سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرنے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر کہا ہے کہ ملک میں جمہوریت برقرار رہتی تو شاید سیاست میں یوں پیسہ نہ چلتا۔چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے سینٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی جہاں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل دیے۔اٹارنی جنرل نے سینیٹ میں ووٹنگ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ میں ووٹر کو مکمل آزادی نہیں ہوتی۔جسٹس عمر عطابندیال نے اٹارنی جنرل کے دلائل پر کہا کہ آپ بھارتی فیصلوں کا حوالہ دے رہے ہیں، بھارتی آئین میں خفیہ ووٹنگ کا آرٹیکل 226 موجود نہیں ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ بھارتی آئین میں ہر الیکشن کے لیے خفیہ ہونے یا نہ ہونے کا الگ سے ذکر ہے جبکہ آرٹیکل 226 میں تمام انتحابات خفیہ ووٹنگ سے ہونے کا ذکر نہیں۔انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 226 کے مطابق آئین کے تحت ہونے والے الیکشن خفیہ ہوں گے۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آئین بنانے والوں کو سینیٹ انتخابات کا معلوم نہیں تھا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ اوپن ووٹنگ کی فروخت آج ہے پہلے نہیں تھی۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 1973 میں تو معلوم بھی نہیں ہوگا کہ لوگ نوٹوں کے بیگ بھر کر لائیں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ صورت حال اتنی بھی سادہ نہیں ہے جتنی آپ کہہ رہے ہیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جمہوریت برقرار رہتی تو شاید سیاست میں یوں پیسہ نہ چلتا، اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بھٹو پر ایئر کنڈیشنز کی ڈیوٹی کم دینے کا کیس بنانے کی کوشش ہوئی۔انہوں نے کہا کہ جنرل ضیا الحق کوشش کے باوجود بھٹو کے خلاف کرپشن ڈھونڈ نہیں سکے۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا لوگ پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں یا اس کے منشور کو ووٹ دیتے ہیں ،اٹارنی جنرل نے کہا کہ زیادہ تر لوگ لیڈر کی طلساتی شخصیت کو ووٹ دیتے ہیں، قائد اعظم کی شخصیت سے متاثر ہوکر لوگوں نے انہیں ووٹ دیا تھا۔انہوں نے کہا کہ اصولی طور پر پارٹی اور منشور دونوں کو ووٹ ملنا چاہیے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ طلسماتی چیز کیا ہے، کیا بہترین شخصیت اور خوش لباسی پر ووٹ دیا گیا۔جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ ووٹ پارٹی کو دیا جاتا ہے نہ کہ انفرادی شخصیت کو، لوگ انتخابات میں پوچھتے ہیں کہ کتنے وعدے پورے کیے۔ان کا کہنا تھا کہ پارٹی منشور کو شائع کرنا قانونی طور پر ضروری ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں تو سیاسی جماعتوں کا ذکر ہے، اندرا گاندھی نے آئین توڑا تو لوگوں نے انہیں مسترد کر دیا تھا۔انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو قانون کے ذریعے ریگولیٹ کیا جاتا ہے، آئین میں ذکر ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ سیاسی جماعتیں آئیں کے تحت بنیں۔جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ اسپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کا طریقہ کار رولز میں ہے، کیا اسپیکر کا انتخاب آئین کے بجائے رولز کے تحت ہوتا ہے۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب الیکشن کمیشن نہیں کراتا، کہا جاتا ہے چیئر مین سینیٹ کا انتخاب اوپن بیلٹ سے کیوں نہیں کروا دیتے۔ان کا کہنا تھا کہ عدالتی رائے آنے پر چیئرمین سینیٹ کا انتخاب بھی اوپن بیلٹ سے کرا دیں گے اور چیئرمین سینیٹ کا انتخاب آئین کے تحت ہوتا ہے۔انہوں نے عدالت کو بتایا کہ پارٹی کے خلاف ووٹ دینے والے کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکتی لیکن عوام کی نظر میں گر جانا سیاست دان کی بڑی ناکامی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیاسی جماعتیں اکثر بڑے لوگوں کو بھی ٹکٹ دیتی ہیں، یہ کوئی طریقہ نہیں کہ نوٹوں کے بھرے بیگ بانٹے جائیں۔سینیٹ انتخابات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمومی بات اپنی جگہ تاہم عدالت نے قانون کو مد نظر رکھنا ہے، دوہری شہریت اور جعلی ڈگری رکھنے پر عدالت نے کئی اراکین اسمبلی کو نااہل کیا۔جسٹس اعجازالااحسن نے کہا کہ کیا پارٹی کے خلاف ووٹ دینے والا بد دیانت ہوتا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بد دیانت نہیں ہوتا تاہم پارٹی کے خلاف ووٹ دینا ہے تو کھلے عام دے۔سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے سماعت کل جمعرات تک ملتوی کر دی اور کل اٹارنی جنرل حتمی دلائل دیں گے۔