اکشے کو جامع ملیہ میں طلبہ پر تشدد کی ویڈیو لائک کرنا مہنگا پڑ گیا

بالی وڈ اداکار اکشے کمار کو جامعہ ملیہ اسلامیہ طلبہ پروحشیانہ تشدد کی ویڈیو کو لائک کرنا مہنگا پڑ گیا اور مداحوں نے انہیں دوغلا قرار دیدیا۔کشے کمار مسلمانوں کے خلاف متنازع بیان دینے یا مختلف سوشل میڈیا پوسٹ کے باعث اکثراپنے ہی مداحوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔گزشتہ دنوں بھارتی پولیس نے نئی دہلی  کی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں  گھس کر طلبہ پر وحشیانہ تشدد کیا جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر زیرگردش ہیں۔اکشے کمار نے انہی ویڈیوز میں سے ایک کو لائک کیا تھا، تاہم مداحوں کی جانب سے شدید تنقید نے انہیں مجبور کر دیا کہ وہ اسے واپس ’اَن لائک‘ کر دیں۔اس حوالے سے اکشے کمار نے مائیکرو بلاگنگ سائٹ ٹوئٹر پر وضاحتی بیان دیتے ہوئے کہا کہ ’جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ پروحشیانہ تشدد کرنے کی ویڈیوکو میں نے ’لائک‘ غلطی سے کیا تھا‘۔انہوں نے مزید لکھا کہ در اصل دوسری ٹوئٹس کو دیکھتے ہوئے مجھ سے لائک ہوگیا تھا تاہم تھوڑی ہی دیر بعد جب مجھے احساس ہوا توفوراً ہی اسے ’اَن لائک‘ کردیا تھا کیونکہ میں اس طرح کسی بھی تشدد کا حامی نہیں ہوں۔اداکارکے اس بیان کے بعد ٹوئٹر پر’بائیکاٹ کینیڈین کمار‘ ٹرینڈ بن گیا  جب کہ صارفین نے انہیں خوب تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ایک صارف نے لکھا کہ ’ودیشیوں کا تو کام ہی دیش میں آگ لگانا ہوتا ہے‘۔دوسرے صارف نے بھی ملے جلے انداز میں اکشے کمار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہ رف فلموں میں ہیرو ہوتے ہیں، اصل زندگی میں یہ زیرو ہیں، ڈرپوک‘

بھارت جمہوری اقدار کو مدنظر رکھے اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرے: امریکا

امریکا نے کہا ہے کہ بھارت جمہوری اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ شہریت کے متنازع قانون کے خلاف بھارت کی مختلف ریاستوں اور شہروں میں مظاہرے جاری ہیں جب کہ پولیس کی جانب کریک ڈاؤن اور دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں طلبہ پر تشدد کے بعد صورتحال تشویشناک ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں ترجمان مورگن آرٹیگس نے کہا کہ  امریکا کی شہریت ترمیمی ایکٹ سے متعلق بھارت میں حالات پر گہری نظر ہے، ہم تمام  تر پیشرفت کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ مذہبی آزادی اوریکساں سلوک کا احترام جمہوریت کے بنیادی اصول ہیں، اس لیے بھارت آئین اور جمہوری اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے مذبی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے اپیل کی کہ بھارتی مظاہرین کے پُرامن احتجاج کے حق کا تحفظ اور احترام کیا جائے  ساتھ ہی بھارتی مظاہرین سے تشدد سے دور رہنے کی درخواست کی ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں وزیرِ داخلہ امیت شاہ کی جانب سے ایک بل پیش کیا گیا تھا جس کے تحت پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔تارکینِ وطن کی شہریت سے متعلق اس متنازع ترمیمی بل کو ایوان زیریں یعنی لوک سبھا میں 12 گھنٹے تک بحث کے بعد کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا تھا جس کے بعد ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا نے بھی اسے منظور کر لیا۔

دھند ہی دھند، حد نگاہ انتہائی کم، ملک بھر میں سردی کی شدت میں اضافہ

لاہور (خصوصی ر پورٹر) لاہورسے خانقاہ ڈوگرہ تک شدید دھند کے باعث حدِ نگاہ کم ہوگئی،ترجمان موٹروے پولیس نےشہریوں کوغیرضروری سفر سے گریز کرنے کی ہدایت کر دی۔موٹروے پولیس کے مطابق موٹروے M-2، لاہور سے خانقاہ ڈوگرہ تک شدید دھند کے اعث حدِ نگاہ 100 میٹر سے بھی کم رہ گئی ہے اور ہر قسم کی ،اسی طرح لاہورسے کالا شاہ کاکوتک شدید دھند کے باعث موٹر وے پرحدِ نگاہ میں کمی،ترجمان موٹروے پولیس کا کہنا تھا کہ شہری سفر کے دوران دھند میں بہت احتیاط سےکام لیں۔گاڑی کے آ گے اور پیچھے والی فوگ لائٹس کا استعمال کریں اور رفتار کم رکھیں،اچانک بریک لگانے سے پرہیز کریں اور ہیڈلائٹ لوبیم پررکھیں، موٹروے پولیس کے مطابق شہری سفر شروع کرنے سے پہلے ہیلپ لائن 130سے مدد لیں۔اس حوالے سے موبائل فون ایپلیکیشن”این ایچ ایم پی ہمسفر”میں تازہ ترین ٹریول ایڈوائزری جاری کر دی گئی ہے، سفر شروع کرنے سے پہلے اور دوران سفر ایپ کا استعمال مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ محکمہ مو سمیا ت کے مطا بق آئندہ چو بیس گھنٹوں کے دوران بالائی پنجاب کے مختلف شہروں جہلم،سرگودھا،خوشاب،راولپنڈی،چکوال ،اٹک، سیا لکوٹ ، حافظ آباداور لاہور کے اضلاع میںموسم خشک اور سرد رہے گا ، تاہم صبح کے اوقات میں شدیددھند چھائے رہنے کا امکان ہے ،جبکہ گلگت، ، بلتستا ن اور کشمیر سمیت شمالی علاقہ جات میں موسم شدید ترین سرد رہے گا ، گزشتہ 24گھنٹوں کے دوران لاہور ڈویژن سمےت راولپنڈی، گوجرانوالہ، فیصل آباد، اسلام آباد میں موسم سرد اورخشک رہا جبکہ گلگت، ، بلتستا ن اور کشمیر سمیت شمالی علاقہ جات میںموسم خشک اور شدید سردرہا ،پیرکی صبح صوبا ئی دارالحکومت لا ہور کا درجہ حرارت زیادہ سے زیا دہ 8 سینٹی گریڈ اور کم سے کم 6 سینٹی گریڈرہا جبکہ ہوا میں نمی کا تنا سب93 فیصد رہا۔

پی آئی سی حملہ کیس وکلاءکی درخواست ضمانت پر بنچ دوسری بار ٹوٹ گیا

لاہور (خصوصی ر پورٹر)لاہور ہائیکورٹ میں پی آئی سی حملہ کیس میں گرفتار وکلاءکی درخواست ضمانتوں پر سماعت میں بینچ دوسری بار تحلیل ہوگیا،دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کرنے سے معذرت کرلی۔جسٹس علی باقرنجفی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے لاہورہائیکورٹ بارسمیت یگرکی خواستوں پرسماعت سے معذرت کرلی،کیس کسی دوسرے بینچ کو بھجوانے کی سفارش کرتے ہوئے فائل چیف جسٹس کو بھجوادی گئی،دورکنی بینچ نےروبرو وکلاءکی جانب سےصدر ہائیکورٹ بار حفیظ الرحمان چوہدری سمیت دیگر وکلاء پیش ہوئے۔سی پی اوکی جانب سے وکلاءنے خلاف درج مقدمات اور گرفتاریوں کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا گیا،اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب فیاض احمد بسرا نے سی سی پی او کی جانب سے رپورٹ پیش کی، لاہور ہائیکورٹ بارسمیت دیگروکلاءکی جانب سے دائردرخواستوں میں پنجاب حکومت ،آئی جی،سی سی پی او اورمدعی مقدمہ سمیت دیگرکو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے پی آئی سی کے باہر پرامن احتجاج کے دوران پولیس نےوکلاءپر تشدد کیا۔پولیس اورڈاکٹرزنےوکلاءپرتشدد کرکے انہیں زخمی بھی کیا،میڈیا فوٹیج میں وکلاءپرہونے والے تشدد کو دیکھا جاسکتا ہے،وکلاءپربے بنیاد مقدمات درج اور انسداد دہشتگردی کی دفعات شامل کی گئیں۔کئی وکلاءکو مقدمات درج کیے بغیرناجائز طور پر حراست میں لیاگیا ہے،وکلاءپر بلاجواز تشدد اوران کی غیر قانونی حراست آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے،درخواستوں میں استدعاکی گئی ہے کہ زخمی وکلائ کا میڈیکل چیک اپ کرنےاورگرفتار وکلاء کو رہا کرنےکا حکم دیا جائے۔سماعت کے دوران گرفتار وکلا کے وکیل نے بینچ پر اعتراض کردیا۔ جس پر فاضل بینچ نے درخواستوں پر سماعت سے معذرت کرتے ہوئے معاملہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو بھجوا دیا۔دوران سماعت جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیئے کہ اسپتال پر حملہ کرنے کی جرات کس طرح کی گئی، کیا آپ وضاحت دے سکتے ہیں کہ کیوں حملہ کیا گیا، آپ کو اندازہ نہیں ہم کس دکھ میں ہیں، ہم بڑی مشکل سے اس کیس کی سماعت کر رہے ہیں، دکھ اس بات کا ہے آپ اس پر وضاحت دے رہے ہیں، ہمیں آپ نے کہیں کا نہیں چھوڑا، اس طرح تو جنگوں میں بھی نہیں ہوتا۔کارروائی کے دوران فاضل بینچ سے مکالمے کے دوران وکلا کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے موقف اختیار کیا کہ ہم کوئی بھارت سے جنگ لڑنے نہیں آئے، وکلا کی جانب سے کہرام کیوں نہ برپا ہو، پولیس کو کسی پر تشدد کرنے کا اختیار نہیں ہے، ہم وضاحت نہیں کر رہے بلکہ مذمت کر رہے ہیں۔

مودی نے خود بھارت میں خانہ جنگی چھیڑ دی،12ہلاک سینکڑوں زخمی

نئی دہلی، گوہاٹی، کانپور، گووا، بھوپال، کانپور (مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں) بھارت میں پارلیمنٹ سے منظورشدہ شہریت کے متنازع بل کے خلاف شمال مشرقی ریاستوں میں ہونے والے احتجاج کے دوران پولیس کی فائرنگ اور تشدد سے ہلاکتوں کی تعداد 10سے زائدہوگئی ہے جبکہ انٹرنیٹ کی معطلی اور کرفیو بدستور نافذ ہے۔بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست آسام کے سب سے بڑے شہر گوہاٹی میں شدید مظاہرے ہورہے ہیں جہاں سیکیورٹی کے معاملات فوج کے ہاتھ میں ہے جو مسلسل سڑکوں پر گشت کررہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق گوہاٹی میں گزشتہ روز بھی ہزاروں افراد نے احتجاج کیا اور آسام زندہ باد کے نعرے لگارہے تھے جبکہ سیکڑوں اہلکار بھی وہاں موجود تھے۔مقامی انتظامی عہدیدار کا کہنا تھا کہ کرفیو کی وجہ سے ریاست میں تیل اور گیس کی پیدوار متاثر ہوئی ہے حالانکہ اتوار کو پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی اور چند دکانیں بھی کھل گئی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ آسام میں پولیس کی فائرنگ سے 6 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ 4افراد دیگر شہروں میں فورسز کے ہاتھوں مارے گئے ، ایک شہری نذر آتش کی گئی دکان میں سورہا تھا اور اسی دوران ہلاک ہوگیا جبکہ اور شہری کی ہلاکت احتجاج کے دوران تشدد کے باعث ہوئی۔ہلاکتوں کی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے ۔بھارتی فورسز کی جانب سے میڈیا کو مظاہروں سے دور رکھا جا رہا ہے۔ بھارت میں نئے شہریت قانون کے خلاف مظاہروں میں شدت آگئی ،دارالحکومت نئی دہلی کی مرکزی جامعہ میں اس بل کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر پولیس کی جانب سے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کے استعمال سے 100 سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔غیرملکی میڈیا کے مطابق پولیس حکام کا کہنا ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبہ سمیت ہزاروں افراد نے غیرمسلموں کو شہریت دینے کے نئے قانون کے خلاف احتجاج کیا۔پولیس حکام کا کہنا تھا کہ اس قانون کے خلاف تیسرے روز ہونے والا پرامن مظاہرہ افراتفری میں تبدیل ہوگیا اور 3 بسوں کو نذرآتش کردیا گیا،ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار بسوال نے کہا ہے کہ جنوبی دہلی کے پوش علاقے میلی میں 6 پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ تاہم منتظمین طلبہ کے مطابق تشدد باہر کے افراد کی جانب سے کیا گیا۔بھارتی پولیس متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ پر ٹوٹ پڑی اور بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ بھارت بھر میں مسلمانوں کے خلاف مذہبی سلوک پر مبنی قانون کی منظوری کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ بھارتی دارالحکومت دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی اور علی گڑھ میں مسلم یونیورسٹی کے طلباءو طالبات بھی مودی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور انتہا پسندی اور نفرت پر مبنی سرکاری پالیسیز کے خلاف شدید احتجاج کیا۔بھارتی ریاست مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بینر جی نے بھی متنازع قانون کے خلاف مودی سرکار کے خلاف بڑی ریلی نکال لی۔تفصیلات کے مطابق بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف ملک گیر مظاہرے جاری ہیں، بھارتی میڈیا نے خبر دی ہے کہ مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بینر جی نے بھی اپنی قیادت میں احتجاجی ریلی نکالی۔اس سے قبل ممتا بینر جی نے ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ کولکتہ میں بابا صاحب امبیڈکر کے مجسمے کے پاس غیر آئینی شہریت کے بل کے خلاف ایک بڑی ریلی نکالی جا رہی ہے، سماج کے ہر طبقے سے اس میں شرکت کی دعوت ہے۔ریلی میں ممتا بینر جی کی پارٹی کے سیکڑوں رہنماﺅں اور کارکنوں نے شرکت کی، بھارتی میڈیا اسے بہت بڑی ریلی قرار دے رہا ہے، بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ مغربی بنگال سمیت 5 بھارتی ریاستیں متنازع قانون سے انکار کر چکی ہیں۔ادھر راہول گاندھی نے بھی ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہریت کا متنازع قانون بھارت کے 2 حصوں میں تقسیم کی سازش ہے، اظہار یک جہتی کے لیے قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے ساتھ کھڑا ہوں۔خیال رہے بھارت کے تیس کے قریب شہروں میں مسلم مخالف بل کے خلاف جاری مظاہروں کے دوران مودی سرکار کی جانب سے بد ترین تشدد کے تناظر میں کانگریسی خاتون رہنما پریانکا گاندھی نے بیان دیا ہے کہ مودی سرکار بزدلی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے سیکرٹری جنرل پریانکا گاندھی نے مودی سرکار کو بزدل قرار دے دیا۔دنیا کے سامنے فاشسٹ ہٹلر مودی اور ہندو انتہا پسندی کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہو گیا، بھارت میں مسلمان مخالف، ہندو نواز متنازع بل کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج جاری ہے، پرتشدد مظاہروں میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔تفصیلات کے مطابق مسلمان مخالف شہریت قانون کے خلاف دہلی میں احتجاج میں شدت آ گئی، مودی سرکار نے پولیس کو کھلی چھوٹ دے دی ہے، پولیس مسلمانوں کے حق میں احتجاج روکنے کے لیے دہلی کی جامعہ ملیہ کے طلبہ پر ٹوٹ پڑی، طلبہ اور طالبات پر وحشیانہ تشدد کیا گیا، بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ پولیس گرلز ہاسٹل اور جامعہ ملیہ کی مسجد میں بھی گھس گئی، اور پناہ گزین طالبات کو بری طرح مارا پیٹا گیا، اسکارف پہنی طالبات کو بالوں سے گھسیٹ کر گاڑیوں میں ڈالا گیا، لاٹھیاں چلائی گئیں، آنسو گیس کے شیل فائر کیے گئے۔بھارتی پولیس نے طلبہ پر بدترین تشدد کرتے ہوئے متعدد طلبہ کو زخمی کیا اور کئی طلبہ کو گرفتار کر کے لے گئی، پولیس تشدد سے کئی طلبہ کی ہلاکت کی بھی اطلاع ہے، دہلی سمیت مختلف شہروں میں طلبہ نے کلاسز کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے، بھارتی میڈیا کے مطابق جامعہ ملیہ کے طلبہ و طالبات کے خلاف رات بھر کریک ڈان کیا گیا۔ دلی پولیس نے صحافیوں پر بھی تشدد کیا، بی بی سی کی رپورٹر بشری شیخ کے بال کھینچے گئے، لاٹھیاں ماری گئیں اور موبائل چھین لیا گیا۔ادھر بھارت کی مسلم آبادی سے دیگر قومیتیں بھی مودی سرکار کے خلاف سراپا احتجاج بن گئی ہیں، مودی اور امیت شاہ کے خلاف لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں، بی جے پی اور آر ایس ایس کے خلاف پورا ملک نعروں سے گونج اٹھا ہے۔ایسا لگتا ہے جیسے بھارت کے طول و عرض میں جموں و کشمیر ابھرنے لگے ہیں، گلی گلی، شہر شہر احتجاج کیا جا رہا ہے، بھارتی متنازع بل کے خلاف احتجاجی مظاہرین نے مودی کے پتلے جلائے۔ دوسری طرف بھارتی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے مظاہرین پر بہیمانہ تشدد کیا جا رہا ہے، اور نسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ عروج پر ہے، خواتین، مرد، بچے سب پر بھارتی درندوں نے لاٹھیاں، گولیاں برسا دیں، جس سے بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہو چکے ہیں۔رپورٹس کے مطابق بھارتی پولیس اور نیم فوجی دستوں کی جانب سے عورتوں پر بھی بے پناہ تشدد کیا جا رہا ہے، عورتیں دہائیاں دیتی رہ جاتی ہیں، پرتشدد مظاہروں میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔ بھارت میں کلکتہ، گلبارگا، مہا راشٹرا، ممبئی، سولاپور میں احتجاج زوروں پر ہے، ہندوستان کے علاقوں پونے، ناندت، بھوپال، جنوبی بنگلور میں بھی احتجاجی ریلیاں نکالی جا رہی ہیں، کانپور، احمد آباد، لکھنو، سرت، مالاپورم، آراریہ، حیدر آباد میں عوامی سمندر سڑکوں پر نکل آیا ہے۔گایا، اورنگ آباد، اعظم گڑھ، کالی کٹ، یوات مل، گووا، دیو بند میں بھی مظاہرے جاری ہیں، احتجاجی مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ متنازع شہریت ترمیمی بل واپس لیا جائے، مظاہرین مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کو بھارتی آئین کے مطابق مکمل حقوق دینے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں، مظاہرین نے مطالبات پورے ہونے تک احتجاج جاری رکھنے اور ہر قربانی دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

آرمی چیف کی توسیع ،وزیر اعظم کو اختیار نہیں ،سپریم کورٹ

اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت سے متعلق تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کردیا، جس میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے،6ماہ میں قانون سازی نہ ہوئی تو آرمی چیف ریٹائر ہو جائیں گے،پارلیمنٹ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ ہمیشہ کےلئے حل کرے ۔چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کی ربراہی میں3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی، دیگر دو ججوں میں جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر میاں خیل شامل تھے۔آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق تفصیلی 43 صفحات پر مشتمل ہے، جو جسٹس سید منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کو قانی حمایت حاصل نہیں، قانون اور آئین میں مدت ملازمت میں توسیع کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔فیصلے میں مزید کہا کہ قانون نہ ہونے سے جنرل کی مدت ملازمت پر غیریقینی دور کرنے کے لیے ایسی پریکٹس کی جاسکتی ہے، اگر قانون نہ بن سکا تو 6 ماہ میں جنرل قمر جاوید باجوہ ریٹائرڈ ہوجائیں گے۔تحریری فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے کو بے ضابطہ نہیں چھوڑیں گے۔تحریری فیصلے میں استفسار کیا گیا ہے کہ ہماری حکومت قوانین کی ہے یا افراد کی ہے؟ ہمارے سامنے مقدمہ تھا کہ کیا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی جاسکتی ہے؟۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع دی گئی، سماعت کے پہلے روز درخواست گزار عدالت میں پیش نہیں ہوا، دوسری سماعت پر وہ عدالت میں حاضر ہوا۔تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ادارہ جاتی پریکٹس کے تحت ایک جنرل 3 سال کی مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائرڈ ہوتا ہے۔عدالتِ عظمی نے فیصلے میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ متعد دفیصلوں میں کہہ چکی ہے کہ قانونی سازی کرنا پارلیمنٹ کااختیار ہے، کیس کی سماعت کے دوران ہم نے آئین کے آرٹیکل 243 اور آرمی رولز کاجائزہ لیا لیکن پاکستان آرمی ایکٹ کے اندر آرمی جنرل کی مدت اور توسیع کا کوئی ذکر نہیں جب کہ آرٹیکل 243 کے تحت چیف آف آرمی سٹاف کی تنخواہ اور دیگر مراعات کا تعین صدر مملکت کرتے ہیں۔فیصلے کے مطابق قانون میں جنرل کی ریٹائرمنٹ اورعہدے کی معیاد کا ذکر نہیں جب کہ جنرل کے عہدے میں توسیع کی تسلسل سے روایات بھی نہیں ہیں، اداراتی روایات کے مطابق جنرل 3 سال کی میعاد پوری ہونے پر ریٹائرہو جاتا ہے، اداراتی روایات قوانین کا متبادل نہیں ہو سکتیں ۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اب معاملہ پاکستان کے منتخب نمائندوں کی طرف ہے، پارلیمان آرمی چیف کے عہدے کی مدت کا تعین کرے، منتخب نمائند آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق قانون سازی کریں، کیس کا بنیادی سوال قانون کی بالادستی کا تھا، یہ معاملہ پاکستان کے منتخب نمائندوں کی طرف ہے، ارکان پارلیمنٹ نیا قانون بنائیں جس سے ہمیشہ کیلئے آرمی چیف کی پیش گوئی ممکن ہو سکے اور یہ یاد رکھیں کہ ادارے مضبوط ہوں گے تو قوم ترقی کرے گی، اداروں کی مضبوطی میں ہی قوم کا مفاد ہے۔فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے یقین دلایا کہ آرمی چیف کے تقرر کے عمل کو قانونی شکل دی جائے گی اور وفاقی حکومت نے آرمی چیف کی تقرری کی قانون سازی کے لئے 6 ماہ مانگے ہیں، وفاقی حکومت آرمی چیف کی سروس سے متعلق قواعد و ضوابط طے کرے۔سپریم کورٹ نے فیصلے میں یہ بھی حکم دیا ہے کہ وفاقی حکومت ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت آرٹیکل 243 کے دائرہ کار کا تعین کرے، جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف نئی تقرری 6 ماہ کے لئے ہوگی اور ان کی موجودہ تقرری بھی مجوزہ قانون سازی سے مشروط ہوگی، جب کہ نئی قانون سازی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت کا تعین کرے گی۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے اضافی نوٹس میں جسٹس سید منصور علی شاہ کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ مخصوص تاریخی تناظر میں آرمی چیف کا عہدہ کسی بھی عہدے سے زیادہ طاقت ور ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ آرمی چیف کا عہدہ لامحدود اختیار اور حیثیت کا حامل ہوتا ہے اس لیے غیر متعین صوابدید خطرناک ہوتی ہے۔چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ آرمی چیف کے عہدے میں توسیع، دوبارہ تقرری کی شرائط وضوابط کا کسی قانون میں ذکر نہ ہونا تعجب انگیز تھا، آئین کے تحت صدر کے مسلح افواج سے متعلق اختیارات قانون سے مشروط ہیں۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلے کے آخر میں اضافی نوٹ میں 1616 میں چیف جسٹس آف انگلینڈ کے فیصلے کا ریفرنس دیتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف کی ملازمت کے قواعد بنانے سے بہت سی تاریخی غلطیوں کو درست کیا جاسکتا ہے، قواعد بنانے سے عوام کے منتخب نمائندوں کا اقتدار اعلی مضبوط ہوگا۔چیف جسٹس نے اضافی نوٹ میں کہا ہے کہ آپ جس قدر بھی طاقت ور کیوں نہ ہوں قانون آپ سے بالاتر ہے، آرمی چیف کے آئینی عہدے کی مدت کوغیر ریگولیٹڈ نہیں چھوڑا جا سکتا۔آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔43 صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 2 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ تحریر کیا۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اضافی نوٹ میں لکھا کہ میں جسٹس منصور علی شاہ کے لکھے فیصلے سے اتفاق کرتا ہوں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ طاقتور ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جنرل کی مدت ملازمت اور ریٹائرمنٹ قانون میں متعین نہیں، آرمی چیف کی مدت ملازمت کا معاملہ مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قانون میں جنرل کی مدت ملازمت سے متعلق کوئی شق موجود نہیں ہے۔ منتخب نمائندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاملے پر قانون سازی کریں۔ تفصیلی فیصلے کے مطابق وزارت دفاع کی صدر، وزیراعظم اور کابینہ سے منظوری قانون کے بغیر بے معنی ہے۔ آرمی ریگولیشن کا سیکشن 255 جنرل کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیار نہیں دیتا۔ سیکشن 255 صرف عارضی مدت ملازمت کیلئے استعمال ہو سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ پارلیمنٹ کو اختیار ہے کہ معاملے کا ہمیشہ کیلئے حل نکالے۔ آرمی چیف کی تنخواہ اور الانس آرٹیکل 243 کی ذیلی شق 4 کے تحت واضح ہونے ہیں۔ عدالت عالیہ کی جانب سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر جاری تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت نے 6 ماہ میں قانون سازی کی یقین دہانی کرائی۔ اگر چھ ماہ میں قانون سازی نہ ہوئی تو حاضر سروس جنرل کو نیا آرمی چیف مقرر کریں گے۔ نیا آرمی چیف صدر اور وزیراعظم کی سفارش پر مقرر کیا جائے گا۔
تفصیلی فیصلہ

قانون نہ بن سکا تو آئندہ کوئی جنرل 3سال سے زیادہ آرمی چیف نہیں رہ سکے گا ،ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ آج سے 5 سال قبل ن بچوں نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر پاکستان میں ایک تو دھرنا ختم کروایا اور ملک میں یک جہتی کی فضا پیدا ہوئی اور جس میں حکومت اور اپوزیشن میں بھی ایک خاموش مفاہمت کا آغاز ہوا وہ بچے تو اس دنیا سے چلے گئے وہ ہمیں سبق دے گئے کہ اگر اچھے بچوں کی طرح آپ سب مل جلر کر نہیں رہتا اور سب نے مل کر ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کرنا تو پھر ایسے واقعات ہوتے رہیں گے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان کے فون رنگ لایا اور یہ ایک فضا پیدا ہوا جس میں سارے لوگوں نے مل کر متحد ہوکر یک جان ہو کر دہشت گردی کے خلاف راہ ہموار کی۔ سقوط ڈھاکہ ہمیں سبق دے کر گیا کہ عوام کی مدد کے بغیر جنگ ہو گی وہ ناکام ہو گی پہلی مرتبہ پاک آرمی کو وہاں شکست ہوئی اس کی وجہ یہ ہے کہ جو عام آدمی تھا وہ ان کے ساتھ نہیں تھا اور بہت محدود اقلیت کے لوگ ان کے ساتھ تھے باقی عوام کی اکثریت مغربی پاکستان کے رویے سے چنانچہ یہ سبق ملتا ہے کہ اتنی بڑی شکست سے جو مسلم تاریخ کی سب سے بڑی شکست ہے کہ اتنے مسلمان فوجیوں نے اپنی بڑی تعداد میں ہتھیار نہیں ڈالے تھے اس لحاظ سے میں یہ سمجھتا ہوںکہ باقی ماندہ پاکستان کو جس کے چار صوبے ہیں چار اکاﺅں کے علاوہ بھی جتنے علاقے ہم سے ملحق ہیں اس کی آرزوﺅں کو امنگوں کو ان کی تمناﺅں میں سمو کر چلنا ہے اور ان کو ناراض نہیں کرنا اور ان پر زبردستی حکمرانی کرنے کی کوشش نہیں کرنی۔ ہم نے سبق سیکھا۔ فرق پڑا ہے۔ سب سے پہلا فرق تو یہ پڑا ہے کہ واحدانی طرز حکومت سینٹ سسٹم میں بدل گیا چنانچہ سقوط ڈھاکہ کے بعد جو پہلی قومی اسمبلی وجود میں آئی اس نے 1973ءکے آئین میں جو سینٹ کا وجود سامنے لایا جس میں چھوٹے برے صوبوں کی یکساں نمائندگی ہے سینٹ جو مرض وجود آیا اس کی بنیادی وجہ سقوسط ڈھاکہ تھی۔ مانا کہ آئیڈیل پوزیشن نہیں ہے شائد اب بھی کچھ معاملات ہوں لیکن آپ دیکھ رہے ہیں صوبوں کی اہمیت ہے اور اٹھارویں ترمیم نے تو صوبوں کو اتنے اختیارات دے دیئے ہیں کہ اب سمجھ میں ااتا ہے کہ اصل حکمرانی صوبے کی اور یونیفارم جو حکومت کا سٹائل تھا خاص طور پر صدارتی طرز حکومت میں جو ایک شخص کے پاس احتیارات ہوتے تھے اور ایک شخص چاروں صوبوں کا وفاقی سطح پر بھی آل ان آل ہوتا ہے اور غیر جمہوری حکمران ہو تو پھر تو بادشاہ ہوتا تھا وہ ختم ہو گیا۔ اب تو آپ کو صوبوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے جن کے پاس 18 فیص ترمیم کے تحت بڑے اختیارات ہیں۔ آج ہم انہی معاملات کولیں تو اخبارات کا بھی معاملات ہیں اب اخبارات کے ڈکلیئریشن صوبائی حکومت دیتی ہے۔
ضیا شاہد نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا جو اتنا بڑا فیصلہ آیا ہے اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جنرل باجوہ کو تو 6 ماہ کے لئے آرمی چیف کے عہدے کے لئے توسیع مل گئی لیکن آئندہ کوئی بھی جنرل اگر قانون نہ بنے گا تو 3 سال کے بعد نہیں بنے گا بلکہ 3 سال کے لئے قانون موجود نہیں ہے لہٰذا نئے آرمی چیف کی تقرری مشکل ہو جائے گی کیونکہ اس کے لئے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ لہٰذا قانون کو بتانا پڑے گا اگر قانون میں یہ بات آ گئی کہ توسیع مل سکتی ہے یہ بات قانون میں درج کرنا پڑے گی اس پر سیاسی جماعتیں اپنی اپنی رائے دیں گے۔ تحریک انصاف کے پاس قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت ہے غالباً سینٹ میں نہیں ہے۔ صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ مشترکہ اجلاس میں دوبارہ یہ ریفر کیا جائے کیونکہ مشترکہ اجلاس میں شاید حکومت سادہ اکثریت حاصل کر سکے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اپوزیشن کی ایک بڑی سیاسی جماعت کو جیسے پاکستان پیپلزپارٹی یا مسلم لیگ ن ان کا ساتھ دے تو نئی قانون سازی ہو سکتی ہے۔ ابھی تک اس سلسلے میں کوئی اتفاق رائے نہیں آیا۔ کیا آج کے فیصلے نے یہ راستہ بند نہیں کر دیا تحریک انصاف کے لئے اورکیا اپوزیشن پارٹیاں اس کے لئے تیار ہو جائیں گی۔ کیا فیصلہ یہی بنچ کرے گا جس کے بارے میں فواد چودھری صاحب نے بھی آج بیان دیا ہے کہ ہم نظر ثانی کے لیے سپریم کورٹ جائیں گے۔ نیا بنچ بنتا ہے یا وہی بنچ سنے گا۔ وفاقی وزیر اس حق میں ہیں اس کا مطلب ہے حکومت نظر ثانی چاہتی ہے۔ کیا آپ اس فیصلے میں یہ بات نہیں کرتیں کہ پارلیمنٹ کے اس حق پر کہ وہ قانون سازی کر سکتی ہے ایک طرح سے لگائی گئی ہے اور وزیراعظم کے اس استحقاق پر کہ صدر کو سمری بھجوا سکتا ہے اس پر بھی حد لگائی گئی ہے۔ جب یہ کہا گیا ہے کہ 6 ماہ کے اندر فیصلہ کر لو تو یہ حکم کیا جائے گا۔ دل کے امراض کے ہسپتال میں ایک فاقعہ ہوا اس کی روشنی میں دونوں طرف سے یلغار ہوئی۔ وکلاءکے ایک گروہ نے سارے وکلاءنے نہیں ہسپتال پر حملہ کیا جواب میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف نے چھت پر سے اینٹیں برسا کر وکلاءکو بھی زخمی کیا اب صورت حال یہ ہے کہ سندھ میں کبھی خبر ااتی ہے کہ وہ ڈاکٹروں کے مقدمات نہیں لڑیں گے اور ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ وہ وکلاءکا علاج نہیں کریں گے یہ دو اہم طبقوں کے درمیان ایک ایسا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے جو ایک دوسرے کے خلاف ہو گئے ہیں۔اتنے دن گزرنے کے باوجود ابھی تک بھی کوئی صلح صفائی کی شکل نہیں آئی۔ سوچنا ہو گا کہ کس طرح اس خلاءکو ختم کیا جائے کہ سفید کوٹ والے اور کالے کوٹ والے دونوں ہمارے معاشرے کا اہم حصہ ہیں یہ کشیدگی سوسائٹی کے لئے صحت مند اقدام نہیں ہے۔ میں فریقین سے بات بھی کر رہا ہوں میری بار کونسل سے بھی اپیل ہے کہ موثبانہ درخواست ہے کہ ہم وکلاءکی طرف سے گائیڈنس کے لئے دیکھتے رہے ہیں۔ میں کی قیمت پر وکلاءکے بارے میں رائے نہیں رکھتا کہ ان کو ایک متحارب فریق سمجھا جائے ینگ ڈاکٹرز خاص طور پر ان کے سربراہان جو ہیں دوسری طرف بار کونسل کے عہدیداران مل کربیٹھیں اور اس صورتحال میں کوئی ایسا صلح نامہ کیا جائے جس طرح سے کہ ہوا تھا تا کہ مستقل نفرت، ناپسندیدگی اور کش مکش اور لڑائی کی فضا نہ بننے پائے معاشرے اس قسم کی مستقل لڑائی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

راولپنڈی میں بچوں کو زائد المیعاد پولیو ویکسین پلادی گئی

 راولپنڈی: چک بیلی روڈ ڈھوک بدھال میں بنیادی مرکز صحت میں بچوں کو پولیو کی زائد المیعاد ویکسین پلادی گئی۔راولپنڈی میں صبح نو بجے بچوں کو ویکسین کے قطرے پلانے کا آغاز کیا گیا تو ڈھوک بدھال میں فراہم کردہ ویکسین ایکسپائر ہونے کا انکشاف ہوا جس پر ورکرز کو فون کرکے ویکسینیشن کا عمل روکنے کا کا حکم دیا گیا۔نسداد پولیو مہم ٹیم کو آدھے گھنٹے بعد پتا چلا کہ ویکسین ایکسپائرڈ تھی اور اس دوران متعدد بچوں کو پولیو ویکسین کے ایکسپائر قطرے پلادیے گئے۔ڈپٹی کمشنر سیف اللہ ڈوگر نے اسٹور کیپر کو معطل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو اگلے 24 گھنٹوں میں تفصیلی رپورٹ مرتب رے گی۔ڈی سی نے بتایا کہ زائد المیعاد پولیو ویکسین پینے سے کسی بچے کی صحت خراب نہیں ہوئی اور پورے ضلع میں نئی پولیو ویکسین فراہم کردی گئی ہے۔

کراچی: فشری میں لانچوں میں آگ لگ گئی، کروڑوں کی زیر تعمیر لانچیں جل گئیں

کراچی:  کراچی کے علاقے فشری میں لانچوں میں آگ لگ گئی، کروڑوں روپے کی زیر تعمیر لانچیں جل گئیں، فائر بریگیڈ کی 12 گاڑیوں نے آگ پر قابو پایا۔رات گئے کراچی کے فشریز، فش ہاربر روڈ برتھ نمبر 5 پر دھابے میں آگ لگ گئی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے برابر میں کھڑی لانچوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، واقعے میں 8 زیر تعمیر لانچیں جل کر خاکستر ہو گئیں۔کے پی ٹی، نیوی اور کے ایم سی کے 12 فائر ٹینڈرز نے 5 گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد آگ پر قابو پایا۔ مقامی افراد کا کہنا تھا کہ فائر بریگیڈ کی گاڑیاں تاخیر سے پہنچیں، اسلئے نقصان زیادہ ہوا۔فائر بریگیڈ عملے نے آگ بجھانے کے لئے سمندری پانی اور فوم کی مدد بھی حاصل کی

امریکی سکالر نے فروری میں پاکستانی طیارہ گرانے کا بھارتی دعویٰ مسترد کر دیا

چندی گڑھ:   امریکہ کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں ماہر سیاسیات کرسٹین فیئر نے اس امکان کو مسترد کیا ہے کہ بھارت نے فروری میں پاکستان کا F16 طیارہ مار گرایا تھا۔کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق چندی گڑھ میں ملٹری لٹریچر فیسٹیول میں سابق ایئرچیف بی ایس دھنوئی اور دیگر بھارتی ماہرین کے ہمراہ ایک سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کرسٹین فیئر نے ایف 16 گرانے کے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے پیش کئے جانے والے ملبے کے ٹکڑوں کو متنازعہ بنا دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ایف 16 طیاروں میں جی ای انجن نہیں ہیں جبکہ چند بھارتی ماہرین نے دعویٰ کیا کہ GE انجن کا ملبہ برآمد کیا گیا ہے۔کرسٹین فیئر نے بالاکوٹ میں تربیتی کیمپ کو نشانہ بنانے کے بھارتی دعوے کو بھی مسترد کر دیا تاہم انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ بھارتی طیاروں نے پاکستان کے اندر حملہ کیا تھا