امریکی سینیٹ نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مواخذہ جاری رکھنے کی منظوری دے دی۔
سینیٹ میں ہونے والی رائے شماری میں 44 کے مقابلے میں 56 اراکین نے ٹرائل کے حق میں ووٹ دیا، 6 ری پبلکنز نے بھی ٹرمپ کے مواخذے کے حق میں ووٹ دیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے وکلا کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کو بغاوت پر اکسانے کے لیے سینیٹ میں کسی مقدمے کا سامنا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وہ اب صدر نہیں رہے جبکہ سینیٹ نے ٹرمپ کے وکلا کا مؤقف رد کر دیا۔
امریکی ایوان نمائندگان کی مواخذہ کرنے والی ٹیم کے نو ممبران نے ٹرمپ کا مواخذہ کرنے کے حق میں دلائل کا آغاز کیا جبکہ ڈیمو کریٹک ارکان نے اس مقدمے کو پیش کرتے ہوئے سینیٹ کو کانگریس پر حملے کی ایک ویڈیو بھی دکھائی۔
کانگریس کے رہنماؤں کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق دونوں اطراف دو روز میں اپنے اپنے دلائل پیش کریں گے۔
سینیٹ میں مواخذے کی کامیابی کے لیے ایوان کے دو تہائی اراکین کا اس کے حق میں رائے دینا ضروری ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ 100 رکنی سینیٹ کے کم از کم 67 ارکان کو مواخذے کی حمایت کرنا ہوگی جو بظاہر ممکن نظر نہیں آتا۔
اس لیے ماہرین کا خیال ہے کہ سینیٹ ٹرائل میں اس بار بھی سابق صدر ٹرمپ مجرم قرار نہیں پائیں گے، امکان ہے کہ اس بار مواخذے کا ٹرائل ایک ہفتے چلے گا۔
اس سال چھ جنوری کو امریکی کانگریس کی عمارت کیپٹل ہل پر حملے کے لیے اپنے حامیوں کو اُکسانے کے صرف ایک الزام میں ٹرمپ کو ایک بار پھر مواخذے کا سامنا ہے، الزام ثابت ہونے پر ٹرمپ دوبارہ کبھی امریکی صدارتی الیکشن نہیں لڑ سکیں گے۔
امریکی آئین کے مطابق ایوانِ نمائندگان میں مواخذے کی منظوری کے لیے ووٹنگ ہوتی ہے جبکہ سینیٹ میں آرٹیکلز آف امپیچ منٹ یعنی الزامات کی فہرست پیش کی جاتی ہے جس کے بعد اس کی باقاعدہ سماعت ہوتی ہے۔