بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں دہشت ۔غیر کشمیری کو وادی بدر کر دیا

جموں کشمیر (ویب ڈیسک) انڈیا کے زیر انتظام کشمیر غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہے۔ وادی سے ہندو یاتریوں، سیاحوں اور غیرکشمیری طلبا کو واپس لوٹنے کے حکم سے عوام اور سیاسی حلقوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے جس کا اظہار جموں و کشمیر کے سابق وزیرِ اعلیٰ اور کشمیر کے میئر کی ٹوئیٹس سے بخوبی ہوتا ہے۔جموں و کشمیر کے سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ نے کشمیر کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ٹوئیٹ کیا: ‘کشمیر کی ‘موجودہ صورت حال’ کے لیے فوج اور ائر فورس کو الرٹ کرنے کا مطلب کیا ہے؟ یہ 35 اے یا حد بندی کے متعلق نہیں ہے۔ اگر اس طرح کا الرٹ واقعی جاری کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب کوئی بالکل ہی مختلف چیز ہے۔’دوسری جانب سرینگر کے جنید عظیم مٹو نے رات آٹھ بجے کے بعد ٹویٹ کیا: ‘میری سرکاری گاڑی کو میرے سرکاری گھر سے تین بار پولیس نے واپس کر دیا۔ کار کو میری تین سال کی بیٹی کی دوا کے لیے بھیجا گیا تھا! کیا ہم سب لوگ محصور ہیں؟ کیا میئر بھی سکیورٹی کے لیے خطرہ ہے؟ کیا ہم باضابطہ طور پر پولیس ریاست میں تبدیل ہو چکے ہیں؟’انڈیا کی معروف صحافی برکھا دت نے بھی صورت حال کو بحرانی قرار دیا ہے۔ انھوں نے ٹویٹ کیا: ‘افسوس، فیصلہ جو بھی ہو سرکولرز کا سیلاب، معطل پروازیں، بڑے پیمانے پر انخلا یہ تمام چیزیں بحران کا پتہ دیتی ہیں نہ کہ تیاری کا۔ جموں و کشمیر میں جو بھی ہونے والا ہے اس کے لیے بہتر مواصلاتی نظام ہے۔گذشتہ ہفتے سے سوشل میڈیا پر یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ انڈیا کے آئین کے تحت کشمیر کو حاصل خصوصی پوزیشن کو ختم کیا جائے گا اور امکانی عوامی ردعمل کو روکنے کے لیے فورسز کو تعینات کیا گیا ہے۔تاہم بعد میں گورنرنے کہا کہ آئین کی دفعہ 35 اے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں ہوگی۔ جمعے کی دوپہر کو یہ افواہیں بھی ا±ڑیں کہ انڈین حکومت نے ہندو اکثریت والے جموں خطے کو علیحدہ ریاست جبکہ کشمیر اور لداخ کو مرکز کے زیرانتظام خطے قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس فیصلے کے ردعمل کو روکنے کے لیے سنیچر سے کرفیو نافذ ہوگا۔ ڈائریکٹر جنرل کشمیر پولیس دلباغ سنگھ نے ان خبروں کی بھی تردید کی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کے آئین کی دفعہ 3 کے مطابق انڈین حکومت کسی بھی ریاست کی جغرافیائی حدود یا نام مقامی قانون ساز اسمبلی کی رضامندی کے بغیر تبدیل نہیں کرسکتی۔ لیکن کشمیر واحد ریاست ہے جہاں صدارتی راج کے دوران انڈین صدر کو ریاست میں قانون سازی کے اختیارات ہیں۔گذشتہ کئی ہفتوں سے کشمیر میں عام لوگ کسی بڑی واردات کے امکان کی افواہوں سے خوف و ہراس کی گرفت میں ہیں۔ حکومت تو کہتی ہے کہ سب ٹھیک ٹھاک ہے، لیکن حکومتی سطح پر بعض اعلانات اور جنگی پیمانے کی فوجی نقل و حمل سے افواہوں کو مزید تقویت مل رہی ہے۔فوج اور پولیس کے اعلیٰ حکام نے خفیہ اطلاعات کی موصولی کا دعوی کرتے ہوئے کل انکشاف کیا تھا کہ امرناتھ یاترا میں خلل ڈالنے کے لیے عسکریت پسند بڑے حملوں کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ اس کے فوراً بعد حکومت نے سیاحوں اور یاتریوں کو فوراً گھر لوٹنے کا حکم دیا حالانکہ یاترا کے اختتام میں ابھی بارہ دن باقی ہیں۔جمعے کے روز کشمیر میں تعینات انڈین آرمی کی پندرہویں کور کے کمانڈر لیفٹننٹ جنرل جے ایس ڈھلون، کشمیر پولیس کے ڈائریکٹر جنرل دلباغ سنگھ اور سی آر پی ایف کے اے ڈی جی ذولفقار حسن نے مشترکہ پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ امرناتھ یاترا کے دونوں راستوں پر بھاری مقدار میں ہتھیار اور گولہ بارود برآمد ہوا ہے جس میں امریکی ساخت کی سنائپر رائفل اور پاکستانی ساخت کی بارودی سرنگیں بھی شامل ہے۔حالانکہ ڈی جی پولیس دلباغ سنگھ نے بتایا کہ اضافی فورسز کی تعیناتی ایک معمول کا عمل ہے جسے میڈیا میں مبالغہ آمیز اعداد و شمار کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے تاہم اصرار کے باوجود انھوں نے نہیں بتایا کہ کتنی اضافی فورسز کو تعینات کیا جارہا ہے۔دریں اثنا پولیس اور نیم عسکری اہلکاروں کو کرفیو جیسی صورتحال کے لیے تیار رہنے کے لیے کہا جا رہا ہے، تاہم سرکاری طور پر کسی بات کی تصدیق یا تردید نہیں کی جارہی۔اس دوران جموں کے ایئرفورس سٹیشن کو بھی الرٹ کیا گیا ہے اور ایئرپورٹ کے گردونواح میں اضافی فورسز کو تعینات کیا گیا ہے۔ حکومت نے کل رات ہی جموں میں کم از کم 10 سینیئر پولیس افسران کا تبادلہ بھی کیا ہے۔سرکاری ذرائع نے بتایا ہے کہ 28 ہزار اضافی فورسز کو تعینات کیا جارہا ہے اور خاص طور پر وادی میں پولیس کا کردار محدود کیا گیا ہے۔
کشمر سے بی بی سی کے نامہ نگار ریاض مسرور نے بتایا کہ گورنر ستیہ پال ملک نے جمعے کو دیر رات سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی اور دوسرے سیاسی رہنماو¿ں کے ساتھ ملاقات کے دوران پھر ایک بار یقین دلایا کہ کشمیر میں فوج اور فورسز کی نقل و حمل ممکنہ مسلح حملے کی خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر ہورہی ہے اور غیر کشمیریوں کو ’احتیاط کے طور پر’ لوٹنے کے لیے کہا گیا ہے۔محبوبہ مفتی کو کل رات ان کی رہائش گاہ پر پولیس نے تھوڑی دیر کے لیے نظربند کیا تھا، تاہم بعد میں وہ عوامی تحریک کے شاہ فیصل، پیپلز کانفرنس کے عمران انصار اور اپنی پارٹی کے بعض رہنماو¿ں کے ہمراہ راج بھون پہنچیں جہاں انھوں نے گورنر سے افراتفری اور خوف کی بابت وضاحت چاہی۔اس دوران کشمیر کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں زیر تعلیم ہندوستان کی مختلف ریاستوں کے طلبا کو بھی کل رات ہی واپس گھر لوٹنے کے لیے کہا گیا۔گو کہ ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ کالج حکام سے صرف ’ہوشیار رہنے’ کو کہا گیا تھا، تاہم این آئی ٹی نے گرمیوں کی چھٹی کا اعلان کرکے غیرکشمیری طلبا کو لوٹنے کا حکم دیا۔ ہفتے کو علی الصبح طلبا کو بسوں میں جموں کی طرف کوچ کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

کتوں نے کراچی والوں کا برُا حال کردیا ۔2 دن میں درجنوں شہری ذخمی

کراچی:(ویب ڈسیک) شہر کے متعدد ہسپتالوں میں گزشتہ 2 روز کے دوران سگ گزیدگی (کتے کے کاٹنے) سے متاثر ہونے والے درجنوں افراد علاج کے لیے لائے گئے۔خیال رہے کہ سگ گزیدگی کے علاج کے لیے ویکسین بھارت سے درآمد کی جاتی ہے جس نے اس کی فروخت روک دی ہے، تاہم ویکسین کی دستیابی یقینی بنانے کے حکومتی دعوے کے ساتھ کتے کے کاٹنے کے واقعات میں خاصہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ چونکہ پاکستان بڑی حد تک بھارت سے خریدی گئی ویکسین پر انحصار کرتا ہے، لہٰذا سرکاری ہسپتالوں میں ذخیرہ کردہ ویکسین جلد ختم ہوجانے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔بھارت میں سگ گزیدگی کے علاج کی ویکسین کی پیداوار اس کی ایک ارب سے زائد آبادی کے لیے خود بھی ناکافی ہے جس کے سبب پڑوسی ملک نے اس کی فروخت روک دی ہے۔اس ضمن میں ایک ماہرِ صحت نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’مستقبل میں کتے کے کاٹنے سے متاثر ہونے والے شخص کو حفاظتی ٹیکا لگانا نہایت دشوار ہوجائے گا کیونکہ بھارت نے اپنی پالیسی تبدیل کرلی ہے اور ہمارے ہاں کتوں کی آبادی بڑھنے کے سبب اس قسم کی واقعات کو روکنے کے لیے کوئی حکمتِ عملی نہیں‘۔جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی نے کہا کہ گزشتہ دو روز کے دوران سگ گزیدگی کے واقعات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جس کے باعث ہسپتالوں میں متاثرہ افراد کی بڑی تعداد لائی گئی ۔ انہوں نے بتایا کہ صرف ماڈل کالونی کے علاقے سے ہمارے پاس 7 مریض لائے گئے جنہیں ایک ہی کتے نے کاٹا تھا جو اب تک آزاد گھوم رہا ہے، یہ خاصی تشویشناک صورتحال ہے۔انہوں نے بتایا کہ ہسپتالوں میں زیادہ تر ان لوگوں کو حفاظتی ٹیکا لگایا جاتا ہے جنہیں کتے نے کاٹا ہوتا ہے جبکہ کتوں کی تربیت کرنے والے ویکسینیشن کے لیے ہسپتال آتے ہیں۔ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا تھا کہ ‘ریبیز’ ایک مہلک بیماری ہے جو ریبیز سے متاثرہ جانور، جو زیادہ تر کتے ہوتے ہیں، کے کاٹنے سے انسان میں منتقل ہوتی ہے جسے صرف ویکسین کے ذریعے ہی روکا جاسکتا ہے اور اگر اس انفیکشن کے اثرات پوری طرح نمایاں ہوجائیں تو یہ مرض لاعلاج ہو جاتا ہے۔اس ضمن میں وزیر بلدیات سعید غنی کا کہنا تھا کہ پہلے کتوں کو ہلاک کیا جاتا تھا جس پر شدید تنقید کے بعد اب جانور کو جراثیم سے پاک کرنے کی پالیسی اپنائی گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ضلعی میونسپل کارپوریشنز کی ذمہ داری ہے کہ ا?وارہ کتوں کے خلاف مہم شروع کرے۔

بھارتی باکسر کا اسلحہ دکھا کر عامر خان کو انو کھا چیلنج

بھارت:(ویب ڈیسک)بھارتی باکسر نیراج گویت نے کھیل میں بھی جنگی جنون دکھاتے ہوئے پاکستانی نڑاد برطانوی باکسر عامر خان کو ٹیبل پر اسلحہ سجا کر مقابلے کا چیلنج کر ڈالا۔بھارتی باکسر نیراج گویت نے سوشل میڈیا پر ایک تصویر شیئر کی جس میں وہ اسلحے سے سجی ٹیبل کے ساتھ بیٹھے ہیں۔اس تصویر کے ساتھ بھارتی باکسر نے کیپشن لکھا کہ میں فٹ ہو گیا ہوں، عامر خان کو رنگ میں ہرانے کے لیے تیار ہوں۔برطانوی نڑاد پاکستانی باکسر عامرخان نے بھارتی باکسر نیراج گویت کو کرارا جواب دیتے ہوئے کہا کہ تم مجھے ان پستول اور گن سے بھی نہیں ہرا سکتے۔عامر خان نے کہا تمہیں مجھے ہرانے کے لیے گن سے زیادہ کچھ اور کرنے کی ضرورت ہے۔خیال رہے کہ بھارتی باکسر اور عامر خان کے درمیان فائٹ گزشتہ ماہ 12 جولائی کو سعودی عرب میں شیڈول تھی لیکن کار حادثے کے باعث نیراج گویت عامر خان سے فائٹ سے دستبردار ہو گئے تھے۔

’سنگاپور کی ترقی کا راز اور پاکستان سابق سفیر کا جاندارتجزیہ‘

سنگاپور( ویب ڈیسک) سنگاپور کے ترقیاتی اُبھار کے موضوع پر لکھی گئی ایک بڑی ہی دلچسپ کتاب ہے۔ اس ملک کے زبردست ابھار سے چینی رہنما ڈینگ ڑیاﺅ پنگ اس قدر متاثر ہوئے کہ لی کیوان یو کے پاس تشریف لائے اور ان سے ترقی کے گُر سیکھنے چاہے۔کچھ دن پہلے جب میں سنگاپور پہنچا تو اس کتاب میں شامل ڈینگ ڑیاﺅپنگ سے متعلق لکھی ہوئی یہ باتیں ذہن میں گردش کر رہی تھیں اور میں خود سے سوال کر رہا تھا کہ ہم میں سے کئی لکھاری وقتاً فوقتاً اپنے مضامین میں تجویز دیتے رہتے ہیں کہ پاکستان کو ایسے ممالک سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ کس طرح انہوں نے اپنی معیشت کو معجزاتی طور پر ترقی کی راہ پر گامزن کردیا۔ ہم مضامین میں اکثر و بیشتر چین، جنوبی کوریا، ملائشیا اور سنگاپور کا حوالہ دیتے ہیں۔وہ کون سے کام تھے جو سنگاپور اپنی اقتصادی ترقی کے لیے انجام دے رہا تھا اور وہ کون سے کام تھے جن سے باز رہا؟جو اسباق میں نے سیکھے ہیں وہ بہت ہی سادہ ہیں اور آپ کے لیے نئے نہیں۔ سنگاپور کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اقتصادی ترقی کو ایک الگ حیثیت نہیں دی گئی بلکہ ملک کی تمام تر ترقی اور خوشحالی کا ایک حصہ ہی سمجھا گیا۔ معیشت کا تعلق صرف اور صرف معاشیات سے نہیں تھا۔بنیادی طور پر ایک ملک کو اپنے عوام پر سرمایہ کاری کرنی چاہیے تاکہ وہ ملک میں سرمایہ کاری کرسکیں، اس طرح ملک انہیں بہتر انداز میں خدمات فراہم کرتا ہے۔ اس باہمی پیداواری تعلقات کو قائم کرنے کے لیے مساوی مواقع کی فراہمی اور میرٹ کی بالادستی نہایت اہمیت کی حامل تھی۔اقتصادی ترقی اور سیاسی استحکام کا انحصار ایک دوسرے پر ہوتا ہے، دونوں کے لیے قومی اتحاد کی مضبوط بنیاد اور مقصد کے ساتھ ساتھ روشن خیال اور تنظیمی تصور درکار ہوتا ہے۔
اس بنیاد پر تعلیم یافتہ اور منظم انسانی وسائل اور قانون کی حکمرانی کی ایسی شاندار عمارت کھڑی ہوتی ہے جو کوئی سمجھوتہ نہیں کرتی۔ ترقی کے عروج کو چ±ھونے کے لیے انسانی وسائل کی کھیپ کی تیاری نہایت اہم تھی جس کے لیے معیارِ تعلیم کا کردار انتہائی اہم رہا جس نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے اعلیٰ علوم کا پلیٹ فارم فراہم کیا۔
آخر میں باری آتی ہے بہتر طرزِ حکمرانی کی جو ملک کی ترقی میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ترقی کے دیگر ذرائع پر اثرات مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں منعکس بھی کرتی ہے۔ ورلڈ بینک کی درجہ بندی برائے مو¿ثر حکومت، 2017ءمیں سب سے زیادہ 2.21 پوائنٹس سنگاپور کو حاصل تھے جبکہ پاکستان درجہ بندی میں 129ویں نمبر کے ساتھ 0.58- پوائنٹس کا حامل رہا۔اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کی خراب طرزِ حکمرانی کی آمد کہاں سے ہوئی؟پاکستان میں کچھ طاقتور گروہ یا ادارے ملک کی سیکیورٹی سے متعلق معاملات، قومی ڈھانچے میں شامل مذہبی عنصر اور جاگیردارانہ سماجی ڈھانچے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک عرصے سے ملک کے body politic پر غالب ہیں۔سیکیورٹی خدشات کی جائز حیثیت اور ان پر مخلصانہ رویے کے باوجود بھی سیکیورٹی پر حد سے زیادہ زور نے قومی ترجیحات اور وسائل کی تقسیم کو یکایک بدل کر رکھ دیا ہے، جبکہ مذہبی اداروں کے حمایت یافتہ جاگیردارانہ نظام نے معاشرے میں تعلیم، حقوق نسواں اور سماجی و اقتصادی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہوئے معاشرے میں خود پرور عدم مساوات کو پیدا کیا ہے۔مذکورہ body politic سے بننے والے سیاسی نظام کو صرف طاقتور اور مراعات یافتہ طبقے کو تقویت پہنچانے کے مقصد سے ڈیزائن کیا جاتا ہے جبکہ یہ قانون کی حکمرانی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ یہ اس جمہوریت کے ’ضرر سے محفوظ‘ رہتا ہے جو اس نظام کے ہاتھوں خود مغلوب بن چکی ہے اور طاقت کے عدم توازن اور سیاسی طاقت، سماجی ڈھانچے، آمدن کی تقسیم اور انصاف کی فراہمی میں عدم مساوات کو برقرار رکھنے میں شریک جرم بنتی جا رہی ہے۔چنانچہ ایسا نظام جو ملک کو بڑی آسانی کے ساتھ داﺅ پر لگا کر اشرافیہ کے لیے ذاتی مفادات کا حصول ممکن بناتا ہے اس کے نتیجے میں انجام پانے والے شخصی اور غیر اداریاتی پالیسی سازی کے عمل کا آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔احتساب کے فقدان یا پھر اقتدار کھونے کے ڈر کے باعث ایسے لوگ بچ نکلتے ہیں۔ اگر آپ اقتدار کھو بھی دیں تو یہ نظام آپ کی طاقت بحال کردے گا بشرطیکہ آپ نے اس نظام کو برقرار رکھنے میں مدد کی ہو۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان ایک عرصے سے پ±رخطر اور اپنی استطاعت سے باہر حالات سے دوچار رہا ہے۔ یہ ملک دیگر ملکوں کے اسٹریٹجک مقاصد کی انجام دہی، بعض اوقات تو اپنے قومی مفاد کو داو¿ پر لگاتے ہوئے اور بنا سوچے سمجھے قرضے لے لے کر خود کو باقی رکھنے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔خراب طرزِ حکمرانی اور کرپشن کے لیے امداد اور بھاری قرضے تو بہت پہلے سے ترغیبی مراعت کی صورت بن چکی ہے۔ ان خوفناک نتائج پر ہی نظر ڈال لیجیے۔ پاکستان انسانی ترقی کی رینکنگ، عالمی صنفی عدم مساوات اور عالمی کرپشن کی درجہ بندی میں یا تو سب سے نیچے ہے یا پھر آخری نمبروں پر ہے۔اپنی تمام تر ناکامیوں کے باوجود بھی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ماضی میں خلافِ ضمیر کام کرنے والے سربراہان کا چہرہ سامنے لاکر ایک بڑا کام کر رہی ہے جو ایک ایسا پاکستان وجود میں لائے جس میں صرف ان کے ذاتی مفاد کو تحفظ حاصل ہوتا تھا۔گزشتہ 10 برسوں کے دوران ہونے والے حکومتی اخراجات پر ہی نظر ڈال لیجیے، ان میں 500 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس دیوہیکل اخلاقی ناکامی کا گلہ گھونٹ دیا جائے۔ایک ایسا ملک جہاں کبھی انقلاب نہیں آیا، قومی مزاحمت نہیں ہوئی، کسی ایک طبقے کی جانب سے اپنے حقوق کی خاطر طویل المدتی جدوجہد نہیں کی گئی، سماجی مہم نہیں چلی اور نہ ہی کوئی غیر معمولی رہنما آیا، یعنی ایسا کوئی عمل نہیں ہوا جو تاریخ ساز سماجی تبدیلی کا باعث بنتا ہو، وہاں موجودہ احتساب اور ٹیکس مہم مذکورہ عوامل کا زیادہ اچھا متبادل نہ سہی لیکن ایک اچھی شروعات ضرور ہے۔ہمیں کچھ سیکھنا ہے تو دیگر ملکوں کا رخ کرنا ضروری نہیں، بلکہ ملک کے اندر ہی بے پناہ ٹیلنٹ اور وہ غیر معمولی علم موجود ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں کون سے عناصر تکلیف سے دوچار کرتے ہیں۔اب سوال یہ نہیں ہے کہ کیا کرنا ہے بلکہ یہ ہے کہ کیسے کرنا ہے۔ ہمیں جس چیلنج کا سامنا ہے وہ اقتصادی نہیں بلکہ وجودی ہے۔

کیپٹن صفدر کی پٹائی کیا مریم نوازکے ہاتھوں ہوئی؟دلچسپ کہانی صحافی کی زبانی

اسلام آباد (ویب ڈیسک) : نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار عارف حمید بھٹی نے کہا کہ مجھے کیپٹن (ر) صفدر کا تو نہیں پتہ لیکن کچھ عرصہ قبل ان سے ملتی جلتی شکل کا ایک شخص ایبٹ آباد کے ایک اسپتال میں گیا جس کی حالت بہت ب±ری تھی۔ کئی دن اسپتال رہے ، کسی غیر آدمی کو جانے نہیں دیا گیا۔پھر کچھ دن کے بعد اسپتال کے بیڈ پر پڑے کیپٹن (ر) صفدر سے مشابہت رکھنے والے ایک مریض نے ڈاکٹر کے فون سے اپنے بیٹے کو کال کی اور کہا کہ تمہاری ماں نے مجھے بہت مارا ہے اور لوگوں سے بھی مار کھلوائی ہے۔ عارف حمید بھٹی نے کہا کہ اب کیا یہ بھی جھوٹ ہے۔ میری ان سے گذارش ہے کہ خدارا عوام کے جذباتوں اور عوام کے ارمانوں کے ساتھ مت کھیلو۔ پروگرام میں موجود سعید قاضی نے کہا کہ میں صرف اتنا کہوں گا کہ جب آپ کا احتساب ہو تو اسلام خطرے میں نہیں ہوتا، جمہوریت خطرے میں نہیں ہوتی بلکہ آپ کے اثاثے خطرے میں ہوتے ہیں۔ اور جب تک یہ ناجائز اثاثوں والے ہم پر مسلط رہیں گے حالات خراب ہی رہیں گے۔انہوں نے مزید کیا کہا آپ بھی دیکھیں:

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے نوجوان شہید کر دیا۔

سری نگر:(ویب ڈیسک) مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج نے سرچ آپریشن کی آڑ میں مزید ایک نوجوان کو شہید کردیا۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے ضلع بارہمولا کے علاقے سوپور میں قابض بھارتی فوج نے نام نہاد سرچ آپریشن کی آڑ میں گھرگھر تلاشی کے دوران فائرنگ کرکے ایک اور نوجوان کو شہید کردیا۔ شہادت کے باوجود علاقے میں قابض بھارتی فورسز کا سرچ آپریشن تاحال جاری ہے۔واضح رہے کہ تین روزقبل بھی بھارتی فوج نے ضلع بانڈی پورہ میں ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 4 نوجوانوں کو شہید کردیاتھا۔

ڈرسی جاتی ہے صلہ کیا ہم ایوارڈ میں سرفہرست رہے گا؟

کراچی ( ویب ڈیسک) پاکستان کے معروف ’ہم ٹی ایوارڈز‘ کی نامزدگیوں کا اعلان کردیا گیا، اس بار مجموعی طور پر 10 کیٹیگریز میں ایوارڈز دیے جائیں گے۔ساتویں ہم ایوارڈز کا انعقاد رواں برس 5 اکتوبر کو امریکی شہر ہیوسٹن میں ہوگا، جس میں پاکستانی شوبز انڈسٹری کی اہم شخصیات سمیت کاروباری، فیشن اور میڈیا انڈسٹری کے لوگ بھی شرکت کریں گے۔ساتویں ایوارڈز کی نامزدگیوں میں ’ڈر سی جاتی ہے صلہ‘ ڈرامہ 12 نامزدگیوں کے ساتھ سرفہرست ہے جب کہ ’سنو چندا‘ 9 نامزدگیوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔’ڈر سی جاتی ہے سلا‘ کو تمام کیٹیگریز کے لیے نامزد کیا گیا ہے جب کہ ’سنو چندا‘ کو ایک کیٹیگری کے لیے نامزد نہیں کیا گیا، علاوہ ازیں ’ڈر سی جاتی ہے سلا‘ کو 2 کیٹیگریز میں 2 بار بھی نامزد کیا گیا ہے۔

بہترین ہدایت کار

کاشف نثار – ڈر سی جاتی ہے صلہ

دانش نواز – عشق تماشہ

احسن تالش – سنو چندا

سیفی حسن – بیلا پور کی ڈائن

احمد کامران – باندی

بہترین ڈرامہ سیریل
ڈر سی جاتی ہے صلہ

عشق تماشہ

سنو چندا

بیلا پور کی ڈائن

تعبیر

باندی

بہترین مرکزی اداکار

نعمان اعجاز – ڈر سی جاتی ہے صلہ

جنید خان – عشق تماشہ

فرحان سعید – سنو چندا

عدنان صدیقی – بیلا پور کی ڈائن

شہباز شیخ – تعبیر

منیب بٹ – باندی

بہترین مرکزی اداکارہ

سنو چندا 9 نامزدگیوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے—اسکرین شاٹ
یمنی زیدی – ڈر سی جاتی ہے صلہ

ایمن خان – عشق تماشہ

اقرا عزیز – سنو چندا

سارا خان – بیلا پور کی ڈائن

اقرار عزیز – تعبیر

ایمن خان – باندی

بہترین متاثر کن کردار
سکینہ سموں – ڈر سی جاتی ہے صلہ

نعمان اعجاز – ڈری سی جاتی ہے صلہ

نادیہ افغان – سنو چندا

حنا دلپذیر – باندی

بہترین ڈرامہ لکھاری
بی گل – ڈر سی جاتی ہے صلہ

مصباح نوشین – عشق تماشہ

صائمہ اکرم چوہدری – سنو چندا

انعام حسن – بیلا پور کی ڈائن

عمران اشرف – تعبیر

ا?سمہ نبیل – باندی

اسکرین پر بہترین جوڑا
عشق تماشہ بھی اچھی نامزدگیاں لینے میں کامیاب گیا—اسکرین شاٹ
یمنی زیدی – عثمان طاہر – ڈر سی جاتی ہے صلہ

ایمن خان – جنید خان – عشق تماشہ

اقرا عزیز – فرحان سعید – سنو چندا

اقرا عزیز – شہباز شیخ – تعبیر

ایمن خان – منیب بٹ- باندی

بہترین معاون اداکار
عثمان طاہر – ڈر سی جاتی ہے صلہ

فیضان خواجہ – عشق تماشہ

ٹیپو شاہ – سنو چندا

عثمان طاہر – بیلاپور کی ڈائن

یاسر حسین – باندی

بہترین معاون اداکارہ
ثمن انصاری – ڈر سی جاتی ہے صلہ

کنزا ہاشمی – عشق تماشہ

نادیہ افغان – سنو چندا

سکینہ سموں – ڈر سی جاتی ہے صلہ

ہاجرہ یامین – باندی

بہترین منفی کردار
نعمان اعجاز – ڈر سی جاتی ہے صلہ

کنزا ہاشمی – عشق تماشہ

امر خان – بیلا پور کی ڈائن

یاسر حسین – باندی

اشتہارات میری اصل کمائی ہے ماہرہ آمدنی کا ذریعہ بتا دیا

کراچی: (ویب ڈیسک)ماہرہ خان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے جس میں وہ اپنی آمدنی سے متعلق بتاتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔اداکارہ ماہرہ خان کا شمار پاکستان کی صف اول کی اداکاراو¿ں میں ہوتاہے۔ ماہرہ خان کے چاہنے والے اپنی پسندیدہ اداکارہ سےمتعلق جہاں ہر چھوٹی سے چھوٹی بات جاننے کے خواہشمند ہیں وہیں لوگوں کو یہ جاننے کا بھی بے حد تجسس ہے کہ ماہرہ خان کی آمدنی کتنی ہے۔ اور سرچ انجن گوگل پر ماہرہ سے متعلق سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال بھی یہی ہے کہ آخر ماہرہ کتنا کماتی ہیں؟اداکارہ ماہرہ خان کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیووائرل ہورہی ہے جس میں وہ اپنی ا?مدنی سے متعلق بتاتی نظر آرہی ہیں۔ ماہرہ خان نے بتایاکہ جب میں فلموں میں کام کرتی ہوں تو مجھے بہت کم پیسے ملتے ہیں لیکن اشتہارات میں کام کرنے کے پیسے زیادہ ملتے ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان کی آمدنی دراصل ہے کتنی۔اس کے علاوہ ماہرہ خان سے متعلق گوگل پر دوسرا سب سے زیادہ پوچھاجانے والا سوال یہ تھا کہ ماہرہ خان سے کیسے ملا جاسکتا ہے جس کے جواب میں ماہرہ نے مذاقاً کہا کہ اگر مجھ سے ملنا ہے تو میرے گھر کے دروازے کی گھنٹی بجائیں اور مجھ سے مل لیں۔واضح رہے کہ ماہرہ خان فلموں میں کام کرنے کے ساتھ مشہور برانڈز کے ساتھ بھی منسلک ہیں جب کہ اشتہارات اور ماڈلنگ بھی ماہرہ خان کی کمائی کا بڑا ذریعہ ہیں۔

ارجنٹائن کے لیونل میسی پر 3 ماہ کی پابندی کیوں لگی ؟ وجہ سامنے آگئی

یونس آئرس(ویب ڈےسک)۔3اگست 2019ئ) ارجنٹائن کے کپتان اور سٹار فٹبالر لیونل میسی پر فٹ بال کے بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لینے پر 3 ماہ کی پابندی عائد کردی گئی۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق لیونل میسی پر پابندی کوپا امریکا کپ کو کرپٹ کہنے پر لگائی گئی ، ان پر جنوبی امریکی فٹبال کنفیڈریشن کی جانب سے 50 ہزار ڈالر کا جرمانہ بھی کیا گیا ہے۔بارسلونا کے فارورڈ لیونل میسی کو ارجنٹائن اور چلی کے درمیان ہونے والے مقابلے میں باہر کردیا گیا تھا جس کے بعد انہوں نے الزام عائد کیا کہ کپ برازیل کے لیے فکس کیا گیا،ارجنٹائن اور چلی کے درمیان میچ کے دوران گیرے میڈل کے ساتھ تلخی پر میسی کو کھیل کے 37 ویں منٹ پر ریڈ کارڈ دکھا کر گراونڈ سے باہر کردیا گیا تھا،لیونل میسی نے میچ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس کرپشن کا حصہ نہیں رہنا۔
میسی پابندی کے خلاف ایک ہفتے میں اپیل کرسکتے ہیں البتہ پابندی کے باعث وہ ارجنٹائن کے چلی، میکسیکو اور جرمنی سے ستمبر اور اکتوبر کے درمیان ہونے والے مقابلوں میں شرکت نہیں کرسکیں گے۔ارجنٹائن کو سیمی فائنل میں برازیل سے شکست ہوئی تھی جس کے بعد ارجنٹائن کی فٹبال ایسوسی ایشن نے میچ کی ریفرنگ کے حوالے سے سنجیدہ شکایات کی تھیں تاہم کونسل نے کوپا امریکا پر ارجنٹائن کے الزامات بے بنیاد قرار دیے تھے

ہرغیر اخلاقی اقدام کی لٹریاں(ن )لیگ سے جا ملتی ہیں : فردوس عاشق اعوان

اسلام آباد (ویب ڈیسک)۔( 03 اگست 2019) : بے نامی اثاثوں کے معاملے پر تحقیقات کا عمل تیز کرنے کے لیے آئی ایس آئی اور آئی بی سمیت 6 اداروں کی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ وفاقی کابینہ نے بھی اس 6 رکنی بے نامی انفارمیشن پروسیسنگ کمیٹی کی تشکیل کی منظوری دے دی ہے۔ تفصیلات کے مطابق بے نامی انفارمیشن کمیٹی کے نام سے بنائی جانے والی یہ اعلٰی سطح کی کمیٹی جے ائی ٹی طرز پر بنائی جائے گی۔یہ کمیٹی بے نامی ٹرانزیکشن ایکٹ 2017 ءکے تحت عمل میں لائی گئی ہے۔ ائی ایس ائی، ائی بی ، ایف ائی اے، ایف بی ار، سٹیٹ بینک اف پاکستان اور سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن اف پاکستان (ایس ای سی پی) کے گریڈ 18 اور گریڈ 19 کے افسران اس کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔ کمیٹی کی سربراہی ممبر ایف بی ار نیشنل کوارڈینیٹر (بے نامی) نوشین جاوید امجد کریں گی۔
ے نامی اثاثوں کی چھان بین کے لیے تشکیل دی جانے والی یہ اعلیٰ سطحی کمیٹی ملک بھر میں موجود بے نامی اثاثوں اور ان کے مالکان کے حوالے سے معلومات اکٹھی کرکے متعلقہ حکام کو فراہم کرے گی۔ اور بے نامی قوانین پر عملدرامد کے عمل کو تیز کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گی جبکہ حکام کی کارکردگی کو مزید مو¿ثر بنانے میں بھی کمیٹی سہولت کاری کرے گی۔کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کمیٹی ممبران اپنے دفاتر میں رہ کر کام کریں گے جبکہ کمیٹی کی چئیرمین نوشین جاوید ضرورت پڑنے پر بے نامی انفارمیشن پروسیسنگ کمیٹی کا اجلاس طلب کریں گی۔ بے نامی انفارمیشن پروسیسنگ کمیٹی کے قیام کے لیے ریونیو ڈویڑن کی جانب سے وفاقی کابینہ کو سمری ارسال کی گئی تھی جسے کابینہ نے منظور کر لیا۔ اس سمری کے مطابق ملک میں بے نامی ٹرانزیکشن ایکٹ 2017ءفروری 2017 ءسے نافذ ہے۔ریونیو ڈویڑن نے 11 مارچ 2019 ءکو بے نامی ٹرانزیکشن ایکٹ کے رولز کا نوٹیفیکیشن جاری کیا اور سرکاری امور کے لیے افسران بھی مقرر کیے۔ سمری میں کہا گیا کہ بے نامی ٹرانزیکشن ایکٹ کے سیکشن 55 کے تحت حساس اور ریاستی اداروں کے نمائندوں پر ایک ایسی کمیٹی کے قیام کی ضرورت ہے جو بے نامی قوانین کے تحت ہونے والی کارروائی کے عمل کو تیز کرنے اور حکام کو سہولت فراہم میں مددگار ہو۔ وفاقی کابینہ نے سمری کے پیرا ٹو کے مطابق بے نامی انفارمیشن پروسیسنگ کمیٹی کے قیام کی منظوری دی۔