تازہ تر ین

آرمی چیف کو توسیع ،بالا آخر یہی ہونا تھا تو معاملہ اتنا لٹکایا کیوں گیا،ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میں اپنے اکثر پروگراموں میں کہہ چکا ہوں کہ سیاسی جماعتوں کی آپس یں چپقلش ہو سکتی ہے لیکن آرمی سے بطور ادارہ سیاسی جماعتوں کی چپقلش نہیں ہو سکتی لہٰذا اگر آرمی ایکٹ میں ترمیم مقصود ہوئی تو سبھی ساتھ دیں گے اور آپ نے دیکھ لیا کہ بالآخر یہی سب کچھ ہوا۔ جب تک جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور سابق فاٹا اراکین کی طرف سے واک آﺅٹ کیا گیا تو ان جماعتوں کی اتنی اہمیت نہیں ہے۔ ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ ان کی عددی اکثریت اتنی حیثیت رکھتی ہی نہیں۔ جہاں تک اس معاملے کو جو بالآخر ہونا تھا اس کو اتنا لٹکایا کیوں گیا یہ سیاسی جماعت اس بہانے حکومت کو دباﺅ میں لانا چاہتی تھی اور ان کا خیال تھا کہ حکومت ان کے پریشر میں آ کر ان کی کچھ نہ کچھ باتیں مان لے۔ نظر آتا تھا کہ کس کو اپنے بندے چھڑوانے کی فکر ہے۔ کچھ کو کوئی کچھ سہولتیں حاصل کرنا چاہتا ہے۔ کچھ قوانین میں تبدیلی کا خواہش مند ہے لہٰدا یہ سب کچھ ہوتا رہا۔ لیکن اس سب کے باوجود بنیادی طور پر آرمی سے بحیثیت ادارہ کسی سیاسی جماعت کو کوئی اختلاف نہیں۔ اور وہ بھی اسے ملک میں جس کی تاریخ میں اتنے طویل عرصہ مارشل لاءرہے ہوں اور میں سمجھ سکتا ہوں کہ جب کبھی یہ منظر سامنے آتا تھا کہ اچھا اگر بالفرض ان کی بات نہ مانی گئی اور فوج پر چھوڑ دیا گیا کہ فوج جو کرنا چاہتی ہے تو اس ملک سے جمہوریت کا بستر ہی گول ہو جائے یہ کوئی نہیں چاہتا تھا۔ سیاسی جماعتوں کی پاک آرمی سے کوئی جنگ نہیں تھی آپس میں جنگ تھی کہ اس بنیاد پر حکومتی پارٹی چاہتی ہے آرمی ایکٹ میں ترمیم کرنا چاہتی ہے اور خاص طور پر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرنا لہٰدا اس بہانے سبھی سیاسی جماعتیں ان کو دبانے کی کوشش کر رہی تھیں ان کی مخالفت کی کوشش کر رہی ہے اور ان سب کے اپنے اپنے بارگیننگ پوائنٹس تھے لگتا ہے کہ وہ اپنے مطالبات منوانے کے لئے ایسا کر رہے ہیں اس سلسلے میں پیپلزپارٹی کی جو سوچ تھی سب سے زیادہ ناکامی ہوئی اس لئے کہ پیپلزپارٹی کا قیام تھا کہ مجموعی طور پر جس طرح کہ مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میں بلکہ آزادی مارچ کے سلسلے میں انہوں نے غیر مشروط طور پر حمایت کی تھی اس طرح سے پیپلزپارٹی کا خیال تھا کہ ان سے کوئی مشورہ کرے گا لیکن ن لیگ نے عددی اکثریت کی بنیاد پر ان سے بات کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا یکطرفہ طور پر اعلان کر دیا کہ ہم تو اس سلسلے میں آرمی ایکٹ کے معاملے پر سپورٹ کریں گے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری سوچ رہے تھے کہ مسلم لیگ ن کی تو ساری باتیں مان لی گئیں۔ نوازشریف کو جیل سے نکال کر باہر بھیج دیا گیا۔ شہباز شریف کو باہر جانے کی اجازت مل گئی حالانکہ ان پر مقدمات تھے۔ ایک بات سمجھ نہیں آ رہی کہ جھگڑا تو صرف 3 سال کی توسیع کا تھا یعنی سال کی عمر کے آرمی چیف کو 3 سال مزید دینے کا جو کہ اس سے پہلے بھی ملتے رہے ہیں جس طرح جنرل کیانی کو ملے تھے۔ لیکن جو اب قانون منظور ہوا ہے اس کی عمر تو 64 برس تک لے گئے ہیں۔ اس کی وجہ کیا تھی۔ عام طور پر یہ کہا جاتا تھا کہ جس طرح سے بھارت میں آرمی ایکٹ میں معمولی سی ترمیم کے ساتھ اپنا مقصد حاصل کر لیا گیا اور 3 سال تک آرمی چیف کو توسیع بھی دے دی اور چیف آف ڈیفنس بنا کر سارے اختیارات ان کے سپرد کر دیئے گئے اس وقت سوچا جا رہا تھا کہ پاکستان میں س مسئلے پر اتنا زیادہ لٹکانے کی کیا وجہ ہے لیکن اب پھر اچانک یہ لگا کہ جس طرح سے کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا فوراً ا سارا کچھ حل ہو گیا اس کی کیا وجہ ہے کیا انڈیا کے ایکٹ میں ترمیم نے پاکستان میں مجموعی طور پر اثر ڈالا جن پارٹیوں نے اس کے بارے میں رائے نہیں دی اس کی کیا وجہ ہے۔ عام طور پر پارٹیاں کسی بل کی حمایت کرتی ہیں یا مخالفت کرتی ہیں۔ اب یہ ٹنٹا ہی ختم ہو گیا کہ اس قانون کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ایران کی طرف سے پہلی بات یہ محسوس ہوتی ہے کہ ایران اتنا بڑا ملک نہیں اس کے باوجود یہ ایرانی قوم کا یہ جذبہ ہے جس طرح سے آج 35 آدمی جو ہیں بھگدڑ میں ہی چل بسے ہیں اس سے جوش و خروش کا کتنا عالم ہے ایک شخص کے جنارے پر 35 لوگوں کا انتقال ازخود بہت بڑی خبر ہے۔ ایران کا جو عزم ہے اس کا اعتماد ہے جو خود انحصاری اور حوصلہ ہے اس کا ضرور اثر پڑے گا۔ امریکہ جیسی سپر پاور کو آنکھیں ایران ہی کا کام ہے۔ جس طرح روس اور فرانس نے ایران کا ساتھ دیا ہے اور واضح طور پر امریکہ کی سوچ کی مخالفت کی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے دنیا میں اب ایسے ممالک موجود ہیں جو دنیا میں واحد سپر پاور بننے کا موقع دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ روس دوبارہ ابھر رہا ہے۔ پاکستان کے دو اخبارات نے یہ خبر چھاپی ہے کہ ایران معاملے میں ایران اور عراق کے درمیان کشیدگی ہے اس میں امریکہ تیار ہے کہ عراق کو خالی کر کے جانے کو عجیب بات ہے کہ امریکہ نے وضاحت بھی جاری کر دی ہے کہ یہ خط صحیح ہے البتہ غلطی سے آڈٹ ہو گیا۔ کیا امریکہ جیسے ملک میں بھی اتنا بڑا بلنڈر ہو سکتا ہے کہ امریکہ وہاں سے بھاگنے کے لئے تیار ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں تیسری جنگ عظیم کا راستہ ہموار ہو رہا ہے۔ سب کو پتہ تھا کہ جب تک صدام حسین زندہ تھے اس نے انتہا کے نظریات کی بنیاد پر شیعہ فیکٹر کو قابو میں رکھنے کے لئے کافی حد تک کامیاب تھے اب جبکہ یہ فیکٹر نہیں رہا صدام بھی نہیں رہے تو اب یہ عراق ہی میں خود جانتا ہوں کہ شیخ رشید اور دوسرے اخبارات کے ایڈیٹروں کے ساتھ ہم ظفر اللہ جمالی صاحب کے ساتھ ہم گئے۔ جمالی صاحب نے وہاں سے خواہش ظاہر کی کہ وہ زیارتوں کے لئے جانا چاہتے ہیں ہم بھی گئے۔ یہ عجیب بات تھی کہ ایران سے ہم پہلے عراق گئے۔ عراق میں جو گڑھ ہیں اہل تشیع کے وہ وہاں موجود ہیں۔ ایران کا کسی آبادی کا ایک بڑا حصہ اہل تشیع پر مبنی ہے۔ساری دنیا سے اہل تشیع وہاں جاتے ہیں اب وہ حصہ دوبارہ تقویت پکڑرہا ہے۔ امریکہ ایران اور سعودی عرب کو قریب نہیں آنے دے گا ایران کی وجہ سے امریکی فوج سعودی عرب میں بیٹھی ہے اور اس دھندے میں پیسے کماتا ہے۔ لہٰذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ جنرل قاسم سلیمانی کی وفات سے ایران میں صف ماتم بچھی لیکن امریکہ نے خوشی سے بغلیں بچائیں۔ ایران نے ٹرمپ کو مارنے پر جو8 کروڑ ڈالر کا انعام رکھ دیا ہے۔ کیونکہ پہل امریکہ نے کی تھی۔ پتہ چلا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی ایریان کے بہت اہم جرنیل تھے اپنے طور پر سعودی عرب سے بات چیت کر رہے تھے۔ ظاہر ہے امریکہ کو یہ پسند نہیں تھا۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain