لاہور کے 1034گھر قرنطینہ ،ملک بھر میں مزید17جاں بحق، مریضوں کی تعداد 8418ہوگئی

لاہور‘ پشاور‘ کراچی‘ اسلام آباد (نمائندگان خبریں) ملک بھر میں کورونا کے تصدیق شدہ کیسز کی تعداد 8 ہزار418 تک پہنچ گئی جبکہ ایک دن میں 17 افراد جاں بحق ہوگئے جس کے بعد اموات کی تعداد 176 ہوگئی۔نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 425 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، پنجاب میں سب سے زیادہ 3721، سندھ میں 2537، خیبر پختونخوا میں 1235، بلوچستان میں 432، گلگت بلتستان میں 163، اسلام آباد میں 181 جبکہ آزاد کشمیر میں 49 کیسز رپورٹ ہوئے۔ملک بھر میں اب تک ایک لاکھ 4 ہزار 302 افراد کے ٹیسٹ کئے گئے، گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 4873 نئے ٹیسٹ کئے گئے، اب تک 1970 مریض صحتیاب ہوچکے ہیں جبکہ 44 مریضوں کی حالت تشویشناک ہے۔پاکستان میں کورونا سے ایک دن میں 17 افراد جاں بحق ہوگئے جس کے بعد وائرس سے مرنے والوں کی تعداد 176 ہوگئی۔ سندھ میں 56، پنجاب میں 42، خیبر پختونخوا میں 67، گلگت بلتستان میں 3، بلوچستان میں 5 اور اسلام آباد میں 3 مریض جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اب تک 462 ہسپتالوں میں قائم قرنطینہ مراکز مریضوں کا علاج جاری ہے، ان ہسپتالوں میں 7295 بیڈز کا بندوبست کیا گیا ہے۔ محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ پنجاب نے شہر میں کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے محلوں کے پیش نظر لاہور کے مختلف علاقوں میں مجموعی طور پر 1034 گھروں کو قرنطینہ بنا دیا ہے جن میں 4236 افراد رہائش پذیر ہیں جبکہ ان افراد کو بھی قرنطینہ کیا گیا ہے۔ ان میں شاہدرہ سکیم‘ بیگم کوٹ‘ بھٹہ چوک‘ گلشن راوی‘ ورکشاپ کالونی‘ چاہ میراں سمیت دیگر علاقے شامل ہیں۔ پمز ہسپتال میں زیرعلاج کرونا کا ایک اور مریض دم توڑ گیا۔ ذرائع کے مطابق 82 سالہ مریض کا تعلق ترلائی سے تھا اور گردوں کے مرض میں پہلے سے مبتلا تھا۔ پمز میں کرونا سے مرنے والوں کی تعداد چار ہوگئی۔ ذرائع کے مطابق سات مریضوں کی حالت تشویش ناک ہے۔ پمز میں اب تک 20 افراد صحت یاب ہوکر گھر کو روانہ ہوئے۔ پمز ہسپتال میں کرونا کے 111 کیسز رپورٹ ہوئے پمز میں اب تک 1127 کرونا مریضوں کے ٹیسٹ کئے گئے اسلام آباد میں کرونا کے 181 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔ پولی کلینک ہسپتال کی ڈاکٹرز،نرسنگ سٹاف،نرسز ،2سیکورٹی گارڈز،چیف لیبارٹری ٹیکنیشن میں کرونا وائرس کی تشخیص ہو گئی،پولی کلینک ہسپتال میں ایک مرتبہ پھر خوف ہراس کی فضا پیدا ہوگئی،پولی کلینک انتظامیہ نے مختلف شعبوں میں کام کرنے والے پولی کلینک کے 42 ملازمین کے کرونا وائرس میں مشتہبہ ہونے پر سیمپل لئے تھے،جن میں سے متعدد ملازمین کے ٹیسٹ پازیٹو آئے ہیں،ان ملازمین میں زیادہ تر عملہ ایم سی ایچ شعبہ میں کام کرتا ہے جب کہ ایک آوٹ سائیڈ سے آنے والا شخص بھی پولی کلینک ہسپتال میں آکر اس وائرس کا شکار ہو گیا ہے ،پولی کلینک کے کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے عملہ میں میڈیکل آفیسر ڈاکٹر سعدیہ ضیا ، نرسنگ سپرنٹنڈنٹ آسٹر آئرن ، سٹاف نر س مریم بی بی، سٹاف نرس نجمہ کو پہلے کرونا وائرس کی وجہ سے ہسپتال میں داخل کیا جا چکا ہے ملک ممتاز چیف ٹیکنیشن لیبارٹری،نسیم مورس سینٹری ورکر،خالد محمود پرائیویٹ کمپنی کے سیکیورٹی گارڈ شامل ہیں پولی کلینک ہسپتال عملہ میں کرونا وائرس پائے جانے کا مسکل دوسرا بڑا واقع ہے ۔ افغانستان سے تین روز قبل آنے والے 195 پاکستانی ٹرانسپورٹرز میں سے 108 ٹرانسپورٹرز کی کرونا لیبارٹری ٹیسٹ کردی گئی جس میں 23 افراد میں تصدیق ہوگئی ڈی سی محمود اسلام نے تصدیق کرتے ہوئے لیب ٹیکنیشن میں کرونا وائر کی تصدیق کھلا بٹ محلہ دربند کے رہائشی آصف شہزاد میں کرونا وائرس کی تصدیق کے بعد گھر میں ہی قرنطینہ کردیا گیا۔

عوام نظم و ضبط کا مظاہرہ کرینگے تو بندشوں میں مرحلہ وار نرمی ہوگی، عمران خان

اسلام آباد (نامہ نگار خصوصی) وزیر اعظم عمران خان نے نے کہا ہے کہ لوگ نظم و ضبط کا مظاہرہ کریں گے تو تو بندشوں میں مرحلہ وار نرمی بھی ممکن ہوگی۔مائیکرو بلاگنگ سائٹ ٹوئٹر پر عوام کے لیے جاری اپنے ایک بیان میں عمران خان نے کہا کہ وبائی مرض کے دوران سماجی دوری اختیار کئے رکھیں اور جس قدر ممکن ہو سکے خود کو گھروں تک محدود رکھیں۔انہوں نے لکھا کہ جتنا لوگ خود کونظم و ضبط سے آراستہ کرینگے اتناہی ہمارے لیے وبا سے نمٹنا آسان ہوگا۔عمران خان نے کہاکہ لوگ نظم و ضبط سے رہیں گے توبندشوں میں مرحلہ وار نرمی بھی ممکن ہوگی۔وزیر اعظم نے اپنے ٹوئٹ میں شوکت خانم ہسپتال کے ڈاکٹروں اور نرسوں کی جانب سے دیا گیا ایک ویڈیو پیغام بھی منسلک کیا جس میں موجود تمام ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ عوام گھروں پر رہ کر کورونا کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان نے ممبران قومی اسمبلی کو ہدایت کی کہ وہ اپنے حلقوں میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے خصوصا ماہ رمضان میں ریلیف فراہم کرنے میں متحرک کردار ادا کریں۔ پیر کو وزیر اعظم عمران خان سے فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ممبران قومی اسمبلی نے ملاقات کی جس میں وفد میں چوہدری عاصم نذیر، نواب شیر وصیر، رضا نصراللہ اور خرم شہزاد شامل تھے ،وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر بھی ملاقات میں موجود تھے ،ممبران قومی اسمبلی نے وزیر اعظم کو کورونا وائرس کے تناظر میں اپنے اپنے حلقوں کی صورتحال خصوصا احساس پروگرام کے تحت کمزور طبقات کو حکومت کی جانب سے مالی معاونت کی فراہمی کی صورتحال سے آگاہ کیا۔ وفد نے احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کو سراہتے ہوئے کہا کہ حکومت کے اقدام سے اس مشکل وقت میں کمزور طبقات کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے وزیر اعظم نے اطمینان کا اظہار کیا کہ احساس پروگرام کسی سیاسی وابستگی کو ملحوظ خاطر رکھے بغیر مکمل طور پر شفاف، غیر جانبدار اور میرٹ کی بنیاد پر عوام کو ریلیف فراہم کر رہا ہے۔وزیر اعظم نے ممبران قومی اسمبلی کو ہدایت کی کہ وہ اپنے حلقوں میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے خصوصا ماہ رمضان میں ریلیف فراہم کرنے میں متحرک کردار ادا کریں۔وزیر اعظم عمران خان سے ممتاز علماءکرام کے وفد نے ملاقات کے دوران لاک ڈاﺅن سے متعلق ان کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا ہے۔ وزیراعظم آ فس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم سے ملاقات کرنے کرنے والے وفد میں پیر امین الحسنات شاہ، پیر شمس بن الامین، پیر نقیب الرحمان، مولانا محمد حنیف جالندھری، مولانا طاہر محمود اشرفی، مولانا حامدالحق حقانی، حافظ غلام محمد سیالوی، علامہ راجہ ناصر عباس، صاحبزادہ پیر سلطان فیاض الحسن، مفتی محمد گلزار نعیمی، مولانا سید چراغ دین شاہ اور مولانا ضیاءاﷲ شاہ شریک تھے جبکہ ویڈیو لنک کے ذریعے گورنر سندھ عمران اسماعیل، مفتی منیب الرحمان، مفتی تقی عثمانی بھی شریک ہوئے۔ وزیر تعلیم شفقت محمود، وزیر مذہبی امور نورالحق قادری، معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز و دیگر بھی موجود تھے۔ علمائے کرام کے وفد نے لاک ڈاو¿ن کے حوالے سے وزیراعظم کے موقف کی بھرپور تائید کی۔ وزیراعظم کو علماءکرام کی جانب سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی۔ وزیراعظم عمران خان اور صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے درمیان خصوصی ملاقات ہوئی، اس اہم بیٹھک میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی شریک ہوئے۔ وزیراعظم، صدر اور ڈی جی آئی ایس آئی کے درمیان ہونے والی ملاقات میں علاقائی اور عالمی صورت حال سمیت کروناوائرس کے پھیلا کی روک تھام سے متعلق تبالہ خیال کیا گیا۔صدر عارف علوی نے کرونا کے خلاف حکومتی اقدامات کو سراہا اور وزیراعظم کے احساس ریلیف پروگرام کی تعریف کی۔ اس موقع پر صدر مملکت کا کہنا تھا کہ حکومت مستحقین کو ریلیف دینے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے۔ ملاقات میں بھارت کی جانب سے سیز فائر کی خلاف ورزیوں پر برہمی کا اظہار کیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں کروناوائرس بنیادی حقوق کے خلاف استعمال کرنے کی بھی مذمت کی گئی۔وزیر اعظم کی علما سے ملاقات، لاک ڈان پر وزیر اعظم کے مقف کی بھرپور تائید۔ملاقات میں رہنماں نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں صحت کی سہولتیں نہ دینے کی بھی مذمت کی۔ وزیر اعظم نے رمضان سے متعلق اتفاق رائے پیدا کرانے پر شکریہ ادا کیا۔دریں اثنا رمضان میں تراویح اور نمازوں کی ادائیگی کے ایس اوپیز کے نفاذ پر بھی بات چیت ہوئی۔

کرونا کے 5ہزار مریض،کھربوں کہاں خرچ ہوگئے ؟ حکومتی عمل میں شفافیت نظر نہیں آ ر ہی، چیف جسٹس

اسلام آباد (خبر نگار خصوصی)سپریم کورٹ نے کرونا سے متعلق از خود نوٹس کیس میں بیت المال اور زکوة فنڈز کی رقوم کی ادائیگی میں شفافیت اور کرونا وائرس سے متعلق اقدامات پر تمام صوبوں اور وفاق سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے زکوة کا فنڈتنخواہ اورانتظامی اخراجات پر خرچ ہوسکتا ہے یا نہیں، عدالت نے اسلامی نظریاتی کونسل مفتی اعظم پاکستان سے رائے مانگ لی جبکہ ججز نے ریمارکس دیئے ہیں کہ حکومتی اقدامات پر سوالات اٹھاتے ہوئے فنڈز خرچ کرنے کے طریقہ کار کے حوالے سے پوچھا اور کہا ہے کہ وفاق ہو یا صوبائی حکومتیں ، کسی عمل میں شفافیت نظر نہیں آرہی ہے،9 ارب سے زائد رقم وفاق نے صوبوں کو دی، صوبے آگے رقم کا کیا کررہے ہیں اس کی نگرانی ہونی چاہیے،نگرانی سے صوبائی خود مختاری پر کوئی حرف نہیں آتا، مانیٹرنگ بھی ایک طرز کا آڈٹ ہے، ڈیٹا ایک دوسرے شیئر ہونا چاہیے، زکوٰة کا پیسہ لوگوں کے ٹی اے ڈی اے اورباہر دورے کروانے کےلئے نہیں ہے، یہی حال بیت المال اورزکوٰاة کے محکمے کے ساتھ ہے،زکوٰةکے پیسے دفتری امور پر نہیں خرچ کیے جا سکتے،جس مقصد کےلئے یہ پیسے آتے ہیں یہ وہیں خرچ ہونے چاہئیں، کو زکوٰة فنڈ کا آڈٹ کروانا چاہیے،عوام اوربیرون ملک سے آیا پیسہ نہ جانے کیسے خرچ ہورہا ہے،صوبوں کے بنائے قوانین کا جائزہ لینا ضروری ہے، سندھ میں 8 ارب کے اعداو شمار پر ہم نے یقین نہیں کیا، کپڑے کی دکان کھولے بغیر درزی کھولنے کا کیا فائدہ ہوگا؟درزی کو کپڑا اور دیگر چیزیں بھی چاہیے ہوتی ہیں، ایسے تو درزی ہاتھ ہر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہے گا،سندھ میں بعض صنعتوں کو کام کی اجازت دینا اچھا فیصلہ ہے؟۔ پیر کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے کرونا وائرس از خود نوٹس پر سماعت کی ،اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے ایڈووکیٹ جنرل اور دیگر عہدیدار بھی عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے سماعت کاآغاز کرتے ہوئے کرونا وائرس کے حوالے سے اقدامات پر کہا کہ صوبوں اوروفاق کے مابین کوئی طریقہ کار دکھائی نہیں دے رہا۔چیف جسٹس نے کہا کہ بیت المال والوں نے عدالت میں جوا ب بھی جمع نہیں کرایا، عدالت کو کیا معلوم بیت المال کیا کررہا۔انہوں نے کہا کہ تمام حکومتیں ریلیف کی مد میں رقم خرچ کررہی ہیں لیکن ہے اور کسی بھی عمل میں شفافیت دکھائی نہیں دے رہی ہے۔جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ 9 ارب سے زائد رقم وفاق نے صوبوں کو دی، صوبے آگے رقم کا کیا کررہے ہیں اس کی نگرانی ہونی چاہیے۔انہوںنے کہاکہ نگرانی سے صوبائی خود مختاری پر کوئی حرف نہیں آتا، مانیٹرنگ بھی ایک طرز کا آڈٹ ہے، ڈیٹا ایک دوسرے شیئر ہونا چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ زکوٰة کا پیسہ لوگوں کے ٹی اے ڈی اے اورباہر دورے کروانے کےلئے نہیں ہے، یہی حال بیت المال اورزکوٰاة کے محکمے کے ساتھ ہے۔انہوں نے کہا کہ بیت المال کا بھی بڑا حصہ انتظامی امور پرخرچ ہوتا ہے اور وہ کسی کو فنڈ نہیں دیتے، مسئلہ یہ ہے کہ کسی کام میں شفافیت نہیں ہے۔اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ حکومت ہو یا کسی اور صوبے کی حکومت مسئلہ شفافیت کا ہے،صرف یہ بتایا گیا کہ امداد دی گئی لیکن تفصیل نہیں دی گئی۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق وفاق نے 9 ارب سے زائد زکوٰة جمع کی، مستحقین تک رقم کیسے جاتی ہے اس کا کچھ نہیں بتایا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ زکوٰةکے پیسے دفتری امور پر نہیں خرچ کیے جا سکتے، لوگ منتیں مانتے ہیں تو وہاں چیزیں رکھ دیتے ہیں اورصدقے کے پیسے بھی وہاں جمع کرواتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ صدقے کے پیسے آفیسروں کی تنخواہوں پر کیسے لگائے جا سکتے ہیں، جس مقصد کےلئے یہ پیسے آتے ہیں یہ وہیں خرچ ہونے چاہئیں.چیف جسٹس نے کہا کہ مزارات کے پیسوں سے افسران کیسے تنخواہ لے رہے ہیں، ڈی جی بیت المال بھی زکوٰةفنڈ سے تنخواہ لے رہے ہیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ افسران کی تنخواہیں حکومت کو دینی چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ زکوٰة کا پیسہ بیرون ملک دوروں کے لیے نہیں ہوتا، زکوٰةفنڈ کا سارا پیسہ ایسے ہی خرچ کرنا ہے تو کیا فائدہ، عوام کو ضرورت پیدا ہو تو ایسے مسائل سامنے آتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ مزارات کی حالت دیکھ لیں سب گرنے والے ہیں، سمجھ نہیں آتا اوقاف اور بیت المال کا پیسہ کہاں خرچ ہوتا ہے، سہیون شریف بازار کی بھی مرمت ہوتی تو چھت نہ گرتی، مزارات کا پیسہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کے لیے ہوتا ہے۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ جو قوانین صوبوں نے بنائے ہیں ان کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے، قرنطینہ مراکز میں مقیم افراد سے پیسے لیے جارہے ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قرنطینہ کےلئے ہوٹلوں کا انتخاب کن بنیادوں پر کیا گیا، تمام ہوٹلوں کو قرنطینہ بنانے کا موقع کیوں نہیں دیا گیا، جو پیسے نہیں دے سکتے انہیں مفت قرنطینہ میں منتقل کیا جانا چاہیے، حاجی کیمپ قرنطینہ مراکز میں حالات غیر انسانی ہیں۔سیکریٹری صحت تنویر قریشی سے چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اسلام آباد میں کتنے قرنطینہ سینٹرز قائم کیے گئے ہیں جس پر انہوں نے جواب دیا کہ اسلام آباد کی قفاقی حدود میں 16 قرنطینہ مراکزقائم ہیں، ان میں ہوٹلوں، حاجی کیمپ، او جی ڈی سی ایل بلڈنگ اورپاک چائنا سینٹرشامل ہیں، بیرون ملک سے آنے والے مسافروں کو 24 گھنٹے ان قرنطینہ مراکزمیں رکھا جاتا ہے۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ ان قرنطینہ مراکز میں ان کا خرچ کون برداشت کرتا ہے، سیکریٹری صحت نے کہا کہ حکومت اس کا خرچ برداشت کرتی ہے۔اسکریننگ پر بات کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ لوگ پیناڈول وغیرہ کھا کر اسکریننگ سے بچ نکلتے ہیں، مردان میں ایک شخص نے دو پیناڈول کھائی اوروہ اسکرین سے بچ نکلا جس پر سیکرٹری صحت نے کہا کہ اسی لیے اب 24 گھنٹے قرنطینہ میں رکھ رہے ہیں۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ حاجی کیمپ قرنطینہ مرکز میں لوگ کیوں شورمچا رہے ہیں، کیا آپ حاجی کیمپ قرنطینہ مرکز دیکھ کر آئے ہیں، تاہم سیکریٹری صحت نے کہا کہ میں نہیں گیا لیکن ایڈیشنل سیکریٹری خود ہوکرآئے ہیں۔چیف جسٹس نے سیکریٹری صحت سے کہا کہ آپ حاجی کیمپ، او جی ڈی سی ایل اورپاک چائاہ سینٹر خود جاکر دیکھیں اور سیکریٹری صحت نے کہا کہ دورہ کرکے سہولیات کی فراہمی یقینی بناو¿ں گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ قرنطینہ مراکز میں کھانا اور تمام بنیادی سہولیات کی دستیابی یقینی بنائیں، تفتان کے قرنطینہ میں رہنا بھی ڈراو¿نا خواب تھا، حکومت پیسے بہت خرچ کر رہی ہے لیکن نظر کچھ نہیں آ رہا کہ ہو کیا رہا ہے۔جسٹس قاضی امین نے سوال کیا کہ کیا پلازما انفیوژن سے کرونا کاعلاج واقعی ممکن ہے، جس پر سیکریٹری صحت تنویر قریشی نے کہا کہ یہ اب ٹیسٹنگ کے مراحل میں ہے، ابھی تک پلازما انفیوژن کے مثبت نتائج سامنے نہیں آئے۔ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے اس موقع پر عدالت کو بتایا کہ چک شہزاد میں 32 کنال پر قرنطینہ مرکز بنا رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ قرنطینہ مراکز میں گرمیوں میں کیا سہولیات ہوں گئی؟۔ایڈیشنل کمشنراسلام آباد نے چیف جسٹس کو بتایا کہ ایئرکنڈیشنڈ کی ضرورت ہوئی تو فراہم کریں گیے اس موقع پر چیف جسٹس نے ان سے پوچھا آپ کون صاحب ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اسلام اباد ہوں۔چیف جسٹس نے وسیم خان کو روسٹرم سے ہٹاتے ہوئے کہا کہ آپ جاکر سیٹ پر بیٹھیں اور کہا کہ کیا آپ کو اے سی لگانے کا خرچہ معلوم ہے۔جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ فائبر کا قرنطینہ بہت جلد گرم ہو جائےگا۔اس موقع پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ ورلڈ بینک کے پیسوں سے یونیسف سے خریداری کا کیا معمہ ہے، یہ تو پیسہ ایک ہاتھ سے لے کر دوسرے ہاتھ سے دینے کی بات ہے۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کسی صوبے اور محکمے نے شفافیت پر مبنی اپنی رپورٹ نہیں دی۔چیف جسٹس نے کہا کہ عوام اور بیرون ملک سے لیا گیا پیسہ نہ جانے کیسے خرچ ہو رہا ہے، کھربوں روپے خرچ ہو چکے اور مریض صرف 5 ہزار ہیں۔جسٹس قاضی امین نے کہا کہ قرنطینہ مراکز بنانے کے بجائے اسکول اور کالجوں کا استعمال کیوں نہیں کیا جاتا، نئے قرنطینہ مراکز بنانے پر پیسہ کیوں لگایا جارہا ہے۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اسکولوں کی تجویز اچھی ہے اس پر غور کریں گے۔انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت ایزی پیسہ کے ذریعے امدادی رقم تقسیم کر رہی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ خرچ کی گئی رقم کی تفصیلات پیش نہیں کی گئیں۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا زکوٰة فنڈ سے تنخواہ دینا شرعی طور پر جائز ہے، کیا زکوٰة کے پیسے سے انتظامی اخراجات کرنا جائز ہے، کیا محکمہ زکوٰة کا بنایا گیا قانون شریعت سے متصادم نہیں۔انہوں نے کہا کہ زکوٰة فنڈ کس کو مل رہا ہے یہ ایک معمہ ہے۔سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے سامنے ایڈووکیٹ جنرل سندھ پیش ہوئے اور کہا کہ سندھ میں56 کروڑ 90 لاکھ روپے 94 ہزارسے زائد افراد کو دئیے گئے اور تمام رقم زکوٰة فنڈز سے مستحقین کو دی گئی۔جسٹس سجاد علی شاہ نے پوچھا کہ یہ 569 ملین روپے کن افراد کو اداکیے گئے تو ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ زکوٰة انہی افراد کو دی گئی جنہیں ہرسال دی جاتی ہے، سندھ میں فی کس 6 ہزار روپے زکوٰة دی گئی۔ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ لازمی نہیں کہ کرونا کا ہر مریض بیمار بھی ہو، سیل کی گئیں کراچی کی 11 یونین کونسلوں کی کل آبادی 6 لاکھ 74 ہزار سے زائد ہے۔انہوں نے کہا کہ 12اپریل تک 234 کرونا کیسز ان 11 یونین کونسل سے سامنے آئے تھے۔انہوںنے کہاکہ ایک سینٹر میں 1200 مریض رکھنے کی گنجائش ہے جبکہ 168 افراد کو گھروں میں ہی قرنطینہ کیا گیا ہے، 45 مریض ہسپتال میں ہیں جن کی حالت تشویش ناک ہے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ عدالت کو فراہم کی گئیں تمام معلومات درست ہیں جس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو علم نہیں ہوا کہ سندھ حکومت نے ایک ارب کا راشن بانٹ دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ حکومت چھوٹا سے کام کرکے اخباروں میں تصویریں لگواتی ہے جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ صبح 4 سے 7 بجے تک گھرگھر راشن تقسیم کیا جاتا ہے۔اس موقع پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ہمارے صوبے کے بارے میں باتیں کیوں بنتی ہیں، سندھ سے متعلق باتیں بلاوجہ تو نہیں بنتی کوئی تو وجہ ہے۔ایڈووکیٹ سلمان طالب الدین نے کہا کہ 30 مارچ سے راشن تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو آج تک جاری ہے، کرونا پر سیاست نہیں کرنا چاہتے اس لیے تصویریں بھی نہیں بنا رہے ہیں۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ میڈیا پر سنا ہے کہ ایکسپائرڈ اٹا اور چینی دی گئی جبکہ جسٹس سجاد علی شاہ نے سوال کیا کہ ڈسٹرکٹ ویسٹ میں راشن کی تقسیم کےلئے 22 ہزار گھروں کا تعین کیسے کیا گیا کیا ان گھروں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ایڈووکیٹ سلمان نے کہا کہ یونین کونسلوں کی کمیٹیاں مستحقین کا چناو¿ کرتی ہیں جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ڈسٹرکٹ ویسٹ چھوٹا نہیں بلکہ ایک یورپی ملک کے برابر ہے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ جس گھر کو راشن دیا گیا انہیں تو معلوم ہے، ایک بیگ میں دس دن کا راشن ہوتا ہے۔جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ مانتے ہیں سندھ حکومت کو اس بار تشہیر کی ضرورت نہیں ہے تاہم تقسیم کا کام تو ایک دن میں نہیں ہوا ہو گا، جے ڈی سی والے راشن تقسیم کرتے ہوئے بتا رہے ہیں کہ کتنا راشن تقسیم ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اس کی تکلیف ہوتی ہے کہ ہمارے صوبے کے بارے باتیں کیوں بنتی ہیں جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ باتیں کرنے والے تو باتیں کرتے ہیں۔جسٹس سجاد علی شاہ نے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس راشن وصول کرنے والوں کی فہرستیں موجود ہیں جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے پاس فہرستیں موجود ہیں اور راشن فراہمی کا دوسرا مرحلہ جلد شروع ہو جائےگا۔چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرے مرحلے میں مزید ڈیڑھ ارب خرچ ہوں گے اور بالآخر سندھ حکومت 8 ارب روپے تک پہنچ ہی جائے گی۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ 8 ارب کی معلومات غلط ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 8 ارب روپے کے اعداو شمار پر ہم نے یقین نہیں کیا۔ایڈووکیٹ سلمان نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ سندھ میں معاشی سرگرمیاں شروع ہونے جارہی ہیں جو صنعتیں کھلیں گی وہ مخصوص دنوں میں ہی کام کریں گی۔ انہوںنے کہاکہ جن کی ملازمت شروع ہو گی انہیں راشن کی ضرورت نہیں رہے گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ کپڑے کی دوکان کھولے کے بغیر درزی کی دکان کھولنے کا کیا فائدہ ہوگا، درزی کو کپڑا اور دیگر چیزیں بھی چاہیے ہوتی ہیں، ایسے تو درزی ہاتھ ہر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ میں بعض صنعتوں کو کام کی اجازت دینا اچھا فیصلہ ہے، فیکٹریز ایکٹ پر سندھ کی کوئی فیکٹری پورا نہیں اترتی، ملازمین کے تحفظ کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ بلدیہ فیکٹری میں آگ لگی تو لوگوں کو بھاگنے کا راستہ بھی نہ ملا جبکہ فیکٹری کی کھڑکیاں بھی سیل کر دی گئی تھیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ فیکٹری ورکرز کے حوالے سے قانون پر عمل نہیں ہو رہا، فیکٹری مالکان اپنے عملے کو انسان نہیں سمجھتے جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ ایس او پیز پرعمل نہ کرنے والی تین فیکٹریوں کوبند کردیا گیا ہے۔ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ ماضی میں جو کچھ ہوا اسے بھول کر آگے بڑھ رہے ہیں، سندھ میں صرف مقامی تیار کردہ کٹ استعمال ہوں گی۔انہوں نے کہا کہ این 95 ماسک 425، سرجیکل ماسک 27 روپے میں مل رہے ہیں جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے پوچھا کہ سندھ حکومت کے لیے خریداری کون کر رہا ہے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ سول سوسائٹی کے نمائندگان پر مشتمل کمیٹی خریداری کرتی ہے، سول سوسائٹی کو ڈالنے کا مقصد بے جا الزامات سے بچنا تھا۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے زکوٰة کی رقوم کی ادائیگی میں شفافیت سے متعلق صوبوں اور آئی سی ٹی سے رپورٹ طلب کر لی۔عدالت عظمیٰ نے بیت المال کی شفافیت سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ چاروں صوبے اور وفاق آئندہ سماعت سے قبل کرونا وائرس پر اقدامات کے حوالے سے پیش رفت رپورٹ جمع کرائیں۔ عدالت نے آبرزویشن دی کہ توقع ہے وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوامی مفاد میں متفقہ فیصلے کرینگی۔وباءسے نمٹنے کیلئے حکومتی ادارے آپس میں تعاون کریں۔سماعت کے د وران سینیٹر رحمان ملک نے کہاکہ سینیٹ قائمہ کمیٹی داخلہ کی تفصیلی رپورٹ عدالت کو دینا چاہتا ہوں جس پر عدالت نے رحمان ملک کی بریفننگ دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہاکہ آپکی رپورٹ آگئی ہے ہم دیکھ لینگے، کیس کی سماعت مزید 2 ہفتوں کیلئے ملتوی کردی۔

بلوچستان میں لاک ڈاؤن کی مدت میں 5 مئی تک توسیع

کوئٹہ(ویب ڈیسک): بلوچستان حکومت نے لاک ڈاؤن کی مدت میں 5 مئی تک توسیع کردی۔  صوبہ بلوچستان میں مقامی سطح پر کورونا وائرس کے مقامی سطح پر تیزی سے پھیلاؤ کے پیش نظر پانچ مئی تک توسیع کردی گئی۔محکمہ داخلہ بلوچستان کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق صوبے میں تمام بڑے کاروباری مراکز، ریسٹورنٹس اور فوڈ پوائنٹس، شاپنگ مالز ، اندرون اور بیرون صوبہ چلنے والی ٹرانسپورٹ، ڈبل سواری اور عوامی ہجوم پر بھی پابندی عائد ہے۔حکومت بلوچستان نے شہریوں کو گھر سے باہر نکلنے کے لیے احتیاطی تدابیر اپنانے کی سخت تاکید کی ہے بالخصوص چہرے کو ڈھانپنے کے لیے ماسک، مفلر اور کلچر شال پہنے کو لازمی قرار دیا ہے۔

Lead -20

واشنگٹن، لندن، اسلام آباد (نیٹ نیور) امریکہ میں خام تیل کی مارکیٹ کریش کرگئی اور امریکی تاریخ میں پہلی بار خام تیل کی فی بیرل (158 لیٹر) قیمت صفر سے بھی کم ہوکر منفی میں چلی گئی۔کورونا وائرس کے باعث جہاں دنیا بھر کی معیشتیں بدحالی کا شکار ہورہی ہیں وہیں عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو شدید جھٹکا لگا ہے، امریکی خام تیل کی قیمت چند گھنٹوں میں مسلسل کم ہوتی رہی اور 1 اعشاریہ 25 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی جو امریکی تاریخ میں چار دہائیوں کی کم ترین سطح ہے بعدازاں یہ کم قیمت مزید کم ہوئی اور بعدازاں صفر سے بھی کم ہوکر منفی میں چلی گئی اور ڈبلیو ٹی آئی خام تیل کی 0.05 ڈالر ہوگئی۔ تیل کی قیمتوں میں اس بدترین مندی کے بعد امریکا میں تیل کی خریداری کے لیے ہونے والے مئی کے معاہدے بند ہوگئے اور امریکی تیل کمپنیاں بند ہونے کے قریب پہنچ گئیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ خام تیل ذخیرہ کرنے کی گنجائش تیزی سے ختم ہورہی ہے جس کے باعث امریکا میں خام تیل کی قیمت 4 دہائیوں کی کم ترین سطح پر آگئی ہے اور پاکستان میں بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی کا امکان ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تو رمضان میں پھل، سبزیاں اور دیگر اجناس کی قیمتیں کم ہوسکتی ہیں کیوں کہ ان پر ٹرانسپورٹیشن کی لاگت کم ہوجائے گی۔عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت 15 ڈالر فی بیرل سے بھی نیچے تک گر گئی ، جس کے بعد امریکی خام تیل کی قیمت 21 سال کی کم ترین سطح پر آگئی۔تفصیلات کے مطابق کورونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی معاشی صورتحال کے بعد تیل کی قیمتوں میں گراوٹ کا سلسلہ جاری ہے عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت میں ہوشرباکمی ریکارڈ کی گئی، جس کے بعد امریکی خام تیل کو 21 سال کی کم ترین سطح پرٹریڈ ہوتے دیکھاگیا۔امریکی خام تیل کی فی بیرل قیمت 14 ڈالر 47 سینٹ فی بیرل ہوگئی جبکہ برینٹ خام تیل کی قیمت 4.2 فیصد کی کمی ریکارڈکی گئی اور برینٹ خام تیل کی قیمت 26 ڈالر 91 سینٹ فی بیرل تک گرگئی۔عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ طلب میں کمی ہےجبکہ امریکی خام تیل کےذخائرکی اسٹوریج کپیسٹی کم پڑنے لگی۔خیال رہے گذشتہ ہفتے سعودی عرب اور روس کے درمیان تیل کی یومیہ پیداوار کم کرنے کا معاہدہ ہوا تاکہ تیل کی طلب میں بہتری اور قیمتیں مستحکم کی جا سکیں۔ اس پابندی کا اطلاق تمام تیل پیدا کرنے والے ممالک پر ہوتا ہے تاہم اس فیصلے کے باوجود تیل کی قیمتوںمیں مسلسل کمی ریکارڈ کی جارہی ہے۔ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر تیل کی طلب میں اسی طرح کمی ہوتی رہی تو قیمتیں مستحکم نہیں ہو سکیں گی۔

نیو یارک (نیٹ نیوز)عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں مفت سے بھی کم یعنی منفی تک گرچکی ہیں لیکن یہ تیل خریدا نہیں جاسکتا۔ کینیڈین تیل کی قیمت منفی
صفر اعشاریہ 15 ڈالر تک گرگئی جبکہ امریکن ڈبلیو ٹی آئی کروڈ آئل ڈیڑھ ڈالر فی بیرل ہوگیا تھا لیکن یہ تیل خریدا نہیں جاسکے گا۔ اس کی وجہ بھی انتہائی دلچسپ سامنے آئی ہے۔بی بی سی مڈل ایسٹ کے نمائندے کے مطابق تیل کی قیمتوں میں کمی مئی کے مہینے کیلئے ہوئی ہے۔ یعنی جو تیل خریدا جائے گا وہ مئی میں سپلائی کیا جائے گا لیکن تیل کی کھپت کم ہونے کی وجہ سے کوئی بھی ملک یا کمپنی معاہدوں میں تجدید نہیں کر رہی۔ پیر کا روز وہ آخری دن تھا جو مئی میں تیل کی سپلائی کے نئے معاہدے یا معاہدوں کی تجدید کیلئے آخری دن تھا۔جن ممالک نے مئی کے مہینے کیلئے تیل خریدنا تھا انہوں نے پہلے ہی آرڈر بک کرادیے ہیں اور کسی نے بھی معاہدوں کی تجدید نہیں کی جس کی وجہ سے تیل کی قیمتیں منفی میں چلی گئیں۔ اگر کوئی ملک یا ادارہ جون کے مہینے کیلئے ڈبلیو ٹی آئی کروڈ آئل خریدنے کا معاہدہ کرے گا تو اس کیلئے یہ قیمت 20 ڈالر فی بیرل ہوگی۔

بیرونِ ملک میں نہیں اپنی سرزمین پر مرنا چاہتی ہوں، نیو یارک میں پھنسی میرا کی اپیل

کراچی( و یب ڈ سک) اداکارہ میرا کا کہنا ہے کہ میں بیرونِ ملک میں نہیں بلکہ اپنی سرزمین پر مرنا چاہتی ہوں اس لیے میری واپسی کے انتظامات کیے جائیں۔کورونا وائرس کے باعث امریکا میں پھنس جانے والی اداکارہ میرا نے ویڈیو پیغام کے ذریعے روداد بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں کچھ ساتھی فنکاروں کے ہمراہ فلم کی شوٹنگ اور شوز کی غرض سے امریکا آئی تھی، کورونا وائرس کے خطرات کے باعث میرے ساتھ موجود تمام لوگ پاکستان واپس چلے گئے لیکن میں یہیں نیویارک میں پھنسی ہوئی ہوں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ پیسوں کی کمی کی وجہ سے میری یہاں گزر بسر کٹھن ہوگئی ہے، دوسری جانب نیو یارک کی صورتحال اتنی گمبھیر ہو گئی ہے کہ یہ ایک قبرستان کا منظر پیش کر رہا ہے، یہاں روز ہزاروں کی تعداد میں اموات ہو رہی ہیں، موت برحق ہے لیکن میں بیرون وطن نہیں بلکہ اپنے وطن میں مرنے کو ترجیح دوں گی۔میرا نے وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ہمیشہ ہم فنکاروں کو سپورٹ کیا، تمام ممالک اپنے شہریوں کو واپس لا رہے ہیں، اس لیے میں آپ سے ہاتھ جوڑ کر التجا کرتی ہوں کہ میری بھی واپسی کے لیے انتظامات کیے جائیں کیوں کہ میں اپنی سرزمین پر ہی مرنا چاہتی ہوں۔

حدیقہ کیانی کی بیوٹی سیلونز سے وابستہ کاروباری افراد کیلیے وزیراعظم سے اپیل

لاہور( و یب ڈ سک) حدیقہ کیانی نے لاک ڈاون کی وجہ سے بیوٹی سیلونز اور ان سے وابستہ کاروباری افراد کی سپورٹ میں وزیراعظم عمران خان سے اپیل کردی۔نامور گلوکارہ حدیقہ کیانی نے کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاون کی وجہ سے بند ہونے والے بیوٹی سیلونز سے وابستہ خواتین کی مالی مشکلات کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنا ویڈیو پیغام جاری کیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ اس کاروبار سے وابستہ 80 فیصد بیوٹی سیلونز کی لڑکیاں بے روزگار ہوگئیں ہیں، کئی لڑکیوں نے گھروں میں بیوٹی سروسز دینی شروع کردی ہیں جو سراسر غلط ہے۔حدیقہ کیانی نے حکومت پاکستان سے اپیل کی کہ بے روزگار لڑکیوں لے لئے فنڈز دئیے جائیں، بیوٹی سیلونز انڈسٹری بن گئی ہے، حکومت ہمارا ساتھ بھی دے ، ایسے ایس او پیز بنا دئیے جائیں جو بیوٹی سیلونز کے لئے بھی فائدہ مند ہوں اور لاک ڈاون میں آسانیاں پیدا کریں۔ انہوں نے کہا کہ بیوٹی سیلون کے کاروبار سے خود بھی وابستہ ہوں اور اب یہ شعبہ باقاعدہ ایک منافع بخش انڈسٹری بن چکا ہے، لہذا جہاں مختلف کاروبار کے لئے اقدامات کررہی ہے، وہیں اس شعبے پر بھی توجہ دی جائے۔

امریکی خام تیل مارکیٹ کریش کرگئی، تاریخ میں پہلی بار قیمت منفی 37 ڈالر پر بند

واشنگٹن( و یب ڈ سک) امریکا میں خام تیل کی مارکیٹ کریش کرگئی اور امریکی تاریخ میں پہلی بار خام تیل کی فی بیرل (158 لیٹر) قیمت صفر سے بھی کم ہوکر منفی میں چلی گئی۔ خبر یں نیوز کے مطابق کورونا وائرس کے باعث جہاں دنیا بھر کی معیشتیں بدحالی کا شکار ہورہی ہیں وہیں عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو شدید جھٹکا لگا ہے، امریکی خام تیل کی قیمت چند گھنٹوں میں مسلسل کم ہوتی رہی اور 1 اعشاریہ 25 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی جو امریکی تاریخ میں چار دہائیوں کی کم ترین سطح ہے بعدازاں یہ کم قیمت مزید کم ہوئی اور بعدازاں صفر سے بھی کم ہوکر منفی میں چلی گئی اور ڈبلیو ٹی ا?ئی خام تیل کی قیمت منفی 37.6 ڈالر پر بند ہوئی۔تیل کی قیمتوں میں اس بدترین مندی کے بعد امریکا میں تیل کی خریداری کے لیے ہونے والے مئی کے معاہدے بند ہوگئے اور امریکی تیل کمپنیاں بند ہونے کے قریب پہنچ گئیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ خام تیل ذخیرہ کرنے کی گنجائش تیزی سے ختم ہورہی ہے جس کے باعث امریکا میں خام تیل کی قیمت 4 دہائیوں کی کم ترین سطح پر آگئی ہے ساتھ ہی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں مزید کم ہورہی ہیں جس کے باعث پاکستان میں بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی کا امکان ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تو رمضان میں پھل، سبزیاں اور دیگر اجناس کی قیمتیں کم ہوسکتی ہیں کیوں کہ ان پر ٹرانسپورٹیشن کی لاگت کم ہوجائے گی۔

آر ایس ایس سے متاثر بی جے پی حکومت کی مسلم مخالف پالیسیاں پریشان کن ہیں، پاکستان

اسلام آباد( و یب ڈ سک) پاکستان نے کہا ہے کہ آر ایس ایس سے متاثر اور مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کرنے والی بے جے پی حکومت کی پالیسیاں پریشان کن ہیں۔دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق پاکستان نے بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان کے پاکستانی قیادت کے حوالے سے غیر ذمہ دارانہ اور بلاجواز ریمارکس کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی بیان اقلیتوں کے حقوق سے دائمی انکار کا عکاس ہے۔پاکستان نے کہا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کا معاملہ تشویش کا باعث ہے، خاص طور پر بھارت میں مسلمانوں کے حقوق سے مسلسل انکار کیا جارہا ہے، اس حوالے سے نہ صرف بھارتی اقلیتوں بلکہ ہمسایہ ممالک اور بین الاقوامی برادری کو تشویش ہے، دنیا بھر سے باضمیر لوگ اس پر آوازیں بلند کر رہے ہیں۔پاکستان نے مزید کہا ہے کہ کورونا وائرس کی وباءسامنے آنے کے باوجود آر ایس ایس سے متاثر بی جے پی حکومت کی مسلمان مخالف امتیازی پالیسیاں پریشان کن ہیں، مسلمانوں کے خلاف بلوائیوں کے حملوں کے خدشات کو ہوا دی جارہی ہے، اس حوالے سے بھارتی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس موجود ہیں، بھارت کو مشورہ ہے کہ اپنی اقلیتوں، سول سوسائٹی، ہمسایوں اور بین الاقوامی برادری کی بات پرکان دھرے، اور اقلیتوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے موثر اقدامات اٹھائے جائیں۔