تازہ تر ین

ایسے ہوتے ہیں وہ خظ۔۔۔

رفیع سودا کا شعر آج کل ہر طرف رائتے کی طرح پھیلے خطوط کی عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے ۔سودا کہتے ہیں ۔
تیرا خط آنے سے دل کو میرے آرام کیا ہوگا
نہ جانے کہ اس آغاز کاانجام کیا ہوگا۔۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے ایک خط کیا لکھا ملک کی عدالتوں میں خط ہی خط پھیل گئے۔ویسے تو ہماری پیاری عدلیہ الاماشاء اللہ ایسی ہے کہ انہیں کوئی عام آدمی اپنے کسی مسئلے کے لیے خط لکھے تو نہ کبھی کسی خط کا جواب آتا ہے اور نہ ہی یہاں ایسی روایت کہ کسی عام آدمی کے خط پرکسی چیف جسٹس یا جج صاحب نے کوئی نوٹس لے کر اس کی سماعت کی ہو۔شاید یہی وجہ ہوکہ ریشم بی بی اور دلشاد بیگم کو یہ سب اچھی طرح معلوم ہوگا یا اس نے بھی کسی نامہ برسے دریافت کرلیا ہوگا جیسے قمر بدایونی نے پوچھ لیا تھا کہ ۔۔
نامہ برتو ہی بتا تونے تو دیکھے ہوں گے
کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں۔۔
توریشم بی بی یا دلشاد بیگم جو بھی ہیں انہوں نے ایسے خط لکھے ہیں کہ جواب دینے کے لیے پورا ملک انہیں تلاش کررہا ہے۔ان خواتین کوہی نہیں پورے ملک کو بھی اچھی طرح معلوم ہوگیا ہے کہ ’’ایسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں‘‘
مجھے سپریم کورٹ میں خط بھیجنے کے ذاتی تجربات ہیں۔ یہ دوہزار چودہ پندرہ کی بات ہے کہ ایک اجتماعی مسئلہ تھا اور اس وقت افتخار چودھری ملک کے چیف جسٹس تھے ۔ جوڈیشل ایکٹوازم اپنے عروج پر تھا ۔ چیف جسٹس اس سے پہلے پیپلزپارٹی کی حکومت کو تگنی کا ناچ نچاچکے تھے۔ ایک وزیراعظم کو گھر بھیج چکے تھے اور عوام ان میں ایک مسیحا اور ہیرو تلاش کررہے تھے۔پورے ملک کی انتظامیہ پر ان کی دھاک بیٹھ چکی تھی ۔ ہم نے بھی سوچا کہ کیوں نہ عزت مآب مائی لارڈ کوخط بھیج کر ایک اجتماعی مسئلہ جس سے کوئی دس بارہ ہزار خاندان پریشان تھے ان کی توجہ دلائی جائے وہ اس وقت سب کے مسائل حل کررہے ہیں چھوٹی چھوٹی باتوں پرازخود نوٹس لے لیتے ہیں تو یہ مسئلہ بھی وہ ضرور حل کریں گے۔ میں نے ان کے نام ایک خط تحریر کیا ۔مسئلہ بیان کیا اور بھیج دیا ۔کوئی خیر خبر نہ آئی ۔میں نے کہا کہ ڈاک کا کیا بھروسہ چلیں سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو ای میل کردیتے ہیں یہ تو کنفرم جناب عالی کے دربار میں پہنچ ہی جائے گی ۔وہ خط آج بھی میری بھیجی گئی ای میلز والے باکس میں محفوظ ہے لیکن مائی لارڈ کی طرف سے نہ کوئی جواب آیا اور نہ ہی کبھی اس مسئلے کی شنوائی ہوئی۔
افتخار چودھری چلے گئے لیکن وہ مسئلہ وہیں موجود تھا تو پھر ایک بار مجھے اس وقت دوبارہ شوق چڑھا جب جناب انورظہیر جمالی صاحب ملک کے چیف جسٹس تھے۔ میں نے پھر وہی خط نکالا اور اور چیف جسٹس کا نام تبدیل کرکے دوبارہ بھیج دیا ۔جناب انور ظہیر جمالی صاحب بھی چلے گئے لیکن میرے خط کو کسی نے درخوراعتنا سمجھنا گوارا نہ کیا ۔مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا کہ میں نے کسی نامہ بر سے دریافت ہی نہیں کیا تھا کہ کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں۔پھر جب ثاقب نثار صاحب براجمان ہوئے تو میرے دل میں پھر وہ خط ان تک پہنچانے کی جستجو جاگ گئی ۔ میں نے سوچا نہ ڈاک کام آئی نہ ای میل تو کسی کے ہاتھ یہ خط کیوں نہ پہنچایا جائے۔یہ سوچ کر میں نے غورکرنا شروع کیا کہ وہ کون ہوسکتا ہے ۔میں ان دنوں 92نیوز میں ایگزیکٹوپروڈیوسرتھا ۔اسی چینل پر رؤف کلاسرا صاحب پروگرام کرتے تھے ان کی ٹیم کا ایک رکن تھا جو اسی شومیں ثاقب نثار صاحب کی عدالتی سرگرمیاں رپورٹ کیا کرتاتھا۔مجھے لگا کہ یہ چیف جسٹس کے بڑا قریب ہوگا تو چلیں ان سے بات کرتے ہیں۔میں نے ان سے رابطہ کیا اور درخواست کی کہ خط چیف جسٹس تک پہنچادیا جائے وہ آج کل عوامی نوعیت کے کیسز میں سب کو ٹانگ رہے ہیں تو یہ لوگوں کا ایک دیرینہ مسئلہ ہے شاید اس کی بھی شنوائی ہوجائے۔ اس صحافی نما شخص نے بڑے ہی روکھے انداز میں مجھ سے وہ خط اپنے واٹس ایپ پر بھیجنے کا کہا ۔میں نے وہ ان کو بھیج دیا لیکن اس کا بھی کبھی کوئی جواب یا رسیدنہیں ملی ۔
یہ تو وہ خطوط ہیں جو میں نے ذاتی طورپرمائی لارڈز تک پہنچائے یا کوشش کی لیکن ایک خط کالم نگار اور تجزیہ کار جناب حفیظ اللہ نیازی کی طرف سے مجیب الرحمان شامی صاحب نے تیار کروایا اور اس خط پر سو سے زائد صحافیوں ،دانشوروں اورانسانی حقوق کے سرگرم کارکنو ں کے دستخط تھے۔ میرا نام بھی اس خط میں شامل تھا۔ یہ خط ستمبر 2023کو چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ صاحب کو لکھا گیا تھا۔ اس خط میں حفیظ اللہ نیازی کے صاحبزادے حسان نیازی کو سامنے لانے اوروالدین سے ملاقات اور اوپن ٹرائل کی درخواست کی گئی تھی۔
مجھے تو اپنے تجربات سے وہی سبق ملا تھا جو امیر مینائی کو ملا تھا کہ۔
میرا خط اس نے پڑھا ،پڑھ کے نامہ بر سے کہا
یہی جواب ہے ،اس کا کوئی جواب نہیں ۔۔
لیکن میڈم شبنم میرے جیسے لوگوں میں سے تو ہر گز نہیں ہیں انہوں نے ایسے خطوط لکھے ہیں کہ آگ ہی لگادی ہے ۔اب انہوں نے اپنے خطوط میں لکھا کیا ہے اور وہ ہمارے مائی لارڈز کی توجہ کس جانب مبذول کروانا چاہتی تھیں یہ بات پیچھے رہ گئی ہے اور خطوط کے ساتھ بھیجا جانے والا ’’سفوف ‘‘ہی مرکزی مضمون بن چکا ہے ۔اب ہماری ریاست نے ان خطوط کو دہشت گردی قرار دے کرنامہ بروں سمیت سب کی تلاش شروع کررکھی ہے۔ملک میں چونکہ بندر کے ہاتھ ماچس والا ماحول ہے اور سوشل میڈیا کی ماچس سب کے ہاتھ میں ہے تو وہاں ان خطوط بارے ہر کوئی اپنی اپنی رائے دے رہا ہے۔جو دوست نئے نئے انٹی اسٹیبلشمنٹ ہوئے ہیںوہ سب شبنم کو ’’بھائی لوگ‘‘ ہی قرار دے رہے ہیں۔ایک اڑتی ارٹی خبر کہیں سے یہ آئی کہ پنڈی کے جس علاقے سے یہ خط پوسٹ کیے گئے تھے وہاں کے سی سی ٹی وی خراب ہیں۔اس پر سینئر اینکرپرسن نے بڑی تفاخرانہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’’دیکھا میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ سی سی ٹی وی نہیں ملے گی‘‘ اب تازہ خبر یہ آئی ہے کہ پولیس نے چار سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج حاصل کرلی ہے اور کچھ مشکوک لوگوں سے تفتیش بھی جاری ہے۔اب میں سوچ رہا ہوں کہ کیا حامد میر صاحب کو یہ بھی پہلے ہی پتہ ہوگا یا نہیں۔خیر اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط پر کیس کی لمبی تاریخ پڑگئی ہے کہ ہمارے ملک کے ججز کو لاکھوں کی تنخواہ اور مراعات کے ساتھ یہ سہولت بھی میسر ہے کہ وہ جب چاہیں اپنے اپنے آبائی علاقے کی سپریم کورٹ رجسٹری میں ڈیوٹی لگواکر اسلام آبا سے نکل سکتے ہیں تو اب وہ عید کے بعد کبھی واپس ڈیوٹی پراسلام آباد جائیں گے تو فل کورٹ بن جائے گا ۔اس وقت تک آپ ریشم باجی کے خطوط کے جواب تلاش کرتے رہیں۔
احسن مارہروی کی زبانی کہ ۔۔
کسی کو بھیج کے خط ہائے یہ کیسا عذاب آیا
کہ ہراک پوچھتا ہے نامہ برآیا ،جواب آیا۔۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain