تازہ تر ین

اپنی ہی ریاستیں بھارت کے قابو سے باہر، آسام بہار اور آرونا چل پردیش سمیت 7 ریاستیں آزادی کیلئے اٹھ کھڑی ہوئیں، ناگا لینڈ کے آزادی کے اعلان کے بعد علیحدگی کی تحریکیں شدت اختیار کر گئیں

نئی دہلی (ویب ڈیسک) اپنے قیام کے آغاز سے ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان تمام دشمن قوتوں کی نظر میں ایک کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ ملک دشمن عناصر اس کو کمزور کرنے کے لئے دن رات ایک کر رہے ہیں جن میں سرِ فہرست ہمارا ازلی دشمن بھارت ہے۔ بھارت نہ صرف گھٹیا اور جھوٹے الزامات لگا کر وطنِ عزیز کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ ملک کے مختلف حِصوں میں سازشی عناصر کو ہوا دے کر، برائے نام علیحدگی پسند تحریکوں کے ذریعے اس کو کمزور کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اس کی تازہ مثال بلوچستان کے معاملات میں بھارت کی بے جا مداخلت اور براہمداغ بگٹی کی مالی اور اِخلاقی امداد ہے۔ لیکن نہ جانے کیوں، دوسروں کے گھروں پہ پتھر برسانے والے انڈیا کو اپنا شیشے کا گھر بھول جاتا ہے۔ اسے بلوچستان تو نظر آتا ہے لیکن ”خالصتان“، ”ناگالینڈ“ اور ” آسام“ جیسی علیحدگی پسند ریاستیں بھول جاتی ہیں۔ بھارت کے طول و عرض میں اس وقت درجنوں علیحدگی پسند تحریکیں چل رہی ہیں جن میں سے کچھ اندرونی خود مختاری اور بقیہ بھارت سے آزادی کی خواہش مند ہیں۔ ان تحریکوں سے جڑی خبروں کو نہ صرف بھارتی حکومت بلکہ وہاں کا بکاو¿ میڈیا بھی منظرِ عام پر نہیں لاتے۔ لیکن وہ کہتے ہیں نہ کہ ”سچ چھپائے نہیں چھپتا“، نڈر، بے باک اور ذمہ دار صحافیوں نے بھارتی ظلم و بربریت کی وہ داستانیں سنائی ہیں کہ ”بھارت ماتا” کے پ±جاریوں کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے آ گیا ہے۔کشمیر، خالصتان اور ماو¿ نواز تحریکوں کے بارے میں تو بہت سے لوگ جانتے ہیں لیکن بھارت کی ” 7 ریاستی بہنوں” میں غریب عوام پر کیسے کیسے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اس کے بارے میں لوگوں کا علم محدود ہے۔ بھارت کے شمال مشرق میں سات ریاستیں واقع ہیں جنہیں” 7“یا ”سات ریاستی بہنیں“ بھی کہا جاتا ہے۔ ان میں اروناچل پردیش، آسام، منی پور، میگھالیہ، میزورام، ناگالینڈ اور تری پورہ شامل ہیں۔ سِکم، جسے اکثر لوگ ان ریاستوں کا حصہ سمجھتے ہیں ان سے ہٹ کر واقع ہے۔ ان ریاستوں کا مجموعی رقبہ 262،230 کلومیٹر سکوائر ہے جبکہ مجموعی آبادی 45،772،188 ہے۔ان ریاستوں کے لوگوں میں اکثریت بدھ مت اور عیسائیت کی پیروکار ہے۔ نہ صرف ان کا مذہب بلکہ ان کی زبان، تہذیب و ثقافت، رسم و رواج اور نسل تک ہندو اور ہندوستانیوں سے مختلف ہے۔ یہ چینی نسل کے لوگ ہیں جن کو خود بھارت کے اندر بھی تعصب کا سامنا ہے۔ ہند چینی کا یہ خطہ جو بھارت، چین، بھوٹان اور برما کے بیچ میں واقع ہے، ماضی میں کبھی بھارت کا حصہ نہ تھا۔ یہاں کے ابتدائی آبادکاروں کا تعلق ”جنوب مشرقی ایشیا“ سے تھا۔ جن کے بعد قبلِ مسیح کے دور میں تبت اور برما کے لوگ یہاں آباد ہوئے۔ یہ ہمیشہ سے ہی ”قبائلی علاقہ” رہا ہے جہاں مختلف قبائل اپنے اپنے رنگ ڈھنگ اور الگ الگ ثقافتوں کے ساتھ ایک ساتھ رہتے آئے ہیں۔ برطانوی سامراج نے بیسویں صدی کے اوائل میں ان علاقوں کو باقاعدہ طور پہ ریاستوں کی شکل دی۔ اس وقت تک یہ علاقے اپنے روایتی تجارتی حلیفوں، بھوٹان اور میانمار سے کٹ چکے تھے۔ برطانوی سامراج میں، موجودہ دور کے میزو رام، میگھالیہ اور ناگا لینڈ کے لوگوں کو عیسائی مشنریوں نے عیسائیت کی تعلیم دی اور انکو عیسائی بنا دیا۔آئینے ان ریاستوں اور ان میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کے بارے میں مزید جانتے ہیں۔
1۔ اروناچل پردیش: بھوٹان، بھارت، برما اور چین کے بیچ سینڈوچ بنی یہ ریاست اپنے برف پوش پہاڑوں اور خوبصورت نظاروں کے حوالے سے مشہور ہے۔ ریاست کے ایک بڑے رقبے پہ چین دعویٰ کرتا ہے کہ یہ اسکی ملکیت ہے۔ 1962 کی جنگ کے بعد چین نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا لیکن جلد ہی اپنی فتح کا اعلان کرتے ہوئے چین ”میکموہن لائن” پر واپس چلا گیا، جو انڈیا اور چائنا کی بین الاقوامی سرحد ہے۔ لیکن آج بھی چین کے نقشوں پر یہ علاقہ تبت کے جنوبی حصے کے طور پہ دکھایا جاتا ہے۔اس علاقے کا پرانا نام ” شمال مشرقی سرحدی ایجنسی” تھا جسے 1972 میں بدل کہ اروناچل پردیش کر دیا گیا۔ فروری 1987 کو اسے ”یونین” کی بجائے بھارت کی ریاست کا درجہ ملا۔ اروناچل پردیش میں بہت سی علیحدگی پسند تحریکیں ہیں جو برسوں سے بھارتی تسلط سے آزادی چاہتی ہیں۔ ان میں ”نیشنل سوشلسٹ کاو¿نسل آف ناگالینڈ”( NSCN ) ”اروناچل ڈریگن فورس” سرِ فہرست ہے۔ یہ اپنے علاقے کو آزاد اور خود مختار دیکھنا چاہتے ہیں۔ اروناچل ڈریگن فورس جسے ”ایسٹ انڈیا لبریشن فرنٹ” بھی کہا جاتا ہے، ایک مسلح تنظیم ہے جسکا مقصد ایک ایسی آزاد ریاست کا قیام ہے جیسی برٹش راج میں ”برٹش تولا کاو¿نٹی” (Toala County)تھی جس میں اروناچل پردیش کے ساتھ آسام بھی شامل تھا۔ بھارت کا الزام ہے کہ ان تنظیموں کو چین کی حمایت حاصل ہے۔اس علاقے میں بھارتی فوجوں کو نہ صرف چین کی طرف سے دراندازی کا خطرہ لاحق ہے بلکہ وہ اندرونی مزاحمت سے بھی نبرد آزما ہیں۔ آسام اور دیگر ریاستوں سے اروناچل پردیش میں داخل ہونے کے لیئے بھی خاص اجازت نامہ درکار ہے۔
2- آسام :سات ریاستوں میں سب سے بڑی ریاست آسام ، اپنے گھنے جنگلات، برہم پ±ترا کی وادیوں ، تیل کے ذخائر، آسامی ریشم اور چائے کے باغات کی وجہ سے مشہور ہے۔ اسکو بنگلہ دیش اور بھوٹان کا بارڈر لگتا ہے جبکہ ”سلیگوری” نام کی ایک تنگ سی پٹی آسام سمیت تمام ساتوں ریاستوں کو بھارت سے جدا کرتی ہے۔ 1824 کی اینگلو برمی جنگ میں فتح کے بعد یہ علاقہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے1833 میں ”راجہ پ±رندر سنگھ” کے حوالے کر دیا اور 1838 کے بعد اسکو اپنے تسلط میں لے لیا۔ شروع میں آسام کو بنگال کا حصہ بنایا گیا۔ 1906 میں اسے مشرقی بنگال کے ساتھ ”بنگال اور آسام” کے نام سے علیحدہ صوبہ بنایا گیا۔ 1937 میں آسام لیجسلیٹو اسمبلی کی بنیاد رکھی گئی۔ ساتھ ہی برطانوی تاجروں نے وسطی ہندوستان سے مزدوروں کو یہاں لا کر آباد کیا اور آسام کی آبادی میں کامیابی سے ردوبدل کیا۔ بٹوارے کے دوران آسام کاضلع ”سلہٹ” مشرقی پاکستان میں شامل کر دیا گیا۔ بٹوارے کے بعد ہندوستانی حکومت نے اس صوبے اور یہاں کے قبائل کی طاقت کو توڑنے کے لیئے بار بار تقسیم کیا۔ 1963 میں ضلع ”ناگا ہِلز” میں توینسانگ کا علاقہ ملا کر بھارت کی 16 ریاست ”ناگا لینڈ” بنا دی گئی۔ پھر 1970 میں، سطح مرتفع میگھالیہ کے لوگوں کے پر زور اسرار پر آسام کے اندر ایک خودمختار ریاست بنائی گئی جو 1972 میں ایک علیحدہ ریاست ” میگھالیہ” کے نام سے وجود میں آئی۔ 1972 میں ہی میزا رام اور اروناچل پردیش کو آسام سے علیحدہ کر کہ الگ ریاست بنا دیا گیا۔ یوں آسام کی بہت بڑی ریاست سمٹ کر رہ گئی۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ علاقہ مختلف قبائل کا ہے جو وقتا فوقتا بھارت سے اپنی آزادی اور خود مختاری کا تقاضا کرتے رہتے ہیں۔ 1970 کے بعد سے آسام کی آزادی کے لیئے بہت سی تنظیمیں وجود میں آئیں جن میں ” یونا ئیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام” ( ULFA ) ” مسلم لبریشن ٹائیگرز” ”آسام رائفلز” اور ”نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ بوڈو لینڈ” شامل ہیں۔ 1990 میں بھارتی فوج نے ان تنظیموں کےخلاف آپریشن شروع کیا جس میں ULFA کے 12،000 جنگجو مارے گئے اور دس سال تک یہ علاقہ جلتا رہا۔ ULFA مسلح کوشِشوں کے ذریعے ایک آزاد آسامی ریاست کا قیام چاہتی ہے جس میں ا±سے عوامی حمایت بھی حاصل ہے۔ 1990 میں بھارتی حکومت نے اس تنظیم پر پابندی لگا دی تھی۔ آج تک اس علاقے میں نسلی فسادات عروج پر ہیں اور بھارتی فوج چاہ کر بھی اپنی رٹ یہاں قائم نہیں کر پائی۔
3- منی پور:میانمار کے مشرق میں واقع ریاست منی پور اپنے لوک رقص اور ثقافتی رنگوں کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ برطانوی راج اور اس سے پہلے یہ ریاست ایک ” شاہی ریاست” تھی۔ منی پور نے انگریز دور میں ”برما” کی بجائے ”ہندوستان” میں ضم ہونے کو ترجیح دی۔ 1949 میں ”مہاراجہ ب±دھا چندرا” نے ریاست کا الحاق بھارت سے کر دیا جس پہ مختلف ریاستی گروہوں کو شدید تحفظات تھے۔ اور یہی تحفظا ت آنے والے 50 سالوں میں ریاست میں بدامنی اور علیحدگی پسند تحریکوں کی کارروائیوں کی وجہ بنے۔ 2010 سے 2013 کے درمیان ان ہنگاموں اور کارروائیوں میں ہزاروں افراد قتل ہوئے۔ منی پور میں 53 فیصد لوگ ”میٹی” قوم جبکہ 20 فیصد مختلف قبائل سے ہیں۔ ہندومت کے ساتھ ساتھ بدھ مت، عیسائیت اور اسلام کے ماننے والے بھی یہاں بستے ہیں۔ یہاں موجود علیحدگی پسند تحریکوں کی دو اقسام ہیں، قبائلی عوام اور شہری عوام۔ جبکہ تمام تحریکوں ”منی پور پیپلز لبریشن آرمی” ، ”یونائیٹڈ نیشنل لبریشن فرنٹ’ اور ”پیپلز فرنٹ آف منی پور” کی آواز ایک ہی ہے، ریپبلک آف منی پور کی آزاد ریاست کا قیام۔
4- میگھالیہ: بنگلہ دیش اور آسام کے درمیان واقع ”مشرق کے سکاٹ لینڈ” میگھا لیہ کو اگر موسلا دھار بارشوں ، جنگلات اور بادلوں کی سر زمین کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ ریاست کے 70 فیصد رقبے پر ایسے جنگلات ہیں جہاں بھارت میں ریکارڈ بارش ہوتی ہے۔ یہ بھارت کی وہ ریاست ہے جہاں عیسائی اکثریت میں ہیں۔ 1972 میں آسام کے ”خاصی”، ”گارو” اور ”جینتیا ” ضلعوں کو ملا کر ریاست میگھا لیہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اور حیرت انگیز طور پر انگریزی ریاستی سرکاری زبان قرار پائی۔ برٹش راج سے پہلے بھی خاصی، گارو اورجینیتا قبائل کی اپنی الگ الگ ریاستیں تھیں جنہیں پہلے آسام اور پھرصوبہ مشرقی بنگال و آسام کا حصہ بنا دیا گیا۔ لیکن تب بھی اس علاقے کو ”نیم خود مختار” ریاست کا درجہ حاصل رہا۔ شروع شروع میں تو میگھا لیہ کے قیام کو ایک ”وسیع بھارتی ریاست میں الگ قومیت کےانضمام” کی مثال کے طور پر بہت سراہا گیا لیکن جلد ہی اس غبارے کی ہوا نکل گئی جب مقامی قبائل کے درمیان ایک قوم کے طور پر ہم آہنگی پیدا نہ ہو سکی اور بھارتی قوم پرستی ، خاصی اور گارو قوم پرستیوں کے مدِ مقابل آ کھڑی ہوئی۔ دوسری ریاستوں میں موجود قوم پرستی اور لسانیت پرستی نے آگ پر تیل کا کام کیا۔ قبائل کے آپسی لڑائی جھگڑوں سے حالات مزید خراب ہوتے چلے گئے اور میگھا لیہ میں مختلف علیحدگی پسند گروہوں ( AMLA، HNLC) نے جنم لیا۔
5-میزو رام: آبشاروں، جھیلوں ،وادیوں اور پرانی رسومات کی سر زمین میزورام ، برما اور بنگلہ دیش کی سرحدوں کیساتھ واقع ہے۔ اسکے معنی ہیں ”میزو کی سر زمین”۔ دیگر ریاستوں کی طرح 1972 تک میزورام بھی پہلے آسام کا حصہ تھی جب اسے آسام سے نکال کر ایک یونین اور پھر 1987 میں بھارت کی تیئیسویں ریاست بنایا گیا۔ یہ بھارت کی دوسری کم آبادی والی ریاست ہے۔ ریاست کے 95 فیصد باشندوں کا تعلق جنوب مشرقی ایشیا سے آںے والے مختلف قبیلوں سے ہے۔ بھارت میں سب سے زیادہ قبائل اس ریاست میں رہتے ہیں۔ اور میزورام بھارت کی تین ”عیسائی اکثریتی” ریاستوں میں سے ایک ہے۔ ریاست میں بد امنی کی سب سے بڑی وجہ باہر سے آنے والے آسامی لوگوں کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور مقامی ”میزو” قبائل کا نظر انداز ہونا ہے۔ یہاں بسنے والے قبائل ہمارس، چکماس، بروس، لائیس اور ریانگس حکومت سے علیحدگی اور خود مختاری کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ ”میزورام فارمرز لبریشن فورس” اور ”زومی انقلابی تحریک” بڑے علیحدگی پسند گروہ ہیں۔
6-ناگا لینڈ: آبادی کے لحاظ سے بھارت کی سب سے چھوٹی ریاست ” ناگا لینڈ” اروناچل پردیش، آسام، منی پور اور برما کے درمیان واقع ہے۔ اس ریاست میں 16 قبائل رہتے جو زبان، رسم و رواج اور پہناوے تک میں ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ زیادہ تر آبادی عیسائیت کی پیروکار ہے۔تقسیم کے بعد ناگا لینڈ ریاست آسام کا حصہ تھا، 1963 میں اسے علیحدہ ریاست بنا دیا گیا۔ اگرچہ ناگا قوم کی خودمختاری اور آزادی کے بھرپور مطالبے کے بعد اسے الگ ریاست بنایا گیا لیکن اس کے پس پردہ جہاں ایک طرف بھارت آسام کی قوت کو کم کرنا چاہتا تھا وہیں دوسری طرف ناگا قبائل کو اپنے آئین کے تحت لانا چاہتا تھا۔ لیکن بھارتی حکومت کے عزائم پورے نہ ہو سکے آسام میں اب بھی بغاوت جاری ہے اور ناگا لینڈ علیحدہ ریاست بن جانے کے باوجود بھارتی آئین کو ماننے سے انکاری ہے۔ اور یہاں بھی بقیہ 6 ریاستوں کی طرح آزادی کی زبردست تحریک جاری ہے۔
ناگا قوم ، ناگالینڈ ،آسام اور برما تک پھیلی ہوئی ہے۔ ناگا لینڈ کا علاقہ آزادی سے قبل بھی انتہائی پسماندہ تھا لیکن اگریزوں نے اس علاقے کو فروغِ عیسائیت کے لیئے تر نوالہ سمجھتے ہوئے ترقی دی اور عیسائی مشنریز نے یہاں کے لوگوں کو تعلیم و صحت کے بدلے میں عیسائیت کی تبلیغ کی۔ تبھی آج اس ریاست میں (میگھالیہ اور میزورام کی طرح) عیسائیت سب سے بڑا مزہب ہے۔1947 میں جب ناگا قوم نے بھارت کے ساتھ شامل ہونے سے انکار کرتے ہوئے آزادی کا اعلان کیا تب بھارت نے کشمیر، حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ کی طرح اس علاقے پر بھی فوج کشی کر دی۔ بہت سے ناگا نوجوان مارے گئے لیکن حریت پسندوں کی بھارتی فوج کے خلاف مزاحمت ختم نہ ہوئی اور ایک بار پھر 1955 میں ناگا قوم نے بھارت سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ بھارت نے اسے بغاوت تصور کرتے ہوئے ناگا قوم پر ایک بار پھر جنگ مسلط کردی۔ ناگا لینڈ میں بھر پور زمینی اور فضائی کارروائی کی گئی اور کئی دیہاتوں کو جلا کر راکھ کر دیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں ناگا قوم کے لوگ مارے گئے اور بہت سوں کو سپردِ زنداں کر دیا گیا۔ ان تمام اقدامات کے باوجود ”ناگے” خاموش نہیں بیٹھے اور احتجاج شروع کر دیا۔ تنگ آ کر بھارت نے 1963 میں ناگا لینڈ کو آسام سے علیحدہ کر کے ایک الگ ریاست بنا دیا۔ ناگوں کی بھارت سے نفرت بڑھتی چلی گئی اور یہ بھارت سے سوائے آزادی کے کسی چیز پر سمجھوتے کو تیار نہ تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ کشمیریوں کے بعد اگر کسی نے بھارت کو چھٹی کا دودھ یاد دلایا ہے تو بلاشبہ وہ ناگا قوم ہے۔ناگا لینڈ میں ” ناگا نیشنل کونسل” ، ”نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگا لینڈ” اور ”ناگامی فیڈرل آرمی” کے نام سے مسلح تنظیمیں موجود ہیں۔ ناگا لینڈ کے عیسائی ہونے کی وجہ سے یورپ کے عیسائی ممالک بھی ان کی حمایت کرتے ہیں خاص طور پہ فرانس اور جرمنی جبکہ ناگا لیڈروں نے نیدرلینڈ میں اپنی جلا وطن حکومت کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔ تمام 7 ریاستوں میں ناگالینڈ کی تحریک نہ صرف عسکری بلکہ سیاسی طور پہ بھی مضبوط ہے۔ ناگا قوم کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ اپنے دشمن کے سر کاٹ کہ اسے محفوظ کر لیتے ہیں۔ ناگے بھارت کا سر کاٹتے ہیں یا بھارت انکا سر کچلنے میں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
7-تری پورہ: تری پورہ کی شاہی ریاست وہ آخری ریاست تھی جس نے حکومتِ ہندوستان سے 1949 میں الحاق کیا۔ اگر نقشے پر نظر ڈالی جائے تو تری پورہ کی ریاست تین اطراف سے بنگلہ دیش سے یوں گِھری ہے جیسے کسی ماں نے بچے کو گود میں لے رکھا ہو۔تری پورہ میں بدامنی اور سرکشی کی تاریخ 1970 سے شروع ہوتی ہے جب قرب و جوار کے بنگالیوں نے اس علاقے میں منتقل ہونا شروع کیا۔ آہستہ آہستہ بنگالیوں نے یہاں کی آبائی اقوام اور قبائل کو اقلیت میں بدل دیا۔ جسکے نتیجے میں نہ صرف ان قبائل کی روایتوں اور ثقافت کو نقصان پہنچا بلکہ انکی معاشی، سیاسی اور معاشرتی زندگی میں بھی انہیں مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ باہر سے آ بسنے والے بنگالیوں کے خلاف ریاست کے لوگوں میں نفرت پنپتی رہی اور آخر تری پورہ کے باسیوں نے بھی اپنی بقا کے لیئے ہتھیار اٹھا لئے۔مارچ 1989 میں ” نیشنل لبریشن فرنٹ آف تریپورہ”(NLFT) اور1990 میں ” آل تریپورہ ٹائیگر فورس”ATTP کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ان گروہوں کے قیام کا واحد مقصد صرف ”بنگالی مہاجروں ” کا ریاست سے اخراج تھا لیکن بھارتی حکومت کی ہٹ دھرمیوں اور نا انصافیوں سے تنگ آ کر ان تنظیموں نے اپنا دائرہ کار وسیع کرلیا۔ شمال مشرقی ریاستوں یا “سات بہنوں” کا علاقہ کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہ تھا۔ ہمیشہ سے یہ علاقے یا تو خودمختار رہے ہیں یا ان پر مختلف قبائل اور راجوں نے حکومت کی ہے۔ اس علاقے کے ایک طرف ایشیا کا ”منگول” حِصہ جبکہ دوسری جانب ایشیا کا ”آرین” حِصہ ہے۔ یہاں کہ لوگ نہ صرف نسلی طور پہ، بلکہ مزہبی، معاشرتی، جغرافیائی اور ثقافتی طور پہ جنوب مشرقی ایشیا، تبت اور برما سے جڑے ہوئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کو چاہیئے کہ ان علاقوں پر بھارت کے جبری قبضے کا نوٹس لے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain