پروگرام میں کہا تھا کہ زینب کے قاتل جس نے کئی بچوں سے زیادتی کی اور ان کو مار بھی ڈالا ان کے بارے میں بچی کے والد کا مطالبہ تھا کہ قاتل کو سرعام پھانسی دی جائے لیکن عدالت نے ان کا مطالبہ نہیں مانا تھا لیکن مشرف کے بارے میں جو فیصلہ آیا اس سے ہمارے حلقے دہلی گئے ہیں یہ کیسا فیصلہ آیا۔ آگے چل کر کیا آمنے سامنے دکھائی دے رہے ہیں اس سوال کے جواب میں ضیا شاہد نے کہا کہ اس کا انحصار آنے والے چیف جسٹس پر ہے اگر چیف جسٹس جناب گلزار احمد صاحب جو تھوڑی سی معاملہ فہمی سے کام لیں تو وہ اس صورت حال کو سنبھال سکتے ہیں اگر انہوں نے بھی اپنے پیشرو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وہی ایک انتہائی نقطہ نظر لیا تو میرا خیال ہے پھر یہ جو فساد بڑھ جائے گا۔ کل جو سٹاک مارکیٹ اتنا بڑا دھچکا لگا ہے اس کی ذمہ دار بھی اسی فیصلے پر عائد ہوتی ہے۔ ہمارے جج حضرات کو فیصلہ دیتے وقت دیکھ لینا چاہئے کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے اور اس کا سٹاک ایکس چینج پر بھی کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ جسٹس وقار سیٹھ نے کہا ہے کہ حالات کو کیا ہوا ہے میں تو ٹی وی پر ریسلنگ دیکھتا ہوں ضیا شاہد نے کہا کہ اتفاق ایسا ہے کہ ان کا تعلق بھی خیبرپختونخوا سے ہے اور اب نئے آنے والے چیف جسٹس سپریم کورٹ بھی خیبرپختونخوا سے ہی تعلق رکھتے ہیں اللہ رحم کرے۔ اگر اداروں کے درمیان کسی قسم کا کوئی تصادم نہ ہو تو یہ پاکستان کے حق میں بہتر ہے اور خاص طور پر مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ گزشتہ روز چونڈہ میں انڈیا نے پاکستان کے بارڈر کے ساتھ جو خار دار تار 4 جگہوں پر کاٹ دی ہے اور اس کی وجہ یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ خدانخواستہ کوئی چھوٹی موٹی جھڑپ جو ہے وہ ہو سکتی ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے حالات ہیں ہم کسی بھی قسم کی جھڑ کے، جنگ، لڑائی کے متحمل نہیں اور خاص طور پر جب دونوں ملک ایٹمی پاورز ہیں تو اس صمن میں کسی قسم کی جھڑپ کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے۔ اس بات کے بھی امکانات ہیں بھارت اپنے اندرونی حالات توجہ ہٹانے کے لئے کسی قسم کی کوئی جنگ کھول دے۔ پاکستان اور بھارت کو سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہئے۔ وقتی جھڑپ فائدہ دے سکتی ہے اور توجہ دلا سکتی ہے لیکن اس دور رس نتائج بہت زیادہ خراب ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس کے خطاب پر فواد چودھری نے بیان دیا کہ چیف جسٹس نے آج وضاحت دی ہے کہ وہ مشرف کیس سے لاتعلق تھے مگرایک ہفتہ قبلہ کمانڈو سٹائل میں ہاتھ لہرایا تھا اور کہا تھا کہ مشرف کیس کا فیصلہ آنے والا ہے لگتا نہیں کہ اتنے بے خبر تھے جس بے خبری کا اظہار کر رہے تھے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ میری دعا ہے کہ یہ خبر غلط ہو لیکن چونکہ انہوں نے اس اخبار کو نوٹس دے دیا تھا اور بعد میں پھر اس کو معاف بھی کر دیا تھا اس لئے لگتا ہے کہ واقعہ ہوا تھا۔ بدقسمتی ہو گی اگر میں اندرونی خلفشار کا شکار ہو گئے لہٰذا یہی بہتر ہے کہ اداروں کے درمیان لڑائی نہ ہو۔ چیف جسٹس جو ریٹائر ہو گئے انہوں تو ایک بیان دیا تھا جب ایک اخبار میں چھپا تھا انہوں نے اس اخبار کو نوٹس بھی دیا تھا بعد ازاںاس اخبار کو معاف کر دیا تھا یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے دونوں مکے لہرائے تھے جس سے لگتا تھا کہ آنے والے فیصلے پر وہ کوئی اپنا نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جن جج صاحب نے پرویز مشرف کے بارے میں فیصلہ دیا ہے کیا آپ سمجھتے ہیں نئے چیف جسٹس اداروں کے درمیان ہر ابھرنے والی صورت حال کو ختم کر پائیں گے۔ ضیا شاہد نے کہا ہے کہ نئے چیف جسٹس کے پاس ایک سنہری موقع ہے کہ وہ بڑی خوبصورتی سے اس صورت حال میں ایسا کوئی درمیانی راستہ تلاش کر سکتے ہیں کہ جو پہلے فیصلہ آیا ہے اس کو بھی ان ڈو نہ کیا جائے لیکن جو اس کے بٹر (Bitter) پہلو ہیں اس کو بھی ختم کر دیا جائے۔ افتخار چودھری اگر بیلنس نقطہ نظر اختیار کرتے تو آج یہ صورت حال نہ پیش آتی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ بنیادی حقوق اور فوجداری نظام کی روایت کے خلاف ہے اور عداوت اور انتقام نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس کھوسہ کا جو وضع کردہ نظام ہے اس میں وہ عنصر دکھائی نہیں دیتا۔ ضیا شاہد نے کہا کہ نئے چیف جسٹس پر منحصر ہے کہ وہ اس صورت حال کو کس طرح ٹائٹل کرتے ہیں۔ یہ فیصلہ برے بھیانک عزائم کے ساتھ سامنے آتا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ جلد از جلد اسے ختم کیا جائے۔
حامد سعید اختر صاحب! جو فیصلہ آیا ہے پرویز مشرف کے بارے میں آیا کہ اگر ان کی وفات بھی ہو جائے تو ان کو گھسیٹ کر لایا جائے ان کو ڈی چوک میں پانچ بار پھانسی دی جائے پاکستان سپیشل کورٹ بھی نہیں دیتا۔ کس طرح سے یہ فیصلہ دے دیا اب تک اس کے بارے میں کسی نے بھی اس کو ان ڈو نہیں کیا۔ گزشتہ رات وزیر قانون، وزیر اطلاعات کی حیثیت میں پریس کانفرنس کے مطابق آج بھی اس کا ریفرنس دائر نہیں کیا گیا۔یہ کہا جاتا ہے کہ جج کے ذہن میں ری ایکشن ہے جسے آپ غصہ بھی کہہ سکتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اتنے برسوں سے پرویز مشرف کسی طور پر بھی جواب دینے کے لئے تیار رہنے کے لئے تیار نہیں ہیں ان کو جتنی مرتبہ بھی موقع دیا گیا۔ انہوں نے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا سوال یہ ہے کہ اگر ان کو موقع دیا جائے تو کیا وہ اپنا بیان ریکارڈ کروائیں گے کیونکہ ان کا کیس ان ہرٹ نہیں جانا چاہئے اس پر تو سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ کسی بھی سلسلے میں ان ہرڈ فیصلہ سامنے نہیں آنا چاہئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کو منع کر دیا گیا تھا جب تک وہ اپنا بیان نہ ریکارڈ کروا دیں فیصلہ نہ سنایا جائے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر ہیں ان کے الفاظ میں ایک بات بڑی ہے اس میں انہوں نے کہا ہے کہ ملک سب سے اہم ہے ادارے اس کے بعد ہوتے ہیں۔ پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ قائم کرنے والی مسلم لیگ ن منظر سے غائب دکھائی دے رہی ہے جبکہ پیپلزپارٹی جس نے مقدمہ قائم نہیں کیا وہ بڑی شدو مد کے ساتھ آئین کے ساتھ کھڑی دکھائی دے رہی ہے اور پی ٹی آئی جب مقدمہ قائم نہیں تھا اس وقت سے پہلے ہی جنرل صاحب کو مجرم قرار دے رہی تھی اب کہہ رہی ہے کہ 6 سال کا عرصہ اپنے دفاع کے لئے ناکافی ہے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ اس سلسلے میں بہت سے خیال ہے کہ اس صورت حال کو حل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ پرویز مشرف کی سزا جو صدر مملکت اس کو معاف کر سکتے ہیں۔ اس کا ان کو حق حاصل ہے لہٰذا یہ کہا جاتا ہے کہ مقصد ہی ختم ہو جاتا ہے۔ نوازشریف کا دائرکردہ کیس ہے ن لیگ تو اس کے خلاف کہے گی نہیں۔ پیپلزپارٹی بھی اؑٓج شامل باجہ ہے۔

2 سال میں 8 لاکھ 84 ہزار اعلیٰ تعلیم یافتہ، ہنر مند نوجوان ملک چھوڑ گئے

 اسلام آباد: غیر یقینی معاشی صورتحال، مہنگائی اور بڑھتی بیروزگار ی سے تنگ، اعلی تعلیم یافتہ پاکستانی روزگارکیلیے بیرون ملک جانے پر مجبور ہو گئے۔ق ملک بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی تعداد ایک کروڑ نولاکھ سے تجاوزکرگئی جبکہ گزشتہ 2 سال کے دوران ملک میں روزگار کی عدم دستیابی اوربڑھتی مہنگائی سے تنگ 8لاکھ 84 ہزار پاکستانی نوجوان بیرون ملک چلے گئے۔بیورو آف امیگریشن کے ریکارڈ کے مطابق 2018میں 3لاکھ82ہزار جبکہ رواں سال 2019ء میں اب تک5لاکھ سے زائد نوجوانوںکو بیرون ملک بھیجاگیا۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیاکہ بیرون ملک جانے والے مزدوروں کیساتھ ایک بڑھتی تعداد اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ہے۔دستاویز کے مطابق 29 ہزار 312 اعلی تعلیم یافتہ پاکستانی بیرون ملک گئے جبکہ 17ہزار 609 اعلی تربیت یافتہ اور 3 لاکھ 69 ہزار اسکلڈ لیبر نے بیرون ملازمت کو ترجیح دی۔دستاویز میں انکشاف کیا گیاکہ موجودہ حکومت کے دور میں 10ہزار انجینئرز، ساڑھے تین ہزار ڈاکٹرز جبکہ ساڑھے نو ہزار اکاؤنٹنٹ نے نوکریوں کی حصول کیلیے دوسرے ممالک کا رخ کیا، اسی طرح 25 ہزار الیکٹریشن، 3 ہزار استاتذہ، ڈھائی ہزار فارما سسٹ، پانچ سو نرسز اور زراعت کے شعبے میں مہارت رکھنے والے 13ہزار پاکستانیوں نے بیروزگاری کے باعث بیرون ملک ملازمت کو ترجیح دی۔

مہوش حیات بھارتی شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی آواز بن گئیں

معروف اداکارہ مہوش حیات بھی مودی سرکار کی جانب سے مسلم مخالف شہریت قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کی ہم آواز بن گئیں۔مہوش حیات نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ویڈیو شیئر کی جس میں بھارتی مسلم نوجوان مودی سرکار کی جانب سے متنازع شہریت قانون بل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ میں بھارتی مسلمان ہوں اور مجھے بھارت کا شہری ہونے پر شرمندہ کیا جا رہا ہے۔نوجوان نے یہ بھی کہا کہ مسلم مخالف قانون نہ صرف مسلمانوں کے بلکہ بھارتی ہندوؤں کے جذبات اور شرم کا بھی امتحان ہے، کیوں کہ aجب مسلمانوں کو ریاست بدر کیا جا رہا ہوگا تب کیا بھارتی ہندو خاموش رہیں گے ؟۔نوجوان نے بھارتیوں سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ جو مودی سرکار نے کیا ہے اگر یہ عمل صحیح لگتا ہے کہ تو آپ کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں۔ اگر آپ کو غلط لگتا ہے تو سڑکوں پر آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں، اور مودی کو بتائیں کہ اُن کی یہ غنڈہ گردی نہیں چلے گی۔ اور اس طرح سے ملک آگے نہیں چل سکتا

پی آئی سی حملہ؛ وزیراعظم کے بھانجے حسان نیازی کی عبوری ضمانت منظور

 لاہور: انسدا د دہشتگردی کی عدالت نے پنجاب انسٹیٹیویٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) حملہ کیس میں نامز د ملزم حسان نیازی کی عبوری ضمانت منظور کر لی پی آئی سی حملہ کیس میں نامزد ملزم حسان نیاز نے پولیس چھاپوں کے بعد انسداد دہشتگردی کی عدالت سے رجوع کرتے ہوئے درخواست دائر کی جسے منظور کر لیا گیا، عدالت نے حسان نیازی کی ایک ایک لاکھ روپے کے دو مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کی ہے۔حسان نیازی پر پی آئی سی حملے  کے روز گاڑیوں کی توڑ پھوڑ اور آگ لگانے کا مقدمہ درج ہے،  پولیس نے وزیراعظم کے بھانجے حسان نیازی کو گرفتار کرنے کے لیے ان کے ھر پر چھاپے مارے تاہم وہ گھر پر موجود نہیں تھے۔پی آئی سی میں وکلا اور ڈاکٹروں کے تصادم میں حسان نیازی کی فوٹیجز بھی سامنے آئی تھیں لیکن پولیس نے حسان نیازی کے خلاف کارروائی سے گریز کیا تھا تاہم سوشل میڈیا پر تنقید کے بعد حسان نیازی کے گرفتاری کے لیے ان کے گھر چھاپے مارے گئے تھے

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ آج ریٹا ئرڈ ہوجائیں گے

 راولپنڈی: چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ آج رٹائر ہوجائیں گے۔چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ آج رٹائر ہوجائیں گے جبکہ نئے چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کل ایوان صدر میں منعقدہ خصوصی تقریب میں حلف اٹھائیں گے۔نئے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس مامون الرشید شیخ یکم جنوری کو گورنر ہاؤس لاہور میں حلف اٹھائیں گے، موجودہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سردار شمیم کے ساتھ جسٹس شاہد مبین بھی31دسمبر کو رٹائر ہوں گے، ان دونوں کی رٹائرمنٹ سے لاہور ہائی کورٹ میں ججز کی خالی سیٹوں کی تعداد بڑھ کر 17ہوجائے گی جبکہ منظور شدہ سیٹوں کی تعداد60ہے

بچوں سے زیادتی کرنیوالوں کیلئے الگ اورمشرف کیلئے الگ قانون کیوں؟ حمزہ کا سوال

کراچی: سابق اداکارحمزہ علی عباسی نے سابق صدرجنرل پرویز مشرف کو ڈی چوک پر گھسیٹنے اور ان کی لاش تین دن تک چوک پر لٹکانے کے خصوصی عدالت کے فیصلے پر شدید برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے ملک میں ہر کسی کے لیے الگ قانون کیوں رائج ہے۔گزشتہ روز خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں پرویزمشرف کی سزائے موت کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے حکم دیا تھا کہ پرویزمشرف کوآئین توڑنے کے 5 جرائم میں 5 مرتبہ سزائے موت دی جائے اگروہ مرجائیں تو ان کی لاش کو ڈی چوک اسلام آباد میں گھسیٹا جائے اورلاش تین دن تک چوک پرلٹکائی جائے۔خصوصی عدالت کے فیصلے میں استعمال کیے گئے الفاظ پرجہاں سوشل میڈیا پرشدید مذمت کی گئی وہیں حمزہ علی عباسی نے بھی پرویزمشرف کے لیے ججزکی جانب سے استعمال کیے گئے ان الفاظوں پر شدید برہمی کا اظہارکیا۔حمزہ علی عباسی نے گزشتہ روز ٹوئٹرپرعدالتی فیصلے کا اقتباس شیئرکرتے ہوئے لکھا میں اپنے الفاظوں کو واپس لیتا ہوں کہ ججوں پر فوج مخالف یا پاکستان مخالف ہونے کے الزامات نہ لگائیں۔ میں فیصلے میں استعمال کیے گئے الفاظوں کو دیکھ کر صدمے میں ہوں۔ یہ قانون کا اصول نہیں ہے۔ فیصلے میں استعمال کیے گئے الفاظ غیر قانونی، غیر اخلاقی اور واضح طور پر غلط ہیں۔حمزہ علی عباسی نے ایک اورٹوئٹ میں کہا فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف کو سرعام پھانسی دی جائے اور ان کی لاش کو 3 دن تک چوک پر لٹکایا جائے۔ واہ! جب قوم نے بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے اورانہیں بے رحمی سے قتل کرنے والے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا تھا توہمیں کہا گیا ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ تو آئین میں کس قانون کے تحت جج نے مشرف کو یہ سزا سنائی؟

کراچی ٹیسٹ؛ سری لنکا کی پاکستان کے خلاف بیٹنگ

کراچی: دوسرے ٹیسٹ کے دوسرے دن سری لنکا کی پاکستان کے 191 رنز کے جواب میں بیٹنگ جاری ہے۔نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں میچ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان دوسرا ٹیسٹ کھیلا جارہا ہے، قومی ٹیم نے پہلے دن ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کی اور 191 رنز بناکر آؤٹ ہوگئی تھی جب کہ سری لنکا نے 3 کھلاڑیوں کے نقصان پر 64 رنز بنائے تھے۔آج ٹیسٹ میچ کا دوسرا دن ہے اور سری لنکا نے 6 وکٹوں کے نقصان پر 170 رنز بنالیے ہیں جب کہ پاکستان کی پہلی اننگز کا خسارہ پورا کرنے کے لیے آئی لینڈرز کو مزید 21 رنز درکار ہیں۔واضح رہے کہ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان پہلا ٹیسٹ میچ راولپنڈی میں کھیلا گیا تھا جو بارش اور خراب موسم کے باعث ڈرا ہوگیا تھ

مشرف کے خلاف فیصلہ سنانے والے جج نے قرآن وسنت کی توہین کی،50مفتیان کرام کا فتوی

فیصل آباد (آئی این پی ) سربراہ سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ امد رضا نے کہا ہے کہ اسلام میںمردہ شخص کی عزت و توقیر بھی زندہ انسان کی طرح ہے مردہ شخص کو لٹکانا خلاف شرع اور انسانیت کی شدید ترین تذلیل ہے اسلام نے مسلمانوں کو عزت و قار کے ساتھ دفن کرنے برائیوں کا تذکرہ کرنے سے منع کیا سنی اتحاد کونسل کے پچاس جید مفتیان کرام نے اجتماعی شرعی اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ مطالبہ کیا کہ لاش کو لٹکانے کی بات کرنے والے جج کو فی الفور معزول کیا جائے جج نے منصب انصاف پر بیٹھ کر مسند انصاف کے وقار کو مجروح کیا ہے ایسا شخص جو میت کے حقوق کو نا جانتا ہو اسے جج رہنے کا کوئی حق نہیں ہے فیصلہ سنانے والے جج نے اپنے فیصلے سے قرآن و سنت کی توہین کی ہے مفتیان نے کہا ہے کہ کون سی تعلیمات اسلامی تعلیمات سے بلند، مشفق منصف ہو سکتی ہیں اسلام نے زندہ رہنے اور مردہ شخص دونوں کے بارے میں واضع احکامات دیے ہیںاجتماعی شرعی اعلامیہ جاری کرنے والوں میںشیخ الحدیث علامہ سعید قمر سیالوی، مفتی محمد حسیب قادری، مفتی محمد کریم خان، مفتی رحمت اللہ رضوی، مفتی محمد بخش رضوی، مفتی محمد وزیرالقادری، مولانا محمد سلطان چشتی، مولانا اللہ وسایا سعیدی، مولانا محمد صدیق قادری، مفتی محمد لیاقت علی، مفتی وسیم خان، مولاناوجاہت حسین قادری و دیگر شامل ہیں۔

جج کے الفاظ پر فوج نے دانشمندی سے کام لیا ،لوگ پوچھتے تھے کہیں مارشل لاءنہ لگ جائے،ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ حکومت نے جسٹس قار سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں جانے کا فیصلہ کیا ہے یہ اچھا اقدام ہے۔ جسٹس صاحب نے جو فیصلہ دیا ہے وہ فیصلہ ایک ذاتی اشتعال اور غصے کا فیصلہ ہے فیصلے میں ذاتی غصہ شامل نہیں ہونا چاہئے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک پہلوان کے اوپر چڑھ کر اس کو مارنے لگے تو اس نے آپ کے منہ پر تھوک دیا حضرت علیؓ رک گئے اور کہا کہ اب میں تمہیں نہیں ماروں گا کیونکہ اس سے پہلے میں قتل کرنا چاہتا تھا اسلام کی خاطر کہ تم اسلام کے دشمن تھے لیکن اب میرے غصے میں ذاتی غصے کا عنصر شامل ہو گیا ہے لہٰذا میں تجھے کچھ نہیں کہوں گا۔ میں سمجھتا ہو ںکہ جج کو اپنے اشتعال اور غصے کو شامل نہیں ہونا چاہئے جبکہ جو فیصلہ آج سنایا گیا ہے کہ اس میں جس طرح ایک شخص کو جو بیمار ہے جو اپنا کیس بھی شامل نہیں ہو سکا اور صفائی بھی نہیں پیش کر سکا اس کو سزا سنا دی۔ ہمارے پڑوسی ملک میں جشن منایا جا رہا ہے۔ پرویز مشرف کو جو کارگل کا ہیرو قرار دیا جاتا تھا سیاست دانوں نے کارگل کے فیصلے کو یو این او امریکہ میں لے جا کر اس کو واپس لے لیا اور صلح کر لی۔ اس لحاظ سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ دو دن کے اندر اندنر جو شخص پاکستان میں یہ کہا جا رہا تھا آدھے لوگ حق میں تھے آدھے لوگ مخالف تھے اس فیصلے کے الفاظ نے ان کو ہیرو بنا دیا اب لوگوں کی تمام تر ہمدردیاں پرویز مشرف کے ساتھ ہو گئیں۔ اس سے فیصلے سے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس میں کوئی غیر ملکی ہاتھ ہو سکتا ہے۔ یہ مقدمہ نوازشریف کا شروع کردیا تھا۔ ان کی جو پرویز مشرف سے ذاتی ناراضگی تھی وہ اس لئے بھی ظاہر تھی کہ پرویز مشرف نے ان کو اقتدار سے ہٹایا تھا اس مقدمے میں شروع سے ہی ذاتی عناد شامل ہے ایسے کیوں میں جہاں انتقام کا جذبہ شامل ہو تو پوری دنیا میں عدل و انصاف سے عاری قرار دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جج کو اپنے فیصلے میں جذباتی نہیں ہونا چاہئے۔ اس وقت جو ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں ہو رہا ہے پاک فوج نے نہایت عقلمندی کا ثبوت دیا ہے اگر آج سے 10,10 سال پہلے ایسا واقعہ آیا ہوتا تو یقینا ملک میں مارشل لاءلگ جاتا لیکن پاک فوج نے معاملات آئین اور قانون کے تابع رکھے ہیں اور حکومت سے کہا ہے کہ جو بھی آئین ور قانون میں اسے تلافی نظر آتی ہے۔ چنانچہ آئین میں جو تلافی نظر آتی تھی وہ راستہ لیا گیا ہے۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ قصور میں زینب کے قتل کا واقعہ ہوا اس میں اس قاتل نے جتنی بچیوں سے زیادتی کی تھی تو اس پر خود زینب کے والد نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اس کو سرعام لٹکایا جائے لیکن عدالت نے اس کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ کیونکہ پاکستان کی کوئی عدالت سرعام لٹکانے کو تسلیم نہیں کرتی یہ کس قسم کا فیصلہ ہے جو ایک جج اس کی مخالفت کر رہے ہیں وار ایک جج صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اگر فوت بھی ہو جائیں یہ ایک انتہائی خوفناک فیصلہ ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ فوت بھی ہو جائیں تو ان کی میت کو نکال کر ان کو گھسیٹتے ہوئے لایا جائے اور ان کو ڈی چوک میں لٹکایا جائے۔ پاک فوج نے حکومت کو بھی ایکشن لینے کو کہا ہے حالانکہ کوئی فوج ایکشن لینا چاہتی ہے تو فوج ہمیشہ جمہوری حکومتوں کا بوریا بستر لپیٹ دیا کرتی ہے۔ میجر جنرل آصف غفور کی جب کل گفتگو شروع ہوئی تو میرے کمرے میں بیٹھے لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ ان کی پریس کانفرنس شروع ہونے والی ہے لگتا ہے آج ملک میں مارشل لا لگ جائے گا۔ یہ جملہ بہت سارے جملوں پر حاوی ہے جب انہوں نے کہا کہ ملک پہلے ہے ادارے بعد میں ہیں۔ یہ بات واقعی صحیح ہے کہ ادارے اہمیت نہیں رکھتے ملک اہمیت رکھتا ہے۔ پاک فوج ملک کی سربلندی، مضبوطی و استحکام کی ضمانت ہے کہ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ اگر فوج کو کمزور کیا جاتا ہے۔ پرویز مشرف پر الزام ہو سکتا ہے لیکن اسے کتنے مواقع ہیں کہ کمیشن بنائے گئے اور ملک سے باہر بھیجے گئے تو اب کیا بات تھی اور کیا وجہ تھی کہ کوئی کمیشن بنا کر دبئی نہیں بھیجا گیا کہ وہ پرویز مشرف کا بیان نہیں لیا گیا جبکہ وہ بیان دینے کو تیار تھے۔ اب جبکہ وہ بیمار ہیں ان سے بولا بھی نہیں جا رہا کیا قدرتی انصاف یہ طریقہ نہیں ان کے پاس ایک کمیشن بھیج دیا جائے جو ان کا بیان لے لے۔ یکطرفہ طور پر اتنا سخت فیصلہ یہ کسی طور قابل انصاف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایوب خان کے دور میں جب مارشل لاءآیا تو جسٹس محمد منیر نے یہ فیصلہ دیا کہ جو کامیاب بغاوت ہوتی ہے وہ جائز ہوتی ہے اور اس کو تسلیم کر لینا چاہئے جنرل ضیاءالحق کو بھی مارشل لا کو جائز قرار دیا گیا۔ اس دور کے ججز حضرات نے درست سمجھا۔ پرویز مشرف نے جب محمد نوازشریف کی حکومت کا خاتمہ کیا اس وقت بھی جو کہ سپریم کورٹ کے جج حضرات نے ان کو جائز قرار دیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان ججوں کو کون پوچھے گا جسٹس منیر سے لے کر جسٹس انوارالحق تک اتنے ججوں کو جو مختلف مارشل لاﺅں کو جائز قرار دیتے رہے اب ایک خصوصی عدالت کے ایک جج صاحب کو اتنا غصہ آیا ہوا کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ میت نکال کر ڈی چوک میں لٹکائی جائے۔
کے بارے میں پڑھا کرتے تھے کہ انگلستان میں جنہوں نے اس وقت حکومت پر قبضہ کیا تھا اور شاہ کی حکومت کو ختم کیا تھا تو اس وقت یہ فیصلہ آیا تھا کہ اس کی لاش کو نکال کر لٹکایا جائے۔ اگر جج حضرات اگر تو مستقلا یہ فیصلے دیتے رہتے تو شاید ماارشل لا نہ لگتا۔ ہر مارشل لاءکو انہی ججوں نے ویلڈ قرار دیا اور یہ ہر مارشل لا درست قرار دیتے رہے پرویز مشرف نے کہا کہ میں نے ایمرجنسی والا فیصلہ تن تنہا نہیں کیا میرے ساتھ وزیر قانون تھے میرے ساتھ سارے لوگ تھے پارلیمنٹ تھی ان کی بات نظر انداز کر دی گئی۔ جب یہ معاملہ جوڈیشل کونسل میں جائے گا تو یہ انڈو ہو جائے گا۔