کراچی ( رپورٹ : آغا خالد ) قائد اعظم کی زندگی میں ہی ان کی کچھ جائیداد ہتھیانے کیلئے کاغذات میں ہیر پھیر کیا گیا جس پر نا صرف قائد خود ناراضگی کا اظہار کرتے رہے بلکہ ان کی وفات کے بعد ان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح بھی اس سلسلے میں کوشاں رہیں مگر انہیں بھی ریکارڈ تک رسائی نہ دی گئی : خبریں : کے پاس موجود قائد اور ان کی بہن کی خط و کتابت کے حوالے سے موجود دستاویزات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک منصوبہ بندی کے تحت کیا جا رہا تھا جس کا مقصد قائد کو بے بس کرنا یا انہیں مشتعل کرکے ان کی صحت کو مزید خراب کرنا بھی ہوسکتا تھا کیونکہ قائد کی بہن محترمہ فاطمہ جناح نے جب اپنے بھائی کی جائیداد کے متعلق خط و کتابت کا آغاز کیا تو گورنر جنرل ہا?س میں بھی قائد کی جائیداد کا مکمل ریکارڈ دستیاب نہ تھا۔ محترمہ فاطمہ جناح کے سیکریٹری اپنے خطوط میں کراچی کے حکام سے جائیداد کی تفصیلات طلب کرتے رہے ، ان کے بعد ممتاز وکیل لیاقت ایچ مرچنٹ بھی کوششیں کرتے رہے مگر انہیں بھی مکمل ریکارڈ نہ مل سکا۔ محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے خطوط میں کلیکٹر کراچی کو متعدد بار لکھا ہے کہ سابق وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد قائد اعظم کی وصیت کے مطابق اب وہ ہی ان کی اکیلی وارث اور ٹرسٹی ہیں لہٰذا تمام جائیداد کی تفصیلات سے انہیں آگاہ کیا جائے جس میں کوتوال اینڈ کمپنی ، جہانگیر کوٹھاری بلڈنگ ، ڈینسو ہال کراچی ، دیہہ ڈگ پر ٹیو ملیر کے سروے نمبر 241, ، 243 ، 346 اور 347 دیہہ لال بکھر اور سروے نمبر 255 میں ایک 157 ایکڑ 7 گھ±نٹے شامل ہیں۔ انہوں نے اپنے خط میں کلیکٹر کو لکھا کہ وہ یہ تصدیق بھی کریں کہ قانون کے مطابق ٹرسٹی کے کاغذات میں تبدیلی کردی گئی ہے جس کے جواب میں اس وقت کے مختیارکار صاحب عزیز نے اپنی رپورٹ میں حکام کو آگاہ کیا ہے کہ ہمیں ہدایت کی گئی ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح کی جانب سے لکھے گئے خط پر ان کی جائیداد کے ٹرسٹی کا نام تبدیل کردیا جائے اور سابق وزیر اعظم کی جگہ محترمہ فاطمہ جناح کا نام لکھا جائے۔ گورنر جنرل پاکستان کے ملٹری سیکٹری کے دفتر سے جاری لیٹر نمبر 25/BIDJ/48-50 گورنر جنرل ہا?س کراچی بتاریخ 20 جنوری 1950 کو جبکہ ایک اور خط گورنر جنرل ہا?س کے ملٹری سیکریٹری کرنل جی کنائلز کی طرف سے بھی لکھا گیا جس میں مذکورہ زمین کی درست تفصیلات سروے نمبرز اور ان کی حدود سے متعلق آگاہی اور اس کا نقشہ یا خاکہ بھی طلب کیا گیا اور کہا گیا کہ ایسی تفصیلات فراہم کی جائیں کہ محترمہ جناح اپنی زمین کا خود معائنہ اور شناخت کرسکیں۔ مگر ہوا یہ کہ انہیں بتایا گیا کہ علاقہ کے تپے دار کو زمین کی پیمائش کیلئے مامور کیا گیا تھا اسے اس نے بگوٹی سسٹم کے ذریعے ناپا اور منظور شدہ خاکے کے اندر اندر کا علاقہ A93 اور G91 تک آیا۔ تپے دار نے اپنی رپورٹ میں منظور شدہ خاکے کے مطابق بیس لائن ڈی سی 104 کی چین میں اسے دکھایا ہے۔ اس نے اس بیس لائن کی پیمائش پوائنٹ D سے شروع کی تھی اور 104 کی چین میں جو نقطہ Z پر واقع ہے اور ساتھ دیئے گئے خاکے میں خارج کردہ حصوں کو پیلے رنگ کے نشان سے واضح کیا تھا جس میں مسٹر اے ڈی ڈیلمیا کا کیبن بھی موجود ہے چونکہ یہ جگہ سمندر کے کنارے ہے جہاں اب ہزاروں کی تعداد میں Hut بن چکے ہیں اس وقت بھی اس علاقے میں یہ Hut موجود تھے جن کی نشاندہی پٹواری نے کی ہے۔ اس نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ پوائنٹ Y پولیس کاٹیج ہے جس کے سلسلے میں کوئی خط و کتابت اس دفتر میں موجود نہیں ہے یعنی کہ قائد اعظم کی زمین کے اندر وہ کاٹیج پہلے سے موجود تھی مگر انہیں نہیں بتایا گیا اور اس کاٹیج کا کوئی ریکارڈ بھی ریونیو کے دفتر میں موجود نہیں تھا۔ اس نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ بلے جی میں کسی بھی پولیس کاٹیج کے بارے میں زمین کی فراہمی کا کوئی اندراج نہیں ہے جبکہ قائد اعظم کے اے ڈی سی اپنے لیٹر میں لکھتے ہیں کہ قائد اعظم نے خود سائیڈ دیکھی تھی اور دیہہ کے نقشے پر مطلوبہ زمین کیلئے نشان لگائے تھے جس میں مسٹر ڈیلمیا کا کیبن اور پولیس کاٹیج شامل تھے مگر زمین کا نقشہ تیار کرتے وقت اس وقت کے منشی مدھومل نے جو دیہہ سونگل کا تپے دار تھا اپنا فرض ادا نہ کیا اور مسٹر ڈیلمیا کے کیبن اور پولیس کاٹیج کی دستاویزات ڈھونڈنے میں ناکام رہا۔ اس خاکے پر 18 مارچ 1948 ئ کو قائید نے خود دستخط کئے تھے وہ لکھتے ہیں کہ قائد اعظم نے A117-G14 کی زمین کی مکمل ادائیگی کرکے مالکانہ حقوق حاصل کئے تھے اس لئے یہ منظور شدہ پوری زمین ملنی چاہئے لیکن تپے دار نے لکھا کہ ” یہ نہیں کیا جاسکتا “ یہ ایک جملہ اپنے اندر پوری کہانی سموئے ہوئے ہے کہ کس طرح قائد کی زمین کو ان کی وفات کے فوری بعد نقشوں سے غائب کرنے کیلئے سازشیں شروع ہوگئی تھیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ سندھ میں ریونیو کے ریکارڈ میں چالیس سال کے دوران چار مرتبہ آگ لگائی جاچکی ہے اور آخری آگ محترمہ بینظیر بھٹو کے شہادت کے موقع پر لگائی گئی جس میں قائد کی بقیہ زمین کی فائل بھی جلانے کی کوشش کی گئی مگر وہ فائل جو کسی حد جلنے سے بچ گئی مگر اس کا ایک حصہ متاثر ہوا۔ سندھ بیورو کریسی کے ایک ایماندار افسر کے ہاتھ لگ گئی اور اس نے جلے ہوئے ملبے سے اس فائل کو نکال کر اور اسے صاف ستھرا کرکے دوبارہ ریکارڈ کا حصہ بنا دیا۔ مختیار کار کراچی جیسا چھوٹا عہدیدار قائد کی بہن کی خواہش کو ٹھکراتے ہوئے ببانگ دہل لکھتا ہے کہ کارروائی آگے بڑھا سکتے ہیں نہ مزید لکھ سکتے ہیں۔ عموماً زمین کی پیمائش کے وقت سائیڈ پر کھڑے ہو کر خاکے تیار کئے جاتے ہیں بعد ازاں اس کی منظوری دی جاتی ہے۔ اگر خاکے کے اندر پیمائش کی گئی زمین سے تجاوز ہوجائے تو اس کی نئے سرے سے منظوری حاصل کی جاتی ہے اور مالکانہ وصول کیاجاتا ہے۔ اس علاقے میں ایک مسجد اور قبرستان کو دی گئی زمین جو قائد کی زمین اور قریبی واقع گا?ں کے درمیان واقع تھی پر اعتراض ظاہر کیا گیا۔ اس طرح قائد اعظم کی زمین میں آنے والا ایک اور کیبن نمبر 6 جو مسٹر برا?ن کے نام سے تھا ہٹا دیا گیا تھا کیونکہ اس کی لیز 1945-46 تک تھی اس کے بعد اس کی تجدید نہیں کی گئی۔ اس نے لکھا کہ مسٹر جے فریزیئر نے یہی زمین دوبارہ الاٹ کرنے کی درخواست کی ہے۔ پھر آگے مختیار کار اپنے مخصوص عزائم کا اظہار کرتا ہے اور لکھتا ہے کہ مورخہ 22 اپریل 1948 ئ کو کلیکٹر کی توثیق میرے حوالے کرتے وقت انہوں نے مجھے ہدایت کی تھی کہ کیبن کے تحت آنے والے علاقے کے حکومتی واجبات 1946-47 ئ سے آج کے دن تک ادا کرنے کو مسٹر فریزئیر تیار ہیں اور کیبن کے ارد گرد کے علاقے کے مالکانہ حقوق بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں جس کی پیمائش تقریباً ایک ایکڑ ہے اور وہ اپنی درخواست میں موقف اختیار کرتے ہیں کہ انہوں نے مذکورہ کیبن مسٹر سوئز سے کچھ وقت پہلے ہی خریدا تھا۔ جبکہ تپے دار اپنی رپورٹ میں خود لکھ رہا ہے کہ قائد اعظم نے 1945-46 ئ میں ہی اس علاقے کی الاٹمنٹ کیلئے درخواست دی ہوئی تھی مگر وہ قائد اعظم پر مسٹر فریزیئر کو وہ اہمیت دے رہے ہیں اور ان کی بعد میں آنے والی درخواست کو خط و کتابت کا حصہ بنا کر قائد اعظم کی خواہش کو مشتبہ بنایا جا رہا ہے۔ پھر وہ اپنی رپورٹ میں واضح طور پر لکھ رہا ہے کہ یہ کلیکٹر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر غور کرے کہ آیا زمین قائد اعظم کے نام پر ہونی چاہئے یا مسٹر فریزیئر کے نام پر۔ تپے دار اپنی رپورٹ میں آگے چل کر لکھ رہا ہے کہ اگر قائد اعظم کو ان کی درخواست پر بی سی ای ایف زمین دی جاتی ہے تو جو پہلے سے کیبن موجود ہیں ان کو بھی کچھ زمین دی جائے انہیں نظر انداز نہ کیا جائے جبکہ وہ خود اقرار کرتا ہے کہ قائد اعظم نے جب زمین خریدی تو اس پوری زمین کی قیمت ادا کی اور اس شرط پر ادا کی کہ جب ان کی زمین پر آنے والے Hut یا کیبنز کی لیز ختم ہوگی تو وہ ان کی ملکیت تصور کی جائے گی۔ اس سے پہلے ان کے مالکان ان Huts کو استعمال کرسکتے ہیں۔ بعد ازاں معاملات طے ہوجانے پر قائد اعظم کو کچھ زمین الاٹ کردی گئی مگر کیبن والا حصہ نہ دیا گیا اور بعد میں الاٹ کی گئی زمین کے کاغذات بھی قائد اعظم کو فراہم نہیں کئے گئے اور بعد میں ان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح بھی زمیں کی تفصیلات کے حصول میں ناکام رہیں اور پھر گذشتہ چالیس سالوں کے دوران بچ جانے والی زمینوں کا بھی تیا پانچہ کردیا گیا۔