تازہ تر ین

خرابی جمہوریت میں نہیں‘ لیڈرشپ میں ہے

خیر محمد بدھ
اس وقت ملک میں صدارتی نظام حکومت لانے کی بحث چل رہی ہے بہت سے سیاسی افلاطون اور ارسطو صدارتی اور پارلیمانی نظام کے حق اور مخالفت میں بیان بازی کر رہے ہیں رضا ربانی صاحب نے تو باقاعدہ سینٹ آف پاکستان میں ایک قرار داد صدارتی نظام کے خلاف منظور کروائی ہے۔ پولیٹیکل سائنس کے طالب علم جانتے ہیں کہ یہ دونوں نظام جمہوری ہیں دونوں کے فوائد یکساں ہیں، تاہم ہر ملک اور قوم اپنے معروضی، سیاسی اور سماجی حالات کے پیش نظر ایک نظام کا انتخاب کرتا ہے۔دنیا کے بہت سے ممالک امریکہ، فرانس، روس وغیرہ میں صدارتی نظام ہے جبکہ کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ وغیرہ میں پارلیمانی نظام کام کر رہا ہے۔ 2017ء کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے 206 ممالک میں سے 159 ممالک میں صدارتی نظام قائم ہے جبکہ دنیا کے ایسے ممالک بھی ہیں جن میں نہ صدارتی نظام ہے نہ پارلیمانی بلکہ جمہوری نظام حکومت ہی نہیں ہے ان میں چین، نارتھ کوریا، کیوبا، لاؤس،ویتنام، برونائی، بحرین، مناکو، اردن، کویت، سعودی عرب وغیرہ شامل ہیں ان ممالک میں سیاسی اور سماجی نظام بہت ہی خوبصورت طریقے سے کام کر رہا ہے اور کسی قسم کا سیاسی خلفشار نہیں ہے تعمیر و ترقی کا عمل بھی جاری ہے۔
ہمارے ملک میں آزادی کے وقت برطانوی جمہوریت کے ماڈل پر طرز حکومت کی بنیاد رکھی گئی جمہوری نظام انتہائی کمزور اور سازشوں کا شکار ہوتا چلا گیا پھر 1962ء میں بنیادی جمہوریت کا نظام قائم ہوا ملک میں جمہوریت کے نام پر کئی تجربے ہوئے جن میں کنٹرولڈ ڈیموکریسی،اسلامی سوشلزم، صدارتی نظام، اسلامک ڈیمو کریسی، پارلیمانی نظام وغیرہ پر عمل ہوا۔ سیاسی نظام کے نت نئے تجربات نے عدم استحکام کے علاوہ اداروں کو کمزور کیا لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کیا اور آج 72 سال گزرنے کے بعد بھی ہم نئی جمہوری روایات کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کی ہے کہ نظام کوئی بھی ہو وہ نہ تو مکمل خامیوں سے مبرا ہوتا ہے اور نہ ہی اس میں سب اچھائیاں ہوتی ہیں۔ سسٹم اتنا برا نہیں ہوتا۔اصل مسئلہ سیاسی قیادت کا ہے۔ ان لیڈران کا ہے جو اس نظام کو چلاتے ہیں جو ریاستی عہدوں پر فائز ہوتے ہیں ان میں پارلیمنٹ انتظامیہ اور عدلیہ کے طاقتور ترین لوگ ہیں جن کے ہاتھ میں اقتدار ہوتا ہے اگر یہ لیڈر ان محب وطن اور ایماندار ہوں گے تو جو بھی نظام ہوگا وہ صحیح سمت میں چلتا رہے گا اور اگر لیڈر کرپٹ،نااہل اور بے ایمان ہونگے تو پھر آپ جو نظام بھی لائیں وہ صحیح طور پر کام نہیں کرے گا۔ اس نظام کی کامیابی یا ناکامی کا ذمہ دار سیاسی لیڈر،صاحبا ن اقتدار اور لیڈرشپ ہے لہٰذا سب سے پہلے ان کی اصلاح کی طرف توجہ دی جائے۔ میرے خیال میں اگر ہم اپنے سیاسی نظام میں صرف تین اصلا حات لاگو کرلے تو ہمارا ہر نظام کامیابی سے چلتا رہے گا۔ سب سے پہلے ہم انتخابی اصلاحات Electoral Reformsکریں۔ جن میں سیاسی جماعتوں کے قیام،ان کے اندرونی انتخابات، ان کی فنڈنگ وغیرہ سے لے کر امیدواروں کی اہلیت، تعلیمی قابلیت،انتخابی مہم کا ضابطہ اخلاق، الیکشن کے انعقاد، ووٹ کی گنتی اور نتائج کے اعلان تک تمام امور پر متفقہ لائحہ عمل بنایا جائے۔ جب تک چھانگامانگا کی سیاست، ڈسکہ کا الیکشن اور ووٹوں کی خریداری جاری رہے گی اس وقت تک نہ صدارتی نظام چل سکتا ہے اور نہ ہی پارلیمانی نظام۔
کتنے دکھ کی بات ہے کہ الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگتے ہیں ہارنے والے ٹربیونل اپیل کرتے ہیں۔ اسمبلی کی مدت پوری ہو جاتی ہے۔ لیکن ان کا فیصلہ اس وقت تک نہیں ہوتا۔ اس طرح ملک میں چپڑاسی بھرتی ہونے کے لئے بھی تعلیمی قابلیت کی حد مقرر ہے لیکن ممبران پارلیمنٹ کے لئے کوئی تعلیمی شرط نہیں ہے۔ وہ ممبران جن کا بنیادی کام قانون سازی ہے اور وہ بھی انگریزی میں کیوں کہ پارلیمنٹ کے تمام ایکٹ ہو یا آرڈی نیس سبھی انگریزی میں جاری ہوتے ہیں۔بجٹ بک بھی انگریزی میں ہوتی ہے اگر ممبران تعلیم یافتہ نہیں ہوں گے تو پھر وہ بحث میں کس طرح حصہ لیں گے۔ ملک کے سیاسی نظام میں خرابی اس حدتک چلی گئی ہے کہ جعلی ڈگری والے اسمبلی میں پہنچ گئے ہیں اور ایسے لوگوں کو صرف نااہلی کی سزا ملی ہے اور وہ بھی محدود مدت کے لیے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایسے لوگوں کو عبرت ناک سزا ملتی اور وہ ہمیشہ کے لئے نااہل ہوتے تاکہ پارلیمنٹ جیسے مقدس ادارے میں ایسے لوگوں کا ہمیشہ کے لئے داخلہ بند ہو جاتا۔ دوسری اہم بات جو سیاسی نظام کو ٹھیک کرنے کے لئے ضروری ہے وہ ملک میں پولیس کا کردار ہے۔جمہوریت کے نام پر لوگوں کو غلام بنایا جا رہا ہے الیکشن کے دن ہو یا عام حالات طاقتور لوگ پولیس کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کرتے ہیں اپنے مخالفین پر جھوٹے مقدمات بناتے ہیں ان پر تشدد اور پولیس مظالم کے ذریعے انہیں اپنے ساتھ ملاتے ہیں اس میں پولیس کا قصور نہیں ہے۔
جب سیاسی لوگوں کے کہنے پر تبادلے اورتعیناتیاں ہوں گی۔ تو میرٹ پر کیسے کام ہوگا ہر حکومت نے پولیس اصلاحات کا وعدہ کیا۔ پی ٹی آئی نے بھی پولیس ریفارمز کا اعلان کیا۔ لیکن آج تک وہی پرانا نظام چل رہا ہے۔ سیاسی لوگ پولیس کو بلدیاتی الیکشن سے لے کر قومی انتخابات تک استعمال کرتے ہیں لوگ غربت کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں اگر جھوٹے مقدمات کے ذریعے لوگوں کی وفاداریاں خریدی جا رہی ہیں۔ انتخابی نتائج تبدیل ہو رہے ہیں۔بیلٹ بکس تک چوری ہورہے ہیں۔ تو اس میں پارلیمانی نظام کا قصور نہیں ہے بلکہ صورتحال کے ذمہ دار لیڈران اور برسراقتدار طبقہ ہے جس کا احتساب ہونا چاہیے۔ نظام کی بہتری کے لئے تیسرا اہم قدم کریمنل جسٹس سسٹم میں تبدیلی لانا ہے ہمارا نظام کرپٹ اور بوسیدہ ہو چکا ہے پورے ملک میں ایک بندہ آپ کو نہیں ملے گا جو یہ کہے کہ ملک میں فوری اور سستا انصاف مل رہا ہے یا میرٹ پر فیصلے ہو رہے ہیں۔ خود وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ہمارے ہاں دو قوانین ہیں ایک قانون طاقتور کے لئے اور دوسرا غریب لئے۔جب تک قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی میرٹ پر فیصلے نہیں ہونگے انصاف سستا اور فوری طور پر دستیاب نہیں ہوگا اس وقت تک ظلم اور زیادتی جاری رہے گی۔ خوا ہ ملک میں پارلیمانی نظام ہو یا صدارتی۔عدلیہ ریاست کا اہم ستون ہے قانون اور آئین کی تشریح اور اس پر عمل درآمد کی ذمہ دار ہے مغربی جمہوریت کی کامیابی میں آزاد اور خودمختار عدلیہ کا زبردست کردار ہے۔
ہم نے 72 سال میں تمام نظام اپنا ئے ہیں۔ جمہوریت کی تمام اقسام کو آزمایا ہے لیکن ہم نے سبق حاصل نہیں کیا ہمارے ملک کے تمام مسائل کے ذمہ دار ہمارے لیڈر ہیں ہماری قیادت ہے اور صاحب اقتدار سیاسی لوگ اور آئینی اداروں کے سربراہ ہیں ہر نظام میں خامیاں اور خوبیاں ہیں لیکن اصل کمال تو نظام کو چلانے والوں کا ہے۔سڑک کتنی خراب ہو گاڑی میں کتنا نقص ہو۔ اگر ڈرائیور سمجھدار اور ذہین ہو تو وہ منزل تک پہنچنے میں ضرور کامیاب ہو گا۔ ہمارے لیڈر خلوص دل سے انتخابی اصلاحات،پولیس ریفارمز اور کریمنل جسٹس سسٹم میں بہتری پر متفق ہوجائیں۔ آئین اور قانون کی پاسداری کو وطیرہ بنا لیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ملک میں جمہوریت مضبوط نہ ہو لیڈرشپ کی تبدیلی نظام کی تبدیلی سے زیادہ اہم ہیں سیاسی جماعتیں اور لیڈران اپنی سوچ تبدیل کریں پھر نظام صحیح کام کرے گا۔ بقول علامہ اقبال
مجھے را ہ زنوں سے گلہ نہیں
تیری رہبری کا سوال ہے
(کالم نگار سیاسی وسماجی موضوعات پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain