” یہ تاریخی دن ہے “ بھارت بے نقاب ہو گیا : شاہ محمود قریشی

اسلام آباد:(ویب ڈیسک) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ آج تاریخی دن ہے، بھارت بے نقاب ہو گیا، بھارت کہہ رہا تھا کہ مسئلہ کشمیر اس کا اندرونی معاملہ ہے، سلامتی کونسل کے اجلاس سے ثابت ہوا ہے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں
انہوں نے کہا کہ بھارت نے مسئلہ کشمیر کو دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھا لیکن پانچ دہائیوں کے بعد مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل میں زیر بحث آگیا، یہ بہت بڑی پیش رفت ہے، عالمی برادری مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے۔’سلامتی کونسل اجلاس نے اس بات کی نفی کردی کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے’اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کشمیر کے حوالے سے اجلاس کے بعد اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان اس نقطہ پر پہنچے کہ کشمیرکی صورتحال ناسازگار ہے جسے زیر بحث لایا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہی نکل سکتا ہے، سلامتی کونسل اجلاس سے تسلیم ہوگیا ہے کہ مسئلہ کشمیر بھارت کا اندرونی نہیں عالمی مسئلہ ہے۔آخری وقت تک بھارت نے اجلاس رکوانے کیلئے رکاوٹیں کھڑی کیں، شاہ محمود
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت نے سلامتی کونسل کے اجلاس کو رکوانے کیلئے آخری وقت تک رکاوٹیں کھڑی کیں لیکن کامیاب نہ ہوا، دوطرفہ مذاکرات کا بھارت جو راگ الاپتا تھا اس کے یکطرفہ عمل سے وہ دفن ہوگیا،سلامتی کونسل کا اجلاس پاکستان کی سفارتی فتح ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کی اس فتح کو سامنے رکھتے ہوئے لائحہ عمل طے کریں گے،آج کے اہم اجلاس کے بعد اس بات پر غور کیا جائے گا کہ کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کیلئے پاکستان کو کیا کرنا چاہیے، جیسے صورتحال تبدیل ہوگی ہم اس کے مطابق اپنی حکمت عملی بنائیں گے۔
جب تک کشمیریوں کو حق خود ارادیت نہیں ملتا ہم کشمیریوں کی حمایت جاری رکھیں گے، وزیر خارجہ
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم نے مسئلہ کشمیر اور اپنے مو¿قف پر آخری حد تک کھڑے رہنا ہے، 5 اگست کے اقدامات کی بھارت کشمیریوں سے رائے لینا چاہے تو وہاں سے پابندیاں ہٹائے، عالمی مبصرین کو وہاں جانے دے اگر کوئی بھی عالمی ادارہ آزاد کشمیر میں آنا چاہے یا لوگوں سے ملنا چاہے ہم ان کو کھلی اجازت دیں گے ان کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنیں گے، اگر بھارت کو اپنے مو¿قف پر یقین ہے تو وہ بھی سب کو دعوت دے۔
عمران خان کا امریکی صدر سے رابطہ، مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بات
انہوں نے کہا کہ پاکستان حق خود ارادیت کے حصول کیلئے کشمیریوں کی سفارتی، اخلاقی حمایت جاری رکھے گا، جب تک وہ حق خودارادیت نہیں پا لیتے ہم اپنے مو¿قف پر قائم رہیں گے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ آج تین اہم پیغام دنیا کو دیے گئے، کشمیر تنہا نہیں جو 14 اور 15 اگست سے واضح ہوگیا کہ پاکستان کشمیر کے ساتھ ہے، جدوجہد کشمیر نے نئی کروٹ لی ہے اور تسلیم کیا گیا ہے کہ یہ عالمی تنازع ہے اس کا پر امن حل نکلنا چاہیے اور پاکستان بھی اس کی تائید کرتا ہے۔

سلامتی کونسل کے ارکان کا شکریہ جو بھارت کے جھانسے میں نہیں آئے، شاہ محمود
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پوری قوم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ آج کا دن تاریخی ہے، کبھی شملہ معاہدے اور کبھی دوطرفہ مذاکرات کی آڑ میں بھارت نے مسئلہ کشمیر کو دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھا، 1965 کے بعد پہلی مرتبہ کشمیر کا مسئلہ سلامتی کونسل کے زیر بحث آیا۔انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کے تمام ممبران کا پاکستان کی جانب سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہماری درخواست کو سنا اور معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ہندوستان کے جھانسے میں نہیں آئے اور اجلاس بلایا، شعبہ سیاسی امور اور امن عمل کے مندوبین نے اجلاس کے ارکان کر بریف کیا جس میں تفصیلی گفتگو ہوئی جس پر ارکان نے اپنی تشویش کا اظہار کیا۔وزیر خارجہ نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں، 12روز سے تمام ذرائع ابلاغ مکمل بند ہیں وہاں مکمل بلیک آ?ٹ ہے، ہندوستان صرف دونقطوں پر اپنا کیس لڑ رہا تھا کہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے اسے سلامتی کونسل میں زیر بحث لانے کی ضرورت نہیں لیکن آج دنیا نے تسلیم کیا کہ یہ ہندوستان کا اندرونی معاملہ نہیں بلکہ ایک عالمی تنازع ہے اس کا حل ہونا چاہیے۔

اس فتح کو سامنے رکھتے ہوئے آئندہ کا لائحہ عمل تیار کریں گے، وزیر خارجہ
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہفتے کو اجلاس طلب کیا ہے جس میں پاکستان کے مختلف ادارے شرکت کریں گے، ہم پاکستان کی اس فتح کو سامنے رکھتے ہوئے لائحہ عمل طے کریں گے کہ آگے کے بلڈنگ بلاکس کیا ہونے چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ کشمیری پابند سلاسل ہیں، ان کی آواز کو دبایا گیا ہے ان سے یکجہتی کیلئے پاکستان کو کیا کرنا چاہیے اس پر غور کیا جائے گا، جیسے جیسے صورتحال تبدیل ہوگی ہم اس کے مطابق اپنی حکمت عملی بنائیں گے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کا فیصلہ ہے کہ ہم نے مسئلہ کشمیر اور اپنے مو¿قف پر آخری حد تک کھڑے رہنا ہے، اپنے فیصلوں کی تجدید کرتے ہیں، میری آواز مقبوضہ کشمیر تک ضرور پہنچے گی، بھارت کب تک وہاں پابندی لگائے گا، کشمیر پاکستان کی آواز ہے، 14 اگست کو پاکستان نے جس طرح یکجہتی کا اظہار کیا اور جس طرح یوم سیاہ منایا اس کی خبریں ان تک ضرور پہنچیں گی۔
عالمی میڈیا نے بھارت کو بے نقاب کردیا، شاہ محمود قریشی
وزیر خارجہ نے کہا کہ عالمی میڈیا نے بڑے عرصے بعد جو چیزیں بھارت نے چھپانے کی کوشش کی وہ بے نقاب کیں۔انہوں نے کہا کہ 5 اگست کے اقدامات کی بھارت کشمیریوں سے رائے لینا چاہے تو وہاں سے پابندیاں ہٹائے، عالمی مبصرین کو وہاں جانے دے اگر کوئی بھی عالمی باڈی آزاد کشمیر میں آنا چاہے یا لوگوں سے ملنا چاہے ہم ان کو کھلی اجازت دیں گے ان کے رستے میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اگر بھارت کو اپنے مو¿قف پر یقین ہے تو وہ بھی سب کو دعوت دے۔
بھارتی وزیر دفاع کے بیان پر حیرت ہوئی، یہ انتہائی حساس معاملہ ہے، شاہ محمود
شاہ محمود قریشی نے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل سے متعلق بھارتی وزیر دفاع کے بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا اور کہا کہ بھارتی وزیر دفاع کے بیان پر حیرت ہوئی، یہ انتہائی حساس معاملہ ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے تحمل کی پالیسی برقرار رکھے گا۔ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ جب تک ہندوستان کا وزیر خارجہ کشمیر سے کرفیو نہیں ہٹاتا، جارحیت کو ختم نہیں کرتا میں بطور وزیر خارجہ ان سے کوئی رابطہ نہیں کروں گا، آر ایس ایس کی سوچ والوں سے رابطہ بے سود ہوگا۔’عمران خان نے ٹرمپ کواحساس دلایا گیا کہ کشمیر کی صورتحال کس قدر اہم ہے’شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر وزیراعظم عمران خان نے دنیا کے مختلف سربراہان سے رابطے کئے۔آج وزیر اعظم عمران خان کا صدر ٹرمپ سے ٹیلی فونک رابطہ ہوا۔انہوں نے صدر ٹرمپ کو آگاہ کیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے یکطرفہ اقدام سے خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے ٹرمپ کومقبوضہ کشمیرکی صورتحال،بھارتی مظالم سےمتعلق آگاہ کیا، وزیر اعظم نے ٹرمپ کو بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سےآگاہ کیا۔وزیر خارجہ نے بتایا کہ وزیراعظم اور امریکی صدر کے درمیان افغانستان میں جنگ کے پرامن خاتمے پربات ہوئی، ٹرمپ کواحساس دلایا گیا کہ کشمیر کی صورتحال کس قدر اہم ہے، ٹرمپ نے بھارتی وزیراعظم سےرابطے میں رہنے سے متعلق ذکر کیا۔

” ویڈیوز آن لائن فروخت ، ملزم آئی ٹی ایکسپرٹ “ 45 بچیوں سے زیادتی ، بلیک میلنگ کرنیوالے راولپنڈی کے میاں بیوی بارے سنسنی خیز انکشافات

راولپنڈی:(ویب ڈیسک) راولپنڈی میں 45 بچیوں کو زیادتی کے بعد بلیک میل کرنے والے شوہر اور اس کی بیوی کے مقدمے میں مزید انکشافات سامنے ا?ئے ہیں، ملزم جہانگیر ا?ئی ٹی ایکسپرٹ ہے اور شبہ ہے کہ ملزمان بچیوں سے زیادتی کی ویڈیوز ا?ن لائن فروخت کرتے تھے۔ راولپنڈی میں ایم ایس سی کی طالبہ سمیت 45 بچیوں کے ساتھ زیادتی اور ویڈیو بنانے کے معاملے میں ملزم سے دوران تفتیش سنسنی خیز انکشافات ہوئے ہیں، ملزم قاسم جہانگیر آئی ٹی ایکسپرٹ نکلا، ملزم نے اپنی ویب سائیٹ بنا رکھی ہے اور سوشل میڈیا بلاگر بھی ہے۔راول پنڈی پولیس کے مطابق ملزم بظاہر ویب سائیٹ پر اینٹی وائرس پرگرام وغیرہ فروخت کرتا ہے، دونوں ملزمان کے زیر استعمال موبائل فونز کے فرانزک تجزیے کے بعد سے اب تک برا?مد ہونے والی ویڈیوز کی تعداد 15 ہوگئی ہے، ملزم چوں کہ ا?ئی ٹی کا ماہر ہے اس لیے شبہ ہے کہ ملزم اور اس کی اہلیہ نازیبا ویڈیوز آن لائن یا دیگر ذرائع سے فروخت کرتے رہے تاہم اس حوالے سے ابھی تفتیش جاری ہے۔پولیس کے مطابق ملزم کی اہلیہ اسلام آباد کے نجی ہسپتال میں نرسنگ ٹیکنیشن رہ چکی ہے، ملزم کی اہلیہ خاوند کے جرم میں مکمل طور پر ملوث رہی اور نازیبا ویڈیو اور تصاویر بناتی تھی، ابتدائی تفتیش میں دونوں نے اعتراف کیا ہے کہ انھیں اس مکروہ کام میں آسودگی ملنے لگی تھی۔

”کشمیر کی صورتحال خطرناک ہے“چین کادبنگ اعلان

نیویارک(ویب ڈیسک) مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضے کا معاملہ 50 سال بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل تک پہنچ گیا۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر خصوصی اجلاس ہوا۔ اس بندکمرہ اجلاس میں کشمیر کی صورتحال پر غور کیا گیا۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 15 رکن ممالک کے مندوبین اجلاس میں شریک ہوئے۔یو این ملٹری ایڈوائزر جنرل کارلوس لوئٹے نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر بریفنگ دی۔اقوام متحدہ کے قیام امن سپورٹ مشن کے معاون سیکریٹری جنرل آسکر فرنانڈس نے بھی شرکاءکو بریفنگ دی۔مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس 1 گھنٹہ 10 منٹ جاری رہا۔پاکستان نے کشمیر کے معاملے پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی درخواست کی تھی اور چین نے بھی میٹنگ بلانےکامطالبہ کیاتھا۔کشمیر کی صورتحال پر ارکان نے گہری تشویش کا اظہار کیا، چینی مندوبچینی مندوب ڑینگ جون نے مزید کہا کہ بھارتی اقدام نے چین کی خود مختاری کو بھی چیلنج کیا ہے ۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں چین کے مستقل مندوب نے کہا کہ سیکیورٹی کونسل اجلاس میں کشمیر کے معاملے پر تفصیلی بات ہوئی۔انہوں نے کہا کہ کشمیر کی صورتحال پر ارکان نے گہری تشویش کا اظہار کیا۔

ٹرمپ نے پھر حیران کر دیا ،ڈنمارک میں دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ خریدیں گے

امریکا:(ویب ڈیسک)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کے سب سے بڑے جزیرے گرین لینڈ کو ڈنمارک سے خریدنے کا منصوبہ پیش کرکے سب کو حیران کردیا۔برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خودمختار ڈینش علاقے گرین لینڈ کو خریدنے کا منصوبہ اپنے مشیران کے ساتھ ایک عشائیے میں پیش کیا۔رپورٹس کے مطابق عشائیے کے دوران صدر ٹرمپ اپنے مشیروں سے گرین لینڈ کے قدرتی وسائل اور جغرافیائی اہمیت پر گفتگو کررہے تھے کہ اچانک انہوں نے اپنے مشیروں سے پوچھا کہ کیا امریکا گرین لینڈ کا کنٹرول حاصل کرسکتا ہے؟پھر ٹرمپ نے وائٹ ہاو¿س کے قانونی ماہرین سے کہا کہ وہ اس معاملے پر کام کریں۔رپورٹس کے مطابق ٹرمپ کے بعض مشیروں نے اس خیال سے اتفاق بھی کیا تاہم دیگر نے اسے دیوانے کا خواب قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ گرین لینڈ میں کیوں دلچسپی لے رہے ہیں؟
ممکنہ طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو قدرتی وسائل، معدنیات (کوئلہ، تانبا، لوہا، زنک) اور جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے گرین لینڈ میں دلچسپی ہے۔اس معاملے سے واقف دو افراد نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ صدر ٹرمپ گرین لینڈ کے محل وقوع اور نیشنل سیکیورٹی کے حوالے سے اس کی اہمیت کی وجہ سے بھی گرین لینڈ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔امریکا سرد جنگ کے دور سے ہی گرین لینڈ میں اپنا ریڈار بیس قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

گرین لینڈ برائے فروخت نہیں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے کو گرین لینڈ نے یہ کہہ کر مسترد کردیا ہے کہ ‘گرین لینڈ برائے فروخت نہیں۔گرین لینڈ کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘گرین لینڈ قدرتی وسائل اور معدنیات سے مالامال ہے، تجارت کے لیے ہمارے دروازے کھلے ہیں لیکن ہم برائے فروخت نہیں۔دوسری جانب ڈنمارک کے سیاستدانوں نے بھی ٹرمپ کے اس منصوبے کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔

گرین لینڈ کہاں واقع ہے؟
گرین لینڈ شمالی بحر اوقیانوں اور بحر منجمد شمالی کے درمیان واقع ہے اور آسٹریلیا کے بعد دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ ہے۔اس کی آبادی تقریباً 56000 نفوس پر مشتمل ہے، اس کی اپنی پارلیمنٹ اور محدود خودمختار حکومت ہے۔گرین لینڈ کا 80 فیصد حصہ برف سے ڈھکا ہوا ہے لیکن گلوبل وارمنگ کی وجہ سے برف تیزی سے پگھل رہی ہے اور گرین لینڈ کے معدنیات تک رسائی ممکن ہورہی ہے۔

حمزہ شہباز کے پروڈکشن آرڈر کی درخواست دائر

لاہور(ویب ڈیسک) مسلم لیگ (ن) نے 21اگست کو ہونے والے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز شریف کے پروڈکشن ا?رڈر جاری کرنے کے لیے اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کو باقاعدہ تحریری درخواست پیش کر دی ہے۔جس میں استدعا کی گئی ہے کہ اپوزیشن کی ریکوزیشن پر 21اگست کو بلائے جانے والے اجلاس میں شرکت کے لیے حمزہ شہباز شریف کے پروڈکشن ا?رڈر جاری کیے جائیں گے۔

اپنی ہی ریاستیں بھارت کے قابو سے باہر، آسام بہار اور آرونا چل پردیش سمیت 7 ریاستیں آزادی کیلئے اٹھ کھڑی ہوئیں، ناگا لینڈ کے آزادی کے اعلان کے بعد علیحدگی کی تحریکیں شدت اختیار کر گئیں

نئی دہلی (ویب ڈیسک) اپنے قیام کے آغاز سے ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان تمام دشمن قوتوں کی نظر میں ایک کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ ملک دشمن عناصر اس کو کمزور کرنے کے لئے دن رات ایک کر رہے ہیں جن میں سرِ فہرست ہمارا ازلی دشمن بھارت ہے۔ بھارت نہ صرف گھٹیا اور جھوٹے الزامات لگا کر وطنِ عزیز کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ ملک کے مختلف حِصوں میں سازشی عناصر کو ہوا دے کر، برائے نام علیحدگی پسند تحریکوں کے ذریعے اس کو کمزور کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اس کی تازہ مثال بلوچستان کے معاملات میں بھارت کی بے جا مداخلت اور براہمداغ بگٹی کی مالی اور اِخلاقی امداد ہے۔ لیکن نہ جانے کیوں، دوسروں کے گھروں پہ پتھر برسانے والے انڈیا کو اپنا شیشے کا گھر بھول جاتا ہے۔ اسے بلوچستان تو نظر آتا ہے لیکن ”خالصتان“، ”ناگالینڈ“ اور ” آسام“ جیسی علیحدگی پسند ریاستیں بھول جاتی ہیں۔ بھارت کے طول و عرض میں اس وقت درجنوں علیحدگی پسند تحریکیں چل رہی ہیں جن میں سے کچھ اندرونی خود مختاری اور بقیہ بھارت سے آزادی کی خواہش مند ہیں۔ ان تحریکوں سے جڑی خبروں کو نہ صرف بھارتی حکومت بلکہ وہاں کا بکاو¿ میڈیا بھی منظرِ عام پر نہیں لاتے۔ لیکن وہ کہتے ہیں نہ کہ ”سچ چھپائے نہیں چھپتا“، نڈر، بے باک اور ذمہ دار صحافیوں نے بھارتی ظلم و بربریت کی وہ داستانیں سنائی ہیں کہ ”بھارت ماتا” کے پ±جاریوں کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے آ گیا ہے۔کشمیر، خالصتان اور ماو¿ نواز تحریکوں کے بارے میں تو بہت سے لوگ جانتے ہیں لیکن بھارت کی ” 7 ریاستی بہنوں” میں غریب عوام پر کیسے کیسے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اس کے بارے میں لوگوں کا علم محدود ہے۔ بھارت کے شمال مشرق میں سات ریاستیں واقع ہیں جنہیں” 7“یا ”سات ریاستی بہنیں“ بھی کہا جاتا ہے۔ ان میں اروناچل پردیش، آسام، منی پور، میگھالیہ، میزورام، ناگالینڈ اور تری پورہ شامل ہیں۔ سِکم، جسے اکثر لوگ ان ریاستوں کا حصہ سمجھتے ہیں ان سے ہٹ کر واقع ہے۔ ان ریاستوں کا مجموعی رقبہ 262،230 کلومیٹر سکوائر ہے جبکہ مجموعی آبادی 45،772،188 ہے۔ان ریاستوں کے لوگوں میں اکثریت بدھ مت اور عیسائیت کی پیروکار ہے۔ نہ صرف ان کا مذہب بلکہ ان کی زبان، تہذیب و ثقافت، رسم و رواج اور نسل تک ہندو اور ہندوستانیوں سے مختلف ہے۔ یہ چینی نسل کے لوگ ہیں جن کو خود بھارت کے اندر بھی تعصب کا سامنا ہے۔ ہند چینی کا یہ خطہ جو بھارت، چین، بھوٹان اور برما کے بیچ میں واقع ہے، ماضی میں کبھی بھارت کا حصہ نہ تھا۔ یہاں کے ابتدائی آبادکاروں کا تعلق ”جنوب مشرقی ایشیا“ سے تھا۔ جن کے بعد قبلِ مسیح کے دور میں تبت اور برما کے لوگ یہاں آباد ہوئے۔ یہ ہمیشہ سے ہی ”قبائلی علاقہ” رہا ہے جہاں مختلف قبائل اپنے اپنے رنگ ڈھنگ اور الگ الگ ثقافتوں کے ساتھ ایک ساتھ رہتے آئے ہیں۔ برطانوی سامراج نے بیسویں صدی کے اوائل میں ان علاقوں کو باقاعدہ طور پہ ریاستوں کی شکل دی۔ اس وقت تک یہ علاقے اپنے روایتی تجارتی حلیفوں، بھوٹان اور میانمار سے کٹ چکے تھے۔ برطانوی سامراج میں، موجودہ دور کے میزو رام، میگھالیہ اور ناگا لینڈ کے لوگوں کو عیسائی مشنریوں نے عیسائیت کی تعلیم دی اور انکو عیسائی بنا دیا۔آئینے ان ریاستوں اور ان میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کے بارے میں مزید جانتے ہیں۔
1۔ اروناچل پردیش: بھوٹان، بھارت، برما اور چین کے بیچ سینڈوچ بنی یہ ریاست اپنے برف پوش پہاڑوں اور خوبصورت نظاروں کے حوالے سے مشہور ہے۔ ریاست کے ایک بڑے رقبے پہ چین دعویٰ کرتا ہے کہ یہ اسکی ملکیت ہے۔ 1962 کی جنگ کے بعد چین نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا لیکن جلد ہی اپنی فتح کا اعلان کرتے ہوئے چین ”میکموہن لائن” پر واپس چلا گیا، جو انڈیا اور چائنا کی بین الاقوامی سرحد ہے۔ لیکن آج بھی چین کے نقشوں پر یہ علاقہ تبت کے جنوبی حصے کے طور پہ دکھایا جاتا ہے۔اس علاقے کا پرانا نام ” شمال مشرقی سرحدی ایجنسی” تھا جسے 1972 میں بدل کہ اروناچل پردیش کر دیا گیا۔ فروری 1987 کو اسے ”یونین” کی بجائے بھارت کی ریاست کا درجہ ملا۔ اروناچل پردیش میں بہت سی علیحدگی پسند تحریکیں ہیں جو برسوں سے بھارتی تسلط سے آزادی چاہتی ہیں۔ ان میں ”نیشنل سوشلسٹ کاو¿نسل آف ناگالینڈ”( NSCN ) ”اروناچل ڈریگن فورس” سرِ فہرست ہے۔ یہ اپنے علاقے کو آزاد اور خود مختار دیکھنا چاہتے ہیں۔ اروناچل ڈریگن فورس جسے ”ایسٹ انڈیا لبریشن فرنٹ” بھی کہا جاتا ہے، ایک مسلح تنظیم ہے جسکا مقصد ایک ایسی آزاد ریاست کا قیام ہے جیسی برٹش راج میں ”برٹش تولا کاو¿نٹی” (Toala County)تھی جس میں اروناچل پردیش کے ساتھ آسام بھی شامل تھا۔ بھارت کا الزام ہے کہ ان تنظیموں کو چین کی حمایت حاصل ہے۔اس علاقے میں بھارتی فوجوں کو نہ صرف چین کی طرف سے دراندازی کا خطرہ لاحق ہے بلکہ وہ اندرونی مزاحمت سے بھی نبرد آزما ہیں۔ آسام اور دیگر ریاستوں سے اروناچل پردیش میں داخل ہونے کے لیئے بھی خاص اجازت نامہ درکار ہے۔
2- آسام :سات ریاستوں میں سب سے بڑی ریاست آسام ، اپنے گھنے جنگلات، برہم پ±ترا کی وادیوں ، تیل کے ذخائر، آسامی ریشم اور چائے کے باغات کی وجہ سے مشہور ہے۔ اسکو بنگلہ دیش اور بھوٹان کا بارڈر لگتا ہے جبکہ ”سلیگوری” نام کی ایک تنگ سی پٹی آسام سمیت تمام ساتوں ریاستوں کو بھارت سے جدا کرتی ہے۔ 1824 کی اینگلو برمی جنگ میں فتح کے بعد یہ علاقہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے1833 میں ”راجہ پ±رندر سنگھ” کے حوالے کر دیا اور 1838 کے بعد اسکو اپنے تسلط میں لے لیا۔ شروع میں آسام کو بنگال کا حصہ بنایا گیا۔ 1906 میں اسے مشرقی بنگال کے ساتھ ”بنگال اور آسام” کے نام سے علیحدہ صوبہ بنایا گیا۔ 1937 میں آسام لیجسلیٹو اسمبلی کی بنیاد رکھی گئی۔ ساتھ ہی برطانوی تاجروں نے وسطی ہندوستان سے مزدوروں کو یہاں لا کر آباد کیا اور آسام کی آبادی میں کامیابی سے ردوبدل کیا۔ بٹوارے کے دوران آسام کاضلع ”سلہٹ” مشرقی پاکستان میں شامل کر دیا گیا۔ بٹوارے کے بعد ہندوستانی حکومت نے اس صوبے اور یہاں کے قبائل کی طاقت کو توڑنے کے لیئے بار بار تقسیم کیا۔ 1963 میں ضلع ”ناگا ہِلز” میں توینسانگ کا علاقہ ملا کر بھارت کی 16 ریاست ”ناگا لینڈ” بنا دی گئی۔ پھر 1970 میں، سطح مرتفع میگھالیہ کے لوگوں کے پر زور اسرار پر آسام کے اندر ایک خودمختار ریاست بنائی گئی جو 1972 میں ایک علیحدہ ریاست ” میگھالیہ” کے نام سے وجود میں آئی۔ 1972 میں ہی میزا رام اور اروناچل پردیش کو آسام سے علیحدہ کر کہ الگ ریاست بنا دیا گیا۔ یوں آسام کی بہت بڑی ریاست سمٹ کر رہ گئی۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ علاقہ مختلف قبائل کا ہے جو وقتا فوقتا بھارت سے اپنی آزادی اور خود مختاری کا تقاضا کرتے رہتے ہیں۔ 1970 کے بعد سے آسام کی آزادی کے لیئے بہت سی تنظیمیں وجود میں آئیں جن میں ” یونا ئیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام” ( ULFA ) ” مسلم لبریشن ٹائیگرز” ”آسام رائفلز” اور ”نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ بوڈو لینڈ” شامل ہیں۔ 1990 میں بھارتی فوج نے ان تنظیموں کےخلاف آپریشن شروع کیا جس میں ULFA کے 12،000 جنگجو مارے گئے اور دس سال تک یہ علاقہ جلتا رہا۔ ULFA مسلح کوشِشوں کے ذریعے ایک آزاد آسامی ریاست کا قیام چاہتی ہے جس میں ا±سے عوامی حمایت بھی حاصل ہے۔ 1990 میں بھارتی حکومت نے اس تنظیم پر پابندی لگا دی تھی۔ آج تک اس علاقے میں نسلی فسادات عروج پر ہیں اور بھارتی فوج چاہ کر بھی اپنی رٹ یہاں قائم نہیں کر پائی۔
3- منی پور:میانمار کے مشرق میں واقع ریاست منی پور اپنے لوک رقص اور ثقافتی رنگوں کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ برطانوی راج اور اس سے پہلے یہ ریاست ایک ” شاہی ریاست” تھی۔ منی پور نے انگریز دور میں ”برما” کی بجائے ”ہندوستان” میں ضم ہونے کو ترجیح دی۔ 1949 میں ”مہاراجہ ب±دھا چندرا” نے ریاست کا الحاق بھارت سے کر دیا جس پہ مختلف ریاستی گروہوں کو شدید تحفظات تھے۔ اور یہی تحفظا ت آنے والے 50 سالوں میں ریاست میں بدامنی اور علیحدگی پسند تحریکوں کی کارروائیوں کی وجہ بنے۔ 2010 سے 2013 کے درمیان ان ہنگاموں اور کارروائیوں میں ہزاروں افراد قتل ہوئے۔ منی پور میں 53 فیصد لوگ ”میٹی” قوم جبکہ 20 فیصد مختلف قبائل سے ہیں۔ ہندومت کے ساتھ ساتھ بدھ مت، عیسائیت اور اسلام کے ماننے والے بھی یہاں بستے ہیں۔ یہاں موجود علیحدگی پسند تحریکوں کی دو اقسام ہیں، قبائلی عوام اور شہری عوام۔ جبکہ تمام تحریکوں ”منی پور پیپلز لبریشن آرمی” ، ”یونائیٹڈ نیشنل لبریشن فرنٹ’ اور ”پیپلز فرنٹ آف منی پور” کی آواز ایک ہی ہے، ریپبلک آف منی پور کی آزاد ریاست کا قیام۔
4- میگھالیہ: بنگلہ دیش اور آسام کے درمیان واقع ”مشرق کے سکاٹ لینڈ” میگھا لیہ کو اگر موسلا دھار بارشوں ، جنگلات اور بادلوں کی سر زمین کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ ریاست کے 70 فیصد رقبے پر ایسے جنگلات ہیں جہاں بھارت میں ریکارڈ بارش ہوتی ہے۔ یہ بھارت کی وہ ریاست ہے جہاں عیسائی اکثریت میں ہیں۔ 1972 میں آسام کے ”خاصی”، ”گارو” اور ”جینتیا ” ضلعوں کو ملا کر ریاست میگھا لیہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اور حیرت انگیز طور پر انگریزی ریاستی سرکاری زبان قرار پائی۔ برٹش راج سے پہلے بھی خاصی، گارو اورجینیتا قبائل کی اپنی الگ الگ ریاستیں تھیں جنہیں پہلے آسام اور پھرصوبہ مشرقی بنگال و آسام کا حصہ بنا دیا گیا۔ لیکن تب بھی اس علاقے کو ”نیم خود مختار” ریاست کا درجہ حاصل رہا۔ شروع شروع میں تو میگھا لیہ کے قیام کو ایک ”وسیع بھارتی ریاست میں الگ قومیت کےانضمام” کی مثال کے طور پر بہت سراہا گیا لیکن جلد ہی اس غبارے کی ہوا نکل گئی جب مقامی قبائل کے درمیان ایک قوم کے طور پر ہم آہنگی پیدا نہ ہو سکی اور بھارتی قوم پرستی ، خاصی اور گارو قوم پرستیوں کے مدِ مقابل آ کھڑی ہوئی۔ دوسری ریاستوں میں موجود قوم پرستی اور لسانیت پرستی نے آگ پر تیل کا کام کیا۔ قبائل کے آپسی لڑائی جھگڑوں سے حالات مزید خراب ہوتے چلے گئے اور میگھا لیہ میں مختلف علیحدگی پسند گروہوں ( AMLA، HNLC) نے جنم لیا۔
5-میزو رام: آبشاروں، جھیلوں ،وادیوں اور پرانی رسومات کی سر زمین میزورام ، برما اور بنگلہ دیش کی سرحدوں کیساتھ واقع ہے۔ اسکے معنی ہیں ”میزو کی سر زمین”۔ دیگر ریاستوں کی طرح 1972 تک میزورام بھی پہلے آسام کا حصہ تھی جب اسے آسام سے نکال کر ایک یونین اور پھر 1987 میں بھارت کی تیئیسویں ریاست بنایا گیا۔ یہ بھارت کی دوسری کم آبادی والی ریاست ہے۔ ریاست کے 95 فیصد باشندوں کا تعلق جنوب مشرقی ایشیا سے آںے والے مختلف قبیلوں سے ہے۔ بھارت میں سب سے زیادہ قبائل اس ریاست میں رہتے ہیں۔ اور میزورام بھارت کی تین ”عیسائی اکثریتی” ریاستوں میں سے ایک ہے۔ ریاست میں بد امنی کی سب سے بڑی وجہ باہر سے آنے والے آسامی لوگوں کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور مقامی ”میزو” قبائل کا نظر انداز ہونا ہے۔ یہاں بسنے والے قبائل ہمارس، چکماس، بروس، لائیس اور ریانگس حکومت سے علیحدگی اور خود مختاری کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ ”میزورام فارمرز لبریشن فورس” اور ”زومی انقلابی تحریک” بڑے علیحدگی پسند گروہ ہیں۔
6-ناگا لینڈ: آبادی کے لحاظ سے بھارت کی سب سے چھوٹی ریاست ” ناگا لینڈ” اروناچل پردیش، آسام، منی پور اور برما کے درمیان واقع ہے۔ اس ریاست میں 16 قبائل رہتے جو زبان، رسم و رواج اور پہناوے تک میں ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ زیادہ تر آبادی عیسائیت کی پیروکار ہے۔تقسیم کے بعد ناگا لینڈ ریاست آسام کا حصہ تھا، 1963 میں اسے علیحدہ ریاست بنا دیا گیا۔ اگرچہ ناگا قوم کی خودمختاری اور آزادی کے بھرپور مطالبے کے بعد اسے الگ ریاست بنایا گیا لیکن اس کے پس پردہ جہاں ایک طرف بھارت آسام کی قوت کو کم کرنا چاہتا تھا وہیں دوسری طرف ناگا قبائل کو اپنے آئین کے تحت لانا چاہتا تھا۔ لیکن بھارتی حکومت کے عزائم پورے نہ ہو سکے آسام میں اب بھی بغاوت جاری ہے اور ناگا لینڈ علیحدہ ریاست بن جانے کے باوجود بھارتی آئین کو ماننے سے انکاری ہے۔ اور یہاں بھی بقیہ 6 ریاستوں کی طرح آزادی کی زبردست تحریک جاری ہے۔
ناگا قوم ، ناگالینڈ ،آسام اور برما تک پھیلی ہوئی ہے۔ ناگا لینڈ کا علاقہ آزادی سے قبل بھی انتہائی پسماندہ تھا لیکن اگریزوں نے اس علاقے کو فروغِ عیسائیت کے لیئے تر نوالہ سمجھتے ہوئے ترقی دی اور عیسائی مشنریز نے یہاں کے لوگوں کو تعلیم و صحت کے بدلے میں عیسائیت کی تبلیغ کی۔ تبھی آج اس ریاست میں (میگھالیہ اور میزورام کی طرح) عیسائیت سب سے بڑا مزہب ہے۔1947 میں جب ناگا قوم نے بھارت کے ساتھ شامل ہونے سے انکار کرتے ہوئے آزادی کا اعلان کیا تب بھارت نے کشمیر، حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ کی طرح اس علاقے پر بھی فوج کشی کر دی۔ بہت سے ناگا نوجوان مارے گئے لیکن حریت پسندوں کی بھارتی فوج کے خلاف مزاحمت ختم نہ ہوئی اور ایک بار پھر 1955 میں ناگا قوم نے بھارت سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ بھارت نے اسے بغاوت تصور کرتے ہوئے ناگا قوم پر ایک بار پھر جنگ مسلط کردی۔ ناگا لینڈ میں بھر پور زمینی اور فضائی کارروائی کی گئی اور کئی دیہاتوں کو جلا کر راکھ کر دیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں ناگا قوم کے لوگ مارے گئے اور بہت سوں کو سپردِ زنداں کر دیا گیا۔ ان تمام اقدامات کے باوجود ”ناگے” خاموش نہیں بیٹھے اور احتجاج شروع کر دیا۔ تنگ آ کر بھارت نے 1963 میں ناگا لینڈ کو آسام سے علیحدہ کر کے ایک الگ ریاست بنا دیا۔ ناگوں کی بھارت سے نفرت بڑھتی چلی گئی اور یہ بھارت سے سوائے آزادی کے کسی چیز پر سمجھوتے کو تیار نہ تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ کشمیریوں کے بعد اگر کسی نے بھارت کو چھٹی کا دودھ یاد دلایا ہے تو بلاشبہ وہ ناگا قوم ہے۔ناگا لینڈ میں ” ناگا نیشنل کونسل” ، ”نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگا لینڈ” اور ”ناگامی فیڈرل آرمی” کے نام سے مسلح تنظیمیں موجود ہیں۔ ناگا لینڈ کے عیسائی ہونے کی وجہ سے یورپ کے عیسائی ممالک بھی ان کی حمایت کرتے ہیں خاص طور پہ فرانس اور جرمنی جبکہ ناگا لیڈروں نے نیدرلینڈ میں اپنی جلا وطن حکومت کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔ تمام 7 ریاستوں میں ناگالینڈ کی تحریک نہ صرف عسکری بلکہ سیاسی طور پہ بھی مضبوط ہے۔ ناگا قوم کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ اپنے دشمن کے سر کاٹ کہ اسے محفوظ کر لیتے ہیں۔ ناگے بھارت کا سر کاٹتے ہیں یا بھارت انکا سر کچلنے میں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
7-تری پورہ: تری پورہ کی شاہی ریاست وہ آخری ریاست تھی جس نے حکومتِ ہندوستان سے 1949 میں الحاق کیا۔ اگر نقشے پر نظر ڈالی جائے تو تری پورہ کی ریاست تین اطراف سے بنگلہ دیش سے یوں گِھری ہے جیسے کسی ماں نے بچے کو گود میں لے رکھا ہو۔تری پورہ میں بدامنی اور سرکشی کی تاریخ 1970 سے شروع ہوتی ہے جب قرب و جوار کے بنگالیوں نے اس علاقے میں منتقل ہونا شروع کیا۔ آہستہ آہستہ بنگالیوں نے یہاں کی آبائی اقوام اور قبائل کو اقلیت میں بدل دیا۔ جسکے نتیجے میں نہ صرف ان قبائل کی روایتوں اور ثقافت کو نقصان پہنچا بلکہ انکی معاشی، سیاسی اور معاشرتی زندگی میں بھی انہیں مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ باہر سے آ بسنے والے بنگالیوں کے خلاف ریاست کے لوگوں میں نفرت پنپتی رہی اور آخر تری پورہ کے باسیوں نے بھی اپنی بقا کے لیئے ہتھیار اٹھا لئے۔مارچ 1989 میں ” نیشنل لبریشن فرنٹ آف تریپورہ”(NLFT) اور1990 میں ” آل تریپورہ ٹائیگر فورس”ATTP کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ان گروہوں کے قیام کا واحد مقصد صرف ”بنگالی مہاجروں ” کا ریاست سے اخراج تھا لیکن بھارتی حکومت کی ہٹ دھرمیوں اور نا انصافیوں سے تنگ آ کر ان تنظیموں نے اپنا دائرہ کار وسیع کرلیا۔ شمال مشرقی ریاستوں یا “سات بہنوں” کا علاقہ کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہ تھا۔ ہمیشہ سے یہ علاقے یا تو خودمختار رہے ہیں یا ان پر مختلف قبائل اور راجوں نے حکومت کی ہے۔ اس علاقے کے ایک طرف ایشیا کا ”منگول” حِصہ جبکہ دوسری جانب ایشیا کا ”آرین” حِصہ ہے۔ یہاں کہ لوگ نہ صرف نسلی طور پہ، بلکہ مزہبی، معاشرتی، جغرافیائی اور ثقافتی طور پہ جنوب مشرقی ایشیا، تبت اور برما سے جڑے ہوئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کو چاہیئے کہ ان علاقوں پر بھارت کے جبری قبضے کا نوٹس لے۔

وہ 10 جانور جو انسانوں کی ہلاکت کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں

لاہور(ویب ڈیسک)دنیا میں جہاں گھاس کھانے والے معصوم جانور ہیں وہیں گوشت کھانے والے خونخوار درندوں کی بھی کمی نہیں۔ بعض دفعہ حشرات بھی انسان کے لیے وبال بن جاتے ہیں۔ معصوم جانور ہوں، خونخوار درندے ہوں یا پھر حشرات سب ہی کسی نہ کسی حد تک انسان کی ہلاکت کا باعث بنتے ہیں۔ ذیل میں ایسے ہی چند جانوروں کی فہرست ہے جوانسانوں کی ہلاکت کا سب سے زیادہ باعث بنتے ہیں۔

10۔ہرن۔ 100 ہلاکتیں:عام طور پر ہرن کو بہت معصوم سا جانور سمجھا جاتا ہے لیکن یہ معصوم جانور بھی ہر سال 100 انسانوں کی جان لے لیتا ہے۔ اصل میں ہرن کئی بار رات کے اندھیرے میں بھی باہر نکلتا ہے۔ خاص طور پر امریکا میں سڑکیں عبور کرتے ہوئے اکثر ہرن گاڑی کے سامنے آ جاتا ہے۔ گاڑی کی ہیڈ لائٹس کی روشنی جیسے ہی ہرن کی آنکھوں پر پڑتی ہے، ہرن ایک طرح سے منجمد ہو جاتا ہے۔ایسے میں گاڑی کے ڈرائیور بریک نہیں لگا پاتے اور ڈرائیور کے پاس ہرن سے ٹکرانے یا سائیڈ سے نکلنے کے سوا کوئی چار نہیں ہوتا۔اس کوشش میں بہت سے ڈرائیور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

کتے۔ 200 ہلاکتیں: امریکا میں ہر سال کتوں کے کاٹنے کے 45 لاکھ واقعات ہوتے ہیں۔ ان میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد صرف 30 ہوتی ہے۔ پوری دنیا میں ہر سال تقریباً 200 افراد کتوں کے کاٹنے سے ہلاک ہوتےہیں۔

8۔افریقی بھینس: 250 ہلاکتیں:ان کا شمار دنیا کے 5 سب سے زیادہ مشکل سے شکار کیے جانے والے جانوروں میں ہوتا ہے۔ اس کا قد 1.7 میٹر یا ساڑھے پانچ فٹ تک ہوتا ہے۔یہ 2.8 میٹر یا 9 فٹ لمبی ہوتی ہے۔اس کاوزن 1.5 ٹن تک ہو سکتا ہے۔اس کے سینگوں کی چوڑائی 4 فٹ تک ہوسکتی ہے۔یہ عام بیلوں کی نسبت 4 گنا زیادہ مضبوط ہوتی ہیں۔ افریقی بھینس اچھی خاصی کینہ پرور ہوتی ہے۔ان کی یادداشت بھی کافی تیز ہوتی ہے۔ یہ خود کو شکار کرنے کی کوشش کرنے والوں کو یاد رکھتی ہیں اور اکثر سالوں بعد ا±ن پر حملہ کر کے انہیں زخمی یا ہلاک کر دیتی ہیں۔ ان کے حملوں پر ہرسال 250 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

ہاتھی۔500 ہلاکتیں:پرانے وقتوں میں تو بادشاہ ہاتھیوں کے پاو¿ں تلے باغیوں کو کچل کر موت کے گھات اتارتے تھے۔ہاتھیوں کو اس حوالے سے خصوصی تربیت دی جاتی تھی۔ اب بھی ہاتھی کم خطرناک نہیں۔ اب بھی سالانہ 500 افراد ہاتھیوں کی وجہ سے ہی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

مگرمچھ۔2500 ہلاکتیں:مگرمچھ ہر سال2500 ہلاکتوں کا باعث بنتے ہیں۔ ان میں سے اکثر ہلاکتیں افریقا میں ہوتی ہیں۔

دریائی گھوڑے۔2900 ہلاکتیں: دریائی گھوڑوں کا وزن عام طور پر 2750 کلوگرام تک ہوتا ہے۔یہ لوگوں کو دبا کر، چبا کر، نگل کر اور ڈبو کر ہلاک کرتے ہیں۔ یہ سالانہ 2900 ہلاکتوں کا باعث بنتےہیں۔

بچھو۔5000 ہلاکتیں:اس وقت دنیا میں بچھوو¿ں کی 1500 سے زیادہ اقسام پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے 25 اتنی زیادہ زہریلی ہیں کہ اپنے زہر سے انسانوں کو ہلاک کر دیں۔عام طور پر زہریلے بچھوو¿ں کی دم موٹی اور زہر سے بھری ہوتی ہے۔ بچھو سالانہ 5000 انسانوں کی ہلاکت کا باعث بنتے ہیں۔

۔سانپ۔50ہزار ہلاکتیں: دنیا میں سب سے زہریلا سانپ

Inland Taipan یا Western Taipan ہوتا ہے۔

اس کا زہر انسان کو منٹوں میں ختم کرتا ہے لیکن یہ سانپ انسانوں کو کبھی کبھار ہی کاٹنا ہے لیکن دوسرے بہت سے ایسے زہریلے سانپ ہوتے ہیں، جو انسانوں کا کاٹتے رہتے ہیں۔ دنیا بھر میں ہر سال سانپوں کے کاتنے کے 10 لاکھ سے 50 لاکھ واقعات ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک تہائی واقعات میں زہریلے سانپ کاٹتے ہیں۔اگرچہ زہریلے سانپوں کے زہر کے لیے تریاق ہیں لیکن یہ ہمہ وقت دستیاب نہیں ہوتے۔ افریقا میں تو تریاق کی قیمت ایک اوسط خاندان کی کئی مہینوں کی آمدن کے برابر ہوتی ہے۔ ایسے میں ہر سانپ کے کاٹنے سے 50 ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

2۔سی سی مکھی۔4لاکھ ہلاکتیں: یا خَرمگسِ افریقا جنوبی افریقہ کی ایک مکھی جس کے کاٹنے سے نیند کی بیماری لاحق ہو جاتی ہے نیز انسان اور مویشی اس کی کاٹنے سے دیگر کئی ایک بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
یہ ہر سال 4 لاکھ انسانوں کی جان لے لیتی ہے۔

مچھر۔10لاکھ ہلاکتیں:آپ کے اردگرد موجود چھوٹے چھوٹے مچھر دنیا میں ہر سال 10 لاکھ انسانوں کی موت کا باعث بنتے ہیں۔اگرچہ مچھر خود سے آپ کو ہلاک نہیں کرتے لیکن یہ بیماریوں کےپھیلاو¿ کا باعث بنتے ہیں۔ دنیا میں ہر سال 20 کروڑ افراد ملیریا کی بیماری کا شکار ہوتے ہیں، جو مچھروں سے پھیلتی ہے۔ اسی طرح ڈینگی وائرس بھی مچھروں سے ہی پھیلتا ہے۔

پریانکا امریکا میں بیٹھ کر بھارتیوں کی زبان بول رہی ہیں،مہوش حیات

لاہور(ویب ڈیسک)امریکی گلوکار نک جونس سے شادی کے بعد امریکا منتقل ہونے والی بولی وڈ اداکارہ پریانکا چوپڑا نے کچھ دن قبل سوال پوچھنے پر پاکستانی لڑکی کو جھاڑ پلادی تھی۔پاکستانی خاتون نے پریانکا چوپڑا سے سوال کیا تھا کہ انہوں نے رواں برس فروری میں ایک ٹوئیٹ کے ذریعے بھارتی فوج کی حمایت کرنے سمیت دونوں ممالک میں جنگ کی خواہش سے متعلق سوال کیا تھا۔خاتون نے اداکارہ سے پوچھا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’یونیسف‘ کی خیر سگالی سفیر ہونے کے باوجود دونوں ممالک میں جنگ کی خواہش کیوں کی؟پاکستانی خاتون کے سوال پر پریانکا چوپڑا بھڑک گئی تھیں اور انہیں جھاڑ پلادی تھی۔پاکستانی خاتون کی جانب سے سوال پوچھے جانے پر غصے میں آنے پر بولی وڈ اداکارہ تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا اور آن لائن یونیسیف سے مطالبہ کیا گیا کہ ان سے خیر سگالی سفیر کا عہدہ واپس لیا جائے۔اور اب پریانکا چوپڑا کے ایسے بیانات پر اداکارہ مہوش حیات نے بھی اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے اور بولی وڈ اداکارہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کسی بھی سنگین مسئلے پر بات کرنے سے قبل سوچ لیا کریں۔امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ میں لکھے گئے اپنے مضمون میں مہوش حیات نے پریانکا چوپڑا کو احساس دلایا کہ وہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کی خیر سگالی کی سفیر ہیں اور انہیں امن پھیلانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔مہوش حیات کا کہنا تھا کہ پریانکا چوپڑا کو امریکا میں منتقل ہوجانے کے بعد تبدیل ہوجانا چاہیے تھا اور انہیں کسی بھی سنگین مسئلے پر بات کرتے وقت ایک بھارتی نہیں بلکہ ایک امریکی اور عالمی شخصیت کے طور پر بات کرنی چاہیے۔پاکستانی اداکارہ کے مطابق انہیں اندازا ہے کہ ایک معروف شخصیت ہونے کے ناطے کچھ افراد پر کتنا دباﺅ ہوتا ہے اور وہ خود بھی ماضی میں کچھ باتوں کی وجہ سے مشکل میں پڑ چکی ہیں۔مہوش حیات نے پریانکا چوپڑا کے بیان کو عام بھارتیوں کے خیالات کی ترجمانی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اداکارہ نے امریکا میں بیٹھ کر عام بھارتی افراد کی زبان بولی۔’لوڈ ویڈنگ‘ اداکارہ نے پریانکا چوپڑا کو مخاطب ہوتے ہوئے لکھا کہ انہیں پاکستان اور بھارت میں نفرتیں پھیلانے کے بجائے انسانیت اور امن کا درس دینا چاہیے۔مہوش حیات نے اپنی تحریر میں بولی وڈ فلموں کے موضوعات کو بھی چھیڑا اور ساتھ ہی اعتراف کیا کہ پاکستانی فلموں میں بھی انسانیت اور امن کے موضوعات کو فوکس نہیں کیا جاتا۔’چھلاوا‘ ہیروئن کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کی فلم انڈسٹری کو امن اور انسانیت جیسے موضوعات پر فلمیں بنانی چاہیے اور ایسے کئی موضوعات ہیں جن پر کام کیا جا سکتا ہے اور وہ ایسے موضوعات پر پریانکا کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے بھی تیار ہوں گی۔مہوش حیات کا کہنا تھا کہ بولی وڈ کو دہشت گردی اور نفرتیں پھیلانے والے موضوعات کو چھوڑ کر دوسرے موضوعات پر کام کرنا چاہیے۔خیال رہے کہ کچھ دن قبل بھی مہوش حیات نے یورپی ملک ناروے کی وزیراعظم ارنا سولبرگ کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ دیے جانے کی تقریب سے خطاب کے دوران بھی بولی وڈ اور ہولی وڈ کو نفرت انگیز موضوعات پر فلمیں بنانے پر ا?ڑے ہاتھوں لیا تھا۔مہوش حیات نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ‘فلمی صنعت میں ہم بہت زیادہ ذمہ داری کا بوجھ اٹھاتے ہیں، سنیما بہت طاقتور ہوتا ہے اور یہ لوگوں کی ذہنیت، رویے بدل ستکا ہے، میرا دل سے ماننا ہے کہ ہولی وڈ فلمیں اور پروگرامز میرے ملک کی تضحیک کرتے ہیں اور ہمیں پسماندہ دہشتگرد کے روپ میں دکھاتے ہیں، جس سے مغرب کے ذہن متاثر ہوتا ہے، یہ پاکستان کے بارے میں لوگ کی رائے پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں’۔مہوش حیات کا مزید کہنا تھا کہ ‘ہمارے پڑوس میں دنیا کی چند بڑی فلمی صنعتوں میں سے ایک موجود ہے اور ایسے وقت میں جب ہمیں اس طاقت کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے، وہ کیا کررہے ہیں؟ وہ لاتعداد فلموں میں پاکستانیوں کو ولن دکھارہے ہیں’۔

سلامتی کونسل میں 50 برس بعد کشمیریوں کی آواز سنی گئی، ملیحہ لودھی

نیوےارک(ویب ڈیسک)اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ کشمیریوں کو گھروں میں نظر بند کیا جاسکتا ہے ان کی آوازیں اپنے گھر اور سرزمین میں نہ سنی گئی ہوں لیکن آج ان کی آواز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں سنی گئی۔ملیحہ لودھی نے سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ میں کہا کہ انہوں نے کہا کہ پاکستان سلامتی کونسل کے اجلاس کا خیر مقدم کرتا ہے جس میں جموں و کشمیر کے مسئلے پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خط پر 72 گھنٹوں میں سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا تھا جس میں مسئلہ کشمیر پر اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب نے کہا کہ ہم سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کے مطالبے میں تعاون کرنے پر چین کے شکر گزار ہیں۔ملیحہ لودھی نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی آواز اعلیٰ ترین سفارتی سطح پر سنی گئی، ان کی مشکلات، تکالیف کو آج سلامتی کونسل میں سنا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس اجلاس کے انعقاد کو روکنے کی کوشش کی گئی تھی اور سلامتی کونسل کے تمام رکن ممالک کے شکر گزار ہیں جنہوں نے اجلاس طلب کرنے پر اتفاق کیا تھا۔پاکستانی مندوب کا کہنا تھا کہ اجلاس میں ایک مرتبہ پھر سلامتی کونسل کی قراردادوں کی توثیق کی ہے، پاکستان اس مسئلے کے پرامن حل کے لیے تیار ہے۔انہوں نے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ آج یہ اجلاس مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے اندرونی معاملے سے متعلق مفروضے کو مسترد کرتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا مقبوضہ کشمیر کے معاملے اور وہاں کی صورتحال پر بات کررہی ہے جسے سلامتی کونسل میں بھی بات چیت کی گئی۔ملیحہ لودھی نے کہا کہ یہ پہلا قدم ہے لیکن آخری نہیں، یہ سلسلہ اس وقت تک نہیں رکے گا جب تک مقبوضہ کشمیرکے انصاف نہیں مل جاتا۔انہوں نےکہا کہ کشمیریوں کو گھروں میں نظر بند کیا جاسکتا ہے ان کی آوازیں اپنے گھر اور سرزمین پر شاید نہ سنی گئی ہوں لیکن آج ان کی آواز اقوام متحدہ میں سنی گئی اور سنی جائے گی۔ملیحہ لودھی نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ کشمیریوں کی سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھے گا، سلامتی کونسل کے اراکین کے شکر گزار ہیں کہ 50 سال میں پہلی مرتبہ اس مسئلے پر بات چیت کی گئی۔

لیجنڈ اداکار غلام محی الدین کی صدارتی ایوارڈ کیلئے نامزدگی پر فلمی حلقوں میں خوشی کی لہر

لاہور(ویب ڈیسک) فلم انڈسٹری کے لیجنڈ اداکار غلام محی الدین کی صدارتی ایوارڈ کے لئے نامزدگی پر فلمی حلقوں میںخوشی کی لہر دوڑ گئی۔سینئر اداکار ندیم بیگم، شاہد ، جاوید شیخ ،سید نور ،معمررانا،حیدر سلطان، صائمہ نور، احسن خان، مدیحہ شاہ، ثناءاورریشم نے غلام محی الدین کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ صرف غلام محی الدین نہیں بلکہ پوری انڈسٹری کی عزت افزائی ہے جس پر ہمیں فخر ہے۔ شوبز شخصیات نے کہا کہ یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ غلام محی الدین کی فنی خدمات کوحکومتی سطح پر تسلیم کیاگیا ہے۔