پیرس: فرانسیسی پارلیمنٹ نے ایک متنازع بل پر بحث شروع کردی جس کے بارے میں وزیر داخلہ نے کہا کہ اسلامی انتہا پسندی ‘بیماری’ ہے جو ملک کے اتحاد کو کھوکھلا کررہی ہے۔
غیرملکی خبررساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق ایوان زیریں قومی اسمبلی نے قانون سازی پر دوہفتوں کے لیے منتازع بحث کا آغاز کردیا جبکہ بائیں بازو کا کہنا ہے کہ اس سے مسلمانوں کو بدنام کیا جارہا ہے۔
س قانون کو علیحدگی پسندی کے بل کا نام دیا گیا ہے کیونکہ وزرا کو خوف ہے کہ بنیاد پرست مسلمان فرانس کی سخت سیکولر شناخت سے الگ معاشرے بنا رہے ہیں۔
مسلم ممالک میں اس کی کڑی تنقید کی جارہی ہے۔
وزیر داخلہ جیرالڈ ڈارامنین نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ ‘ہمارا ملک علیحدگی پسندی سے دوچار ہے سب سے زیادہ اسلام پسندی جو ہمارے قومی اتحاد کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ بیماری کو کیا کہنا ہے آپ کو دوا تلاش کرنی ہوگی۔
زیر داخلہ نے کہا کہ بل کا متن مذاہب سے مقابلہ نہیں کرتا ہے بلکہ اسلام پسندوں کے قبضے کی کوشش کے خلاف ہے۔
اس قانون کے تحت اگر ڈاکٹروں نے لڑکیوں پر کنواری پن کا تجربہ کیا تو جرمانہ یا جیل بھی ہوگا۔
ایک سے زائد شادی فرانس میں پہلے ہی کالعدم ہے لیکن نیا قانون درخواست دہندگان کو رہائش گاہ کے کاغذات جاری کرنے پر بھی پابندی عائد کرے گا۔
فرانسیسی صدر اسلام اور مسلمان مخالف بیانات کے باعث متعدد مسلم ممالک میں نفرت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اپنے فرانسیسی ہم منصب پر مسلمانوں سے متعلق متنازع پالیسیوں پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایمانوئل میکرون کو ‘دماغی معائنہ’ کرانے کی ضرورت ہے۔
ایران نے فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے معاملے پر کہا تھا کہ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون ‘انتہا پسندی’ کو ہوا دے رہے ہیں۔
فرانسیسی صدر کا متنازع بیان
واضح رہے کہ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز نے رپورٹ کیا تھا کہ رواں ماہ فرانس کے ایک اسکول میں ایک استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔
جس کے چند روز بعد ایک شخص نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو کسی دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔
مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو ‘ہیرو’ اور فرانسیسی جمہوریہ کی اقدار کو ‘مجسم’ بنانے والا قرار دیا تھا اور فرانس کے سب سے بڑے شہری اعزاز سے بھی نوازا تھا۔
برطانوی اخبار انڈیپینڈنٹ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پیرس میں مذکورہ استاد کی آخری رسومات میں فرانسیسی صدر نے خود شرکت کی تھی جس کے بعد 2 فرانسیسی شہروں کے ٹاؤن ہال کی عمارتوں پر چارلی ہیبڈو کے شائع کردہ گستاخانہ خاکوں کی کئی گھنٹوں تک نمائش کی گئی تھی۔
خیال رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ فرانسیسی صدر کی جانب سے اسلام مخالف بیان سامنے آیا ہو، رواں ماہ کے آغاز میں فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے فرانس کے سیکیولر “بنیاد پرست اسلام” کے خلاف دفاع کے منصوبوں کی نقاب کشائی کی تھی اور اس دوران اسلام مخالف بیان بھی دیا تھا۔
ایمانوئیل میکرون نے فرانس کی سیکیولر اقدار کے ‘بنیاد پرست اسلام’ کے خلاف ‘دفاع’ کے لیے منصوبے کو منظر عام پر لاتے ہوئے اسکولوں کی سخت نگرانی اور مساجد کی غیر ملکی فنڈنگ کے بہتر کنٹرول کا اعلان کیا تھا۔
انہوں نے سعودی عرب، قطر اور ترکی جیسے ممالک کا نام لیتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ فرانس میں ‘اسلام کو غیر ملکی اثرات سے آزاد’ کروانا ضروری ہے۔
ان کے مطابق اس مقصد کے لیے، حکومت مساجد کی غیر ملکی مالی اعانت کے بارے میں جانچ پڑتال کرے گی اور اماموں کی تربیت کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے یا فرانسیسی سرزمین پر غیر ملکی مبلغین کی میزبانی پر پابندی لگائے گی۔
جس پر ردِعمل دیتے ہوئے مصر کے ممتاز اسلامی ادارے جامعۃ الازھر کے اسکالرز نے ”اسلام پسند علیحدگی” کے حوالے سے فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کے بیان کو ‘نسل پرستانہ’ اور ‘نفرت انگیز’ قرار دیا تھا۔
اس سے قبل گزشتہ ماہ فرانسیسی ہفتہ وار میگزین چارلی ہیبڈو کی جانب سے دوبارہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے پر ایمانوئیل میکرون نے کہا تھا کہ فرانس میں اظہار رائے کی آزادی ہے اور چارلی ہیبڈو کی جانب سے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کے فیصلے پر وہ کوئی حکم نہیں دے سکتے۔