امیر مقام پاکستان کی سیاست کا ایسا نام ہیں کہ جس بھی پارٹی میں رہے ان کے تعلقات ہمیشہ’’ ٹاپ لیڈرشپ‘‘کے ساتھ رہے۔ان پرعہدوں اور نوازشات کی بارش ہی ہوتی رہی ۔اب ان کے پاس کیا ’’گیدڑسنگھی ‘‘ ہے یہ معلوم نہیں ۔جب تک پرویز مشرف زندہ اور طاقت میں رہے اس وقت تک تو ان کا ذاتی پستول امیر مقام کے پاس کسی گیدڑسنگھی سے کم نہیں سمجھا جاتا تھا۔سوات کے امیرمقام کا سیاست میں جنم پرویز مشرف کے بنائے لوکل گورنمٹ سسٹم میں 2001میں ہواجب وہ پہلی بار یونین کونسل کے ناظم بن گئے۔ایک سال بعد ہی پرویزمشرف نے عام انتخابات کروائے تو انہوں نے سوات سے متحدہ مجلس عمل (یہ قاضی حسین احمد کی قیادت میں پاکستان کی مذہبی جماعتوں کا اتحاد تھا جس میں مولانا فضل الرحمان اورجماعت اسلامی دوبڑی جماعتیں شامل تھیں)کے ٹکٹ پرپراپنا قومی اسمبلی کا پہلا الیکشن لڑااور اے این پی کے سفیر خان کا شکست دے کرقومی اسمبلی پہنچ گئے۔
یہاں سے امیر مقام کی اصل سیاست کا آغازہوتا ہے ۔وہ جیت کر تو ایم ایم اے کے ٹکٹ پر اسمبلی آئے تھے اوریہ اتحاد اس وقت مسلم لیگ ق کا مخالف تھا۔پرویز مشرف کی چھتری مسلم لیگ ق پر تھی اور ایم ایم اے کے رہنما مولانا فضل الرحمان قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اورصوبہ خیبرپختونخوا میں بھی متحدہ مجلس عمل کی حکومت تھی۔اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امیر مقام اپنی پارٹی میں رہ کر ایم ایم اے سے وفاداری کرتے اور اپوزیشن کی سیاست کرتے لیکن وہ اپوزیشن کی سیاست کے لیے پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔انہوں نے اس وقت کے ڈکٹیٹرپرویزمشرف سے قربت تلاش کرنا شروع کردی۔بہت ہی جلد انہوں نے خود کو پرویز مشرف کے اتنا قریب کرلیا کہ پرویز مشرف نے امیر مقام کو اپنا ذاتی اور بیش قیمتی گلوک پستول تحفے میں دے دیا۔امیر مقام نے اس کے بعد اپنی جماعت متحدہ مجلس عمل کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا۔وہ عام زبان میں لوٹے بن گئے اورق لیگ میں شامل ہوگئے ۔حیران کن بات یہ بھی تھی کہ ان کی جماعت متحدہ مجلس عمل اور اپوزیشن لیڈر مولانا فضل الرحمان نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی ۔وہ ق لیگ میں شامل ہوئے اور پرویز مشرف نے ان کو پانی و بجلی کا وزیربنادیا۔2008کا الیکشن انہوں نے مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر لڑا اور پھر جیت گئے ۔
وہ مسلم لیگ ق میں رکن قومی اسمبلی رہے لیکن بس ایسے ہی رہے کہ ان کی مزید آگے بڑھنے کی جدوجہد جاری رہی۔مسلم لیگ ق کے بعد انہوں نے اپنے محسن پرویزمشرف کی سب سے بڑی مخالف اور دشمن نمبر ون نوازشریف کی پارٹی کو اپنی اگلی منزل کے لیے منتخب کرلیا۔ایک طرف ڈکٹیٹر سے پستول کا تحفہ پانے اور مسلم لیگ ق کے صدر چودھری شجاعت کو ان کا ساتھ نہ چھوڑنے کا حلف دینے والے امیر مقام تھے تو دوسری طرف پرویز مشرف کے ہاتھو ں اپنا تختہ الٹوانے اور اپنی پارٹی سے بے وفائی کرنے والے چودھری شجاعت سے ناراض نوازشریف تھے۔لیکن امیر مقام کی کشش اس قدر زیادہ تھی کہ دونوں نے اپنا ماضی بھولنے کا فیصلہ کرلیا۔امیر مقام کونوازشریف نے نہ صرف اپنی پارٹی میں شامل کیا بلکہ انہیں پارٹی کا سینئرنائب صدر کا عہدہ بھی ساتھ ہی پیش کردیا۔
نوازشریف نے امیر مقام کو صرف اپنی پارٹی میں شامل ہی نہیں کیا بلکہ انہیں 2013کا الیکشن لڑنے کے لیے ریکارڈ چار ٹکٹ پیش کردیے۔ایک ایسے وقت میں جب نوازشریف کی پارٹی کا حکومت میں آنا طے شدہ تھا اس وقت بھی پارٹی کے چار ٹکٹ صرف ایک امیر مقام کو دے دیے گئے اور امیر مقام نے چار سیٹوں سے الیکشن لڑا اورچاروں ہی سیٹیں ہار گئے۔انہوں نے پہلی بار سوات کے ساتھ ساتھ پشاور سے بھی الیکشن لڑالیکن ان کو ہر جگہ سے ہی شکست ہوگئی ۔الیکشن میں ن لیگ کے اور بھی بہت سے عہدیداروں کو شکست ہوئی لیکن نوازشریف نے امیر مقام کا اپنی حکومت میں خاص خیال رکھا۔ان کو سوات میں ترقیاتی کاموں کے ٹھیکے دیے۔سرکاری عہدے بھی دیے رکھے۔
خیبرپختونخوا میں مسلم لیگ ن ایک بڑی پارٹی ہوتی تھی اور خاص طورپر ہزارابیلٹ تو پورا ہی ن لیگ کا تھا ۔ امیر مقام کے آنے سے مسلم لیگ ن کے خیبرپختونخوا میں اختلافات شروع ہوگئے ۔ نوازشریف پورے صوبے کو صرف امیرمقام کی نظر سے دیکھنے لگے تو ان کے دیرینہ ساتھی جو ان کی مشکلات میں ان کے ساتھ رہے وہ اس ’’امیرانہ ‘‘محبت سے اکتانے لگے ۔صوبے میں پارٹی سکڑتی گئی ۔پہلے پشاور اور باقی اضلاع میں پارٹی کا خاتمہ ہوا اور پھر ن لیگ کے مضبوط گڑھ ہزارا سے بھی ن لیگ کی چھٹی ہوتی گئی ۔امیر مقام نے 2018میں بھی سوات سے الیکشن لڑااور پھر ہار گئے ۔لیکن نوازشریف کی امیر مقام سے محبت کا عالم یہ نکلا کہ انہوںنے دس سالوں سے اپنا الیکشن تک نہ جیتنے والے امیر مقام کو صوبہ خیبرپختونخوا کا پارٹی صدر بنادیا۔امیر مقام کے صدر بننے سے ن لیگ میں صوبائی سطح پر شدید اختلافات پیدا ہوگئے۔ماضی میں ن لیگ کی پہچان سمجھے جانے والے سرانجام خان، پیر صابر شاہ،مہتاب عباسی اور اسی طرح کے دوسرے رہنما پس منظر میں چلے گئے۔کچھ غیرفعام ہوکر گھروں میں بیٹھ گئے،کچھ پی ٹی آئی میں چلے گئے اور کچھ ناراض ہوکر الگ ہوگئے۔پورے صوبے میں پارٹی ٹوٹتی رہی لیکن مسلم لیگ ن کی قیادت نے سوائے امیر مقام کے اور کسی سے تعلق نہ رکھا۔ن لیگ کو جب بھی خیبرپختونخوا میں کوئی جلسہ کرنا ہوتا تو امیر مقام نوازشریف یا مریم یہاں تک کہ شہبازشریف کا جلسہ بھی سوات میں کروادیتے اس سے پارٹی خوش ہوجاتی۔امیر مقام کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب عدم اعتما د کے بعد شہبازشریف وزیراعظم بنے تو اس وقت بھی انہوں نے امیرمقام کو اپنا معاون خصوصی بنالیا تھا۔
کسی بھی شخصیت کا کسی پارٹی میں ترقی کرجانا۔اعلی عہدے لے لینایہاں تک کہ قیادت کے انتہائی قریب ہوجانا نہ کوئی بری بات ہے اور نہ ہی اچنبھے کی لیکن مسائل اس وقت شروع ہوتے ہیں جب ایک کو نوازنے کے چکر میں باقی کارکنوں کو محروم کردیا جاتا ہے۔خیبرپختونخوا میں یہاں ن لیگ ختم ہورہی تھی تو وہیں ایک نام اختیار ولی خان اس وقت سامنے آیا جب پی ٹی آئی کے دورمیں نوشہرہ میں ضمنی الیکشن ہوا۔صوبے میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت تھی اور مرکز میں بھی اور نوشہرہ سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویزخٹک کا آبائی حلقہ بھی ہے ۔اس حلقے سے الیکشن لڑنا ایک مشکل کام تھا لیکن اختیار ولی خان نے خود کو الیکشن کے لیے پیش کیا۔حالانکہ اگر امیر مقام چاہتے تو وہ خود یا اپنے بھائی بیٹے کے لیے یہ ٹکٹ آسانی سے لے سکتے تھے لیکن انہوں نے اس الیکشن میں اترنے سے خود کو روک لیا ۔یہ الیکشن اختیار ولی نے لڑا اورپی ٹی آئی کی حکومت کے باوجود وہ جیت گئے ۔اس جیت نے اختیار ولی کو پورے ملک میں شہرت کی بلندی پر پہنچادیا لیکن ان کی اپنی پارٹی میں ان کی وہ پذیرائی شاید نہیں ہوسکی ۔
یہ دوربھی گزرگیا ۔موجودہ الیکشن میں بھی خیبرپختونخوا میں الیکشن لڑانے اور پارٹی کی قیادت امیرمقام کے ہی پاس تھی ۔نوازشریف کو مانسہرہ سے الیکشن لڑنے کی پیشکش بھی بطور پارٹی صوبائی صدر امیر مقام نے ہی کی تھی ۔نوازشریف مانسہر سے شکست کھاگئے لیکن مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پرپہلی بار امیر مقام جیت گئے ۔اس جیت کے بعد امیر مقام کو فوری وزیربنادیا گیا۔اس کے ساتھ ساتھ ن لیگ میں آوازیں اس وقت اٹھنا شروع ہوگئیں جب امیر مقام کے بھائی کو خیبرپختونخوااسمبلی میں اپوزیشن لیڈرنامزدکردیاگیا۔یہاں تک بھی شاید لوگ برداشت کرجاتے لیکن کمال یہ ہوا کہ سینیٹ کے الیکشن آئے تو پورے کے پی میں شاید ایک ہی نشست مسلم لیگ ن جیت سکتی ہے اس ایک اکلوتی نشست پر بھی امیرمقام کے بیٹے نیازامیرکا انتخاب کیاگیا۔جب یہ سینیٹ کا ٹکٹ کا بھی امیر مقام کو پیارا ہواتو پھر صوبے میں ن لیگ کی لڑائی کھل کرسامنے آگئی ۔ اس فیصلے پراختیار ولی خان نے سوشل میڈیا پر کھل کر تنقید کی ۔اختیار ولی خان نے اپنی پوسٹ میں یہاں تک لکھا کہ ’’میں 34سال سے ن لیگ سے وابستہ ہوں۔ میں سمجھتا تھا کہ آپ کی پارٹی سے وفاداری ہی سب سے بڑی سفارش ہوتی ہے لیکن آج میں ہر پارٹی کے کارکن کومشورہ دیتا ہوں کہ سیاست جس مرضی پارٹی میں کریں لیکن پارٹی میں اپنی سفارش کا بہتر بندوبست کرکے رکھیں ورنہ عمر گزرجائے گی اور قیادت کو آپ کے ہونے یا نہ ہونے کا احساس بھی نہیں ہوگا‘‘ مجھے اختیار ولی خان کے ان الفاظ نے بہت ہی بے چین کیا۔یہ کالم لکھنے کی وجہ بھی یہی الفاظ ہیں۔ہماری تمام ہی سیاسی جماعتوں کا اسی طرح براحال ہے۔ کارکنوں کی قربانیاں اور وفاداریاں نظر انداز کرکے پارٹی کی بجائے صرف قیادت کوفائدہ پہنچانے والے لوگ آگے لائے جاتے ہیں۔امیر مقام جیسے لوگوں کو پارٹیوں میں اعلیٰ ’’مقام‘‘مل جاتا ہے اور عام کارکن اسی طرح دکھی دل کے ساتھ کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔پارٹی کی سینئرلیڈرشپ بھلے امیرمقام کو بھی جائز مقام دے لیکن باقی لوگوں کے ساتھ بھی منصفانہ سلوک کرلے تو ملک میں جمہوریت پھلتی رہے اورسیاسی پارٹیوں میں بھی کچھ جمہوریت کا عمل دخل باقی رہے۔