اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر مولانا فضل الرحمن نے ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ کے انتخابات لڑنے کا فیصلہ بعد میں کیاجائیگا ، فیصلہ کر ینگے لانگ مارچ نے اسلام آبا د جانا یا راولپنڈی ، 19جنوری کوالیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر مظاہرہ ہوگا ،پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس مولانا فضل الرحمن کی زیر صدارت جاتی امرا میں ہوا جس میں آصف علی زرداری، نوازشریف، اختر مینگل، بلاول بھٹو بذریعہ ویڈیو لنک شریک ہوئے ،میاں افتخار حسین، آفتاب شیر پائو، محمود اچکزئی اور دیگر رہنما بھی شریک تھے ۔طویل اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ تمام مسائل انتہائی سنجیدہ اور گہرے تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئے ،آئے روز ایک خاص مہم جوئی کے تحت میڈیا پر پی ڈی ایم میں اختلاف کی خبریں پھیلائی جاتی ہیں آج وہ سب دم توڑ چکی ہیں اور پی ڈی ایم پہلے سے زیادہ مضبوط نظر آئی ہے ، میڈیا سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ یہاں ہر طبقہ مظلوم ہے ، اسی طرح میڈیا بھی مظلوم ہے ، ہم میڈیا کے مظلوم طبقے کے ساتھ کھڑے ہیں اس لیے انہیں بھی احساس ہونا چاہیے ،میڈیا پاکستان میں جمہوریت اور آئین کی بالادستی کیلئے اٹھنے والی آواز کو پوری قوت کے ساتھ قوم تک پہنچائے ، ہم نے پچھلے اجلاس میں کہا تھا کہ 31 دسمبر تک تمام اراکین اسمبلی اپنے استعفے پارٹی قیادت تک پہنچائیں گے اور سب نے اجلاس میں رپورٹ دی کی سب کے استعفے قیادت تک پہنچ گئے ہیں اور ایک ہدف مکمل ہوگیا ،ہم نے کہا تھا کہ 31 جنوری تک حکومت کو مستعفی ہونے کی مہلت ہے اور آج پھر اس کا اعادہ کرتے ہیں کہ حکومت کے پاس ایک مہینے کی مدت ہے ، اس کے بعد پی ڈی ایم کی قیادت لانگ مارچ اور اس کی تاریخ کا اعلان کرے گی، پی ڈی ایم کی قیادت فیصلہ کرے گی کہ لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف کیا جائے یا پھر راولپنڈی کی طرف کیا جائے ، ہم اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کو ایک ڈیپ سٹیٹ بنا کر یہاں کی اسٹیبلشمنٹ نے پورے نظام کو یرغمال بنایا ہے اور عمران خان ایک مہرہ ہے جس کیلئے انہوں نے دھاندلی کی اور ان کو قوم پر مسلط کیا اور ایک جھوٹی حکومت قائم کی، ہم آج واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کو دھاندلی کا مجرم سمجھتے ہیں اور ہماری تنقید کا رخ اب ان کی طرف برملا ہوگا ، اب ان کو سوچنا ہے کہ پاکستان کی سیاست پر اپنے پنجے گاڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں یا اس سے دستبردار ہو کر اپنی آئینی ذمہ داریوں کی طرف جاتے ہیں۔پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ ہم بڑی وضاحت کے ساتھ اپنے مستقبل کا فیصلہ کر رہے ہیں، فوج ہماری فوج ہے ، ہم اس کو اپنی فوج سمجھتے ہیں، ہم تمام جرنیلوں کا احترام کرتے ہیں، فوج ہماری دفاعی قوت ہے ۔انہوں نے کہا اتحاد پہلے سے زیادہ مضبوط ہے اور قوم کو اس ناجائز حکومت سے خلاصی کیلئے پرعزم ہے ، 19 جنوری کوالیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر پی ڈی ایم کامظاہرہ ہوگا، نیب دفاترکے سامنے بھی مظاہرے کیے جائیں گے ، نیب کا ادارہ صرف حزب اختلاف کے خلاف بنایاگیاہے ، خواجہ آصف کی گرفتاری کونظراندازنہیں کرسکتے ،ایک ماہ بعداستعفوں اورلانگ مارچ کی حکمت عملی طے کریں گے ، ضمنی انتخابات میں حصہ لیں گے ، سینیٹ انتخابات سے متعلق فیصلہ بعد میں کرینگے ،انہوں نے کہا محمد علی درانی بغیر پروگرام کے آئے تھے ، انہوں نے نیشنل ڈائیلاگ کافلسفہ بیان کیا، میں نے کہا مذاکرات خارج ازامکان ہیں، بات ختم ہوگئی، تمام جماعتیں متفق ہیں ہم نے تحریک کارخ صرف ایک مہرے کی طرف نہیں موڑنا، نیب اپوزیشن کے خلاف ایک مہرے کے طورپراستعمال ہورہاہے ، ثابت ہوگیا کہ یہ احتساب نہیں انتقام ہے ، اجلاس انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوا ، اسٹیبلشمنٹ نے پورے نظام اور عمران خان کو مہرہ بنا رکھا ہے ،اب ہماری تنقید کا رخ اسٹیبلشمنٹ کی جانب ہو گا،ہم آنے والے دنوں میں سخت فیصلے کرینگے ،ہم حکمت عملی کے ساتھ اپنے سب کارڈ کھیلنا چاہتے ہیں،ہم غور کر رہے ہیں کہ اب ہم جیلوں کا رخ کریں اور گرفتاریاں پیش کریں ،نواز شریف کی واپسی کو مشروط کرنے کے حوالے سے سب باتیں قیاس آرائیاں ہیں ،ہم میڈیا کو سرپرائز دینے کے لئے بہت سی چیزیں چھپا کر رکھتے ہیں،پیپلزپارٹی کے کوئی تحفظات نہیں تھے ،مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تمام لیگی اراکین کے استعفے میرے پاس آ چکے ہیں اگر کوئی یہ امیدیں لگائے بیٹھا ہے کہ لیگی اراکین استعفوں سے پیچھے ہٹیں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے ، اگراستعفوں سے ایک دن پہلے بھی ضمنی الیکشن ہوئے تو پی ڈی ایم حصہ لے گی، پی ڈی ایم نے فیصلہ کیا ہے کہ استعفوں سے پہلے جو بھی ضمنی الیکشن ہو ں گے ان میں حصہ لے گی ،اس جعلی حکومت کیلئے کوئی بھی راستہ خالی نہیں چھوڑیں گے ،سینیٹ کے الیکشن کے حوالے سے مذاکرات جاری ہیں، ہم نے لانگ مارچ کے حوالے سے موسم کو دیکھنا ہے اپنے کارکنوں کو ایسے نہیں چھوڑ سکتے