وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے مسئلے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر سب سے نمایاں دو تنازعات ہیں جو حل طلب ہیں۔
اقوام متحدہ کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر اپنے بیان میں وزیر خارجہ نے کہا کہ میرا نقطہ نظر ہے کہ آج اقوام متحدہ کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے اور ہمیں ان اصولوں اور مقاصد کو دیکھنا ہو گا جن کے باعث اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کی بنیاد رکھی گئی۔
انہوں نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد امن و استحکام اور تنازعات کے حل کے لیے ایک عالمی پلیٹ فارم کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی تھی جو اس ادارے کی بنیاد بنی۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ آج اگر ہم نظر دوڑائیں تو ہمیں بہت سے ایسے تنازعات نظر آئیں گے جو حل طلب ہیں اور ان میں دو تنازعات نمایاں طور پر دکھائی دیں گے جو اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہیں، ایک مسئلہ کشمیر اور دوسرا مسئلہ فلسطین ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے عوام حق خود ارادیت کے وعدے کی تکمیل کے منتظر ہیں اور ہم اقوام متحدہ کے لوگوں کو تاریخی اور موجودہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اٹھ کھڑا ہونا ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ ہو یا سلامتی کونسل، انہیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اگر ان تنازعات کے حل کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تو کیوں نہیں ہوئی؟ اور ہمیں کیا کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کثیر الجہتی اور اقوام متحدہ کی ناگزیر حیثیت پر یقین رکھتا ہے، پاکستان سیکیورٹی کونسل میں 7 مرتبہ رہ چکا ہے، ایکوسوک کی پانچ مرتبہ سربرابی کر چکا ہے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور جی 77 کی قیادت بھی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سیکیورٹی کونسل کی اصلاحات کے عمل میں متحرک رکن رہے ہیں اور پاکستان 26 ممالک میں 47 مشن میں 2لاکھ سے زائد دستے بھیج چکا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے کووڈ19 میں عالمی سطح پر ببے انتہا تعاون دیکھا لیکن یہ انسانیت کو متحد کرنے میں ناکام رہا۔
اہوں نے خبردار کیا کہ وہ طاقتیں جو دوسری جنگ عظیم، نسل پرستی اور فاشزم کا سبب بنیں وہ زینوفوبیا اور اسلاموفوبیا کی شکل میں دوبارہ کھڑی ہو رہی ہیں۔