کیس ہارا ہوں ،جنگ نہیں ،سابق صدر پرویز مشرف

لاہور (اپنے نمائندے سے) عدالت کی جانب سے دیئے گئے فیصلے پر سابق صدر پرویز مشرف نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیس ہارا ہوں جنگ نہیں ۔سابق صدر پرویز مشرف کا دالتی بیان پر افسوس کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہنا ہے کہ وہ اپنے وکلا سے صلاح مشورے کے بعدعدالت کی جانب سے دیئے گئے فیصلے پر ردِ عمل دیں گے۔پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ وہ چند دن پہلے اسپتال سے گھر منتقل ہوئے ہیں۔دوسری جانب اے پی ایم ایل کا عدالتی فیصلے پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہنا ہے کہ فیصلہ سنانے کے لیے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے، فیصلہ یک طرفہ ہے، پارٹی کو انتہائی افسوس ہے۔اے پی ایم ایل کاکہنا ہے کہ پرویز مشرف دبئی میں بیان ریکارڈ کرانے کے لیے تیار تھے، عدالت نے بیان اور جرح کیے بغیر فیصلہ سنا یا ہے۔انہوں نے کہا کہ وکلا سے مشورے کے بعد لائحہ عمل اور فیصلہ چیلنج کیا جائے گا۔واضح رہے کہ کچھ دن قبل سابق صدر جنرل(ر)پرویز مشرف نے اپنے خلاف سنگین غداری کیس کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ میں نے غداری نہیں کی بلکہ ملک کے لیے خدمات انجام دی ہیں۔پرویز مشرف کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں نے ملک کے لیے جنگیں لڑی ہیں، 10 سال ملک کی خدمت کی ہے۔سابق صدر کا مزید کہنا تھا کہ سنگین غداری کے کیس میں انہیں سنا ہی نہیں گیا اور عدالت میں ان کی شنوائی نہیں ہورہی۔

مشرف غدار نہیں،ڈی جی آئی ایس پی آر

راولپنڈی (خبر نگار خصوصی)پاک فوج نے خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر اور آرمی چیف پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا سنانے پر باضابطہ رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہاہے کہ فیصلے سے پاکستان کی مسلح افواج کے ہر رینکمیں غصہ اور درد محسوس کیا گیا ہے،پرویز مشرف سابق آرمی چیف ، جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور صدر پاکستان رہے اور چالیس سال سے زائد ملک کی خدمت کی ہے،ملک دفاع کےلئے جنگیں لڑی وہ کبھی بھی غدار نہیں ہوسکتے ، افواج پاکستان کو دستور پاکستان کے تحت مکمل انصاف کی توقع ہے۔ منگل کو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر)کی جانب سے ایک بیان میں کہاگیاکہ ایک سابق آرمی چیف ،چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور صدر پاکستان جس نے چالیس سال سے زائد ملک کی خدمت کی ہے اور ملک کے دفاع کےلئے جنگیں لڑی ہیں وہ کبھی بھی غدار نہیں ہوسکتا ۔بیان میں کہاگیاکہ خصوصی عدالت کی تشکیل ، دفاع کے بنیادی حق سے محرومی ،ایک شخص کے خلاف مخصوص کارروائی اور کیس کو جلدی میں نمٹانے سے قانونی اور دستوری تقاضوں کو نظر انداز کیا گیا ۔بیان میں کہاگیاکہ افواج پاکستان کو دستور پاکستان کے تحت مکمل انصاف کی توقع ہے ۔

ایم بی بی ایس کرنیوالے ڈاکٹروں کی طرح صحافت کے طلباءکو بھی میڈیا میں پریکٹس کرنی چاہئے،ضیا شاہد

لاہور(جنرل رپورٹر)یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی میں تقریب ملاقات اور افکاروخیالات کی خصوصی نشست کا انعقاد، چیف ایڈیٹر خبریں ضیاشاہد کی نشست کے مہمان خصوصی کے طور پر شرکت ، یوایم ٹی کے سکول آف کمیونیکیشن سٹڈیز کے تمام پروگرامز کے طلبا ءکے چیف ایڈیٹر ضیا شاہد کی صحافتی خدمات اور تجربات سے مستفید ہونے کے لئے شرکت ۔نشست میں یوایم ٹی کے ریکٹر محمد اسلم، سکول آف کمیونیکیشن سٹڈیز کے ڈین اکٹر مغیث الدین شیخ ، معظم علی خان ، اظہر اقبال سمیت فیکلٹی ممبران کی بھی شرکت کی ۔ طلبا ءکی بڑی تعداد سے خطاب کرتے ہوئے چیف ایڈیٹر ضیا شاہد نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ میں نے بطور اخبار نویس دنیا بھر کا سفر کیا ہے اور کچھ نا کچھ سیکھا ہے ، یونیورسٹیاں معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ایسے ہی آ پ سب بھی معاشرے کے اہم رکن کی حیثیت سے بہتری کے لئے کردار اداکررہے ہیں مگر جس طرح ایم بی بی ایس ڈاکٹر چوتھے سال پریکٹس کا آغاز کر دیتے ہیں ایسے ہی صحافت کے طلبا کو باقاعدہ طور پر پریکٹس کرنی چاہئے وگرنہ اچھے گریڈز تو ضرور ملیں گے مگر صحافت میں مقام پیدا کرنا بہت مشکل ہو گا۔ضیا شاہد کا کہنا تھا کہ ہمارے دور میں 8سے10لڑکے اور لڑکیا ں نکلتے تھے اخباروں میں لکھنا شروع کر دیتے تھے ۔ میں کتابت کرتے کرتے میڈیا انڈسٹر ی میں آیا اور اپنی زندگی کی 52سے زائد بہاریں دیں ہیں ۔ طالب علم اب موج میلا ، وقت ضائع کرتے ہیں آپ جس فیلڈ میں بھی ہوں مگر زمانہ طالب علمی کے دور سے ہی تجربہ حاصل کرنا شروع کر دیں کیونکہ صحافی بننے کے لئے لکھنا انتہائی اہم ہے اور آپ لکھیں وقت کے ساتھ ساتھ نکھار آتا جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تعلیم کا مقصد نوکری کرنا ہی نہیں بلکہ تعلیم یافتہ ہونے کے بعد آپ کے قدموں میں نوکری اور کامیابی ہوگی ۔ طلبا کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاست میں وہ لوگ آتے ہیں جنہیں سیاست کی الف ب بھی نہیں آتی مگر وہ اپنے آپ کو منوانے کے لئے سالوں صرف کر دیتے ہیں ۔ ضیاءشاہد کا کہنا تھا کہ مایوسی کی کوئی بات نہیں میڈیا انڈسٹری کا مالی بحران جلد ٹل جائے گا اور اچھے دن جلد آئیں گے ۔ اس موقع پر یونیورسٹی کے ریکٹر ڈاکٹر محمد اسلم نے طلبا سے گفتگو کر تے ہوئے کہا کہ اتنے بڑے قد آور صحافی کا یونیورسٹی میں تشریف لانا باعث افتخار ہے اور میں مشکو ر ہوں کہ ضیا شاہد تشریف لائے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ طلبا کو تھیوری کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل بھی ہونا ہوگا کیونکہ اگر ہم پریکٹیکل نہیں کریں گے تو اکیلی تھیوری سے کام نہیں چلے گا۔ یوایم ٹی کے سکول آف کمیونیکیشن سٹڈیزکے ڈین ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کا کہنا تھا کہ طلبا کو ٹرینگ کی ضرورت ہے اور اس پر توجہ دینا ہوگی ۔ ضیا شاہد کی ساری زندگی صحافت میں گزری ہے اور آج بھی اتنی ہی تندہی سے صحافت کے فرائض انجام دے رہے ہیں میں ان کا مشکور ہوں کہ وہ اپنی نئی نسل کی تیاری کے لئے بھی ہمہ وقت موجود رہتے ہیں ۔ اس موقع پر سنیئر صحافی ایثار رانا کا کہنا تھا کہ میں اخبار فروش تھا مگر ضیا شاہد مجھے صحافی بنا دیا۔ ضیاشاہد کنگ نہیں بلکہ کنگ میکر ہے انہوں نے صحافت کو عام آدمی زبان بنادیا ہے۔ ضیا شاہد نے 25سال پہلے ہی تبدیلی لا دی تھی۔ معظم علی خان نے کہا ہے کہ مجھے فخر ہے کہ میں نے جناب ضیا شاہد صاحب کے ساتھ 6سال کام کیا ہے۔

فوج مشرف کو کارگل کا ہیرو سمجھتی ہے،اتنی بڑی سزا کیسے ہضم کرے ،ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میں اس سے دو تین دن پہلے یہ سن چکا ہوں کہ عدالت نے منع کر دیا تھا کہ جب تک پرویز مشرف کو صفائی کا موقع نہ مل جائے اس وقت تک فیصلہ نہ دیا جائے۔ ایک طرف ایک ہی شخص کے بارے میں فیصلہ دیا جا رہا ہے کہ جب تک ان کو سن نہ لیا جائے اس وقت تک فیصلہ نہ دیا جائے اور فیصلہ روکا جا رہا ہے۔ دوسری طرف سے خصوصی عدالت ان کا فیصلہ سنا رہی ہے اس فیصلے میں بھی پرویز مشرف کو صفائی کا موقع نہیں دیا گیا اور فیصلہ بھی سزائے موت کا فیصلہ ہے یہ کوئی چھوٹی موٹی سزا نہیں ہے اتنا بڑا فیصلہ بغیر سنے دیا جانا جو ہے یہ کوئی زیادہ چھی بات نہیں ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کے اس بیان پر پرویز مشرف غدار نہیں ہو سکتے۔ عدالتی فیصلہ پر فوج میں غم و غصہ اور اضطراب پایا جا رہا ہے۔ اس سے اداروں میں تصادم کا خطرہ تو نہیں پیدا ہو گا۔ ضیا شاہد نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ اس سے اداروں میں کوئی تصادم کا خطرہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ فوج کا ادارہ اتنا ری ایکٹ نہیں کرے گا جتنا ری ایکشن کرنا تھا انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار کر دیا۔ البتہ میں سمجھتا ہوں کہ آخری عدالت نہیں ہے اپیل کا حق ہے۔ خصوصی عدالت کے فیصلے کو آپ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے پرویز مشرف کی طرف سے بھی اس فیصلے کو چیلنج کیا جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ آرمی خود بھی اپنے وکیل کے ذریعے اس کو چیلنج کرے کیونکہ آرمی کے لئے اصل میں یہ بڑا مشکل ہے کہ ایک شخص جیسے کہ خود ڈی جی آی ایس پی آر نے کہا 40 سال تک فوج کی خدمت کرتا ہے پھر جب حکومت میں آتا ہے اور منتخب حکومت کا تختہ الٹتا ہے تو بھی یہی عدالتیں جو اس ے اس ایکٹ کو درست قرار دیتی ہیں اور اس کی حکومت کو آئینی تسلیم کرتی ہیں اب اس کے ایک ایکٹ کو جو کہ اس نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو برطرف کیا اس کو بنیاد بنا کر سزائے موت دی جائے تو ظاہر بہت سے حلقوں میں اس کو پسند نہیں کیا جائے گا۔ یہ قانونی نقطہ ہے کہ انہوں نے جو اقدام کیا وہ ملک کو توڑنے کے لئے یا ملک سنبھالنے کے لئے کیا۔ شاید سپریم کورٹ اس فیصلے کو تبدیل بھی کر دے۔ فوج کے لئے ایک طریقے سے اس فیصلے کو ہضم کرنا بڑا مشکل ہے۔ اس لئے کہ پرویز مشرف کی شکل میں اس کے جو دوسرے نظم و نسق ہیں اس کی بھی تعریف کی جاتی ہے دیکھئے پرویز مشرف کے فیصلے پر حیرت ہوئی ہے کہ خاص طور پر انہی دنوں اس ہفتے میں یہ فیصلہ بھی آیا تھا کہ یکطرفہ طور پر ان کو سزا نہ دی جائے اور جو بھی فیصلہ آیا ہے اس کو نہ سنایا جائے۔ عام طور پر پاک فوج کی فیصلے پر ردعمل نہیں دیتی۔ لیکن جس طریقے سے پاک فوج نے اس پر ری ایکٹ کیا ہے جس طرح سے پرویز مشرفکا دفاع کیا ہے اس پر آپ کیا کہتے ہیں۔ کیا یہ زیادہ بہتر ہوتا کہ اس معاملے میں بھی پرویز مشرف نے چونکہ پیروی نہیں کی اور ان کو سنا نہیں گیا تو کیا اس طرز عمل کو عدالتیں جو تھیں وہ ہر ایک طریقے سے ان میں ایک ری ایکشن پیدا ہوتا ہے کہ یہ شخص تو ہمارے سامنے پیش ہی نہیں ہوتا تو پھر وہ زیادہ سے زیادہ جو سزا ہوتی ہے اس کی طرف آتی ہیں۔کیا آپ پرویز مشرف کے مسلسل پیش نہ ہونے کو اس کی وجہ نہیں سمجھتے۔
حامد سعید اختر صاحب!! بعض اوقات ملک میں ایسی ایمرجنسی عائد ہو جاتی ہے جیسا کہ اس وقت ہوئی تھی جب بے نظیر بھٹو کے خلاف فوج نے پیسے تقسیم کئے تھے آپ بھی اس کام میں شامل تھے اگرچہ سرکاری ڈیوٹی کے طور پر شامل تھے لیکن آپ نے اس وقت جسٹی فائی کیا تھا کہ جو کچھ ہم نے کیا تھا درست تھا اور بعض دفعہ ملکی سالمیت زیادہ اہم ہوتی ہے بہ نسبت اس کے کہ نچلی سطح پر آئین اور قانون کہتا ہے۔ کوئی چیزیں آئین سے بھی بالاتر ہوتی ہیں۔ یہی فلاسفی تھی جو آپ نے دی تھی۔ کیا پرویز مشرف نے جو ایمرجنسی لگائی تھی وہ بھی کیا ان چیزوں سے بالاتر کسی ضرورت کے تحت نہیں تھی۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاک فوج نے اتنا ری ایکشن شو نہیں کیا کسی کورٹ کے فیصلے پر جبکہ عام طور پر پاک فوج اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرتی۔ آپ ڈی جی کی اس ٹویٹ کو کیا سٹیٹس دیتے ہیں کیا آپ کے خیال میں فوج کو اپنے ری ایکشن کا اظہار کرنا چاہئے تھا۔ خاص طور پر ان معنوں میں کہ اس فیصلے پر انڈیاں میں خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔ یہ معمول سے ہٹ کر فوج نے اپنے ری ایکشن کا اظہارا کیوں کیا۔ کیا سپریم کورٹ کا جو فیصلہ کیا جس میں سپریم کورٹ نے کہا کہ جو مروجہ طریق کار تھا اور جو روایت چل رہی تھی کہ وزیراعظم سمری بھیج کر تین سال کے لئے توسیع دے سکتا ہے کورٹ نے اس کو ان ویلڈ قرار دیا اور کورٹ نے یہ ان کی آرمی چیف کی تقرری کو بھی پارلیمنٹ کے تابع کر دیا اور ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ اگر ہم نے چھ ماہ دیئے ہیں لیکن اگر 6 ماہ میں متبادل قانون نہ بنا تو ہم اس کو یہ سمجھیں گے کہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ ہو گئی ہے۔ حامد سعید اختر آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس فیصلے کا غم و غصہ بھی آرمی میں موجود تھا جو اب جو دوسری بات سامنے آئی تو اس پر ری ایکشن کا اظہار کیا گیا ہے کیا آپ اس پر بھی اضطراب کو محسوس کرتے ہیں۔ عدالتی فیصلے پر آرمی کا جو ری ایکشن سامنے آیا ہے اس میں کیا فوج اور عدلیہ کو آمنے سامنے نہیں لا کھڑا کیا ہے۔ ملک میں بحث شروع ہو گئی ہے یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ آرمی نے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ سزائے موت کے فیصلے پر اس لئے ردعمل کا اظہار کیا ہے کہ پرویز مشرف ہیرو ہے جس نے کارگل کی جنگ لڑی تھی اور سیاست وطن ہیں جنہوں نے جنگ کے خلاف معاہدہ کیا۔ چنانچہ کی نظر میں کارگل کی جنگ کے ہیرو کو سزائے موت دینا ظاہر ہے ایسا عمل ہے جس کو آرمی نے شاید برداشت نہیں کر سکی۔ کیا یہ حقیقت یہ نہیں ہے کہ ہم جس آئین کی بات کرنا یا فوج کا اقتدار میں آنا ناپسندیدہ فعل ہے لیکن ایک حقیقت ہے کہ حکومت عدلیہ کی بہتری کے لئے ہونی چاہئے تو مارشل ادوار میں عوام کی اکثریت مارشل لا سے خوش تھی۔ ایوب خان کی اصلاحات سے، معاشی ترقی سے مطمئن تھی۔ ضیاءالحق کو ایک بڑی اکثریت مردمومن، مرد حق قرار دیتی ہے اور ان کا جب حادثہ ہوا پاکستان میں ان کا جنازہ ایک ریکارڈ اکثریت کے ساتھ پڑھا گیا۔ یہی کیفیت پرویز مشرف دور کی تھی جس کے دور میں سمجھا جاتا ہے کہ صحافت کی آزادی جمہوری حکومتوں سے زیادہ تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہم پرویز مشرف کے ساتھ آگرہ گئے۔ پرویز مشرف نے کہا کہ یہاں اتنے لوگ اپنے اپنے کیمرے لے کر آئے ہوئے ہیں آپ لوگ وہاں فیئر اینڈ فری ڈس کشن کیوں نہیں کرتے آپس میں۔ ان کو بتایا گیا کہ ہمارے ہاں تو ایک ہی پی ٹی وی ہے وہ سرکاری کنٹرول میں ہے۔ یہ ان کے الفاظ تھے سیکرٹری اطلاعات انور محمود سے کہا کہ آپ پرائیویٹ چینلز کو اجازت دیں کہ وہ آئیں چنانچہ پرائیویٹ چینلز جو بنے ہیں پاکستان میں وہ پرویز مشرف کی آزادی صحافت کی صلاحیت کو جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اکثریت لوگوں کی سوائے ایک جماعت کے جس کو متاثر کیا تھا پرویز مشرف نے وہ مسلم لیگ ن ہے باقی لوگ، سیاسی عناصر بھی اس فیصلے کو اس طرح سے قبول نہ کریں۔ ضیا شاہد نے کہا ہے کہ کیا اس سے پہلے آرمی چیف کی مدت ملازمت کے کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ جو فیصلہ ہے ابھی اس کے اثرات بھی موجود تھے پھر وہی ایک دوسرا بڑا فیصلہ آ گیا کہ ایک شخص جو سپریم کمانڈر بھی تھا، اور پاکستان کا صدر بھی تھا جس کو عدالتوں نے ویلیڈٹ بھی کیا تھا اس کی سزائے موت کا فیصلہ آ گیا۔ کیا پاکستان ایک طریقے سے عدلیہ جو ہے وہ پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی بجائے متوازی چلنے کی بجائے سامنے آ کر کھڑی نہیں ہو گئی۔ آئین اس کی اجازت نہیں دیتا ہے کہ اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے۔ حکومت اس کو واپس بھی لے سکتی ہے۔

’بالا کوٹ ‘حملے پر فلم بنانے پر بھارتی فلم سازوں کو ڈی جی آئی ایس پی آر کا جواب

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے بھارتی فلم سازوں کو ’بالا کوٹ‘ حملے پر فلم بنانے کے اعلان پر کرارا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’بھارت کا خواب بولی وڈ فلم کے ذریعے ہی پورا ہو سکتا ہے‘۔میجر جنرل آصف غفور نے ’انڈیا ٹوڈے‘ کی خبر ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان ایئر فورس‘ (پی اے ایف) کی جانبازوں کی جانب سے گرفتار کیے گئے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی وہ بطور سپاہی عزت کرتے ہیں مگر بھارت کا جھوٹا خواب تو فلم کے ذریعے ہی پورا ہوسکتا ہے۔پاک فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’بالا کوٹ‘ حملے کے حوالے سے بھارتی وزیر نے خود اعتراف کیا کہ پاکستان کا کوئی نقصان نہیں ہوا اور عالمی برادری کو بھی اس حملے کے نقصانات کے شواہد نہیں ملے۔میجر جنرل آصف غفور کے مطابق تاہم بھارت کا ’بالا کوٹ‘ حملے کا سے خواب صرف بولی وڈ فلم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔یال رہے کہ رواں برس 26 فروری کو بھارتی لڑاکا طیاروں نے بالاکوٹ میں فضائی حملہ کیا تھا اور اس حوالے سے نئی دہلی نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے جنگجوؤں کا کیمپ تباہ کردیا ہے تاہم پاکستان نے ان دعووں کو مسترد کردیا تھا جب کہ بعد ازاں بھارتی وزیر دفاع نے بھی حملے سے متعلق نقصان کی تفصیلات بتانے سے معزرت کرلی تھی۔بھارت کی فضائیہ فوج کے سربراہ نے بھی حملے کے نتیجے میں کسی نقصان کی تفصیلات بتانے سے معزرت کی تھی جب کہ بعد ازاں عالمی اداروں نے بھی ’بالا کوٹ‘ حملے پر شکوک کا اظہار کیا تھا اور بھارتی فوج کے دعووں پر شک کا اظہار کیا تھا۔اس حملے کے 2 دن بعد بھارت نے 28 فروری کو ایک بار پھر پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی کوشش کی تھی تاہم پاکستان ایئر فورس کے جانبازوں کارروائی کرتے ہوئے بھارت کے دو لڑاکا طیارے مار گرناے سمیت ایک پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کر لیا تھا۔گرفتار کیے گئے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو پاکستان نے خطے میں امن کے قیام اور انسانی ہمدردی کے لیے یکم مارچ 2019 کو آزاد کرتے ہوئے بھارت کے حوالے کردیا تھا۔تاہم اب اس معاملے پر بولی وڈ فلم سازوں نے فلم بنانے کا اعلان کیا ہے

ہالی ووڈ فنکار بھی بھارتی بے شرمی پر چپ نہ رہ سکا ،منہ توڑ جواب دے ڈالا

ہالی ووڈ: ہالی ووڈ کے مشہور اداکار جان کیوسیک نے نئی دہلی میں جامعہ ملیہ کے طلبا و طالبات پر بہیمانہ تشدد پر طالب علموں کے ساتھ یکہتی کا اظہار کیا ہے۔اپنی ٹویٹ میں جان کیوسیک نے پہلے ایک ویڈیو شیئر کی جس میں جامعہ ملیہ کے طلبا کو نہایت زخمی حالت میں جامعہ کے غسل خانے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس پر جان کیوسیک نے پہلے پوچھا کہ یہ ویڈیو انہیں کسی نے نئی دہلی سے بھیجی ہے جس پر انہوں نے لوگوں سے ویڈیو کا پس منظر معلوم کیا ہے۔سوال پر انہیں ارون دھتی رائے کا ٹویٹ کیا گیا اور کچھ لوگوں نے بتایا کہ نئی دہلی کی جامعہ ملیہ کے طلبہ و طالبات پر پولیس نے بہیمانہ تشدد کیا ہے۔ اس کے جواب میں جان نے دوبارہ ٹویٹ کرکے اس میں اپنی حمایت و یکجہتی (سولیڈیرٹی) کے لفظ کا اضافہ کیا۔مشہور فلم کان ایئر ،2012، دی کانٹریکٹ، دی ریون اور فروزن گراؤنڈ جیسی فلموں میں مرکزی کردار ادا کرنے والے اداکار جان کیوسیک نے ایک اور ٹویٹ بھی آگے بڑھائی ہے جس میں بھارتی شہریت کے متنازع بل پر سینٹا کلارا، کیلی فورنیا میں سیکڑوں مظاہرین شریک ہیں۔ ان مظاہرین میں مسلمان، کشمیری، عیسائی اور سکھ اس بل کے خلاف سراپا احتجاج ہیں

لارا کے بھاری ریکارڈ پر کوہلی خطرہ بن کر لٹک گیا

نئی دہلی:  ویسٹ انڈیز کے سابق بیٹنگ اسٹاربرائن لارا نے ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی سب سے بڑی انفرادی 400 رنز کی اننگز کیلیے ویرات کوہلی اور روہت شرما کو خطرہ قرار دیا ہے۔برائن لارا نے کہا کہ اس قسم کے ریکارڈزاکثرجارح مزاج کرکٹر ہی توڑتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ویرات کوہلی اور روہت جیسے کھلاڑی میرا یہ ریکارڈ توڑ سکتے ہیں۔  یاد رہے کہ پاکستان کے خلاف حالیہ سیریز میں  ڈیوڈ وارنر نے 335 رنز بنائے تھے مگر آسٹریلیا نے اپنی اننگز ڈیکلیئرکردی تھی، اس بارے میں لارا کہتے ہیں کہ میری وارنر سے بات ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ یہ چیز میرے ہاتھ میں نہیں تھی، یہ ٹیم کا فیصلہ تھا، ویسے بھی بارش کا خطرہ بھی موجود تھا۔

بڑا بھارتی نیٹ ورک رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ،ڈیجیٹل میڈیا پر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کا بازار گرم کر رہا تھا

 لندن: یورپی یوینی کے تحقیقاتی ادارے نے ڈیجیٹل میڈیا پر پاکستان مخالف مہم چلانے اور یورپی پالیسی سازوں پر اثر انداز ہونے کے لیے بھارتی نیٹ ورک بے نقاب کیا ہے۔بی بی سی اور دیگر غیر ملکی نسریاتی اداروں کی رپورٹس کے مطابق جعلی خبروں اور غلط پروپیگینڈا کے حوالے سے کام کرنے والے یورپی یونین کے تحقیقی ادارے ’ای یو ڈس انفو لیب‘ نے یورپی یونین اور اقوام متحدہ جیسے عالمی سطح پر پالیسی ساز اداروں میں پاکستان مخالف مہم چلانے والے ایک بھارتی نیٹ ورک کے انتہائی فعال ہونے کا انکشاف کیا ہے۔میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ 265 ویب سائٹس پر مشتمل یہ نیٹ ورک کئی برسوں سے فعال ہے اور دنیا کے 65 ممالک میں کام کر رہا ہے، اس نیٹ ورک کا مقصد پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا ہے تاکہ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر سمیت دیگر معاملات میں پاکستان کے موقف کو رد کیا جائے یا پھر اسے کم سے کم پزیرائی ملے۔محققین نے اس نیٹ ورک کا تعلق سری واستوا گروپ نامی ایک بھارتی کمپنی سے جوڑا ہے لیکن اس کاروباری گروپ کے درج پتے پر رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو وہاں موجود سکیورٹی گارڈ نے بتایا کہ اس عمارت میں کوئی دفتر نہیں ہے۔ زیادہ تر ویب سائٹس کسی ایسے اخبار کے نام پر بنائی گئی ہیں جو یا تو ختم ہو چکا ہے یا یہ ویب سائٹس کسی اصلی میڈیا کے ادارے کی نقل اور ان تمام ویب سائٹس کے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹس بھی ہیں۔ یہ ویب سائٹس عالمی سطح پر غیر جانبدار مانی جانے والی نیوز ایجنسیوں کے مواد کو دوبارہ سے شائع کرتی ہیں۔ ان کا مقصد بھارت کے حوالے سے مظاہروں کی کوریج، پاکستان مخالف مواد کی دوبارہ اشاعت اور پالیسی بنانے والے عہدے داران تک بغیر اپنی شناخت ظاہر کیے پہنچ حاصل کرنا تھا تاکہ پاکستان مخالف فیصلوں کے لیے ان کی رائے پر اثر انداز ہوا جائے اور وہ اپنے مقاصد میں کامیاب بھی ہوئے۔بھارتی نیٹ ورک نے جعلی ویب سائٹس کی مدد سے یورپی پارلیمان کے عہدے داران کو یہ باور کرایا کہ ان کے مقاصد حقیقی ہیں اور انھوں نے اس بارے میں کسی بھی تحقیق کے بغیر ہی اسے صحیح سمجھ کر اس کی ترویج بھی کی۔ یورپی پارلیمان کے ممبران نے براہ راست اس نیٹ ورک سے منسلک افراد اور ویب سائٹس سے رابطہ کیا اور ان کے لیے مضامین لکھے، ان کی جانب سے بیرون ملک دوروں کی دعوتیں قبول کیں اور یورپی پارلیمان میں اس نیٹ ورک کے بیانیے کو پیش کیا۔جعلی ویب سائٹس میں سب سے زیادہ معروف ٹائمز آف جنیوا تھی جس میں خبروں کے علاوہ کئی ویڈیو انٹرویو تھے جن کا مقصد اقوام متحدہ کے عہدے داران کی توجہ مبذول کرنا تھا۔ ای یو ڈس انفو لیب کے انکشاف کے چند روز بعد ٹائمز آف جنیوا نے خبروں کی اشاعت کا سلسلہ بند کر دیا اور اس کی ویب سائٹ پر دیے گئے نمبر پر رابطہ کرنے کی مسلسل کوشش کی لیکن جواب نہ مل سکا۔ اس ادارے کا یوٹیوب چینل بند کر دیا گیا اور ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ بھی معطل کر دیا گیا ہے

اقرا عزیزاور یاسر حسین کی انوکھے انداز میں شادی کی دعوت

کراچی: اداکارہ اقرا عزیز اور یاسر حسین نے اپنی شادی کا کارڈ سوشل میڈیا پر شیئر کیا ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ روایتی کارڈ نہیں بلکہ اس کا رڈ کے ذریعے نہایت انوکھے انداز میں لوگوں کو شادی کی دعوت دی گئی ہے۔گزشتہ چند روز  سے سوشل میڈیا پر اقراعزیز اوریاسر حسین کی شادی کی خبریں گردش کررہی تھیں اور اب اقرا عزیز نے اپنی شادی کا کارڈ سوشل میڈیا پر شیئر کرکے اپنی اور یاسر کی شادی کی خبروں کی تصدیق کردی ہے۔تاہم یہ کوئی عام شادی کا کارڈ نہیں ہے بلکہ اس میں نہایت دلچسپ اور انوکھے انداز میں لوگوں کو شادی کی دعوت دی گئی ہے۔ دعوت نامے کے مطابق دونوں رواں ماہ کی 28 تاریخ کو شادی کے بندھن میں بندھیں گے ۔شادی کے کارڈ پر دلہا اور دلہن کے لباس میں اقرا عزیز اور یاسر حسین کا کارٹون نظر آرہا ہے ۔ کارڈ کی ابتدامیں یاسر حسین کا تعارف کراتے ہوئے لکھا گیا ہے خادم صاحب کا لڑکا یاسر (دیر آیا درست آیا)۔ عزیز صاحب کی لڑکی اقرا(سمجھداری کی مثال)۔ شادی کارڈ کے ذریعے دونوں نے ملک میں جاری مہنگائی پر طنز کرتے ہوئے کہا 28 دسمبر 2019 کو دونوں شادی کررہے ہیں(کیونکہ 2020 میں مہنگائی مزید بڑھے گی)۔نکاح دوپہر ایک بجے ہوگا ، بھرپور لنچ دوپہر ڈھائی بجے (کیونکہ ہمارے وزیراعظم بہت تیز ہیں۔ کارڈ کی آخری سطروں میں دونوں نےمہمانوں سے خصوصی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ تحفوں کی ضرورت نہیں۔ سلامی مشورے کی طرح دیں (دل کھول کر)۔ کارڈ کے ساتھ اقرا عزیز نے اپنے تمام چاہنے والوں سے کہا کہ انہیں دعاؤں میں یاد رکھیں۔سوشل میڈیا صارفین اور شوبز فنکار دونوں کی شادی پرخوشی کا اظہار کرتے ہوئے دونوں کو نئی زندگی کی مبارکباد دے رہے ہیں

سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کو سزائے موت

خصوصی عدالت نے سابق صدر اور آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنادی۔جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی۔ پراسیکیوٹر علی ضیاء باجوہ عدالت میں پیش ہوئے اور حکومت کی طرف سے مشرف کیخلاف فرد جرم میں ترمیم کی درخواست دائر کی۔حکومت نے سنگین غداری کیس میں مزید افراد کو ملزم بنانے کی درخواست کرتے ہوئے شوکت عزیز، عبدالحمید ڈوگر اور زاہد حامد کو ملزم بنانے کی استدعا کی۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ تمام ملزمان کا ٹرائل ایک ساتھ ہونا ضروری ہے، مشرف کے سہولت کاروں او ساتھیوں کو بھی ملزم بنانا چاہتے ہیں۔عدالت نے قرار دیا کہ مشرف کی شریک ملزمان کی درخواست پر سپریم کورٹ بھی فیصلہ دے چکی، ترمیم شدہ چارج شیٹ دینے کیلئے دو ہفتے کی مہلت دی گئی تھی۔جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ کیا حکومت مشرف کا ٹرائل تاخیر کا شکار کرنا چاہتی ہے؟، آپ نے مزید کسی کو ملزم بنانا ہے تو نیا مقدمہ دائر کر دیں، آج مقدمہ حتمی دلائل کیلئے مقرر تھا تو نئی درخواستیں آ گئیں، ساڑھے تین سال بعد ایسی درخواست آنے کا مطلب ہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں، تین افراد کو ملزم بنایا تو حکومت سابق کابینہ اور کور کمانڈرز کو بھی ملزم بنانے کی درخواست لے آئے گی۔جسٹس نذر اکبر نے پراسکیوٹر سے آپ کا مقصد صرف آج کا دن گزارنا تھا، استغاثہ کو یہ بھی علم نہیں کہ عدالت میں درخواست کیسے دائر کی جاتی ہے۔ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے استغاثہ سے کہا کہ اپنے حتمی دلائل شروع کرے تو پراسیکیوٹر نے کہا کہ عدالت حکومت کو درخواستیں دائر کرنے کا وقت دے۔جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ آپ حتمی دلائل نہیں دے سکتے تو روسٹرم سے ہٹ جائیں۔ خصوصی عدالت کے ججز نے کہا کہ یہ عدالت صرف سپریم کورٹ کے فیصلوں کی پابند ہے، ہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے پابند نہیں ہیں۔مشر ف کے وکیل رضا بشیر نے دلائل میں کہا کہ دفعہ 342 کا بیان ریکارڈ کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی ہے، پرویز مشرف کو فیئر ٹرائل کا حق ملنا ضروری ہے۔

جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ پرویز مشرف چھ مرتبہ 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کا موقع ضائع کر چکے، اس لیے سپریم کورٹ 342 کے بیان کا حق ختم کر چکی ہے، کیس میں استغاثہ اور مشرف کے وکیل دونوں ہی ملزم کا دفاع کر رہے ہیں۔

عدالت نے آئین سے غداری کا جرم ثابت ہونے پر مختصر فیصلہ سناتے ہوئے ملزم پرویز مشرف کو سزائے موت سنادی اور تفصیلی فیصلہ 38 گھنٹہ میں سنایا جائے گا