ملک منظور احمد
اس بات میں کو ئی شک نہیں ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ورثے میں بہت سے چیلنجز ملے اور ان چیلنجز میں پاکستان کی ایک تباہ حال معیشت سمیت دیگر کئی مسائل تھے،اور اسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے ابتدائی دنوں میں ہی دوست ممالک سے رجوع کیا اور ان سے ملنے والی رقوم سے حکومت کا نظام چلا یا گیا۔حکومت اپنی آئینی مدت کے تین سال مکمل کر چکی ہے اور ان تین سالوں کے دوران ملکی معیشت کے حوالے سے ایک ملا جلا رجحان رہا ہے ایک طرف حکومت کا دعوی ٰ ہے کہ ملکی معیشت استحکام حاصل کر چکی ہے تو دوسری طرف اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے معیشت برباد کر دی ہے اور عام عوام مہنگائی کے سونامی اور بے روزگاری کے طوفان میں بے یا ر و مدد گار کسی مدد کے منتظر ہیں اور اپوزیشن کے بیانئے کے مطابق عوام کی مدد اور ان کے مسائل کا حل اپوزیشن کے بر سر اقتدار آنے سے ہی ممکن ہے۔میری رائے میں حقیقت کہیں ان دونوں انتہاؤں کے بیچ میں ہے نہ تو پاکستان کی معیشت اس وقت کسی ایمر جنسی جیسی بری صورتحال سے لیکن دوسری طرف روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی بھی اپنی جگہ پر ایک مسلمہ حقیقت ہے جس کے باعث عوام بہت پریشان ہیں۔حالیہ دنوں میں معیشت کے حوالے سے ہمارے سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق یقینا پاکستان کی معیشت میں بہتری دیکھی گئی ہے،پاکستان کی شرح نمو 4فیصد تک پہنچ گئی ہے جو کہ آئی ایم ایف اور خود حکومت پاکستان کے اپنے اندازوں سے زائد رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر ایسے اشاریے بھی ہیں جو کہ مثبت ہیں اور پاکستان کے لیے حوصلہ کا باعث ہے،پاکستان کی برآمدات میں طویل عرصے کے بعد اضافہ دیکھا جا رہا ہے،اس کے ساتھ ساتھ بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم رواں برس ریکارڈ 29ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔حکومت نے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے لیے روشن ڈیجیٹل اکاونٹ جیسے اقدامات کیے ہیں جن کے ذریعے اب تک ملک میں 1.5ارب ڈالر کی رقم موصول ہو چکی ہے جو کہ پاکستان کی برآمدات اور ترسیلات زر کے علاوہ رقم ہے۔پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر 23.2ارب ڈالر کی سطح پر موجود ہیں اور بڑھ رہے ہیں جبکہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کااینڈیکس 48ہزار پوا ئنٹس کی سطح عبور کر چکا ہے جو کہ چار سال کی بلند ترین سطح پر ہے۔حکومت نے رواں سال کے 11ماہ میں تقریباً 4200ارب روپے کا ٹیکس جمع کیا ہے جو کہ ایک ریکارڈ ضرور ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ جون کے آخر تک جمع ہونے والے ٹیکس کا حجم 4500ارب روپے تک پہنچ سکتا ہے،لیکن بہر حال یہ نمبر ز بھی حکومت کی طرف سے مقرر کر دہ نظر ثانی شدہ 4700ارب روپے کے ہدف سے کم ہو گا۔کہا جاتا ہے کہ پاکستان نے ما ئیکر لیول پر استحکام حاصل کر لیا ہے لیکن ابھی میکرو لیول پر اس کے اثرات آنے باقی ہیں اور میکر لیول پر معاشی پالیسیوں کے اثرات سامنے آنے کے بعد ہی عوام کو ریلیف ملے گا۔یہ ایک لمبی بحث ہے اس بحث میں نہیں جانا چاہوں گا اس موضو ع پر پھر کبھی بات کریں گے کیونکہ اسی موضوع سے جڑی ہوئی مشہور زمانہ ٹریکل ڈاؤن کی معاشی تھیوری ہے جس کے مطابق پہلے اوپر کی سطح پر کسی بھی ملک کے معاشی حالات بہتر ہو تے ہیں اور پھر نچلی سطح پر عوام کو یہ معاشی فوائد منتقل ہو تے ہیں،حال ہی میں امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی اس تھیوری کو مسترد کرتے ہوئے نچلی سطح پر عوام کے پاس براہ راست پیسہ منتقل کرنے اور عوام پر پیسہ لگانے کا اعلان کیا ہے۔
لیکن ہمیں پتا ہے کہ جہاں پر کچھ معاشی اعداد و شمار بہتر ضرور ہیں جو کچھ اتنے اچھے بھی نہیں ہیں لیکن جو اعداد شمار بہتر نہیں ہیں ان میں سے میری نظر میں فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کا پاکستان نہ آنا ایک نہایت ہی تشویشناک بات ہے۔ حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں واضح کمی دیکھی گئی ہے جو کہ یقینا ایک تشویش ناک امر ہے۔ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر کیوں پاکستان میں بیرونی سرمایہ کار پیسہ لگانے کے لیے تیار نہیں ہیں،بلکہ کہا جا رہا ہے کہ کوئی غیر ملکی تو کیا مقامی سرمایہ کار بھی پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں ہیں۔اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن بڑی وجوہات میں نیب کی شتر بے مہار کار روائیاں،ملک میں سیاسی استحکام کا نہ ہو نا اور حکومت کی پالیسیوں میں عدم تسلسل بھی ہے۔حکومت اب تک اپنے تین سالہ دور میں بورڈ آف انسوٹمنٹ کے 6چیئرمین تبدیل کر چکی ہے لیکن اس کے باوجود ملک میں سرمایہ کاری لانے میں ناکام ہے۔پاکستان میں بیو رو کریسی کا رویہ اور ریڈ ٹیپ کلچر بھی پاکستان میں سرمایہ کاری نہ ہونے کی بڑی وجو ہات ہیں،پاکستان میں بیو رو کریٹس سرمایہ کاری کی راہ میں اتنی رکاوٹیں کھڑی کر دیتے ہیں کہ کوئی بھی غیر ملکی تو کیا مقامی سرمایہ کار بھی پاکستان میں اپنا پیسہ لگانے تو تیار نہیں ہو تا۔ہمیں اس حوالے سے دبئی اور اس کی حکومت سے سیکھنے کی ضرورت ہے دبئی میں سرمایہ کاروں اور ان کے پیسے کو ہر ممکن تحفظ فراہم کیا جاتا ہے تمام حکومتی ادارے ایک ساتھ کام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہو تے ہیں اور سرمایہ کاروں کو بہترین ما حول فراہم کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ نہ صرف دبئی بلکہ،سنگا پور،ملا ئیشیا اور ترکی بلکہ بھارت جیسے ملک بھی کثیر بیرونی سرمایہ کاری لانے میں کامیاب رہے ہیں اور جس کے نتیجے میں ان ممالک میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران تیز رفتار ترقی دیکھنے کو ملی ہے۔میں اس حوالے سے یہاں پر ایک بات کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں ایک اوور سیز پاکستانی نے پاکستان واپس آکر کثیر سرمایہ کاری کی ایک بڑا شاپنگ مال تعمیر کیا ہزاروں افراد کو روزگار مہیا کیا گیا ہے اسلام آباد کے لوگوں اور خصوصاً فیملیز کو اچھے اور پر سکون اور پر تحفظ ماحول میں تفریح اور خریداری کا موقع فراہم کیالیکن اب ان صاحب کی اربوں روپے کی سرمایہ کاری سی ڈی اے حکام کی کرپشن،بد انتظامی اور نا اہلی کے باعث خطرے میں پڑ چکی ہے اور اس کے سرمائے کے ڈوبنے کا خدشہ ہے۔سی ڈی اے حکام نے خود ہی اس عمار ت کی زمین آکشن کی خود ہی عمارت کی تعمیر کی اجازت دی گئی اور اب شاپنگ مال کو سیل کرنے کے درپے ہیں جب تک ہمارے اداروں اور حکومتی افسران اس قسم کے رویوں سے باز نہیں آئیں گے ملک میں بیرونی تو کیا اندرونی سرمایہ کاری بھی نہیں آئے گی اور اس کا نقصان عوام ہی پہنچے گا۔پاکستان میں سرمایہ کاری لانے کے لیے ون ونڈو آپریشن اور تمام اداروں کے درمیان مربوط تعاون کی بہت ضروری ہیں بلکہ اگر سی پیک منصوبوں کی تکمیل کے لیے بنائی گئی سی پیک اتھارٹی کی طرز پر ایک سینٹرل اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جائے جو کہ سرمایہ کار کو ابتدائی سرمایہ کاری سے لے کر کاروبار شروع ہونے تک ہر مرحلے پر حکومتی اداروں کے ساتھ معاملات کرنے میں مدد کرے تو پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھ سکتی ہے۔ہمیں اپنے ملک کو آگے لے جانے کی ضرورت ہے پیسہ ملک میں لانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم دفاعی سمیت دیگر چیلنجز کا موثر انداز میں سامنا کر سکیں،اس حوالے سے حکومت کو ہنگامی طور پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے یہ ملک کے مستقبل کا سوال ہے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭