لاہور (خصوصی رپورٹ) مسلم لیگ ن میں قیادت کا بحران سنگین صورت حال اختیار کر گیا نوازشریف اور شہبازشریف کی وطن واپسی میں تاخیر کی وجہ سےپارٹی کی عارضی سربراہی کیلئے بھی ناموں پر اختلاف رہا ہے جس کی وجہ سے دونوں بھائیوں کی وطن واپسی غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار ہے۔ پارٹی کے اندر بھی پارٹی صدر بننے کیلئے سینئر رہنماﺅں میں کھچڑی پک رہی ہے۔ پارٹی میں موجود ہارڈ کور رہنما جن کی سرپرستی نوازشریف اور مریم نواز کر رہے ہیں اب بھی مزاحمت کے خواہش مند ہیں اور اس مزاحمت کی آڑ میں مفاہمت چاہتے ہیں جبکہ شہبازشریف کی سربراہی میں ایک موثر دھڑا مزاحمت کی بجائے مصالحت کے ذریعے مفاہمت کرنے کا آرزو مند ہے۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق نوازشریف عارضی طور پر پارٹی سربراہی شاہد خاقان عباسی کو دینا چاہتے ہیں اس مقصد کیلئے نوازشریف نے شاہد خاقان عباسی کو ضمانت کی درخواست دائر کرنے کی ہدایت کی ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ جلد ہی شاہد خاقان درخواست ضمانت دائر کردیں گے۔ واضح رہے کہ مری کے شاہد خاقان عباسی کے اسٹیبلشمنٹ سے نہایت قریبی تعلقات ہیں۔ اس وجہ سے نوازشریف کی نا اہلی کے بعد انہیں وزیراعظم کا منصب سونپا گیا تھا تب ہی اور اب بھی نوازشریف چاہتے ہیں کہ شاہد خاقان عباسی اپنے تعلقات کو بروئے کار لا کر ان کی سیاست میں واپسی کی راہ ہموار کریں لیکن شاہد خاقان عباسی نے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کو اب تک تک اپنے لئے استعمال نہیں کیا جبکہ شاہد خاقان بھی مزاحمت کے نہیں مفاہمت کے قائل ہیں جبکہ شہبازشریف جو مفاہمت کے قائل ہیں اس مقصد کیلئے چکری کے چودھری نثار کو پارٹی سربراہ بنانا چاہتے ہیں‘ چودھری نثار بھی اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جاتے ہیں اور مفاہمت کے حامی ہیں اور آج ملکی سیاست سے عملی طور پر دوری اختیار کرکے خاموش زندگی بسر کر رہے ہیں۔ چودھری نثار قومی اسمبلی کی نشست سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوگئے مگر تاحال رکن پنجاب اسمبلی کے طورپر انہوں نے حلف نہیں اٹھایا۔ ذرائع کے مطابق چودھری نثار کو شہبازشریف کی طرف سے پیش کش کی گئی ہے کہ اگر وہ پارٹی کے سربراہی سنبھال لیں اور رکن پنجاب اسمبلی کا حلف اٹھا لیں تو انہیں فوری طور پر پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنا دیا جائے گا اور پھر ان ہاﺅس تبدیلی کے ذریعے وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ دوسری طرف پارٹی کے مزاحمتی عناصر پارٹی کی سربراہی کیلئے ہاتھ پاﺅں مار رہے ہیں۔ احسن اقبال اور خواجہ آصف اپنی سی کوششوں میں مصروف ہیں مگر نوازشریف شاہد خاقان عباسی کے حق میں ہیں۔ ادھر مریم نواز بھی طویل عرصہ خاموش رہنے کو تیار نہیں جبکہ شہبازشریف ان کی پاکستان موجودگی کی صورت میں پاکستان آنے پر تیار نہیں۔ شہبازشریف چاہتے ہیں مریم نواز لندن جائیں تو وہ پاکستان واپس آئیں تاہم اگر مریم پاکستان میں رہتے ہوئے بھی زبان بندی کا وعدہ کریں تو رواں ماہ کے آخر یا مارچ کے پہلے ہفتہ شہبازشریف پاکستان آسکتے ہیں۔ نوازشریف کے بارے میں البتہ اطلاع ہے کہ ان کی فوری وطن واپسی خارج ازامکان ہے اور اگر مریم نواز بھی لندن چلی جاتی ہیں تو آئندہ الیکشن سے قبل ان کی واپسی شاید ہی ممکن ہوسکے۔ دونوں بھائیوں کی وطن واپسی پر مزاحمتی اور مفاہمتی قوتوں کا بڑا کردار ہوگا۔ مفاہمت کی صورت میں دونوں وطن ہونگے مزاحمت ہوئی تو شاید دونوں وطن واپس نہ آئیں۔