تازہ تر ین

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ

طارق ملک
جب سے عمران خان کی حکومت بنی ہے اپوزیشن کے خلاف کڑے احتساب کا نعرہ لگایا جا رہا ہے اور اپوزیشن کی طرف سے عمران خان کی حکومت گرانے کے دعوے کئے جارہے ہیں دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے غریب عوام کے مسائل میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔
عمران خان نے حکومت سنبھالتے ہی میڈیا سے گفتگو میں اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے اور مل کر عوامی مسائل حل کرنے کا عندیہ دیا تھا مگر اپوزیشن نے عمران خان کی قومی اسمبلی میں پہلی تقریر کے دوران ہلڑ بازی کرکے عمران خان کو الگ راستہ اپنانے پر مجبور کیا جس پر عمران خان نے اپوزیشن کے ساتھ نہ بیٹھنے کا فیصلہ کیا جس کا سب سے زیادہ نقصان ملک کے غریب عوام کو ہوا جن کے مسائل جب سے لے کر اب تک جوں کے توں ہیں بلکہ ان میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔ نوازشریف اور مریم نواز کی سزاؤں کے بعد شہبازشریف، حمزہ شہباز، خواجہ سعد رفیق، خواجہ سلمان رفیق، خواجہ آصف، رانا ثناء اللہ اور شاہد خاقان عباسی کے خلاف دائرہ کردہ مقدمات کا ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ چیئرمین نیب کو چاہیے کہ وہ بروقت ان کیسز کے چالان احتساب عدالتوں میں بھجوانے کا بندوبست کریں تاکہ ان مقدمات کے فوری فیصلے ہوسکیں اور دودھ کا دودھ پانی کا پاین ہو جائے۔ جب سے عمران خان کی حکومت آئی ہے اپوزیشن عوامی مسائل کے حل کے لئے تجاویز دینے کے بجائے عمران خان کی حکومت گرانے پر زور لگا رہے ہیں جبکہ اپوزیشن کا اصل مقصد حکومت کو عوامی مسائل کے حل کے لئے تجاویز دینا ہوتا ہے۔
حکومتی ارکان بھی عوامی مسائل کو حل کرنے کے بجائے اپوزیشن اور متحدہ اپوزیشن کے خلاف باتیں کرنے پر مامور ہیں۔ میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی 80فیصد سے زیادہ وقت اور جگہ سیاسی مضامین اور گفتگو کو دی جا رہی ہے جوکہ عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں صرف الیکشن کے دنوں میں میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پر سیاسی امور کو کوریج دی جاتی ہے۔ پاکستان میں روزانہ ٹاک شو پر سیاسی گفتگو ہوتی ہے جبکہ تعلیم، صحت اور دیگر امور کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔
حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنے اپنے مفاد کی جنگ لڑ رہے ہیں جبکہ غریب عوام کے مسائل میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ اپوزیشن اور متحدہ اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ حکومت کو اس کی آئینی مدت مکمل کرنے دیں اور حکومت کو چاہیے کہ وہ اپوزیشن کے بجائے عوامی مسائل کے حل کی طرف توجہ دے۔ ملک میں اس وقت گڈگورننس کا فقدان ہے۔ صرف چند لوگ اور ضلعی انتظامیہ کے افسر ہیں جو دن رات عوامی مسائل کے حل کیلئے کوشاں ہیں۔ ڈپٹی کمشنر لاہور نے سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر سونے والے ان لوگوں کو جو پناہ گاہوں میں نہیں جاتے کمبل، رضائیاں اور گرم کپڑے تقسیم کئے اور پناہ گاہوں میں جانے والے غریب لوگوں میں بھی گرم کپڑے تقسیم کئے جوکہ ایک احسن اور قابل تقلید کام ہے۔ اسی طرح ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ روزانہ ڈینگی اور کرونا کے مریضوں کو سہولیات بہم پہنچانے، شہر سے تجاوزات کے خاتمے، گراں فروشوں کے خلاف کارروائیاں اور پناہ گاہوں کی چیکنگ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کمشنر گوجرانوالہ بھی عوامی خدمت کا جذبہ رکھتے ہوئے بڑھ چڑھ کر عوام کی خدمت میں مصروف ہیں۔
ہمارے مذہب نے سب سے زیادہ زور عوامی خدمت پر دیا ہے بنی نوع انسان کے لئے آسانیاں پیدا کرنا سب سے بڑی نیکی ہے۔ ہمارے پیارے نبیؐ کی مستند حدیث ہے جوکہ حضرت علیؓ سے مروی ہے آپؐ نے فرمایا کسی مریض کی عیادت کرنے والے کے لئے 70 ہزار فرشتے اُس کی مغفرت کے لئے دعا کرتے ہیں۔ اسی طرح حدیث پاک ہے جس نے ایک شخص کو قتل کیا اُس نے پوری انسانیت کا قتل کیا۔ ہمارے سیاستدانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ان کو ذاتی پسند اور ناپسند کو پس پشت ڈال کر عوامی مسائل کے حل کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
عوام تو بے بس ہیں شاید ان کا محاسبہ نہ کرسکیں لیکن ایک دن ان کو اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور عوام سے کی گئی زیادتیوں کا جواب دینا ہے۔ ہمارے بڑے سیاستدانوں جن میں نوازشریف، عمران خان، آصف علی زرداری، شہبازشریف اور مولانا فضل الرحمن شامل ہیں پاکستان میں اوسط عمر سے دگنی زندگیاں گزار چکے ہیں کسی بھی وقت کسی کا بُلاوا آسکتا ہے اس لئے تمام اختلافات کو بھلا کر ذاتی پسند اور ناپسند کوت رک کرکے تنقید برائے تنقید ختم کرکے عوامی خدمت میں شامل ہو جانا چاہیے۔ سیاست اگر صحیح طرح سے کی جائے تو یہ عبادت کا درجہ رکھتی ہے سیاست میں سب سے اہم عوامی خدمت ہوتی ہے جس شخص میں عوامی خدمت کا جذبہ نہیں ہے اسے سیاست میں حصہ لینے کا کوئی حق نہیں۔
پاکستان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں جس میں آئل، گیس، کوئلہ، معدنیات، اجناس اور پھل شامل ہیں سے مالامال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو وبائی امراض سے بھی کافی حد تک بچا کر رکھا ہے۔ کرونا کی وجہ سے دنیا میں بہت زیادہ نقصان ہوا ہے لیکن اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان میں اس وباء سے کم نقصان ہوا ہے۔ اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ عمران خان کو ان کی حکومت کے پانچ سال مکمل کرنے دیں کیونکہ تقریبات چار سال کا عرصہ سیاسی خانہ جنگی میں ضائع ہوچکا ہے اگر عمران خان اپنے بقایا ایک سال میں عوامی مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو عوام ان کو دوبارہ بھی ووٹ دیں گے اگر عوام نے ان پر دوبارہ اعتماد نہ کیا تو عوام کسی اور کا انتخاب کرلیں گے۔
(کالم نگار ریٹائرایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain