واشنگٹن(ویب ڈیسک): امریکا، ایران کو افغان امن مذاکرات میں شرکت کرنے کی دعوت دے چکا ہے اور وسطی ایشیا کو پاکستان سے منسلک کرنے والے انفرا اسٹرکچر کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔
یہ بار امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے واشنگٹن میں رواں ہفتے ہونے والے ایک ویبینار (آن لائن سیمنار) کے دوران کہی۔
انہوں نے کہا کہ افغان امن مذاکرات کی کامیابی کے لیے پاکستانی قیادت درست پیغامات بھیج رہی ہے۔
افغان امن عمن مین ایران کے کردار کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے زلمے خلیل زاد نے کہا کہ ‘ہم نے اس مسئلے پر ایرانیوں کو ملاقات کی دعوت دی تھی’۔
امریکی نمائندہ خصوصی کا مزید کہنا تھا کہ ‘انہیں مختلف فورمز میں شامل ہونا چاہیئے جہاں ہم اور وہ بھی افغانستان کے مستقبل پر بات چیت کریں’۔
تاہم افغان جنگ کے پر امن خاتمے کی امریکی کوششوں کی سربراہی کرنے والے زلمے خلیل زاد نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ‘ایران تھورا مشکل ہے’۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اور ‘اتنا افغانستان کی وجہ سے نہیں جتنا ہمارے ایران کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کی وجہ سے، ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں ایران چاہے گا ہم افغانستان میں شکست یا فتح کے بغیر تنازع میں الجھے رہ کر بھاری قیمت ادا کرے رہیں جب تک کہ ایران اور امریکا کے مابین سمجھوتہ نہ طے پا جائے’۔
زلمے خلیل زاد نے خبردار کیا کہ اگر ایرانی حمایت یافتہ گروہوں نے افغانستان میں امریکا یا اس کے شریک اتحادیوں کے خلاف کام کیا تو امریکا اس کا جواب دے گا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ‘ہم ان کی بہت باریک بینی سے نگرانی کررہے ہیں، کبھی کبھار پریشان کن حرکتیں ہوتی ہیں جن کا منفی اثر پڑتا ہے’۔
یاد رہے کہ ایران نے رواں برس فروری میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے امریکا-طالبان امن معاہدے کی مذمت کی تھی۔
زلمے خلیل زاد نے معاہدے کو حتمی صورت دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا جو آئندہ برس مئی تک افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کا تصور پیش کرتا ہے۔
امریکی نمائندہ خصوصی نے معاہدے کا سبب بننے والے مذاکرات میں سہولت کاری کے لیے پاکستان کے کردار کو سراہا۔
تاہم ایران نے سمجھوتے کو مسترد کردیا تھا کیوں کہ وہ سمجھتا ہے کہ واشنگٹن اسے طالبان کو جائز بنانے کے لیے استعمال کررہا ہے۔
ایران نے افغان عسکریت پسندوں کے ساتھ اپنے رابطوں کو بھی آگے بڑھایا تھا لیکن امریکا کے اس دعوے کو مسترد کردیا کہ تہران مغربی افواج پر عسکریت پسندوں کے حملوں کی حوصلہ افزائی کررہا ہے۔
امریکا نے افغانستان سے کس طرح انخلا کا منصوبہ بنایا ہے کہ جواب میں زلمے خلیل زاد نے کہا کہ ‘فوجی لحاظ سے افغانستان میں رہنا خود امریکا کے لیے انجام نہیں ہے’۔